گلگت اور بلتستان کے پہلے پارلیمانی انتخابات میں قوم پرست جماعتوں نے بھی بڑھ چڑھ کر حصہ لیا۔ گلگت بلتستان ایمپاورمنٹ اینڈ سیلف گورننس آرڈر ۲۰۰۹ء کے تحت منعقد کیے جانے والے انتخابات میں قوم پرست جماعتوں کے پاس بنیادی نعرہ آزادی اور خود مختاری کا تھا۔ بالاورستان نیشنل فرنٹ (بی این ایف) اور قراقرم نیشنل موومنٹ (کے این ایم) نے مل کر گلگت بلتستان ڈیموکریٹک الائنس (جی بی ڈی اے) تشکیل دیا اور ۱۰ ؍امیدوار کھڑے کیے۔ بالاورستان نیشنل فرنٹ (ناجی گروپ) نے ۴ ؍امیدوار میدان میں اتارے۔ گلگت بلتستان یونائٹیڈ موومنٹ کا ایک امیدوار میدان میں تھا اور ایک قوم پرست امیدوار آزاد حیثیت میں کھڑا ہوا تھا۔
بی این ایف ناجی گروپ کے سربراہ نواز خان ناجی کا کہنا ہے ’’ہم پاکستانی ہیں نہ کشمیری۔ جب کشمیر کا مسئلہ حل ہو جائے گا تب یہ طے کرنا باقی رہ جائے گا کہ ہم پاکستان سے الحاق کریں گے یا آزاد مملکت تشکیل دیں گے۔ بالاورستان چترال سے لداخ تک پھیلا ہوا علاقہ ہے۔ اس کا رقبہ موجودہ اعلان کردہ رقبے سے کہیں زیادہ ہے۔ جب تک کشمیر کا مسئلہ حل نہیں ہو جاتا اور ہماری حتمی حیثیت کا تعین نہیں کردیا جاتا تب تک ہم پاکستان میں خود مختار حیثیت کے ساتھ رہنے کے لیے تیار ہیں۔ہمیں آزادی ملنی چاہیے۔ ہم چاہتے ہیں کہ ہمارا صدر اور وزیر اعظم ہو۔‘‘
گلگت بلتستان میں قوم پرستوں کے اثرات نمایاں نہیں ہیں۔ ایسا لگتا ہے کہ عوام نے ان کے ایجنڈے کو اب تک قابل غور نہیں سمجھا ہے اور ان کے وژن پر یقین کرنے کے لیے تیار نہیں ہیں۔ ایک بھی قوم پرست امیدوار انتخابات میں کامیاب نہ ہوسکا۔ گلگت بلتستان میں ۷ لاکھ، ۱۷ ؍ہزار سے زیادہ رجسٹرڈ ووٹر ہیں جن میں صرف ۸ ہزار نے قوم پرستوں کو ووٹ دینے کی زحمت گوارا کی۔ یہ تناسب نہ ہونے کے برابر ہے مگر قوم پرست خوش ہیں کہ ان کی بات سننے اور سمجھنے والے بہر حال موجود ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ کم وسائل کے ساتھ انہوں نے پہلی مرتبہ انتخابات میں حصہ لیا ہے۔ ایسے میں ۸ ہزار ووٹوں کا ملنا بھی کم خوشی کی بات نہیں۔ کے این ایم کے کارکن شاہ زمان نے بتایا ہے کہ خفیہ اداروں نے قوم پرستوں کو انتخابات سے دور رکھنے کی کوشش کی۔ وہ کہتا ہے ’’ہمیں انتخابی مہم چلانے سے بھی روکا گیا۔ جی بی ڈی اے کے ۴۲ رہنما اور کارکن گرفتار کرلئے گئے اور انتخابات سے صرف ایک دن قبل قوم پرستوں سے کہا گیا کہ وہ علاقے سے نکل جائیں۔ ایسے ماحول میں کوئی کس طرح پوری آزادی اور لگن سے انتخاب لڑ سکتا تھا؟‘‘
جی بی ڈی اے کے ۵ ؍امیدواروں نے انتخابات کا بائیکاٹ کیا تاہم تب تک نام واپس لینے کی مدت گزر چکی تھی اس لیے ان کے نام بیلٹ پیپرز پر موجود تھے۔ قوم پرستوں کو اگر انتخابات میں شکست ہوئی ہے تو اس میں قصور صرف حکومت یا خفیہ اداروں کا نہیں کیونکہ خود گلگت بلتستان کے عوام بھی اس وقت قوم پرستوں کی بات سننے کے موڈ میں نہیں۔ بی این ایف ناجی گروپ کے رہنما یوسف علی ناشاد کہتے ہیں ’’عوام بہت سی دوسری چیزوں میں الجھے ہوئے ہیں۔ ان کے آپس کے اختلافات اس قدر ہیں کہ ان کا ذہن اب تک قوم پرستی کی طرف گیا نہیں۔ قوم پرستانہ جذبات کے پنپنے کی فی الحال کوئی گنجائش نہیں۔ لوگ فرقہ وارانہ، برادری اور نسلی بنیادوں پر منقسم ہیں۔‘‘
