امریکا کے صدر جمی کارٹر نے ۱۹۸۰ء میں ’’اسٹیٹ آف یونین‘‘ خطاب کے دوران کہا تھا کہ’’اگر کسی بیرونی طاقت نے خلیج فارس کا کنٹرول سنبھالنے کے لیے کسی قسم کی مداخلت کی تو امریکا مشرق وسطیٰ میں تیل کی آزادانہ نقل و حمل کی حفاظت کے لیے اس کے خلاف جوابی کارروائی کرے گا‘‘۔ کار ٹر اور ان کے جانشینوں نے اس وعدہ کو ہمیشہ نبھایا۔یہی وجہ ہے کہ امریکا نے نہ صرف خطے میں موجود امریکی فوج کی صلاحیتوں میں اضافہ کیا، بلکہ عراق کے صدام حسین کو تیل کی سپلائی لائن پر قبضے سے روکنے کے لیے جنگ خلیج میں بھی حصہ لیا۔ اگرچہ خلیج فارس میں امریکاکے دیگر بھی کئی مفادات تھے جن میں جوہری پھیلاؤ کی روک تھام، انسداد دہشت گردی اور جمہوریت کا فروغ شامل ہیں، لیکن امریکا کا سب سے اہم مفاد تیل کی ترسیل کو بغیر رکاوٹ جاری رکھنا تھا۔
خلیج فارس سے امریکا کی اس وابستگی پر اسے کبھی کسی بڑی مخالفت کا سامنا نہیں کرنا پڑا۔حتیٰ کہ وہ لوگ بھی جو امریکا کے یورپ اور ایشیا میں مختلف اتحادوں کے مخالف رہے ہیں اور ان اتحادوں کو ملکی معیشت پر بوجھ قرار دیتے رہے ہیں،انہوں نے بھی ہمیشہ اس بات سے اتفاق کیا ہے کہ امریکا کو خلیج فارس کی حفاظت کا ذمہ اپنے سر رکھنا چاہیے، کیوں کہ دنیا کے ایک تہائی تیل کی پیدوار اس خطے سے ہوتی ہے۔لیکن اب دنیا میں ڈرامائی تبدیلیاں رونما ہوئی ہیں۔سرد جنگ کے دوران خطے میں امریکی مفادات کے لیے سب سے بڑا خطرہ سوویت یونین تھا۔امریکی پالیسی ساز پریشان تھے کہ اگر سوویت یونین تیل کی ترسیل کو منقطع کرنے میں کامیاب ہو گیا، تو تیل و گیس پر انحصار کرنے والی امریکی فوج یورپ میں کوئی بڑی جنگ نہ جیت سکے گی۔لیکن سوویت یونین کے خاتمے نے تیل کی سپلائی کے حوالے سے امریکی مفاد کی نوعیت کو تبدیل کر دیا۔ جہاں قومی سلامتی اور خوشحالی دونوں کا انحصار خلیج فارس کی حفاظت پر ہوا کرتا تھا،اب اس کا تعلق صرف خوشحالی سے رہ گیا۔ جس نے امریکاکی پالیسی پر گہرے اثرات مرتب کیے۔ قومی سلامتی کے عنصر کی عدم موجودگی نے خلیج فارس میں فوج کی مداخلت بڑھا دی، کیوں کہ زیادہ تر امریکی معاشی مفادات کے دفاع کے لیے فوج کو مشکلات میں ڈالنے کو برا نہیں سمجھتے۔تو یہاں سوال اٹھتا ہے کہ کیا خلیج فارس کا تیل اتنا قیمتی ہے کہ اس کا دفاع امریکی فوجی قوت کے ذریعے کیا جائے؟
