آنگ سانگ سوچی کا اصل چہرہ
Posted on September 16, 2012 by Syed Zahar in شمارہ 16 ستمبر 2012 // 0 Comments

برما (میانمار) میں فوجی حکومت کے تسلسل کے خلاف جدوجہد پر آنگ سانگ سوچی کو دنیا بھر میں احترام کی نظر سے دیکھا جاتا ہے۔ انہیں امن کا نوبل انعام بھی دیا گیا جو انہوں نے حال ہی میں وصول کیا ہے۔ عالمی برادری میں جو لوگ برما کی فوجی حکومت کے خلاف آنگ سانگ سوچی کی غیر معمولی جدوجہد کو سراہتے نہیںتھکتے تھے وہ اب ان کی منافقت کو شدید تنقید کا نشانہ بنا رہے ہیں۔ برما میں چند ماہ قبل شروع ہونے والی مسلم مخالف لہر اور سیکڑوں مسلمانوں کے قتل پر آنگ سانگ سوچی نے مجرمانہ خاموشی اختیار کی۔
عالمی برادری میں انسانی حقوق کی پاسداری کے لیے آواز اٹھانے والوں نے آنگ سانگ سوچی کو ہمیشہ قدر کی نگاہ سے دیکھا ہے۔ فوجی حکومت کے خلاف سوچی نے طویل جدوجہد کے کئی مراحل گزارے ہیں۔ مگر اب وہ برما کے روہنگیا مسلمانوں کے خلاف مظالم کی مذمت سے گریز کر رہی ہیں۔ اراکان صوبے کے روہنگیا مسلمانوں کے خلاف نسل پرستی اور تعصب پر مبنی رویے اور انہیں شہریت نہ دیے جانے پر سوچی نے میڈیا کے سوالوں کے گول مول جواب دینے پر اکتفا کیا ہے۔ ڈبلن میں راک بینڈ کے سنگر بونو کے ساتھ میڈیا سے گفتگو میں آنگ سانگ سوچی نے روہنگیا مسلمانوں کے بارے میں پوچھے جانے پر کہا کہ یہ معاملہ برما میں قانون کی بالا دستی سے متعلق ہے۔ جب ان سے پوچھا گیا کہ کیا روہنگیا مسلمانوں کو شہریت دی جانی چاہیے تو انہوں نے کہا کہ وہ اِس معاملے میں کچھ نہیں کہہ سکتیں۔ برطانوی اخبار ’’انڈی پینڈنٹ‘‘ نے اس سوال پر سوچی کے جواب کو مبہم اور رٹا رٹایا بھی قرار دیا۔
جس عورت نے برما میں فوجی حکومت کے ہاتھوں مظالم کا سامنا کرنے والے انسانوں کے لیے کئی عشروں تک آواز بلند کی اور ان کے لیے میدان میں نکلتی رہی وہ مسلمانوں کے بارے میں ایسا رویہ رکھے گی، اِس کی کسی کو توقع نہ تھی۔ یہ سب کچھ ووٹ بینک کا معاملہ ہے۔ آنگ سانگ سوچی مسلمانوں کے حق میں کچھ بول کر بدھسٹوں کو ناراض کرنے کے موڈ میں نہیں۔ روہنگیا مسلمانوں کا معاملہ ریکھن نسل کے بدھسٹوں کے مظالم سے تعلق رکھتا ہے۔ اگر سوچی نے کچھ کہنے کی کوشش کی تو ان کی پارٹی کا ووٹ بینک کمزور پڑ جائے گا۔
آنگ سانگ سوچی نے آکسفرڈ میں تعلیم پائی ہے۔ انہیں سیاست کے میدان میں قدم رکھے ہوئے ۲۱ سال ہوئے ہیں جن میں ۱۵ سال انہوں نے نظربندی کی حالت میں گزارے ہیں۔ اب وہ سیاسی فائدے کے لیے اپنی ساکھ داؤ پر لگانے کے لیے بھی تیار ہیں۔ برما میں سوچی کی پارٹی جس سیاسی اتحاد کا حصہ ہے اس کے بیشتر ارکان روہنگیا مسلمانوں کے معاملے میں بدھسٹوں کی حمایت پر تُلے ہوئے ہیں۔ اُن سب کو اندازہ ہے کہ مسلمانوں کے حق میں بولنے کی صورت میں وہ بدھسٹ ووٹروں سے ہاتھ دھو بیٹھیں گے۔ برما سے متعلق امور کے ماہر اور لندن اسکول آف اکنامکس کے فیلو موانگ زرنی (Maung Zarni) کہتے ہیں ’’آنگ سانگ سوچی اب سیاسی منحرف نہیں۔ وہ سیاست دان ہیں اور انتخابی سیاست میں بھرپور کامیابی یعنی اقتدار میں آنے کے لیے کوئی بھی خطرہ مول لینے کو تیار نہیں۔ وہ اپنے ہی اُصولوں سے رُو گردانی کر رہی ہیں‘‘۔