نواز خان ناجی کہتے ہیں ’’لوگوں کو قوم پرستی کی طرف لانے کے لیے چند ایک عوامل کا ہونا ناگزیر ہے۔ معاشی نظام اگر استحصال کر رہا ہو تو لوگوں کو قوم پرستی کی جانب لایا جاسکتا ہے۔ اس وقت ایسی کوئی صورت حال نہیں۔ صنعتی ماحول یا جاگیر دارانہ نظام موجود ہو اور عوام کو مشکلات سے دوچار کر رہا ہو تو وہ نظام کی تبدیلی کے لیے قوم پرستوں کی طرف دیکھتے ہیں۔ دنیا بھر میں انقلابی نوعیت کی تبدیلیاں اسی طور رونما ہوتی رہی ہیں۔ گلگت بلتستان ایمپاورمنٹ اینڈ سیلف گورننس آرڈر ہی قوم پرستوں کے پنپنے کی بنیاد بنے گا۔ علاقے کے آبی اور قدرتی وسائل اور سیاحت پر وفاقی حکومت نے اپنا کنٹرول قائم کرلیا ہے۔ عوام اس چیز کا جب ادراک کرلیں گے تو برداشت نہیں کریں گے۔ ہمیں اس وقت کا انتظار کرنا ہے جب عوام اپنے حقوق کی جدوجہد کے لیے تیار ہوں۔‘‘
ایم کیو ایم۔ نئے طریق کار کے ساتھ:
متحدہ قومی موومنٹ نے بھی گلگت بلتستان کے انتخابات میں حصہ لیا۔ ایم کیو ایم متوسط طبقے کی بات کرتی آئی ہے۔ وڈیروں، سرداروں، چوہدریوں اور جاگیر داروں کے خلاف آواز بلند کرنا اس کی سیاست کا وتیرہ رہا ہے۔ مگر گلگت بلتستان کے خطے میں ایم کیو ایم نے اپنا طریق بدل ڈالا۔ سندھ کے شہری علاقوں میں ایم کیو ایم متوسط طبقے سے تعلق رکھنے والوں کو ٹکٹ دیتی ہے مگر گلگت بلتستان میں مالدار گھرانوں کو نوازا گیا۔ اسکردو میں راجہ فیملی کے ۲ ؍افراد کو اور استور میں ایک فرد کو ٹکٹ دیا گیا۔ شاہ زمان نے بتایا کہ کیپٹن (ر) ہادی حسین، کامل جان اور شاہ بیگ کسی بھی اعتبار سے زیریں متوسط یا متوسط طبقے میں شمار نہیں کیے جاسکتے۔ ان کا شمار انتہائی مالدار اور بااثر افراد میں ہوتا ہے۔
گلگت بلتستان میں ایم کیو ایم نے فرقہ واریت کا بھی سہارا لیا۔ کراچی سے حیدر عباس رضوی کو بھیجا گیا جنہوں نے اسکردو کا دورہ کیا جہاں شیعہ اکثریت ہے۔ وہ چیلاس نہیں گئے جہاں سنیوں کی اکثریت ہے۔ ایم کیو ایم کو ووٹ اس لیے بھی ملے کہ لوگ فرقہ واریت سے تنگ ہیں اور چاہتے ہیں کہ متوسط طبقہ سیاست میں سرگرم ہو۔ ایم کیو ایم نے بہرحال ان کے دل کی بات کہی تھی اور یہ بات کچھ اثر بھی کرگئی۔ ایک مقامی ووٹر محمد الیاس کا کہنا ہے کہ کسی بھی جماعت نے اب تک گلگت بلتستان سے فرقہ واریت ختم کرنے کی بات نہیں کی ہے۔ ایم کیو ایم نے یہ بات کہی تو لوگوں نے سوچا آزمانے میں کیا ہرج ہے۔
ایم کیو ایم نے کراچی میں آباد گلگتی اور بلتستانی باشندوں کو بھی کنویسنگ کے لیے استعمال کیا۔ ۲۵۰ لڑکوں اور ۸۰ لڑکیوں کو کراچی سے بھیجا گیا تاکہ وہ بہتر طریقے سے ووٹر تک ایم کیو ایم کا پیغام پہنچا سکیں۔ متحدہ کے امیدوار الطاف حسین میر کا کہنا ہے کہ یہ لوگ در در گئے اور لوگوں کو راضی کیا کہ وہ ایم کیو ایم کو ووٹ دیں۔
گلگت کے باشندے زبیر حسین نے بتایا کہ کراچی میں ایم کیو ایم کی اکثریت والے علاقوں میں ہزاروں گلگتی اور بلتستانی گھرانے آباد ہیں۔ ان کے بچے کراچی ہی میں تعلیم پانے کے بعد روزگار بھی حاصل کر رہے ہیں۔ اپنے آبائی علاقوں میں جاکر کنویسنگ کرنا ان کے لیے ایک اعتبار سے اخلاقی فرض کا سا معاملہ تھا۔
(بحوالہ: ماہنامہ ’’ہیرالڈ‘‘۔ دسمبر ۲۰۰۹ء)
Leave a Reply