امریکی وزیر خارجہ ہلیری کلنٹن اور مصری وزیر خارجہ محمد کمال امر نے ۲۱ نومبر ۲۰۱۲ء کو غزہ (فلسطین) میں حماس کے زیرانتظام فلسطینی انتظامیہ اور اسرائیلی حکومت کے درمیان جنگ بندی کے معاہدے کا اعلان کیا۔ امریکی وزیر خارجہ کو ہنگامی طور پر خطے کا دورہ کرنا پڑا، کیونکہ امریکی صدر براک اوباما کو یہ ڈر تھا کہ اگر حماس اور اسرائیل کے درمیان تنازع شدت اختیار کرگیا تو خطے میں امریکا کے استعماری عزائم اور مفادات خطرے میں پڑ جائیں گے۔
اسرائیل اور حماس کے درمیان حالیہ تصادم کے آغاز سے اب تک امریکی حکام اسرائیل کی ہم نوائی کرتے آئے ہیں اور انہوں نے فلسطینیوں کے جانی نقصان کو یکسر نظر انداز کردیا ہے۔ کانگریس میں ری پبلکن اور ڈیموکریٹ، دونوں ہی امیدواروں نے صرف اسرائیل کے مفاد میں بات کی ہے۔ ۱۶؍نومبر کو ایوان نمائندگان میں اسرائیل کی حمایت میں ایک قرارداد پیش کی گئی جو صرف ایک منٹ کے اندر منظور کرلی گئی!
اسرائیل نے گولہ باری کے علاوہ بمباری بھی کی ہے جس کے نتیجے میں ۱۴۶؍افراد جاں بحق اور ہزار سے زائد زخمی ہی نہیں ہوئے بلکہ بنیادی ڈھانچے کا بڑا حصہ تباہ ہوچکا ہے۔ کئی عمارات زمین بوس ہوئی ہیں، پل تباہ ہوئے ہیں اور سڑکوں کو بھی خاصا نقصان پہنچا ہے۔ دوسری طرف اسرائیل کے صرف پانچ شہری ہلاک اور ۱۰۰؍زخمی ہوئے ہیں۔
اگر آپ اس تنازع کے بارے میں کسی امریکی سیاست دان کی رائے معلوم کریں تو وہ اسرائیل کے حق میں بولتے ہوئے سب کچھ پلٹ دے گا اور ایسا تاثر دے گا جیسے اسرائیلیوں پر ظلم ڈھایا جارہا ہے۔ امریکی حکومت کو بخوبی اندازہ ہے کہ اگر اسرائیلی فوج نے غزہ پر زمینی قبضے کی کوشش کی تو مصر، اردن اور دیگر پڑوسی ممالک میں شدید ردعمل ہوگا اور یہ بھی ہوسکتا ہے کہ ایک وسیع جنگ شروع ہو جائے۔
غزہ میں حماس کی حکومت کے پاس باقاعدہ فوج ہے نہ اسلحہ خانہ۔ اسرائیلی فوج منظم ہے اور اس کے پاس جدید ترین ہتھیاروں کی بھی کمی نہیں مگر اس کے باوجود فلسطینیوں کے عزائم کو شکست دینا اُس کے بس کی بات نہیں۔ شدید گولہ باری اور بمباری کے باوجود فلسطینیوں کے حوصلے ماند نہیں پڑے۔ انہیں مکمل شکست دینا اسرائیل کے لیے ممکن نہیں ہوسکا۔
جنگ بندی کے معاہدے میں لڑائی ختم کرنے، فلسطینی رہنماؤں کی ٹارگٹ کلنگ روکنے اور ۱۶؍لاکھ فلسطینیوں کو زندگی اور موت کی کشمکش سے دوچار کرنے والی ناکہ بندی ختم کرنے پر زور دیا گیا ہے۔ غزہ کی ناکہ بندی کا ختم کیا جانا غیر معمولی اہمیت رکھتا ہے۔ اگر یہ مقصد حاصل ہو جائے تو جنگ بندی کا معاہدہ کامیاب ہوگا، ورنہ حماس اور اسرائیل کے درمیان پھر جھڑپیں شروع ہوسکتی ہیں۔
اسرائیل نے ۲۰۰۵ میں غزہ سے اپنی آبادیاں ختم کرلیں اور یہودیوں کو نکال لیا مگر ساتھ ہی ساتھ اس نے غزہ کی ناکہ بندی کرکے خوراک کو ہتھیار کے طور پر استعمال کرنا شروع کردیا۔ اس ناکہ بندی کا نتیجہ یہ برآمد ہوا ہے کہ غزہ کے نصف بچے غذائیت کی کمی سے دوچار ہیں اور دو تہائی بچوں کو صحت کی بنیادی سہولت میسر نہیں۔ غزہ کی آبادی کا ۸۰ فیصد پناہ گزینوں پر مشتمل ہے۔ یہ وہ لوگ ہیں جنہیں اسرائیل نے ۱۹۴۸ء میں اپنے قیام کے وقت آبائی زمینوں سے بے دخل کردیا تھا۔
