میں نے گزشتہ سال ایمنسٹی انٹرنیشنل کے ساتھیوں کے ساتھ صومالیہ کے دارالحکومت موغادیشو کا سفر کیا۔ ہمارا مقصد امریکی فضائی حملوں میں بچ جانے والے افراد کا انٹرویو کرنا تھا۔۱۱ ستمبر کے حملوں کے بعد سے ہی امریکا نے صومالیہ میں اکا دکا فضائی حملے شروع کر دیے تھے جن کا نشانہ مشرقی افریقا میں موجود القاعدہ کے لوگ ہوتے تھے۔اب یہ حملے الشباب نامی دہشت گرد تنظیم کے خلاف ہوتے ہیں۔
صومالیہ میں پہلا ڈرون حملہ ۲۰۱۱ء میں صدر اوباما کے دورِ صدارت میں ہوا۔ لیکن صدر ٹرمپ کی جانب سے خصوصی حکم نامہ جاری ہونے کے بعدناصرف صومالیہ میں ہونے والے فضائی حملوں کی تعداد میں کئی گنا اضافہ ہو گیا ہے بلکہ عام شہری بھی مزید غیر محفوظ ہو گئے ہیں۔ ۲۰۱۷ء میں امریکی افواج نے صومالیہ میں ۳۴ فضائی حملے کیے جو کہ ۲۰۱۶ء کی نسبت تین گنا تھے۔ ۲۰۱۸ء میں یہ تعداد ۴۷ تھی۔ ۲۰۱۹ء میں اب تک امریکی فوج ۳۳ فضائی حملے کر چکی ہے۔
امریکا کی افریقا کمانڈ (Africom) جو صومالیہ میں ہونے والی کارروائیوں کی نگرانی کرتی ہے،کا موقف ہے کہ گزشتہ دو سال کے دوران ہونے والی کارروائیوں میں صرف دو عام شہری ہلاک ہوئے۔ یہ اعداد وشمار حقیقت کے بالکل برعکس ہیں۔ ایمنسٹی انٹرنیشنل ۵ فضائی حملوں میں ہلاک ہونے والے ۱۴؍افراد کی شناخت کر سکتا ہے۔ ان ہلاکتوں کا انکار کرکے حکومت پورے ملک کو ابہام کا شکار کر رہی ہے۔
پینٹاگون نے کبھی بھی عام شہریوں کی ہلاکت کے حوالے سے کوئی واضح موقف نہیں دیا۔ ایمنسٹی انٹرنیشنل کی حالیہ رپورٹ میں انکشاف ہوا ہے کہ شام کے شہر رقہ میں امریکی فوجیوں کے ہاتھوں مارے جانے والے عام شہریوں کی تعداد امریکی حکومت کی تسلیم کردہ تعداد سے دس گنا زیادہ ہے۔ لیکن صومالیہ جیسے ملک میں اعداد و شمار کی تصدیق کرنا بہت مشکل ہے۔
صومالیہ میں اپنے قیام کے دوران ہم نے ۱۰۰ سے زائد افراد کے انٹرویو کیے۔ ان میں سے کئی کا تعلق دور دراز علاقوں سے تھا۔ ان کے گاؤں نقشے پر نظر بھی نہیں آتے۔ میں نے ان سے ہوائی جہازوں کی تصویر بنانے کو کہا جو انھوں نے اڑتے ہوئے دیکھے تھے۔ ان افراد میں سے کوئی بھی تصاویر نہیں بنا سکا، انھیں لکھنا پڑھنا اور قلم پکڑنا بھی نہیں آتا تھا۔ جب ان سے یہ پوچھا گیا کہ ان کے گاؤں میں کیا ہوا تھا تو تقریباً سب نے ایک ہی کام کیا۔ انھوں نے آسمان کی طرف اشارہ کر کے ایک دائرہ بنایا اور منہ سے دھیمی آواز نکالی۔ جیسی آواز ایک ڈرون کی ہوتی ہے۔
