افغانستان کا استحکام، امریکی افواج کے انخلا سے مشروط ہے!

“There is no way for the US to stabilise the country, except to withdraw from Afghanistan,” says Mullah Zaeef, “to take out their troops and leave.”

کیرن جیز نے طالبان کے بانی رکن اور پاکستان میں سفیر کی حیثیت سے خدمات انجام دینے والے مُلّا عبدالسلام ضعیف سے ہونے والی اس گفتگو کے ذریعے طالبان کے بارے میں پائے جانے والے بہت سے بے بنیاد تصورات کی بیخ کُنی کی ہے۔ ملا عبدالسلام ضعیف کا کہنا ہے کہ خود کش حملے خفیہ ایجنسیوں کے ایجنٹوں کا کام ہے، طالبان اِس قبیح فعل میں کبھی ملوث نہیں ہوسکتے۔ اس خیال کا اظہار انہوں نے حال ہی میں جنوبی افریقا میں ’’کیج افریقا‘‘ کی لانچنگ کے موقع پر کیا۔ اُن کی باتوں سے طالبان کے بارے میں پایا جانے والا اچھا خاصا اشکال دور ہوا ہے۔

ملا ضعیف کہتے ہیں، ’’اس وقت افغانستان میں ۵۰ سے زائد ممالک کے خفیہ اداروں کے لوگ سرگرم ہیں۔ یہ لوگ دھماکے کر رہے ہیں، خود کش حملے کروا رہے ہیں اور الزام دوسروں پر دھر دیا جاتا ہے۔ افغانستان کی نیشنل انٹیلی جنس ایجنسی کے سربراہ سے میری بات ہوئی ہے۔ انہوں نے بتایا ہے کہ کئی ممالک کے خفیہ ایجنٹس ملک میں نہ صرف موجود ہیں بلکہ انتہائی فعال بھی ہیں۔ یہ لوگ طرح طرح کی سازشوں میں ملوث ہیں۔‘‘

امریکا کی طرف سے افغانستان میں استحکام کے دعوے کے جواب میں ملا ضعیف کہتے ہیں، ’’یہ مضحکہ خیز بات ہے۔ امریکیوں نے افغانستان میں زور زبردستی سے کام لیا ہے۔ انہوں نے شب خون مار کر افغانستان کے معاملات اپنے ہاتھ میں لیے ہیں۔ اب وہ دعوٰی کر رہے ہیں کہ وہ افغان سرزمین پر امن اور استحکام چاہتے ہیں تو کون یقین کرے گا؟ اگر امریکی افغانستان میں واقعی امن اور استحکام چاہتے ہیں تو اُنہیں سمجھنا ہوگا کہ یہ کوئی موزوں طریقہ نہیں۔ اُنہوں نے افغانستان میں ۱۳ سال کے دوران محض سَفّاکی کا مظاہرہ کیا ہے اور معاملات کو بگاڑا ہے۔ امریکا چاہتا ہے کہ افغانستان کے تمام قدرتی وسائل پر اس کا کنٹرول ہو۔ اس کے لیے وہ حالات کو زیادہ سے زیادہ خراب رکھنا چاہتا ہے کہ سیاسی قوتیں اُس کی رہین منت رہیں اور وہ ان کے ذریعے افغان سرزمین پر اپنی مرضی کے مطابق کام کرتا رہے۔‘‘

’’طالبان نے امریکیوں کو منہ توڑ جواب دینے کے لیے خودکش حملوں کی پالیسی اپنائی۔ ایسا کرنا ناگزیر تھا۔ امریکیوں اور ان کے اتحادیوں کے پاس جدید ترین ٹیکنالوجی تھی۔ ان سے ٹیکنالوجی اور ہتھیاروں کی سطح پر تو مقابلہ کیا ہی نہیں جاسکتا تھا۔ ایسے میں طالبان نے وہی کیا جو اُنہیں کرنا چاہیے تھا۔ انہوں نے خودکش حملے شہری علاقوں میں نہیں کیے۔ طالبان اور امریکیوں کے درمیان ٹیکنالوجی کے حوالے سے زمین آسمان کا فرق ہے۔ طالبان کے پاس دشمن کو نیچا دکھانے کا ایک ہی راستہ تھا، یہ کہ خودکش حملوں کے ذریعے اپنے بھرپور جوش و جذبے اور قوت کا مظاہرہ کیا جائے اور یہی اُنہوں نے کیا۔‘‘