اس سوال کا جواب حاصل کرنے کے لیے مزید چار سوالوں کے جواب حاصل کرنے ہوں گے۔ اول یہ کہ اگر امریکا خلیج فارس سے اپنی وابستگی ختم کر دیتا ہے تو اس بات کا کتنا امکان ہے کہ خلیج فارس سے تیل کے بہاؤ میں کوئی بڑی رکاوٹ پیدا ہو گی؟ دوم، اس رکاوٹ کا امریکی معیشت پر کتنا اثر پڑے گا؟ سوم، امریکا خلیج فارس سے تیل کے بہاؤ کی حفاظت پرکتنے فوجی اخراجات اٹھاتا ہے؟ آخری یہ کہ خلیج فارس کی حفاظت کے لیے غیر فوجی متبادل ذرائع کیا ہو سکتے ہیں اور اس پر کتنے اخراجات ہوں گے؟ان سوالات کے جوابات اس بات کی گواہی دیتے ہیں کہ خلیج فارس میں تیل کی ترسیل کے نظام کی حفاظت پر آنے والی لاگت، اس سے حاصل ہونے والے فوائد کے برابر پہنچ گئی ہے اور اس بات کا قوی امکان ہے کہ یہ لاگت اس پالیسی سے حاصل ہونے والے فوائد سے بھی بڑھ جائے گی۔سو یہ وہ وقت ہے جب امریکا کو خلیج فارس سے فوجی وابستگی ختم کر کے ایسے متبادل ذرائع میں سرمایہ کاری کرنی چاہیے جو تیل کی ترسیل میں رکاوٹ کی صورت میں امریکی معیشت کو سہارا دے سکیں۔ ایک دہائی یا اس سے کچھ زیادہ وقت میں جب یہ خطہ آج سے بھی کہیں زیادہ خطرناک ہو چکا ہو گا تو امریکا کو اس مقام پر ہونا چاہیے کہ وہ خلیج فارس سے فوجی وابستگی مکمل طور پر ختم کر دے۔
خلیج فارس کے تیل کو لاحق خطرات:
موجودہ پالیسی کا صحیح جائزہ لینے سے پہلے ضروری ہے کہ ایک غلط فہمی دور کر لی جائے۔سیاستدان اور تجزیہ نگار اکثر یہ بات کہتے ہوئے نظر آتے ہیں کہ تیل کے ترسیلی نظام میں آنے والی کسی رکاوٹ کے خطرے سے بچنے کے لیے امریکا کو تیل کی پیداوار بڑھانی ہو گی تاکہ درآمدی تیل پر انحصار کم سے کم ہو،یعنی توانائی کے شعبے میں خود مختارہو۔یہ دلیل بنیادی طور پر تیل کی عالمی منڈی کے نظام کی ناسمجھی کو ظاہر کرتی ہے۔ کیوں کہ قابل مبادلہ اجناس کی تجارت میں خودمختاری کوئی معنی نہیں رکھتی۔ دراصل تیل کی خرید و فروخت عالمی منڈی میں ہوتی ہے، اس لیے امریکا میں اس کی قیمت دنیا بھر میں تیل کی قیمتوں سے جڑی ہو ئی ہے۔ تیل کی عالمی منڈی کی مثال ایک پانی کے ٹب کی سی ہے، جس میں پانی ڈالنے کے لیے بہت سے نل لگے ہوئے ہیں اور اس کی نکاسی کے لیے بھی بہت سی نالیاں ہیں۔ا س لیے اس کی کوئی خاص اہمیت نہیں کہ کسی ایک نل سے کتنا پانی آتا ہے اور کسی خاص نالی سے کتنا پانی بہتا ہے۔ رسد اور طلب کی بنیاد پر انحصار کرنے والی تیل کی منڈی میں زیادہ اہمیت تیل کی رسد کی ہے کیوں کہ اگر تیل کی رسد تیزی سے کم ہوتی ہے تو ٹب سے پانی حاصل کرنے والے تمام صارفین ہی متاثر ہوں گے۔اس لیے اگر امریکا کی خلیج فارس سے تیل کی درآمد صفر بھی ہوجاتی ہے، تو بھی خلیج فارس سے نکلنے والے تیل کی سپلائی متاثر ہونے کی صورت میں تیل کی قیمتوں میں آنے والی تبدیلیوں سے امریکا بھی متاثر ہوئے بنا نہیں رہ پائے گا۔