موغادیشو کے مقامی ہوٹل کے کانفرنس روم میں میرے سامنے ایک نوجوان بیٹھا تھا، میں اسے علی کہوں گا۔ علی کا تعلق دریائے شبیل کے کنارے آباد ایک چھوٹے سے گاؤں سے تھا۔ اس کے گھر میں اس کی بیوی اور ۴ بچے تھے اور وہ پیشے کے اعتبار سے چرواہا تھا۔ اپنے گاؤں سے دارالحکومت تک دن بھر کے سفر کی وجہ سے وہ دھول میں اَٹ چکا تھا۔
علی کی کہانی بھی دوسروں سے مختلف نہیں ہے۔ کچھ ماہ قبل اس کے گاؤں میں ایک گاڑی کو فضائی حملے کا نشانہ بنایا گیا۔ پہلا میزائل گاڑی کو نشانہ نہیں بنا سکا اور علی کے جھونپڑے پر آلگا۔ دوسرا میزائل گاڑی کو لگا جس سے اس میں سوار تمام افراد ہلاک ہو گئے۔ مقامی افراد الشباب کا ذکر کرتے ہوئے گھبراتے ہیں لیکن علی نے ہمیں بتایا کہ اس گاڑی میں الشباب کے امراء سوار تھے۔
علی کے جھونپڑے پر گرنے والے میزائل سے اس کی بھابھی اور ۱۰ سالہ بھتیجے سمیت ۴؍افراد ہلاک ہوئے۔ جب میزائل لگا تو اس کی بھابھی گھر کے کاموں میں مصروف تھی اور اس کا بھتیجا بکریوں کے پاس کھڑا تھا۔ اتنا بتا کر علی خاموش ہوگیا اور اپنا چہرہ پھیر لیا، اس کے ہونٹ کانپنے لگے تھے۔ ’’میرے بھتیجے کی لاش کے ٹکڑے بکریوں کی لاشوں کے ٹکڑوں کے ساتھ مل گئے تھے۔ ہمیں سمجھ ہی نہیں آرہا تھا کہ کون سا ٹکڑا کس کا ہے‘‘۔ اس قتل و غارت کا سامنا کرنے کے بعد اس نے صومالیہ چھوڑ کر کسی خلیجی ملک جانے کا فیصلہ کر لیا۔وہ اب واپس اپنے گاؤں جانا نہیں چاہتا۔
میں نے لائبیریا اور موصل جیسی جگہوں پر بھی رپورٹنگ کی ہے لیکن صومالیہ میں کام کرنا اب تک کا سب سے مشکل تجربہ تھا۔ یہاں مشکل سے میری مراد سچائی کو تلاش کرنے میں آنے والی مشکل ہے۔ بیش تر حالات میں ہمارے پاس ویڈیو، تصاویر، فیس بک اور ٹوئیٹر کی پوسٹ، مقامی ذرائع ابلاغ کی خبریں اور (سیٹلائٹ سے نظر آنے والے) دھماکوں کے نتیجے میں بننے والے گڑھوں جیسے کھلے شواہد موجود ہوتے ہیں۔ لیکن صومالیہ میں ایسا کچھ نہیں تھا۔
الشباب نے صومالیہ میں انٹرنیٹ کے حامل موبائل فون پر پابندی لگا رکھی ہے۔اس کا مطلب یہ ہوا کہ کسی حملے کی تصاویر اور ویڈیو سامنے نہیں آسکتیں۔ اپنی تحقیقات میں گزشتہ دو سالوں کے دوران ہمیں صرف ۱۱ تصاویر حاصل ہوئیں۔ اس کے علاوہ الشباب کے زیر قبضہ علاقے سے کوئی بھی بروقت ٹویٹ نہیں کرسکتا۔ دوسری جانب امریکا بھی فضائی حملوں میں ہلکے ہتھیار استعمال کر رہا ہے۔ ان ہتھیاروں میں، جن میں ہیل فائر میزائل اور دوسرے ہتھیار شامل ہیں چھوٹے وار ہیڈ کا استعمال ہوتا ہے۔ ان میزائلوں سے ہونے والے دھماکوں کے گڑھے سیٹلائٹ سے نظر نہیں آتے۔