ملا ضعیف مزید کہتے ہیں، ’’مغربی میڈیا نے طالبان کو امریکا اور یورپ کے جانی دشمن کے روپ میں پیش کیا ہے۔ طالبان سے مراد ہے طلبا۔ یعنی اسلامی تعلیم حاصل کرنے والے نوجوان۔ جو نوجوان اللہ کی خوشنودی کی خاطر دین کی تعلیم حاصل کر رہے ہیں، وہ بھلا کیوں قتل و غارت میں ملوث ہوں گے اور کسی کو بلا جواز کیوں قتل کریں گے؟ ہوسکتا ہے کہ کوئی نادانستگی میں ایسا کر رہا ہو مگر یہ بات میں پورے یقین سے کہتا ہوں کہ دینی تعلیم حاصل کرنے والا کوئی بھی افغان جان بوجھ کر کسی کو بلا جواز نقصان نہیں پہنچائے گا۔‘‘

’’حقیقت یہ ہے کہ دنیا بھر کی خفیہ ایجنسیوں نے افغانستان کی سرزمین پر اپنی مذموم سرگرمیوں کا جال بچھا رکھا ہے۔ طالبان کی صفوں میں اُنہوں نے اپنے ایجنٹس داخل کیے ہیں۔ ان کی بھرپور کوشش ہے کہ طالبان کے نام پر انتہائی گھناؤنے جرائم کیے جائیں اور پھر سارا الزام یا ملبہ طالبان پر ڈال دیا جائے۔ یہ حکمت عملی خاصی کارگر رہی ہے اور دنیا بھر میں طالبان کو ایک ایسی قوت کے طور پر پیش کیا گیا ہے جو کسی بھی اصول اور تہذیبی قدر کو نہیں مانتی اور صرف خون بہانے پر یقین رکھتی ہے۔ بہت کچھ الٹا سیدھا کیا جارہا ہے اور سب طالبان کے کھاتے میں ڈالا جارہا ہے۔ اس معاملے میں میڈیا کو بہت عمدگی سے بھرپور قوت کے ساتھ استعمال کیا گیا ہے۔ ہم لاکھ بتائیں کہ ہم ایسے نہیں ہیں مگر کوئی ہماری بات سننے کو تیار نہیں۔ افغانستان میں میڈیا غیر جانبدار نہیں کیونکہ امریکا کی طرف سے غیر معمولی فنڈنگ کی گئی ہے۔‘‘

الفاظ کی جنگ

۲۰۰۱ء میں افغانستان پر امریکا اور اس کے اتحادیوں کی یلغار کے بعد سے وہاں میڈیا کا بازار خوب گرم رہا ہے۔ امریکی فنڈنگ سے بہت سے ٹی وی چینلز قائم کیے گئے ہیں جن کے ذریعے افغان رائے عامہ پر پوری شدت سے اثرانداز ہونے کی کوشش کی جاتی ہے۔ امریکا اور اس کے اتحادیوں نے افغانستان میں نیو لبرل ایجنڈے کا ڈھول بہت پیٹا ہے۔

افغانستان میں موبی گروپ کئی چینلز کا مالک ہے۔ مرکزی ٹی وی تولو چینل بھی اسی گروپ کا ہے۔ یہ گروپ افغان نژاد آسٹریلوی محسن برادرز کا ہے۔ ہیڈ کوارٹرز دبئی میں ہے اور امریکا نے بھی اِس میں فنڈنگ کی ہے۔ یہ گروپ ٹوئنٹی فرسٹ سینچری فاکس کو بھی بڑے فخر سے اپنا چھوٹا اسٹریٹجک پارٹنر بتاتا ہے۔

امریکی اثرات کے تحت افغان چینلز اب تک امریکی میڈیا ہی کی نقالی اور جگالی کرتے آئے ہیں۔ امریکا میں صدارتی انتخاب سے قبل امیدواروں کے درمیان مباحثے کی روایت ہے جو براہ راست نشر کیا جاتا ہے۔ افغانستان میں بھی ایسا ہی کیا جاتا رہا ہے۔ امریکن آئڈل کی طرز کے پروگرام بھی افغانستان میں بہت پیش کیے جاتے رہے ہیں۔

طالبان کی قائم کردہ ’’امارتِ اسلامی‘‘ (اسلامی حکومت) نے میڈیا میں امریکا کی نقالی کی شدید مذمت کی ہے اور بے ہودگی کو بھرپور تنقید کا نشانہ بنایا ہے۔ ٹی وی پر ناچ گانے کے مقابلوں کو طالبان نے خاص طور پر لتاڑا ہے۔

