مارچ میں شروع ہونے والی حکومت مخالف تحریک نے اب پورے شام کو اپنی لپیٹ میں لے لیا ہے۔ حکومتی ترجمان کا دعویٰ ہے کہ یہ سارا فساد اخوانیوں کا پھیلایا ہوا ہے، جنہیں کرد انصار المسلمین کی حمایت حاصل ہے۔ برطانوی لہجے میں شستہ انگریزی بولنے والی معمر مگر حسین و جمیل بوثینہ شعبان کا کہنا ہے کہ شامی عوام کے خلاف اخوان المسلمون اور کرد انتہا پسندوں نے اتحاد کر لیا ہے، جسے صہیونی سامراج کی حمایت حاصل ہے اور یہ ’’منحوس مثلث‘‘ شام کو بنیاد پرستی کے گڑھے میں گرانا چاہتی ہے۔
ان کا کہنا ہے کہ درعا کے راستے اردن سے القاعدہ اور اخوان کے دہشت گرد ملک میں داخل ہو رہے ہیں جبکہ ترک سرحد پر واقع شہروں الحسکہ اور القامثلی سے انصار المسلمین شرپسندوں کو اسلحہ پہنچا رہی ہے۔ بعض سرکاری اہلکار ترک حکومت پر کرد انتہا پسندوں کی حمایت کا الزام لگا رہے ہیں۔ اس تحریک کا آغاز اس وقت ہوا جب جنوب میں واقع سرحدی شہر درعا میں طلبہ نے اسکول کی دیواروں پر اللہ، شام اور آزادی کے نعرے لکھ دیے۔
برسوں کی آمریت اور گھٹن کے ماحول میں یہ شامی عوام کے لیے تازہ ہوا کا جھونکا تھا۔ لیکن بشار الاسد کی حکومت نے اسے کھلاغدر قرار دیا اور طلبہ کی اس تحریک کو سختی سے کچل دیا گیا۔ اس ہنگامۂ داروگیر نے عوام کو مشتعل کر دیا اور پورا درعا شہر سڑکوں پر نکل آیا۔ حسبِ توقع حکومت نے عوامی مظاہرے کے خلاف طاقت کا بھرپور استعمال کیا اور یہ چھوٹا سا شہر خون سے سرخ ہوگیا۔ درعا کے شہریوں نے مظاہروں کا سلسلہ جاری رکھا اور ان سے اظہارِ یکجہتی کے لیے حمص، حلب، الاذقیہ (لطاکیہ) اور دمشق کے شہری بھی سڑکوں پرنکل آئے۔ دارالحکومت دمشق کے شمال میں واقع حماہ، حلب اور حمص کے شہر اخوان کے گڑھ سمجھے جاتے ہیں۔
فروری ۱۹۸۲ء میں بشار الاسد کے والد حافظ الاسد حماہ میں ایک خونریز فوجی آپریشن کر چکے ہیں، جس میں ایک لاکھ سے زیادہ لوگوں کو قتل کیا گیا۔ اپنے والد کے نقش قدم پر چلتے ہوئے صدر بشارالاسد نے بھی ایسا ہی آپریشن درعا میں کیا اور ان کے بھائی ماہر الاسد کی قیادت میں شہر کا محاصرہ کر لیا گیا۔ ٹینکوں اور بھاری توپ خانے سے مسلح شامی فوج نہتے شہریوں پر ٹوٹ پڑی۔ تین ہفتے کے اس آپریشن میں دوسو سے زیادہ افراد ہلاک ہوئے اور تاریخی جامع مسجد عمر بن خطاب المعروف عمری مسجد کو شدید نقصان پہنچا۔ یہ مسجد حالیہ تحریک کا مرکز ہے۔
درعا کے ساتھ ہی بحرروم کے ساحلی شہر بنی یاس کو بھی فوج کے حوالے کر دیا گیا۔ بنی یاس ایک صنعتی شہر ہے اور یہاں شام کی سب سے بڑی آئل ریفائنری واقع ہے۔ بنی یاس کی خواتین ان مظاہروں میں آگے آگے تھیں۔ اس شہر کو کنٹرول کرنے کے لیے صدر بشارالاسد کے بہنوئی جنرل آصف شوکت بنفسِ نفیس تشریف لائے۔ جنرل شوکت شامی افواج کے ڈپٹی چیف آف اسٹاف ہیں۔ فوج نے شہر میں داخل ہوتے ہی خواتین کے ایک بڑے جلوس کو گھیر لیا اور عینی شاہدین کے مطابق خواتین پر مشین گنوں سے گولیاں برسائی گئیں۔ جبکہ بحیرہ روم میں لنگرانداز جنگی جہازوں نے بھی گولے داغے۔ اسی دوران حلب اور حمص کے شہروں میں صورتحال قابو سے باہر ہوئی۔ جنرل آصف بنی یاس کی کمان اپنی اہلیہ بشریٰ کے حوالے کر کے حمص روانہ ہوئے۔ صدر بشار الاسد کی ہمشیرہ ڈاکٹر بشریٰ الاسد شامی فوج کے میڈیکل کور کی کرنل ہیں۔
بنی یاس کی ۷۰ فیصد آبادی سنیوں پر مشتمل ہے جبکہ شام کے حکمران طبقے کا تعلق نصیری مکتبہ فکر سے ہے۔ بدقسمتی سے فوج کے کچھ اوباش افسران نے گرفتار خواتین سے زیادتی کی کوشش کی، جس پر شہر میں شدید اشتعال پھیلا۔ حسن اتفاق کہ شام کی خاتون اول اسماء الاسد کا تعلق بھی بنی یاس کے ایک دیندار سنی گھرانے سے ہے۔ چنانچہ علاقے کی خواتین نے اسماء سے ان کی نند بشریٰ کے متعصب رویے کی شکایت کی۔ کہا جاتا ہے کہ نند و بھاوج میں پہلے ہی سے کچھ رنجشیں تھیں اور اسماء نے اپنے شوہر پر دبائو ڈال کر بنی یاس کا آپریشن رکوا دیا۔
