میری شدید خواہش تھی کہ رچرڈ ہالبروک بھی وہاں موجود ہوتے۔ اس گرم جوش شام صدر اوباما کے افغانستان اور پاکستان کے لیے خصوصی نمائندے میامی کے ’’بال ہالبر مال‘‘ میں منعقد اس خیراتی کیٹ واک کرنے والوں میں ایک یا دو کو چُن لیتے۔ ہالبروک اس طرح پاکستان میں امریکی رقم کے لیے خیراتی اداروں کا انتخاب کرنے کے حوالے سے ایک اچھے جج بن سکتے تھے۔ جیسا کہ سب جانتے ہیں کہ جیسے ہی کیری لوگر بل ایک حقیقت بنے گا پاکستان کی طرف ڈالروں کے جھونکے شروع ہو جائیں گے۔ اربوں کی منتقلی کی توقع کی جا رہی ہے۔ ۶۸ سالہ امریکی سفارتکار ان دنوں امریکی خیراتی اداروں کی مدد سے پاکستان بھر میں غیر سرکاری تنظیموں کا جال پھیلا دینے کے خواہش مند سوشل ورکرز کی پیشکشوں پر کام کر رہے ہیں۔
باتیں یہ کی جا رہی ہیں کہ سیاستدانوں، بیورو کریٹس اور بااثر افراد کی بعض بیگمات بھی اس امریکی دولت کے حصول کی دوڑ میں شامل ہو چکی ہیں۔
ان سب بیگمات کو چاہیے کہ وہ فوری طور پر ایسے ماہرین کی خدمات حاصل کریں جو ان کے کارناموں کی سمریاں (Resumes) تیار کریں جس میں ان کو انسانیت کی خدمت اور سوشل ورک میں کامل دکھایا جائے۔ لیکن مسئلہ یہ ہے کہ یہ بیگمات توامریکی NGOs سے میل نہیں کھاتیں اور راستے کے ڈاکوئوں کے طور پر جانی جاتی ہیں۔ ان بڑے دولت خور مگرمچھوں نے پالیسی سازوں کو دولت اپنی جانب انڈیلنے پر راضی کرنے کے لیے واشنگٹن ڈی سی میں باقاعدہ ترغیب کار رکھے ہوئے ہیں۔ ایک کافی باخبر ذریعے نے مجھے بتایا کہ اسلام آباد میں دو مرکزی سیکریٹری اس لوٹ مار میں حصہ ڈالنے کے لیے متحرک ہیں۔ ان میں سے ایک تو اپنی خدمات پیش کر رہے ہیں جبکہ دوسرے اپنے بیٹے کو امریکی خیراتی اداروں کے لیے کام کرنے پر تیار کر رہے ہیں۔ اس ذریعے نے کہا کہ ’’کئی لوگ امریکا کے دورے کر چکے ہیں اور وہاں مشیروں کی خوشامد کرنے میں مصروف ہیں حتیٰ کہ بعض انتہائی قابل احترام شخصیات (جن کے نام نامعلوم رہیں گے) بھی US AID کے ادنیٰ ملازموں کے آگے جھکی جا رہی ہیں‘‘۔
وزیر مالیات شوکت ترین خبردار کر چکے ہیں کہ پاکستان کے لیے مختص رقم اسلام آباد نہیں پہنچ رہی ہے۔ کئی لوگ پاکستان کی بہتری کی خواہش مند نظر آنے والی امریکی NGOs کے ساتھ خود کو منسلک کرنے کی کوشش میں ہیں۔ چاہے اس کا کوئی فائدہ ہو یا نہ ہو۔ پاکستان کے معیشت دانوں کی ترقی کے ادارے (PIDE) کے سابقہ صدر اور IMF کے موجودہ مشیر ندیم الحق کا کہنا ہے ’’افسوس کی بات یہ ہے کہ میڈیا میں سے کسی نے بھی اس مسئلے کو نہیں اٹھایا‘‘ ان کا مزید کہنا تھا ’’کیونکہ میں کئی سالوں سے اس موضوع پر کام کر رہا ہوں اس لیے میں خاص طور پر پریشان ہوں۔ US AID نے ۲ء۱ ارب ڈالر NGOs کو دے دیے ہیں ان میں سے صرف ۲۰ NGOs پاکستان کی ہیں جن میں خوشحالی بنک اور ہائر ایجوکیشن کمیشن جیسے ادارے بھی شامل ہیں جبکہ بقیہ ساری ایسی امریکی فرمز ہیں جن کے بارے میں ہم میں سے کوئی کچھ نہیں جانتا۔ حتیٰ کہ ان میں سے کچھ فرمز سالوں پاکستان میں کام کر چکی ہیں لیکن پھر بھی ہمیں ان کے مشیروں کے بارے میں کوئی خبر ہے نا کبھی ہم نے انہیں یہاں دیکھا‘‘۔