یہ تو سوچا جاسکتا ہے کہ امریکا کے خطے سے نکل جانے کی صورت میں تیل کی سپلائی کس طرح متاثر ہو سکتی ہے، لیکن ان سوچے جانے والے آپشنز میں سے قابل عمل کوئی بھی نہیں لگتا۔ ایک امکان جس پر غور کیا جاسکتا ہے وہ یہ ہے کہ اگر کوئی خلیجی ملک اپنے پڑوسی ممالک پر قبضہ کر کے خطے میں موجود تیل کے بیشتر ذخائر پر قبضہ کر لیتا ہے تو پھر تیل کی عالمی منڈی میں قیمتیں کنٹرول کرنے کی کوشش کرسکتا ہے۔اور ایسا کوئی بھی اقدام تیل کے بڑے صارفین جیسے برطانیہ اور امریکا کی طاقت کو چیلنج کرنے کے برابر ہوگا۔ لیکن یہ آپشن کسی طور پر ممکنات میں سے نہیں،کیوں کہ خطے میں اتنی طاقت رکھنے والا کوئی ملک نہیں ہے۔عراق امریکی حملے کے بعد سے تباہ ہو چکا ہے اور ابھی بھی انارکی کی لپیٹ میں ہے۔ایران کو مغربی پابندیوں نے کمزور کر کے رکھ دیا ہے، اور اس کے راہنما اندورنی مسائل سے نمٹنے میں مصروف ہیں۔ سعودی عرب، یمن جنگ میں پھنس جانے کی وجہ سے خطے کو فتح کرنے میں کوئی دلچسپی نہیں رکھتا۔
دوسری فرضی صورتحال جس پر غور کیا جا سکتا ہے وہ یہ ہے کہ خطے پر کنٹرول حاصل کرنے کی بالواسطہ جنگ سے خلیجی ممالک افراتفری اور انارکی کی لپیٹ میں آسکتے ہیں اور بنیادی انفرا سٹرکچر تباہ ہوسکتا ہے۔ جس سے تیل کی سپلائی بذریعہ بحری جہاز متاثر ہو سکتی ہے۔ لیکن بہت سے عوامل ایسے ہیں جو اس فرضی صورتحال کو حقیقت کا روپ دینے میں رکاوٹ ہیں۔ خطے میں کوئی بھی ایسی ریاست نہیں ہے جو اپنی اجارہ داری قائم کرنے کے لیے اتنی بڑی جنگ کا خطرہ مول لے۔ ہو سکتا ہے کہ کوئی ملک کسی دوسرے ملک پر قبضہ کرنے کی کوشش کرے لیکن یہ بھی آسان کام نہیں۔ ایران اور سعودی عرب ایک دوسرے کو نشانہ بنا سکتے تھے لیکن ان دونوں کو خلیج فارس نے ایک دوسرے سے الگ رکھا ہوا ہے۔
عراق اندرونی تقسیم اور ایران کے ساتھ سرحد لگنے کی وجہ سے نسبتاً زیادہ غیر محفوظ ہے،لیکن ایران کو خود بے شمار چیلنجوں کا سامنا ہے اور اس بات کا قوی امکان ہے کہ وہ امریکا کے عراق پر حملے کی صورت میں پیش آنے والی مشکلات سے بہت کچھ سیکھ چکا ہے۔ اس کے علاوہ تیل کے ذخائر کا بنیادی انفرا سٹرکچر اس قابل ہے کہ شدید جنگ کے دوران بھی کام دیتا رہے، جس کی واضح مثال ۱۹۸۰ء کی ایران، عراق جنگ ہے، جب شدید جنگ کے دوران بھی تیل کی سپلائی کم ضرور ہوئی لیکن جاری رہی۔ اور جنگ بندی کے کچھ ہی عرصے میں تیل کی قیمتیں دوبارہ مستحکم ہو گئیں۔
تیسری ممکنہ صورتحال یہ ہو سکتی ہے کہ ایران امریکا اور اس کے اتحادیوں کو مشکلات میں ڈالنے کے لیے آبنائے ہرمز سے ہونے والی تیل کی سپلائی میں رکاوٹ پیدا کرے۔ آبنائے ہرمز کا ۲۱ میل، یعنی کے بہت ہی تنگ سا راستہ ہے جہاں سے روزانہ ۲۰ ملین بیرل تیل گزرتا ہے جو کہ عالمی پیداوار کا تقریباً ۲۰ فیصد بنتا ہے۔ باوجود اس کے کہ ایرانی فوج اس راستے کو مکمل بند کرنے کی اہلیت نہیں رکھتی، لیکن ماہرین کا کہنا ہے کہ وہ بارودی سرنگیں بچھا کر اور میزائل بوٹ کی مدد سے سپلائی متاثر ضرور کر سکتی ہے۔