جون میں برما کے صوبے اراکان میں ریکھن نسل کے بدھسٹوں اور روہنگیا مسلمانوں کے درمیان لڑائی شروع ہوئی۔ سرکاری اعداد و شمار کے مطابق اب تک فسادات میں ۸۷؍افراد مارے جاچکے ہیں۔ فریقین نے ایک دوسرے کو مالی نقصان بھی پہنچایا ہے۔ کئی دیہات میں تمام مکانات جلادیے گئے ہیں۔ مجموعی طور پر مسلمانوں کو زیادہ جانی و مالی نقصان کا سامنا کرنا پڑا ہے۔
روہنگیا مسلمان ’’دنیا بھر میں سب سے کم مطلوب افراد ہیں‘‘ یعنی ان کی اپنی حکومت انہیں تسلیم کرنے کے لیے تیار نہیں۔ وہ دنیا بھر میں سب سے زیادہ اذیت پانے والی اقلیت ہیں۔ ۱۹۸۲ء کے ایک قانون کے تحت برمی حکومت نے انہیں شہریت کے حق سے محروم کردیا ہے۔ وہ حکومت کی اجازت کے بغیر بیرون ملک نہیں جاسکتے، زمین نہیں خرید سکتے اور انہیں حکومت کے ساتھ یہ تحریری معاہدہ کرنا پڑتا ہے کہ دو سے زائد بچے پیدا نہیں کریں گے۔
انسانی حقوق کی تنظیموں اور گروپوں نے برمی حکومت پر روہنگیا مسلمانوں کو تحفظ فراہم کرنے کے حوالے سے نیم دِلانہ اقدامات کا الزام عائد کرتے ہوئے کہا ہے کہ فسادات پر قابو پانے کے بجائے فوجی دستوں کو ٹارگٹ کلنگ، آبروریزی اور دیگر جرائم کے لیے بھیجا گیا۔ ہیومن رائٹس واچ نے بتایا ہے کہ برمی فوج نے مسلمانوں پر فائرنگ کی اور انہیں شدید عدم تحفظ کے احساس سے دوچار کیا جس کے نتیجے میں اب تک لاکھ سے زائد افراد بے گھر ہوچکے ہیں۔ لوگ اپنے علاقوں میں واپس جانے اور آباد ہونے کے لیے تیار نہیں۔ بین الاقوامی اداروں کے شدید دباؤ پر برمی حکومت نے ایک ۲۷ رکنی کمیشن قائم کیا ہے جو تمام واقعات سے متعلق تحقیقات کے بعد مسلمانوں اور بدھسٹوں کے درمیان اعتماد بحال کرنے کے لیے رپورٹ پیش کرے گا۔
برما میں بھارت سے لوگوں کی آمد کے باعث ایک صدی سے بھی زائد مدت سے کشیدگی پائی جاتی رہی ہے۔ بیسویں صدی کے اوائل میں بھارت سے لوگ بڑی تعداد میں رنگون میں آباد ہوتے رہے ہیں۔ ایک وقت وہ بھی تھا جب رنگون تارکین وطن کی آمد کے حوالے سے نیو یارک سے بھی ایک قدم آگے تھا۔ برما کے نسلی بدھسٹوں کے لیے یہ بہت خطرناک صورت حال تھی اور اقلیت بن جانے کے خوف ہی کے باعث انہوں نے فی گھرانہ دو بچوں کی پابندی والی پالیسی اپنائی۔ برطانوی دور کے برما میں ہندوستان سے آکر بسنے والوں کی بڑھتی ہوئی تعداد کے باعث برما کے بیشتر شہروں میں ہندوستانیوں کی تعداد زیادہ ہوتی گئی اور مقامی بدھسٹ شدید عدم تحفظ کے احساس سے دوچار ہوئے۔ اس کا نتیجہ یہ برآمد ہوا کہ بدھسٹوں نے نسل پرستی کو اپناکر اقلیت ہو جانے کے خطرے سے نجات پانے میں عافیت محسوس کی۔ نسل پرستی کی پالیسی میں خوف کے ساتھ ساتھ برتر ہونے کا احساس بھی نمایاں تھا۔
