آزادی اور محتاجی

انسانی زندگی جدوجہد، محنت اور عزمِ مسلسل سے عبارت ہے۔ پیدائش کے بعد پہلی سانس سے آخری سانس تک کوئی ایک لمحہ انسانی زندگی میں ایسا نہیں آتا جب وہ کسی کوشش کے بغیر اپنا وجود برقرار رکھ سکا ہو۔ ہاتھ پائوں کی حرکت تو معلومہ حرکت ہے لیکن جس سانس سے زندگی کی ڈور بندھی ہوتی ہے وہ سانس بھی خود آتا نہیں بلکہ لایا جاتا ہے۔ یہ اور بات ہے کہ دیگر معمولات کی طرح سانس کی آمدورفت بھی ایک معمول ہونے کے باعث روزمرہ کی جدوجہد و کوشش میں شمار نہیں ہوتی۔ سانس کی طرح ہی انسان کا چلنا پھرنا اور اٹھنا بیٹھنا بھی خودکار مشینی حرکت کی بجائے ارادے اور عمل کا ہی مرہونِ منت ہوتا ہے۔ لیکن یہاں بھی یہ عام سی حرکتیں ایک معمول بننے کے باعث عزم و ہمت اور جہدِ مسلسل کی بجائے خودکار مشین کی حرکت سمجھ کر نظرانداز کر دی جاتی ہیں۔ جبکہ معمول یا روزمرہ کی مسلسل جدوجہد کی بجائے محنت اور عزمِ مسلسل صرف اسی کام کو سمجھا جاتا ہے جو زندگی کا سلسلہ برقرار رکھنے کی بجائے زندگی کی آسائشوں اور راحتوں کے لیے انجام دیا جاتا ہے۔ یہ کام فیکٹری کی محنت ہو یا تعمیراتی مشقت، سڑک کی بجری کوٹنا ہو یا زمین کا سینہ چیر کر معدنیات نکالنا، فائلوں میں سر کھپانا ہو یا کمپیوٹر کی اسکرین پر گھنٹوں نظریں جمانا۔ بظاہر یہ سب زندگی کے نام پر کیا جاتا ہے۔ لیکن اس تمام محنت و مشقت اور جدوجہد کا تعلق انسانی سانس کی بحالی یا زندگی سے نہیں۔ یہ محنت و مشقت بذاتِ خود زندگی کی بجائے زندگی سے وابستہ راحتوں اور آسائشوں کے لیے کی جاتی ہے۔ وہ راحتیں اور آسائشیں جن کا تعلق اصل زندگی کی بجائے اس ماحول کا عمومی حصہ ہوتی ہیں جس ماحول میں انسان زندگی بسر کر رہا ہوتا ہے۔ لیکن سانس کی آمدورفت اور اٹھنے بیٹھنے کا معمولی عمل ہو یا زمین کا سینہ چیر کر معدنیات نکالنے جیسا غیر معمولی عمل، ان سب کا تعلق زندہ رہنے اور اسے بہتر سے بہتر بنانے کی جدوجہد سے ہے۔ بظاہر یہ عمل کیسا ہی غیر معمولی یا معمولی کیوں نہ ہو، اپنی نہاد میں اس کا تعلق زندگی کی بقا سے ہے۔ بقا کی جدوجہد وہ بنیادی عنصر ہے جس نے اس کائنات میں حیات کو وجود برقرار رکھا ہوا ہے۔