لیکن اس بارے میں کچھ نہیں کہا جا سکتا کہ آیا ایران آبنائے ہرمز کو بند کرنے کا ارادہ رکھتا بھی ہے یا نہیں۔ بہرحال سپلائی لائن بند کرنے سے اس کی اپنی پیدوار اور آمدنی بھی متاثر ہو گی اور پڑوسی ممالک بھی اس پر سخت ردعمل کا اظہار کریں گے۔ درحقیقت ایران نے کبھی ایسا کرنے کی کو شش بھی نہیں کی، حتیٰ کہ عراق جنگ کے دوران بھی نہیں۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ اگر امریکا خطے سے اپنی ’’کمٹمنٹ‘‘ ختم کر دیتا ہے تو شاید ایران کبھی اس آپشن پر بھی غور کرنا شروع کر دے۔ بہر حال یہ بات قابل فہم لگتی ہے کہ امریکا کے خطے سے نکل جانے کے بعد ایران جب ایٹمی معاہدے کی خلاف ورزی کرے تو اس پر مغرب کی لگائی جانے والی پابندیوں کے ردعمل میں وہ آبنائے ہرمز کے راستے کو بند کرنے کی کو شش کرے۔ ایسا سب کچھ ہونا آسان تو نہیں ہوگا، لیکن اگر امریکا خلیج فارس کی حفاظت کا بیڑا اٹھانے سے انکار کر دے گاتو اس صورتحال کے حقیقت کا روپ دھارنے کے امکا ن میں اضافہ ہو گا۔
تیل کی سپلائی لائن میں رکاوٹ پیدا کرنے والا آخری ممکنہ خطرہ یہ ہو سکتا ہے کہ تیل پید ا کرنے والے کسی بڑے ملک کے اندرونی حالات اس حد تک خراب ہو جائیں کہ تیل کی پیداوار متاثر ہو۔ اس ممکنہ صورتحال کا نشانہ سعودی عرب بن سکتا ہے۔ سعودی عرب نہ صرف عالمی پیداوار کا دس فیصد سے زیادہ تیل پیدا کرتا ہے، بلکہ اس کے پاس تیل کے اتنے بڑے ذخائر ہیں کہ وہ دنیا بھر میں تیل کی سپلائی لائن متاثر کرنے کی اہلیت رکھتا ہے۔فی الوقت تو اس کی برآمدات بظاہر محفوظ دکھائی دیتی ہیں۔ سعودی فوج تیل کے ذخائر کی حفاظت پر مامور ہے اور وہ اس کام کو بہتر طریقے سے سر انجام دے رہی ہے۔ اس لیے کسی قسم کی دہشت گردی کی کارروائی ممکنہ طور پر ناکام ہی ہو گی۔ حالانکہ سعودی عرب مشکلات کا شکار ہے، لیکن حالات اس حد تک خراب نہیں کہ انارکی اور خانہ جنگی کی صورتحال پیدا ہو۔ سعودی شاہی خاندان کو عمومی طور پربادشاہت کا حقدار سمجھا جاتا ہے۔ ملک کے بیشتر عوام تیل کی دولت سے فوائد حاصل کر رہے ہیں۔ اور ملک کی فوج بھی اعلیٰ مہارت کی حامل ہے۔ یہی وہ سب وجوہات ہیں جنھوں نے سعودی عرب کو ’’عرب بہار‘‘کے اثرات سے بچائے رکھا۔ مزید یہ کہ خانہ جنگی کی صورت میں اگر کوئی نئی طاقت اقتدار سنبھالتی ہے تو اسے بھی تیل کی پیداوار کو جاری رکھنا ہو گا، کیوں کہ ملک کی معیشت مکمل طور پر تیل کی پیداوار پر انحصار کرتی ہے۔اگر امریکا خلیج سے اپنی ’’کمٹمنٹ‘‘ ختم کرتا ہے تو بھی وہ سعودی عرب کی داخلی سلامتی کے لیے اس کی فوج کو تربیت دینے کا عمل جاری رکھ سکتا ہے اور اس کے ساتھ ساتھ خفیہ معلومات کا تبادلہ اور ہتھیار کی فراہمی بھی جاری رکھی جاسکتی ہے۔ مختصر یہ کہ اگر امریکا خطے سے اپنی فوجی کمٹمنٹ ختم کرنے کا فیصلہ کرتا ہے،تو تیل کی سپلائی متاثر ہونے کے امکان میں اضافہ تو ہو گا، خاص طور پر آبنائے ہرمز سے، لیکن یہ اضافہ نہایت معمولی ہو گا۔ لیکن سوال یہ ہے کہ تیل کی سپلائی میں ایسی کوئی رکاوٹ کتنی مہنگی پڑ سکتی ہے؟
