امریکی ہفت روزہ ٹائم نے ۲۶ دسمبر ۲۰۱۱ء کے شمارے میں اپنے سر ورق پر ایک نقاب پوش خاتون کی تصویر شائع کی ہے جو احتجاج کی علامت کے طور پر سال کی شخصیت کی حیثیت سے منتخب کی گئی ہے۔ اسکارف کے ساتھ شائع کی جانے والی تصویر مرد اور عورت دونوں کی نمائندگی کرتی ہے۔ مشرقی وسطیٰ اور دیگر خطوں میں حقیقی سیاسی اور معاشی تبدیلیوں کے لیے جو بھرپور احتجاجی تحریک چلائی جارہی ہے اسے نمایاں کرنے کرنے کے لیے سال کی شخصیت کے طور پر ایک احتجاجی چہرہ منتخب کیا گیا ہے۔ ٹائم کے مینیجنگ ایڈیٹر رک اسٹینگل نے این بی سی ٹی وی سے گفتگو میں کہا کہ دنیا بھر میں جو احتجاجی تحریک چلائی جارہی ہے اس کے شرکاء تاریخ کے دھارے کا رخ تبدیل کرچکے ہیں اور مزید تبدیل کریں گے۔
دو سال قبل ایران میں بھی احتجاج کی ایک لہر اٹھی تھی۔ اس لہر سے دنیا کو اندازہ ہوگیا تھا کہ اب کیا ہونے والا ہے اور پھر عرب دنیا میں عوامی بیداری کی لہر اٹھی اور اس کا دائرہ وسعت اختیار کرتے کرتے نیو یارک، آکلینڈ، ایتھنز اور میڈرڈ پر بھی محیط ہوگیا۔ رک اسٹینگل کہتے ہیں کہ عالمگیر احتجاجی تحریک کو ٹیکنالوجی نے غیر معمولی وسعت اور اہمیت عطاء کی ہے۔ احتجاج کرنے والوں نے انفارمیشن ٹیکنالوجی کا بھرپور فائدہ اٹھایا ہے۔ سوشل نیٹ ورکنگ کی ویب سائٹس کے ذریعے یہ ایک دوسرے سے جڑ جاتے ہیں اور طے شدہ طریقے سے احتجاج کے لیے میدان میں نکلتے ہیں۔ ایک احتجاجی چہرے کو سال کی شخصیت منتخب کرنا منفرد بات ہے۔ اب تک تو مشہور یا بدنام شخصیات ہی کو نمایاں حیثیت دی جاتی رہی ہے۔ ۱۹۳۸ء میں ہٹلر، ۱۹۴۳ء میں جوزف اسٹالن اور ۱۹۷۹ء میں خمینی کو منتخب کیا گیا تھا۔
۲۰۱۱ء میں اچانک عوامی بیداری کی لہر اٹھی اور دنیا بھر میں لوگ حقیقی تبدیلیوں کو یقینی بنانے کے لیے گھروں سے نکل آئے۔ عرب دنیا سے عوامی بیداری کی لہر کا آغاز ہوا۔ عشروں کے جمود کے بعد لوگوں نے سوچ لیا کہ اب حقیقی تبدیلیوں کے لیے میدان میں آکر رہیں گے تاکہ زندگی کا معیار بلند کرنے کی راہ کچھ تو ہموار ہو۔ اب دنیا بھر میں تبدیلی کی ضرورت پوری شدت سے محسوس کی جارہی ہے۔ یہ احتجاجی تحریک ایسی تبدیلیوں کے لیے ہے جن کے نتیجے میں سبھی کچھ بدل جائے اور عوام کو کچھ ملے۔
قاہرہ سے واشنگٹن تک ہر مقام پر لوگ اب حقیقی تبدیلیوں کے بارے میں سوچنے لگے ہیں۔ سیاسی، معاشی اور معاشرتی تبدیلیوں کی خواہش رکھنے والے متحرک ہیں۔ عرب دنیا میں سیاسی تبدیلیوں کی ضرورت زیادہ محسوس کی جارہی ہے۔ مغربی اور بالخصوص یورپی ممالک میں مالیاتی نظم و نسق کو بہتر بنانے کی خواہش لوگوں کے دلوں میں انگڑائیاں لے رہی ہے۔ انہیں معلوم ہے کہ مالیات کا شعبہ کنٹرول کرلیے جانے سے بہت سے مسائل خود بخود حل ہو جائیں گے۔ کل تک جن کی آواز سننے پر کوئی توجہ نہیں دے رہا تھا اب ان کی آواز سنی جارہی ہے۔ پوری معیشت کا بوجھ ۹۹ فیصد افراد اٹھائیں اور صرف ایک فیصد طبقہ مزے لوٹے، اس صورتحال کو برداشت کرنے کے لیے لوگ تیار نہیں۔ حکومتیں عوام کی آواز پر کان دھر رہی ہیں اور رابن ہڈ ٹیکس لگانے کی باتیں بھی ہو رہی ہیں۔ بڑے سودوں پر زیادہ ٹیکس لگاکر بہبودِ عامہ یقینی بنانے کا سوچا جارہا ہے۔ ایک طرف استحصالی طبقہ ہے اور دوسری طرف وہ لوگ ہیں جو عشروں سے استحصال کا شکار ہوتے آئے ہیں۔ اگر مراعات یافتہ طبقے کی جیب سے کچھ نکالنا ممکن نہ بھی ہو تو اس بات کو تو یقینی بنالیا گیا ہے کہ ان کی جیب میں مزید کچھ نہ جائے۔
دنیا بھر میں حالات کی چکی میں پسنے والے لوگ اب سوشل میڈیا کے ذریعے منظم اور متحد ہو رہے ہیں۔ انہوں نے ایک دوسرے سے بہت کچھ سیکھا ہے اور سیکھ رہے ہیں۔ سیاسی جماعتوں کو ایک طرف ہٹاکر اب حقیقی سیاسی تبدیلیوں کی خواہش رکھنے والے کارکن میدان میں نکلے ہیں۔ وہ اپنی بہبود کے خواب کو شرمندہ تعبیر کرنا چاہتے ہیں۔ استحصالی نظام کے خلاف احتجاج ہر قسم کی سیاسی وابستگی سے بالا ہوکر کیا جارہا ہے۔
اب سوال یہ ہے کہ دنیا بھر میں تبدیلی کے لیے لوگ گھروں سے نکلے ہیں اور احتجاج کیا جارہا ہے تو ہم، بنگلہ دیش کے لوگ، کہاں کھڑے ہیں؟ ہمارے پڑوس میں یعنی بھارت کے لوگ بھی اب تبدیلی کی خواہش کا برملا اظہار کرنے لگے ہیں۔ کلکتہ میں احتجاج ہوا ہے اور لوگوں نے حکومت سے مطالبہ کیا ہے کہ استحصالی قوتوں کو لگام دی جائے۔ گاندھی جی کے نظریات سے متاثر ہوکر تبدیلی کی بات کرنے والے چاہتے ہیں کہ ہر قسم کی ترقی پر بہبودِ عامہ کو ترجیح دی جائے۔ اس معاملے میں پارٹی پالیسی کو نظر انداز کرنے کی روش بھی عام ہے۔ کسی حقیقی تبدیلی کے لیے میدان میں نکلنے والے سیاسی کارکن بھول جاتے ہیں کہ ان کی پارٹی کی سوچ کیا ہے۔ یہ لوگ معاشرے میں تحرک چاہتے ہیں تاکہ ہر اعتبار سے مکمل اور حقیقی تبدیلی رونما ہو۔
دوسرے بہت سے پس ماندہ ممالک کی طرح بنگلہ دیش میں بھی ۹۹ فیصد لوگ شدید مشکلات سے دوچار ہیں۔ ان کے مسائل حل ہونے کا نام ہی نہیں لیتے۔ ملک کے متوسط طبقے کو دو بڑی سیاسی جماعتوں نے اپنے حصار میں لے رکھا ہے۔ یہ دونوں جماعتیں معاملات کو جوں کا توں چلانے پر یقین رکھتی ہیں۔ نوجوانوں کا مسئلہ یہ ہے کہ انہیں مختلف طریقوں سے گمراہ کردیا گیا ہے اور اس وقت وہ کوئی بھی آزاد فیصلہ کرنے کی پوزیشن میں نہیں۔ انہیں کچھ اندازہ ہی نہیں کہ اب انہیں کیا کرنا ہے۔ میڈیا کے ذریعے اور دیگر طریقوں سے ان کی آنکھوں میں دھول جھونکی جارہی ہے۔ عوامی خدمات کے شعبے شدید زبوں حالی کا شکار ہیں۔ صورت حال اس قدر پریشان کن ہے کہ لوگ اب احتجاج پر مجبور ہیں مگر ایک بنیادی مسئلہ یہ ہے کہ احتجاج منظم نہیں ہونے پاتا۔ کوئی سننے والا نہیں۔ دونوں بڑی جماعتوں نے محاذ آرائی کی سیاست کو رول ماڈل کے طور پر اپنالیا ہے۔ اقتدار کا حصول اور اسے برقرار رکھنا ہی سب سے بڑا مقصد ہوکر رہ گیا ہے۔ سچ تو یہ ہے کہ سیاسی اور معاشی بحران خطرناک حد تک پنپ چکا ہے اور اب ملک عملاً بارود کے ڈھیر پر کھڑا ہے۔ بنگلہ دیش میں کیا چل رہا ہے اس کا اندازہ لگانے کے لیے برطانیہ کے آن لائن جرنل ’’دی مانیٹر‘‘ میں ماہین خان کی تحریر ملاحظہ فرمایے۔
’’ایسا لگتا ہے کہ عوامی لیگ کو وقتاً فوقتاً غیر ضروری رکاوٹیں کھڑی کرنے کا شوق ہے۔ یکے بعد دیگرے کئی مشکل فیصلے کیے جاتے رہے ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ عوامی لیگ کی حکومت نے ملک کو خطرناک حد تک تقسیم کردیا ہے۔ جو کچھ بنگلہ دیش میں ہو رہا ہے اب اس کی گونج بیرون ملک بھی سنی جارہی ہے۔ پارلیمنٹ میں عوامی لیگ کو خطرناک حد تک (۸۷ فیصد) اکثریت حاصل ہے۔ دارالحکومت ڈھاکہ کو شمالی اور جنوبی حصوں میں تقسیم کرنے کا بل چند ہی منٹوں میں منظور کرلیا گیا‘‘۔
’’بنگلہ دیش میں پندرہ سال سے نگراں حکومتوں کا نظام قائم تھا جس کا بنیادی مقصد شفاف انتخابات کو یقینی بنانا تھا مگر عوامی لیگ نے اسے ختم کردیا۔ عوامی لیگ کا دعوٰی ہے کہ اس اقدام سے جمہوریت مستحکم ہوگی مگر عوام کا خیال ہے کہ عوامی لیگ نے یہ اقدام صرف اپنی حکومت کو مستحکم رکھنے کے لیے کیا ہے‘‘۔
’’عوامی لیگ نے کئی غلط فیصلے یکے بعد دیگرے کیے ہیں۔ جنگی جرائم سے متعلق ٹربیونل کے قیام کا فیصلہ بھی ان میں سے ایک ہے۔ یہ غلط سمت میں اٹھایا جانے والا قدم قرار دیا جارہا ہے۔ جنگی جرائم سے متعلق امریکی سفیرر اسٹیفن جے ریپ کا کہنا ہے کہ ان کی سفارشات پر عمل نہیں کیا گیا۔ جنگی جرائم کے ٹربیونل کی کارروائی کے حوالے ہی سے ایک مضحکہ خیز بات یہ سامنے آئی ہے کہ ۱۹۷۱ء میں بنگلہ دیش کے قیام کی تحریک میں مرکزی کردار ادا کرنے والے عوامی لیگ کے رکن پارلیمنٹ شوکت مومن شاہ جہاں نے اس تحریک میں خاصا بے باک کردار ادا کرنے پر گیلنٹری ایوارڈ حاصل کرنے والے واحد سویلین قادر صدیقی عرف باگھ (شیر) صدیقی کے خلاف جنگی جرائم کے ٹربیونل میں مقدمہ چلانے کا مطالبہ کیا ہے‘‘۔
’’سیاسی انتقام کی روایت نے بنگلہ دیش کو شدید نقصان پہنچایا ہے مگر اس کے باوجود کوئی بھی سیاسی لیڈر کچھ سیکھنے کے لیے تیار نہیں۔ جنگی جرائم کے مقدمات اور سیاسی مخالفین کو نشانہ بنانے کی کوشش کے سوا کچھ نہیں کیا جارہا۔ اور اس اقدام کے ذریعے عوامی لیگ تاریخ کو دہرانے کی سنگین غلطی کر رہی ہے۔ اگر عوامی لیگ کی حکومت چاہے تو ایسے اقدامات کرسکتی ہے جو پارٹی اور ملک کے لیے بہتر ثابت ہوں مگر فی الحال تو وہ صرف تباہی کے راستے پر گامزن دکھائی دیتی ہے‘‘۔
(بشکریہ: ہفت روزہ ’’ہالیڈے‘‘ بنگلہ دیش۔ ۱۶ ؍دسمبر ۲۰۱۱ء)
Leave a Reply