ملا ضعیف کہتے ہیں کہ طالبان کے بارے میں بہت سی بے بنیاد باتیں پھیلائی گئی ہیں۔ پوری کوشش کی گئی ہے کہ ان کے نظریات کے گرد بدگمانیوں کا ہالا سا تان دیا جائے تاکہ کوئی بھی طالبان کے ذہن میں جھانکنے کے قابل نہ ہوسکے۔ مگر طالبان نے بھی اپنی بات بیان کرنا جاری رکھا ہے۔ انہیں اندازہ ہے کہ اگر وہ اپنا موقف پیش کرتے رہیں گے تو ایک نہ ایک دن ان کی بات سُنی ہی نہیں، سمجھی بھی جائے گی۔ جولائی میں جب کابل میں کار بم دھماکے میں ۸۹؍افراد جان بحق ہوئے تو کینیڈا کے اخبار ’’دی نیشنل پوسٹ‘‘ نے ’’ایسوسی ایٹیڈ پریس‘‘ کے نمائندے رحیم فیض کے حوالے سے خبر شائع کی، جس کی سُرخی ہی میں طالبان کی طرف سے کی جانے والی بروقت مذمت بھی شامل تھی۔ طالبان نے کہا کہ یہ ان کا کام نہیں کیونکہ وہ شہریوں کو بلاجواز قتل کرنے پر یقین نہیں رکھتے۔ انہوں نے اِسے افغان سرزمین پر سرگرم بیرونی خفیہ ایجنسیوں کے ایجنٹس کی کارستانی قرار دیا۔

جنوری میں ایک خبر یہ اُڑائی گئی کہ طالبان نے ایک دس سالہ لڑکی کے جسم سے بم باندھا ہے۔ طالبان نے اس کی بروقت تردید کی اور واضح کیا کہ طالبان کسی بھی معاملے میں لڑکیوں کو ملوث کرنے کے سخت خلاف ہیں۔ گزشتہ برس جولائی میں طالبان کے ایک اہم لیڈر عدنان رشید نے ملالہ یوسف زئی کو چار صفحات کا ایک خط لکھا جس میں کہا کہ اُن پر (ملالہ یوسف زئی پر) فائرنگ انتہائی افسوسناک ہے مگر ساتھ ہی یہ بھی واضح کیا کہ طالبان کسی بھی مرد، عورت یا لڑکی کی تعلیم کے ہرگز خلاف نہیں۔

ملالہ یوسف زئی کو اب نوبل انعام مل چکا ہے۔ مگر اُن کے گرد شکوک کا ہالا برقرار ہے۔ ان کے والد ضیاء الدین یوسف زئی اور اینڈلمین پی آر فرم نے ملالہ کو ساری دنیا میں شہرت سے ہمکنار کرنے میں مرکزی کردار ادا کیا ہے۔ مغرب میں بھی بہت سے لوگ اب یہ سوال اٹھا رہے ہیں کہ ملالہ یوسف زئی کسی بہت بڑی بساط پر محض پیادے کی حیثیت سے موجود ہے۔ برطانوی اخبار ’’انڈیپینڈنٹ‘‘ میں معروف مصور جوناتھن یؤ نے اس خیال کا اظہار کیا کہ ملالہ کو استعمال کیا جارہا ہے اور یہ واضح نہیں کہ ایجنڈا کیا ہے۔ جوناتھن یؤ نے ملالہ کا پورٹریٹ تیار کیا ہے جو برطانوی نیشنل آرٹ گیلری میں آویزاں ہے۔

اینڈلمین پی آر دنیا بھر میں تعلقات عامہ کی سب سے بڑی فرم ہے۔ یہ اپنے اسپانسرز کو خفیہ رکھنے کی ماہر ہے اور کبھی کبھی کسی معاملے کو اس طرح اٹھاتی ہے جیسے وہ خود بخود اٹھا ہو۔ یہ ایک اعتبار سے دھوکا دہی ہے۔

ملا ضعیف اِس وقت تعلیم پر متوجہ ہیں۔ وہ حکومت کے ساتھ ہیں نہ طالبان کے ساتھ۔ اُن کا ارادہ ایک جامعہ قائم کرنے کا ہے۔ اُن کا کہنا ہے کہ اِس وقت ان کے پاس تین ہزار طلبا ہیں اور وہ ان پر بھرپور توجہ دے رہے ہیں۔ ملا ضعیف اب تعلیم کے شعبے سے وابستہ رہنا چاہتے ہیں۔

ملا ضعیف کو ۲۰۰۱ء میں طالبان حکومت کے خاتمے کے بعد پاکستان میں حراست میں لیا گیا۔ وہ چار سال تک قید میں رہے۔ اس دوران انہیں گوانتا نامو بے جیل میں بھی رکھا گیا اور کئی بار تشدد کا نشانہ بنایا گیا۔ ۲۰۰۵ء میں اُنہیں اِس شرط پر رہائی ملی کہ طالبان کے ساتھ کام کریں گے نہ افغانستان میں امریکی مفادات کے خلاف۔ اُنہیں نظر بند رکھا گیا۔ دس سال بعد اُن کا نام امریکا نے انتہائی مطلوب افراد کی فہرست سے نکال دیا۔ ملا ضعیف نے دو کتابیں لکھی ہیں۔ ۲۰۱۰ء میں ’’مائی لائف وِد طالبان‘‘ شائع ہوئی۔ ’’اے پکچر آف گوانتا نامو‘‘ رواں سال شائع ہوگی۔