تیل کی سپلائی میں کسی قسم کی رکاوٹ کے باعث ہونے والے نقصانات کے بارے میں ماہرین کی پیش گوئیاں کافی خطرناک ہیں۔ حالیہ اعدادوشمار کے مطابق تیل کی عالمی پیداوار میں ایک فیصد کمی سے تیل کی عالمی قیمتوں میں ۸ فیصد تک اضافہ ہو گا۔ ان اعدادوشمار کو سامنے رکھا جائے تو ایک لاکھ بیرل یومیہ تیل اگر کسی رکاوٹ کی وجہ سے کم سپلائی ہوتا ہے، تو اس کا مطلب ہے کہ سعودیہ کی برآمدات صفر ہو جاتی ہے یا آبنائے ہرمز سے تیل کی سپلائی ۶۰ فیصد کم ہو جاتی ہے، تو تیل کی عالمی قیمتیں دگنی ہو جائیں گی۔دنیانے ابھی تک ایسی کسی رکاوٹ کا سامنا نہیں کیا،لیکن ایسا ہونے کی صورت میں نقصان کا اندازہ لگانا مشکل ہے۔اور قیمت میں اس بھی زیادہ اضافہ ممکن ہے۔تیل کی قیمتوں کا امریکا کی معیشت پر بھی گہرا اثر پڑے گا۔ایک محتاط اندازے کے مطابق تیل کی قیمت دگنی ہونے کی صورت میں امریکا کی مجموعی ملکی پیداوار میں تین فیصد کمی آئے گی،جو کہ تقریباً ۵۵۰ ارب ڈالر بنتی ہے۔ اور کسی بڑی رکاوٹ کی صور ت میں جیسے کہ آبنائے ہرمز سے تیل کی سپلائی مکمل طور پر بند ہونا،تو اس کے نقصانات بھی اتنے ہی خطرناک ہوں گے۔
لیکن اس کے حقیقی اثرات امریکا پر نہایت کم ہوں گے۔کیوں کہ ایسی صورت میں امریکا اپنے پیٹرول کے ذخیرے Strategic Petroleum Reserve کا استعمال کر سکتا ہے۔ اس کے علاوہ قیمتوں کو کنٹرول کرنے کے لیے زیر زمین ذخائر کا استعمال بھی کر سکتا ہے۔ ایک اندازے کے مطابق ۷۰۰ ملین بیرل تیل ’’اسٹریٹجک پیٹرولیم ریزرو‘‘ میں موجود ہے۔اس کے علاوہ چار ارب بیرل سے زائد تیل عالمی توانائی ایجنسی کے ارکان ممالک کے پاس بھی موجود ہوتا ہے۔ (یہ تنظیم ۱۹۷۴ء میں قائم کی گئی، جس کامقصد دنیا بھر میں تیل کے بحران کی صورت میں مل کر اس کا مقابلہ کر نا تھا)۔ آبنائے ہرمزسے اگر تیل کی سپلائی آٹھ ماہ کے طویل عرصے کے لیے بھی بند ہو جائے تو یہ چار ارب بیرل تیل آٹھ ماہ تک اس کمی کو پورا کر سکتا ہے۔ ایسے کسی بحران کی صورت میں پہلے ایک ماہ تو امریکا اپنے SPR سے یومیہ ۴ء۴ ملین بیرل تیل نکالے گا اور اسی طرح عالمی توانائی ایجنسی کے ارکان ممالک بھی ۸ء۵ ملین بیرل یومیہ اضافی تیل اپنے ذخائر سے نکال سکتے ہیں۔ چین جو کہ عالمی توانائی ایجنسی کا رکن نہیں ہے، لیکن وہ بھی اپنے ذخائر کا استعمال کر سکتا ہے، چین اپنی درآمد کے حساب سے ۹۰دن کے ذخائر رکھتا ہے۔