یہ بات درست ہے کہ موبائل فون کی ایجاد سے قبل بھی جنگوں میں حقائق کی تلاش کا کام ہوتا تھا،لیکن صومالیہ میں وہ تمام پرانے طریقے بھی کسی کام کے نہیں ہیں۔الشباب کے زیر قبضہ علاقے میں جانے کا مطلب خود کو اغوا ہونے کے لیے پیش کرنا ہے۔ اس وجہ سے میں نہ ہی میدان جنگ کا سروے کر سکتا تھا اور نہ ہی میزائلوں سے بننے والے گڑھوں میں سے میزائل کے ٹکڑے جمع کر سکتا تھا۔ گاؤں والے جو پرانے فون استعمال کرتے ہیں وہ بھی امریکی ایجنسیوں کی نگرانی میں ہوتے ہیں۔ اگر کوئی فون پر ’’الشباب‘‘، ’’بم‘‘ یا ’’ڈرون‘‘ جیسے الفاظ استعمال کرے تو وہ بھی ایجنسیوں کی نگرانی میں آجاتا ہے۔ اور ہم نہیں چاہتے تھے کہ ہماری وجہ سے کوئی عینی شاہد کسی مشکل سے دوچار ہو۔ اس لیے ہم نے انھیں پر خطر راستہ طے کر کے موغا دیشو آنے کو کہا۔
ہماری درخواست پر سو سے زیادہ لوگ موغادیشو آئے۔ جو کہانیاں انہوں نے سنائیں ان میں سے کچھ کی تو ثبوتوں سے تصدیق ہوگئی لیکن کچھ بالکل جھوٹ تھیں۔ کچھ سننے میں تو درست معلوم ہوتی تھیں لیکن ان کی تصدیق نہیں ہوسکی۔ آخر میں ہم صرف ایک تہائی انٹرویوز کو کسی خاص حملے، جگہ اور ہتھیار سے منسلک کر سکے۔
علی کا انٹرویو اُن میں شامل نہیں تھا لیکن میں اس کی کہانی اب تک نہیں بھول سکا۔ اس کے مطابق جس گاڑی کو اس کے گھر کے پاس نشانہ بنایا گیا تھا مجھے وہ سیٹلائٹ پر کہیں نظر نہیں آئی۔ علی کو حملے کی تاریخ کا بھی اندازہ نہیں ہے، اس وجہ سے میں امریکا کی افریقا کمانڈ سے بھی اس کی تصدیق نہیں کر سکتا۔ اس گاؤں میں نہ تو اسپتال کا ریکارڈ مل سکتا ہے اور نہ ہی کوئی ڈیتھ سرٹیفیکیٹ۔ ہم وہ پہلے اور شاید آخری لوگ تھے جنھیں اس نے اس حملے کے بارے میں بتایا تھا۔
میرے خیال میں علی کا بھتیجا اور خاندان کے دیگر افراد واقعی ہلاک ہوچکے ہیں۔لیکن مجھے یہ نہیں معلوم کہ وہ کیسے اور کب ہلاک ہوئے اور شاید کبھی معلوم بھی نہ ہو۔ امریکی فضائی حملے اپنی ساخت میں بہت غیر شفاف ہیں اور ہم شفافیت کی راہ میں حائل پردے کو کچھ ہی مرتبہ چاک کر سکے ہیں۔ ہماری رپورٹ صومالیہ میں امریکی فضائی حملوں میں عام شہریوں کی ہلاکت کو پوری طرح ظاہر نہیں کرتی۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ہم صرف مفروضوں کی بنیاد پر کچھ شائع نہیں کرتے۔ہم صرف اس چیز کو رپورٹ کرتے ہیں جسے ہم ثابت کر سکیں۔
“Gaslighting an entire nation”.(“nytimes.com”. April 27, 2019)
Leave a Reply