طالبان نے ثابت کیا ہے کہ اُن کے اُصول خالص اسلامی ہیں اور وہ انسانیت کی تمام اعلیٰ اقدار پر بھرپور یقین رکھتے ہیں۔ ۲۰۰۱ء میں برطانوی صحافی یوان رڈلے کو طالبان نے حراست میں لیا اور پھر اُن سے جس قدر احترام سے پیش آئے اور جس طور اُنہیں رکھا، وہ اُن کے دل پر اثر کرگیا۔ اُنہوں نے طالبان کے بارے میں پھیلائی جانے والی بے بنیاد باتوں کے بارے میں تحقیق کی تو معلوم ہوا کہ سبھی کچھ پروپیگنڈا ہے۔ تین سال بعد رڈلے نے اسلام قبول کرلیا۔

جنیوا کنونشن سے بہت پہلے جنگ اور جنگی قیدیوں کے بارے میں جو اصول قرآن میں دیے گئے تھے، وہ آج بھی مثالی حیثیت رکھتے ہیں۔ اُن میں دشمن سے حسن سلوک کی تعلیم دی گئی ہے۔ جنگ کے دوران معمر افراد، عورتوں اور بچوں سے بہتر سلوک پر زور دیا گیا ہے۔ لڑائی میں شریک نہ ہونے والوں کے خلاف کسی بھی اقدام سے گریز کی واضح ہدایت موجود ہے۔ ایک بار یہودی قبیلے بنو قریظہ کے لوگ گرفتار کیے گئے تو محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے حکم دیا کہ اُنہیں باقاعدگی سے کھجوریں اور پانی دیا جائے اور اُنہیں ہر حال میں دھوپ سے بچانے کا اہتمام کیا جائے۔ اِس حسن سلوک سے بنو قریظہ سے تعلق رکھنے والے کئی افراد حلقہ بگوش اسلام ہوگئے۔

امریکا نے افغانستان، عراق اور گوانتا نامو میں قیدیوں کو رکھنے کے جو مراکز قائم کیے ہیں، ان میں ایذا رسانی کا کوئی موقع ضائع نہیں کیا جاتا۔ یہ سب کچھ اب دستاویزی طور پر بھی ثابت ہوچکا ہے۔ قرآن میں واضح کر دیا گیا ہے کہ اسلام کے نفاذ کے لیے جنگ مسلط کرنا کسی بھی طور جائز نہیں۔ جنگ صرف دفاع کے لیے ہونی چاہیے۔

اس سال عیدالفطر کے موقع پر طالبان کے امیر ملا عمر نے جو پیغام جاری کیا، اُس کا اقتباس اس قابل ہے کہ یہاں پیش کیا جائے۔ ’’ہم واضح کر دینا چاہتے ہیں کہ ہماری ساری جدوجہد محض اس لیے ہے کہ ملک کو بیرونی تسلط سے آزاد کرائیں اور ملک میں اسلام نافذ کریں یعنی ایک خالص اسلامی ریاست کا قیام عمل میں لایا جائے۔ ہم کسی بھی ملک کے اندرونی معاملات میں مداخلت کرنے کی خواہش رکھتے ہیں نہ عزم۔ ہم جارحیت پر یقین رکھتے ہیں نہ جارحیت کو برداشت کرتے ہیں۔ سرحدی علاقوں میں سرگرم تمام مجاہدین کو ہدایت ہے کہ ملک کی سرحدوں کی ہر حال میں حفاظت کریں اور یہ کہ پڑوسی ممالک سے بہتر اور احترام پر مبنی روابط استوار رکھے جائیں‘‘۔

ملا ضعیف کہتے ہیں: ’’اگر امریکا چاہتا ہے کہ افغانستان مستحکم ہو تو اِس کی ایک ہی صورت ہے اور وہ یہ کہ امریکی افواج افغانستان سے نکل جائیں اور افغانستان کے معاملات یہاں کے لوگوں کے ہاتھوں میں دے دیے جائیں‘‘۔

“Founding member of Taliban lifts the lid on the real Afghanistan”. (“cageuk.org”. Sep. 22, 2014)

Be the first to comment

Leave a Reply

Your email address will not be published.


*