روہنگیا مسلمانوں کی مشکلات کے ازالے کے لیے بالآخر عالمی برادری کو بھی متحرک ہونا پڑا ہے۔ گزشتہ ماہ اسلامی کانفرنس کی تنظیم کے سربراہ اجلاس میں برمی حکومت سے مطالبہ کیا گیا کہ وہ برمی مسلمانوں پر مظالم رکوائے اور ان کی اپنے علاقوں میں دوبارہ آباد کاری کا اہتمام کرے۔ اس مطالبے کو ۵۷؍اسلامی ممالک کی حمایت حاصل ہے۔ انسانی حقوق کی مغربی تنظیموں نے بھی روہنگیا مسلمانوں کی قابل رحم حالت کے حوالے سے فوری اقدامات کا مطالبہ کیا ہے۔ ہیومن رائٹس واچ اور ایمنسٹی انٹرنیشنل نے برمی حکومت کو مسلمانوں پر ڈھائے جانے والے مظالم کا ذمہ دار قرار دیا ہے۔ اسلامی کانفرنس کی تنظیم نے برمی مسلمانوں کے معاملے کو اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے آئندہ اجلاس میں اٹھانے کا بھی اعلان کیا جس کا بنیادی مقصد برمی حکومت پر دباؤ ڈالنا ہے۔ برما کے حکمران اب تک اس معاملے میں سنجیدہ دکھائی نہیں دیتے۔ انڈونیشیا اور پاکستان میں شدت پسندوں نے دھمکی دی ہے کہ اگر برمی مسلمانوں پر مظالم نہ رکے تو وہ برمی مفادات پر حملے کریں گے۔
برما میں اب جمہوریت اور منافقت کے درمیان جنگ جاری ہے۔ آنگ سانگ سوچی کو اندازہ ہے کہ ملک میں بدھسٹوں کی اکثریت مسلمانوں کے خلاف ہے۔ اگر مسلمانوں کے حق میں کوئی بات کی گئی تو ووٹ بینک بری طرح متاثر ہوگا۔ اس کا نتیجہ یہ برآمد ہوا ہے کہ سوچی نے اپنے ہونٹوں پر چُپ کی مہر لگالی ہے۔ وہ کچھ بھی کہنے کو تیار نہیں۔ جہاں مسلمانوں کی بات ہوتی ہے، وہ چپ سادھ لیتی ہیں۔ برمی مسلمانوں کو آنگ سانگ سوچی کے اِس رویّے سے شدید دکھ پہنچا ہے۔ برمی بدھسٹوں کی اکثریت مسلمانوں کو بنگلہ دیش سے آئے ہوئے تارکین وطن شمار کرتی ہے اور ان پر دہشت گردی کا الزام بھی عائد کرتی ہے۔
عالمی برادری کو اچھی طرح اندازہ ہے کہ برما میں صرف ایک شخصیت ہے جو مسلمانوں کی بہبود کے حوالے سے مرکزی کردار ادا کرسکتی ہے اور وہ ہے آنگ سانگ سوچی۔ مگر دکھ یہ ہے کہ جس سے سب سے زیادہ امید ہے وہی کنارہ کش ہوچکی ہے۔ عالمی برادری کو سوچی کے رویّے سے شدید دھچکا لگا ہے۔ کسی کو گمان بھی نہ تھا کہ زندگی بھر جمہوریت اور عوام کے لیے جدوجہد کرنے والی آنگ سانگ سوچی یوں مصلحت کا شکار ہو جائے گی۔
برمی بدھسٹوں کی نظر میں صرف مسلمان ہی مشکوک نہیں بلکہ وہ دیگر اقلیتوں کو بھی شک کی نظر سے دیکھتے ہیں۔ چن نسل کے عیسائیوں کو بھی امتیازی سلوک کا سامنا ہے۔ اس حوالے سے بھی خبریں آ رہی ہیں۔ ایک طرف تو برمی حکومت بہبودِ عامہ کی خاطر بڑے پیمانے پر اصلاحات کا راگ الاپ رہی ہے اور دوسری طرف اقلیتوں سے شدید امتیازی سلوک جاری ہے۔ یہ دوغلا پن برمی حکومت کو عالمی برادری کی نظر میں مزید معتوب بنادے گا۔
(“From Pro-Democracy to Hypocrisy: The Other Side of Suu Kyi”… “Malaysiandigest”. August 27th, 2012)
Leave a comment