۲۰۰۶ء میں غزہ میں حماس نے انتخابات میں کامیابی کے بعد حکومت قائم کی تو اسرائیل، امریکا، یورپی یونین اور مصر کی حکومت نے مل کر غزہ کی ناکہ بندی کردی۔ اس ناکہ بندی کا بنیادی مقصد فلسطینیوں کو غذا اور غذائیت کی قلت سے دوچار کرنا تھا تاکہ ان کے حوصلے جواب دے جائیں۔ اس وقت کے وزیر اعظم ایہود اولمرٹ کے مشیر ڈوو وائز گلاس نے ایک میٹنگ میں کہا: ’’ناکہ بندی سے فلسطینی جسمانی طور پر کمزور پڑتے جائیں گے، مریں گے بہرحال نہیں۔ اور ہم یہی چاہتے ہیں کہ وہ کمزور پڑیں‘‘۔ اسرائیل کے اخبار ہاریز (Haaretz) نے بتایاکہ جب وائز گلاس نے یہ بات کہی تو میٹنگ میں شریک تمام افسران ہنس پڑے۔
حماس کے ساتھ تازہ ترین جھڑپوں کے حوالے سے یہ تاثر دینے کی بھرپور کوشش کی گئی ہے کہ اسرائیل تو مظلوم ہے اور اس کی سرزمین پر حملے ہوتے رہے ہیں۔ امریکا میں ۱۹۶۰ء کے عشرے میں بلیک پینتھر پارٹی بھی نسل پرست پولیس افسران کے ہاتھوں سیاہ فام افراد کے قتل کے حوالے سے جو کچھ کہتی رہی تھی، وہ اب اسرائیل کے وزیر اعظم بنیامین نیتن یاہو اور ان کے ساتھیوں پر صادق آتا ہے۔ وہ ہر حالت میں اسرائیل کے یہودیوں کو مظلوم ثابت کرنے پر بضد رہتے ہیں۔ امریکی میڈیا میں بھی اسرائیل کو مظلوم بناکر پیش کیا جاتا ہے۔ اس کی فوج کے بزدلانہ حملوں کو جوابی کارروائی قرار دے کر درست ثابت کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔
۱۹۴۸ء میں اپنے قیام کے بعد سے اب تک اسرائیلی حکومت ایسی اقدامات کرتی آئی ہے جن کا مقصد فلسطینیوں کو حملے کرنے پر اکسانا ہے تاکہ ان حملوں کو جواز بناکر کارروائی کی جائے اور دنیا کے سامنے مظلومیت کا راگ الاپا جائے۔ جو کچھ اسرائیلی حکومت اور فوج کرتی آئی ہے، اس کا بنیادی مقصد مزید علاقوں کا حصول یا پھر خطے میں عسکری بالا دستی کو لاحق ممکنہ خطرات کا خاتمہ ہے۔ ۲۰۰۸ء میں امریکی انتخابات کے فوراً بعد جنگ بندی کے معاہدے کو ختم کردینے والے اقدامات کے ذریعے اسرائیلی فوج نے ۵ فلسطینیوں کو شہید کردیا جس کے نتیجے میں ایسے حالات پیدا ہوئے کہ اسرائیل نے غزہ پر بھرپور حملہ کیا اور جنگ کی کیفیت پیدا کردی۔ غزہ پر حملے میں اسرائیلی فوج نے فاسفورس بموں کے علاوہ ناکارہ یورینیم سے بنے ہوئے ہتھیار بھی آزمائے۔ اسرائیلی حملوں میں ۱۴۰۰؍فلسطینی باشندے شہید ہوئے جبکہ اسرائیلی فوج کا جانی نقصان صرف ۱۳؍تھا۔
اسرائیلی فوج نے ۵ نومبر ۲۰۱۲ء کو ایک ذہنی معذور فلسطینی نوجوان کو شہید کیا اور ۹ نومبر کو ایک بارہ سالہ لڑکے کو غزہ کی حدود میں کارروائی کرکے شہید کردیا گیا۔ ۱۴؍نومبر کو حماس کے ایک مرکزی رہنما احمد الجابری کو شہید کردیا گیا، جس کے بعد صورت حال تیزی سے خراب ہوئی۔ اسی دن مصر اور اسرائیل کے مشترکہ کمیشن نے جامع جنگ بندی کا معاہدہ تجویز کیا تھا۔
غزہ میں ایک بار پھر موت کا رقص جاری ہے اور یہ سب کچھ اسرائیلی حکومت کی منظوری سے ہو رہا ہے۔ عالمی برادری کو اس حوالے سے جامع اقدامات کرنے کی ضرورت ہے تاکہ اسرائیل مظلومیت کا راگ الاپ کر فلسطینیوں پر مزید مظالم ڈھانے سے باز رہے۔
(“Gaza Ceasefire: Palestine Holds Strong in the Face of U.S-Backed Israeli Terror”… “Global Research”. November 23rd, 2012)
Leave a Reply