US AID کے فنڈ کہاں گئے اور ان کو پاکستان میں کس نے وصول کیا اس کی تفصیلات ڈاکٹر حق نے اپنے بلاگ “Development 2.0” میں بیان کر دی ہیں۔
امریکی کی یہ فرمز کیا کر رہی ہیں؟ یہ ہماری پالیسی پر کیسے اثر انداز ہوں گی؟ ان کے مشیر کس معیار کے ہیں؟ ’’پاکستان کو بااختیار بنانا‘‘ جیسے دکھلاوے کے عنوانات کے تحت پروجیکٹس کون بنا رہا ہے؟ان پروجیکٹس کی نگرانی کہاں ہو رہی ہے؟ ان پروجیکٹس پر کون سا پاکستانی ذہن استعمال کیا جا رہا ہے؟ یہ سوالات ڈاکٹر حق نے اٹھائے ہیں۔ انہوں نے مجھے بتایا ’’جب ان خواتین ڈاکوئوں کا امداد کے لیے جاری مقابلہ ختم ہو گا تو اونٹ کے منہ میں زیرہ کے مترادف بچی کھچی رقم ہماری عوام تک بھی پہنچ جائے گی‘‘۔
اگر ہالبروک واقعی غربت، کم خوراکی، بے روزگاری، بیماریوں اور دیگر مصائب کا سامنا کرنے والے پاکستانیوں کی مدد کرنے میں مخلص ہیں تو میں ان کی توجہ فیاضانہ امداد اور شاندار اسٹائل کے لیے منعقد میامی کی فیشن پریڈ کی طرف دلائوں گی جہاں ۱۰ خواتین نے کیٹ واک کی۔ Tiffany اور Elle میگزین کی جانب سے اسپانسر کردہ اس پریڈ میں شاندار جیولری اور اپنے خاص خیراتیوں کو فائدہ پہنچانے کے لیے شاندار لباس زیب تن کیے ان ۱۰ فیشن کاروں نے امداد کی وصولی کی اور کیٹ واک اور فیشن شو کے اختتام پر ڈھیروں دولت اکٹھی کر لی۔
رچرڈ ہالبروک کو اپنے چنائو کی صلاحیت کو استعمال کرنا چاہیے اور اس طرح اکٹھا ہونے والی تمام رقم کو امریکا کے بجائے پاکستان کی NGOs میں تقسیم کرنا چاہیے۔ لیکن اس بات کی یقین دہانی بھی ضروری ہے کہ یہ NGOs خود سے فنڈز پیدا کر رہی ہیں(جیسا کہ ان ۱۰ خواتین نے کیا) یہ بھی ضروری ہے کہ یہ NGOs اس رقم کو اپنے دفاتر کی شان و شوکت، فرنیچر کی آرائش، مہنگے اسٹاف، شاندار گاڑیوں (جیسا کہ آجکل سارے اسلام آباد میں بازاری گاڑیاں سڑکوں پر دندناتی پھر رہی ہیں اور ان پر UN بھی لکھا ہوتا ہے) اور لامتناہی اخراجات پر ضائع نہ کررہی ہوں۔
پراڈا، آرمانی اور ورسیز ایسی شخصیات تھیں جن کو اس فیشن شو میں بڑے پیمانے پر سراہا گیا۔ Boca Life میگزین کا ذکر کرنا بھی ضروری ہے اس میگزین نے “Who is Who in Charity and the Arts” میں ۹۵ ناموں کی فہرست دی ہے۔ فلوریڈا کے خیرات دہندہ مرد و خواتین کی عزت افزائی کے لیے یہ فہرست پچھلے ۲۱ سالوں سے شائع کی جا رہی ہے۔ یہ لوگ فنڈ اکٹھا کرتے ہیں۔ رضاکاروں کو متحرک کرتے ہیں، خیراتی اداروں کی مدد کرتے ہیں۔ یہ وہی خیراتی ادارے ہوتے ہیں جن کی وہ سالہا سال سے مدد کرتے آ رہے ہیں۔ ان خیراتی اداروں میں ریڈ کراس سے منسلک امریکن ہرٹ ایسوسی ایشن، میوزیم، فنی ثقافتی مرکز، گھریلو مسائل کے حل کے لیے پبلک لائبریری، لڑکوں اور لڑکیوں کے کلب، بچوں کے کینسر کے علاج کے کلب، بیماری کی تشخیص اور علاج کے مرکز، دریافت اور سائنس کے میوزیم کے لیے ذہنی صحت کے مراکز شامل ہیں۔ یہ لوگ جن خیراتی اداروں کی مدد کر رہے ہیں ان کی وسعت دماغ کو ہلا کر رکھ دیتی ہے۔
کیا کبھی وہ دن بھی آئے گا جب پاکستانی مخیر حضرات خیراتی اداروں کے لیے اتنی رقم فراہم کر دیں گے کہ ہمیں US Aid کی جانب نظریں اٹھانے کی ضرورت پیش نہ آئے گی۔
(بشکریہ: ’’روزنامہ ڈان‘‘کراچی۔ ۸ نومبر ۲۰۰۹ء)
Leave a Reply