یہ تمام اعدادوشمار اس بات کی گواہی دیتے ہیں کہ خلیج فارس سے تیل کی سپلائی میں کسی بڑی رکاوٹ کی صورت میں دنیا اگر باہمی طور پر کوئی لائحہ عمل اپنائے گی تو وہ یومیہ ہونے والے نقصانات کا ازالہ کر سکتی ہے۔
دوسرارخ:
امریکی فوج کی خلیج فارس میں موجودگی کے معاشی فوائد اور نقصانات کا جائزہ لینے کے لیے ضروری ہے کہ اس کے وہاں رہنے پر آنے والے اخراجات کا جائزہ بھی لیا جائے۔ وہاں بھاری اخراجات تو امریکی جنگی جہازوں کو فعال رکھنے پر آتے ہیں۔سرد جنگ کے خاتمے کے بعد سے پینٹاگون نے ایک وقت میں دو دشمنوں سے مقابلے کی جو حکمت عملی بنا رکھی ہے اس میں سے ایک دشمن کو ہمیشہ خلیج فارس میں سمجھ کر منصوبہ بندی کی جاتی ہے۔ دو محاذوں پر لڑنے کی حکمت عملی اس لیے اپنائی گئی کہ کبھی ایسا موقع نہ آئے کہ امریکا کسی ایک محاذ پر اتنا پھنس جائے کہ موقع پرست دوسرے محاذ سے حملہ کر کے فائدہ اٹھا لیں۔
اگر امریکا خلیج فارس میں جنگ کی تیاری کی حکمت عملی کو ترک کرتا ہے تو اس کے پاس دو آپشن بچتے ہیں،ایک یہ کہ وہ دو دشمنوں سے ایک وقت میں لڑنے والی حکمت عملی جاری رکھے لیکن وہ دوسرا دشمن کسی اور خطے میں ہو،دوسرا یہ کہ وہ ایک وقت میں ایک جنگ کی حکمت عملی اختیار کر لے۔لیکن اس حکمت عملی میں خلیج فارس سے زیادہ خطرناک کوئی خطہ نہیں جہاں اس حکمت عملی کے تحت موجودگی برقرار رکھی جا سکے۔
خلیج فارس میں امریکی فوج پر آنے والے اخراجات کا صحیح اندازہ لگانا مشکل ہے،کیوں کہ وہاں موجود فوج اور بھی کئی جگہوں پر استعمال ہو رہی ہوتی ہے۔ ماہرین کے مطابق اگر امریکا ایک جنگ کی حکمت عملی اپناتا ہے تو ایک اندازے کے مطابق سالانہ ۷۵؍ارب ڈالر کی بچت ہو گی۔ جو کہ دفاعی بجٹ کا ۱۵ فیصد بنتا ہے۔ فوجیوں کی تعداد میں کمی، جنگی جہازوں کی تعداد میں کمی اور اسلحہ کی مقدار میں کمی لا کر یہ رقم بچائی جا سکتی ہے۔
لیکن امریکا کی خلیج سے وابستگی صرف فوجیوں کی تعداد میں کمی تک محدود نہیں۔ اس خطے میں امریکا تیل کے حوالے سے اپنے مفادات کے تحفظ کے لیے بالواسطہ یا بلا واسطہ کئی جنگیں لڑ چکا ہے، جن کی بھاری قیمت چکائی ہے۔ امریکا نے خلیج کی جنگ میں حصہ لیا تو بنیادی مقصد تیل کی سپلائی جاری رکھنا تھا۔ اگر چہ عراق جنگ تیل کے لیے نہیں لڑی گئی،لیکن پالیسی سازوں کے ہاں عراق میں استحکام اور جمہوریت کی جو تڑپ نظر آتی تھی اس کی بنیادی وجہ وہاں موجود تیل کے ذخائر ہی تھے۔ اس لیے خلیج سے وابستگی ختم کرنے کے نتیجے میں نہ صرف ڈالر بچیں گے بلکہ قیمتی جانوں کا ضیا ع بھی رک جائے گا۔
بہتر راستہ:
اس ساری بحث کے اختتام پر یہ سوال اٹھتا ہے کہ خلیج فارس سے نکلنے والے تیل کی حفاظت کے لیے فوج کے استعمال کا متبادل کیا ہو سکتا ہے؟