یہ جدوجہد بظاہر انفرادی اور ذاتی ہونے کے باوجود نہ کہیں منفرد ہے اور نہ ذاتی۔ کائنات کا ایک ایک ذرّہ اپنے وجود کے لیے دوسرے ذرّے کا محتاج بھی ہے اور دوسروں کو محتاج بناتا بھی چلا جاتا ہے۔ دوسروں سے زندگی اکتساب کرتا بھی ہے اور زندگی دیتا بھی ہے۔ یہی زندگی کی حقیقت ہے اور یہی اس کی بقا کا راز۔ یہ بنیاد ہی وہ اجتماعیت ہے جو کائنات کی دیگر حقیقتوں کی طرح انسانی زندگی میں بھی کارفرما ہے۔ نہ کوئی انسان اپنے طور پر تخلیق ہوا ہے اور نہ تنہا اپنی جدوجہد کی بدولت زندہ رہ سکتا ہے۔ جس طرح مادرِ شکم سے دنیا میں آنے کے بعد وہ اپنی پہلی سانس کے لیے دایہ کے جھٹکے کا محتاج ہوتا ہے اسی طرح خوراک، کپڑے، گھر، گلیاں، سڑکیں، غرضیکہ انسانی ضرورت کی ایک ایک شے انسانوں کی اجتماعی کوششوں سے وجود میں آتی ہے۔ انسانی ضروریات کی محتاجی ہی نے انسانوں کو ایک دوسرے کے دامن سے باندھا ہوا ہے۔ گھر کی چار دیواری میں سمٹی ہوئی اکائی ہو یا کرۂ ارض کی وسعتوں میں پھیلی ہوئی بزم آرائی، اپنی اصل میں انسان اجتماعی طور پر ایک اکائی کی ہی حیثیت رکھتا ہے۔ تمام تر فطری، روایتی اور عملی اختلافات کے باوجود جس طرح باہمی مفاد اور ہزارہا پہلو کا اتحاد ایک گھرانے کے وجود کا ضامن ہوتا ہے اسی طرح انسانی نسل بھی اپنی بقا کے لیے اختلاف کی بجائے اتحاد کی ہی محتاج ہے۔ اس کی تاریخ کتنی ہی قتل و غارت گری سے داغ دار کیوں نہ ہو، انسانی ہوس و خون آشامی بالآخر تھک ہار کر تحفظ و سلامتی کو راہِ دینے پر مجبور ہوجاتی ہے۔

گویا انسان دوسرے انسانوں سے کس طور بے نیاز نہیں ہوسکتا، نہ ذاتی سطح پر اور نہ اجتماعی سطح پر۔ انسان نے ذاتی طور پر جو حاصل کیا ہے، وہ جہاں دوسروں کے تعاون، دوسروں کی محنت و مشقت اور دوسروں کے غور و فکر کا حاصل ہے وہاں اس حاصل کرنے والے فردِ واحد نے اپنے طور پر بھی دوسرے انسانوں کو چاہے ان کی تعداد دو چار میں ہو یا سو ہزار میں، بہت کچھ دیا ہوا ہے۔ یہی حالت اجتماعی زندگی کی بھی ہے۔ گھر، گلی، محلہ، بستی، تحصیل، ضلع، صوبہ، ملک، براعظم اور پھر تمام تر کرۂ ارض، یہ سب مختلف احتیاجوں کی درجہ بدرجہ تقسیم تو ہیں لیکن اپنے طور پر مکمل آزاد مختار نہیں۔ جو آزادی و اختیار نظر آتا بھی ہے وہ بے اختیار یوں اور محکومیوں کا ایسا سلسلہ ہے جسے انسان نے اپنی سہولت کی خاطر، اپنے تسکینِ قلب کی خاطر آزادی و اختیار کا نام دیا ہوا ہے۔ ورنہ زندگی کا کوئی لمحہ ایسا نہیں جب انسان دوسرے انسانوں کے بالواسطہ یا بلاواسطہ اثرات سے آزاد ہو۔

لیکن ایسا بھی نہیں کہ انسان کو کوئی آزادی یا کوئی اختیار میسر ہی نہیں۔ انسان آزاد پیدا کیا گیا ہے اور آزادی ہی کی نعمت نے اسے اب تک زندہ رکھا ہوا ہے۔ انسان کا وجود بذاتِ خود اس کی آزادی کی دلیل ہے۔ لیکن یہ آزادی وہ آزادی نہیں جس کے نعرے مغربی فکر نے ایجاد کیے ہوئے ہیں۔ یہ آزادی وہ آزادی بھی نہیں جس کو دنیا بھر کا میڈیا اپنا پیدائشی حق قرار دیتا ہے۔ یہ آزادی وہ آزادی بھی نہیں جو ایک مرد کو مرد سے اور ایک عورت کو عورت سے شادی کا لائسنس جاری کر دیتا ہے۔ یہ آزادی وہ آزادی بھی نہیں جو ایک طاقتور کو کمزور کا گھر غارت کرنے کا اختیار دیتی ہے۔ یہ آزادی وہ آزادی بھی نہیں جو بھارت اور اسرائیل جیسی مصنوعی ریاستوں کو اپنی بقا کے لیے کشمیریوں اور فلسطینیوں کے قتلِ عام، محاصروں اور غارت گری کا اختیار دیتی ہے۔