اگر تیل کی رسد میں آنے والی رکاوٹ سے نمٹنے کے لیے فوج کا استعمال ہی بہتر آپشن ہوتاتوآج اس پالیسی کا دفاع کرنے والے بہتر پوزیشن میں ہوتے۔درحقیقت امریکا بہت سے غیر فوجی ذرائع استعمال کر کے اس سپلائی کی حفاظت کو یقینی بنا سکتا ہے۔ایک طرف تو امریکا تیل کے اپنے تزویراتی ذخائر میں اضافہ کر سکتا ہے۔مثال کے طور پر اگر امریکا اپنے SPR (سٹریٹجک پٹرولیم ریزرو)میں پچاس فیصد کا اضافہ کرتا ہے تو وہ تیل سپلائی میں آنے والے کسی بڑے تعطل کی صورت میں عالمی طلب کو مزید چند ماہ پورا کر سکتا ہے۔اور اس کام کے لیے اسے دس سے چالیس ارب ڈالرخرچ کرنے پڑیں گے۔
اور اگر ہم طلب کی طرف دیکھیں،امریکی معیشت میں تیل کا حصہ کم کرنا ہوگا۔تاکہ معیشت پر تیل کی تبدیل ہوتی قیمتوں کا اثر نہ پڑے۔امریکا میں نقل و حمل کا شعبہ ۷۰ فیصد تیل استعمال کرتا ہے،اس لیے اس شعبہ پر خصوصی توجہ دینی ہو گی۔جار ج بش سے لے کر باراک اوباما تک تمام صدور نے اس معاملے پر خصوصی توجہ دی ہے،لیکن مزید اہمیت دینے کی ضرورت ہے،تاکہ تیل کی کھپت کو کم کیا جا سکے۔اس کے لیے پیٹرول پر ٹیکس کی شرح بڑھانی ہو گی تاکہ عوام متبادل ذرائع کا استعمال بڑھائیں۔
کچھ ترقیاتی اخرجات ایسے ہوتے ہیں جو طویل عرصے بعد نتائج دیتے ہیں،جیسے کہ ریسرچ کا شعبہ،اگر حکومت ریسرچ کے شعبے کے لیے مختص رقم میں اضافہ کر دے تو اس کے نتیجے کی صورت میں ۲۰۳۵ ء تک ملک میں تیل کی کھپت میں پچاس فیصد تک کمی ممکن ہو سکے گی۔اس لیے حکومت اگرآئندہ دن پندرہ سالوں میں ۱۰۰ سے ۲۰۰؍ارب ڈالر ریسرچ جیسے شعبہ جات پر خرچ کرتی ہے،جو کہ تقریباً دس ارب ڈالر سالا نہ بنتے ہیں،تو خلیج فارس کے دفاع پر آنے والے ۷۵ ارب ڈالر سالانہ اخراجات سے بچا جا سکتا ہے۔
اس کے علاوہ امریکا تیل کی سپلائی میں کسی رکاوٹ کے معیشت پر اثرات کم کرنے کے لیے مختلف اقدامات کر سکتا ہے۔ SPRمیں اضافہ کے علاوہ IEAپر دباؤ ڈالا جائے کہ وہ بھی اپنے ذخائر میں خاطر خواہ اضافہ کرے۔کیوں کہ ایسا نہ کرنے کی صورت میں کسی بحران کے موقع پر امریکا کو اکیلے بوجھ برداشت کرنا پڑے گا۔اس کے ساتھ ساتھ واشنگٹن کو خلیجی ممالک پر بھی دباؤ بڑھانا ہو گا کہ وہ آبنائے ہرمز پر اپنا انحصا ر کم کریں اور تیل کی پائپ لائن،جو کہ آبنائے ہرمز سے گزرتی ہیں ان کی استعداد بڑھائیں۔اور یہ کام وہ آسانی سے کر بھی سکتے ہیں۔
ایک دور کا اختتام:
امریکی فوج کی خلیج فارس میں موجودگی کے فوائدو نقصانات کا جائزہ لینے کے بعد انداز ہ ہوتا ہے کہ حالیہ حکمت عملی کلی طور پر غلط نہیں ہے۔اکثر ہمیں کم خطرات سے نمٹنے کے لیے بھاری اخراجات کرنے پڑتے ہیں۔لیکن اب عقل یہی کہتی ہے کہ اس وابستگی کا خاتمہ ہو نا چاہیے۔قومی سلامتی کے تناظر میں دیکھا جائے تو اب خلیج فارس سے آنے والے تعطل پرکسی بڑے نقصان کا خدشہ نہیں ہے۔معاشی طور پر بھی ملک اب تیل کی سپلائی میں آنے والی کسی بھی رکاوٹ کو برداشت کر سکتا ہے اور آئندہ اس تیل پر انحصار مزید کم ہی ہو گا۔
موجودہ حالات میں امریکا کو خلیج فار س میں اپنی موجودگی برقرار رکھنی ہو گی،لیکن اسے اپنے آپ کو ایسی پوزیشن پر لانا ہو گا کہ کسی بھی وقت وہ اس وابستگی کو ختم کر سکے۔ آنے والے دو عشروں میں تیل کے حوالے سے خود انحصاری حاصل کرنے کے لیے مزید سرمایہ کاری کرنی ہوگی، جیسا کہ ملکی ذخائر میں اضافہ، توانائی کا بہتر استعمال اور آبنائے ہرمز سے گزرنے والی تیل کی پائپ لائنوں کی استعداد میں اضافہ، ان اقدامات سے ملک جلد خود انحصاری حاصل کر لے گا۔
تیل کے معاملے میں خود انحصاری کے بعد امریکا کو خلیج میں اپنی وابستگی وہاں موجود خطرات کو سامنے رکھ کر برقرار رکھنی ہو گی۔ ان خطرات میں سب سے نمایاں ایران ہے۔ ایران سے ایٹمی معاہدے کے بعد اس بات کا قوی امکان ہے کہ اس سے وابستہ خطرات بھی کم ہوتے چلے جائیں گے۔ تیل کی درآمد سے پابندی ہٹنے کے بعد ایرن شاید ہی کبھی خلیج فارس میں کسی گڑبڑ کا سوچے۔ کیوں کہ ایسا کرنے سے اس کو بہت بڑی آمدنی سے ہاتھ دھونے پڑیں گے۔ اس طرح جب ایران سے خطرات بھی نہ ہو نے کے برابر رہ جائیں گے اور امریکا تیل پر خود انحصاری حاصل کرلے گا تو اس کو تیل کی سپلائی لائن کی حفاظت کی ذمہ داری سے جان چھڑا لینی چاہیے۔ لیکن اگر ایران جارحیت پر اترتا ہے تو پھر امریکا کو مشکل حالات کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔
ایک طرف تو امریکا خلیج سے اپنی فوجی وابستگی کا خاتمہ کر سکتا ہے، جس سے اس کے اخراجات میں نمایاں کمی ہو گی اور تر جیحات بدل جائیں گی۔دوسری طرف اگر امریکا اپنی فوجی وابستگی برقرار رکھتا ہے، تواسے اپنے دفاعی بجٹ کا بڑا حصہ اس مد میں خرچ کرنا پڑے گا۔ بہرحال یہ فیصلہ تو امریکا کی خلیج فارس میں فوجی ترجیحات کی بنیاد پر ہوگا، جن میں جوہری پھیلاؤ سب سے اہم ہے۔
حیرت انگیز بات یہ ہے کہ فیصلہ سازوں نے دہائیوں سے خلیج میں فوج کی موجودگی پر کبھی سوال ہی نہیں اٹھایا۔ باوجود اس کے کہ خلیج میں فوج کی ضرورت پہلے جیسی نہیں رہی۔ اس معاملے پر نظرثانی نہ کرنا اور اس کے متبادل پر سرمایہ کاری نہ کرنا ایک بہت بڑی غلطی ہے۔ اس غلطی کے نتیجے میں جہاں امریکا کو اربوں ڈالر کا نقصان ہو رہا ہے وہیں اپنی فوج کو غیر ضروری جنگ میں بھی الجھایا ہوا ہے۔
(ترجمہ: حافظ نوید نون)
“Getting out of the Gulf”.(“Foreign Affairs”. January/February 2017)
ایک بہت اچھا اور متوازن تجزیہ