انسان کو انفرادی اور اجتماعی دونوں حوالوں سے کوئی آزادی میسر ہے تو وہ صرف اور صرف خواہش، ارادے اور نیت کی آزادی ہے۔ انسان آزاد ہے کہ وہ ستاروں کو توڑ لانے کی خواہش کرے۔ انسان آزاد ہے کہ وہ ہمالیہ کو تسخیر کرنے کا ارادہ کرلے۔ انسان آزاد ہے کہ وہ سمندروں کو پایاب کرتے ہوئے دوسرے براعظموں تک پہنچنے کی نیت کرلے۔ لیکن یہ آزادی صرف اور صرف انسان کی خواہش، نیت اور ارادے تک ہی محدود ہے۔ ان خواہشات، ارادوں اور نیتوں پر عمل کے لیے انسان نہ مجرد آزاد ہے اور مجرد خودمختار۔ اگر وہ ہمالیہ کو تسخیر اور سمندروں کو پایاب کرنے کی نیت کر بھی لے تو اس کے لیے درکار وسائل اس کی ذاتی قوت و اختیار سے ماوراء ہیں۔ اس نے اگر ہمالیہ کو تسخیر اور سمندروں کو پایاب کیا بھی ہے تو یہ ایک انسان کی خواہش، ارادے اور نیت کی بجائے سینکڑوں، ہزاروں اور لاکھوں انسانوں کی سینکڑوں ہزاروں سالوں پر محیط اجتماعی کوششوں کا نتیجہ ہے۔ ورنہ انسان کے ذاتی یا انفرادی حصول کی انتہا تو یہ ہے کہ جس خریدے گئے مکان کی ملکیت کا زعم اسے عرش مکاں بنائے ہوتا ہے اس مکان کی ایک اینٹ تک اس نے اپنی انفرادی جدوجہد سے نہیں بنائی ہوتی۔ جس جدید ماڈل کی کار کی خریداری اسے ہوائوں میں اڑائے پھرتی ہے اس کا رکا ایک معمولی سا پیچ اس کی اپنی محنت و ذہانت کا حاصل نہیں ہوتا۔ اگر کار کی خریداری کے لیے ادا کی گئی رقم کو وہ اپنی محنت و ذہانت کا حاصل قرار دے بھی لے تو جس سڑک پر وہ کار فراٹے بھر رہی ہے، اس سڑک کے بغیر یہ کار ایسے ہی بیکار ہے جیسے ریل کی پٹڑی کے بغیر ریل گاڑی۔

گویا ہر وہ عمل اور فعل جس کو انسان اپنی آزادی اور اختیار کا نام دے رہا ہے وہ نہ مجرد آزادی ہے اور نہ ہی مجرد اختیار۔ ہر آزادی اور اختیار مختلف پابندیوں میں جکڑا ہوا ہے۔ فرق ہے تو صرف اتنا کہ یہ پابندیاں روزمرہ کا معمول ہونے کے باعث عادات بن جاتی ہیں۔ ایسی عادات جنہیں انسان اختیاری سمجھتا ہے۔ یہی آزادی اور اختیار کی حقیقت ہے کہ روزمرہ کا معمول عادت میں ڈھل کر انسان کو آزادی و خودمختاری کے دھوکے میں گرفتار رکھتا ہے۔ یہی دھوکا اسے انفرادی اور اجتماعی طور پر زندگی کے ہر معاملے میں ایسے فیصلوں کی ترغیب دیتا ہے جن کے نتائج نہ صرف اس کی ذات بلکہ اس سے دور و نزدیک، ہر انسان پر اثرانداز ہوتے ہیں۔ اگر انسان صرف اسی ایک حقیقت کو جان لے کہ اس کی آزادی و خودمختاری صرف خواہش، ارادے اور نیت تک ہی محدود ہے۔ اس خواہش، ارادے اور نیت پر عمل یا حصول کے لیے وہ دوسرے انسانوں کا محتاج ہے تو اسی حقیقت سے دوسرے انسانوں کی عزت و تکریم کا احساس جنم لیتا ہے۔ دوسرے انسانوں کی عزت و تکریم ہی اس دنیا کو اپنی وسعتوں اور بوقلمونیوں کے باوجود جنت نما گھر بنا سکتی ہے۔

(بشکریہ: ماہنامہ ’’ضیائے آفاق‘‘ لاہور۔ جنوری ۲۰۱۱ء)

Be the first to comment

Leave a Reply

Your email address will not be published.


*