تیرہ مئی کی شب صوبہ حمص کے شہر تلکلح میں خونی آپریشن کا آغاز کیا گیا۔ ایک لاکھ آبادی والا یہ شہر لبنان کی سرحد پر واقع ہے۔ تلکلح کی آبادی کا بڑا حصہ سنیوں پر مشتمل ہے، جبکہ اس سے ملحقہ دیہاتوں میں نصیریوں کی اکثریت ہے۔ یہاں بارہ مئی کو مظاہرین سے تصادم میں ایک شامی سپاہی ہلاک ہوگیا۔ اتفاق سے جاں بحق ہونے والا یہ سپاہی نصیری تھا۔ ایک کھلے فوجی ٹرک پر اس کی لاش مضافات کی نصیری بستیوں میں گھمائی گئی۔ مقتول کے جسم سے خون رس رہا تھا۔ ٹرک پر نصب لائوڈ اسپیکروں سے اعلان کیا گیا کہ اس نوجوان کو اخوانی سلفیوں نے قتل کردیا ہے اور ان کا ایک جتھہ نصیری آبادیوں پر حملہ کرنے کو پر تول رہا ہے۔ سازشی فوجی افسران نے اس موقع پر انتہائی اشتعال انگیز تقریریں کیں۔ نتیجے کے طور پر نصیریوں کا ایک مسلح جلوس تلکلح پر چڑھ دوڑا۔ حزب اختلاف کا کہنا ہے کہ حملہ آور شامی سپاہی تھے۔ بہرحال مشین گنوں سے اندھا دھند فائرنگ کی گئی جبکہ ٹینکوں اور توپ خانے کا استعمال بھی ہوا۔ اس علاقے سے ہزاروں افراد لبنان کے علاقے عکار میں چلے آئے۔ ان عینی شاہدین کا کہنا ہے کہ گلیوں میں لاشیں سڑ رہی ہیں اور شہر میں تعفن پھیلا ہوا ہے۔ حکومت نے عادی مجرموں اور پیشہ ور قاتلوں کو مسلح کرکے ’’حزب الاسد ملیشیا‘‘ تشکیل دی ہے۔ سر تا پیر سیاہ لباس اور بازوئوں پر سرخ پٹی باندھے یہ خونخوار مسلح افراد لوگوں کا قتل عام کر رہے ہیں۔
بدترین تشدد کے نتیجے میں مارچ سے اب تک ایک ہزار سے زیادہ افراد ہلاک ہو چکے ہیں۔ گولیوں کی برسات کے باوجود مظاہرے جاری ہیں۔ اللہ، السوریہ (شام) اور آزادی کے نعروں کے ساتھ ’’ارحل یا بشار‘‘ کا مطالبہ بھی اب زبان زدِ عام ہوگیا ہے۔ شامی حکومت کی ترجمان بوثینہ شعبان نے حزب اختلاف کو مذاکرات کی دعوت دی ہے۔ بوثینہ کاکہنا ہے کہ صدر بشارالاسد نے قانون نافذ کرنے والے اداروں کو فائرنگ نہ کرنے کا حکم دے دیا ہے۔اس کے ساتھ ہی مظاہروں پر سے پابندی کا خاتمہ اور تمام گرفتار افراد کی رہائی کے احکامات بھی جاری کر دیے گئے ہیں۔ حزب اختلاف مذاکرات کی اس دعوت کو دام ہم رنگ زمیں سمجھ رہی ہے، جس کا مقصد تمام قائدین کی بیک وقت گرفتاری ہے۔
حکومت مخالفین کا کہنا ہے کہ صدر بشارالاسد استعفیٰ دے کر اقتدار عدلیہ کے حوالے کر دیں۔ خفیہ پولیس کو تحلیل اور حزب الاسد ملیشیا کو غیر مسلح کیا جائے۔ عدالت عظمیٰ فوج کے نئے سربراہ کا تقرر کرے اور آزادانہ منصفانہ انتخابات منعقد کیے جائیں۔ ان واضح اقدامات سے پہلے حزب اختلاف مذاکرات کی میز پر آنے کو تیار نہیں۔ بظاہر شامی فوج صدر بشارالاسد کی انتہائی وفادار نظر آرہی ہے اور اسی بناء پر صدر طاقت کے استعمال میں کسی رعایت سے کام نہیں لے رہے۔ مظاہرین کے خلاف ٹینک اور توپ خانہ استعمال ہو رہا ہے۔ ایک لاکھ سے زیادہ افراد گرفتار ہیں اور ملک کے اسپتال زخمیوں سے بھرے پڑے ہیں۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ ان مظاہروں کی فرنٹ لائن پر خواتین ہیں جن میں قابل ذکر رازاں زیتونی اور ’’ریم‘‘ ہیں۔
کل ہی کی بات ہے کہ یہ زیتونی ہی تھی جس نے حکومت کی جانب سے بروز جمعہ ہونے والے احتجاجی مظاہروں کی رپورٹ دی ہے کہ حکومت کی اس تازہ ترین کارروائی میں قطعی طور پر ہلاک ہونے والوں کی تعداد بڑھ کر ۳۰ تک پہنچ گئی ہے۔ جبکہ دمشق اور حما کے مضافاتی شہروں، ڈیرا، لتاکیا میں سات اور حماہ، کے گیارہ وسطی شہروں میں احتجاج کو منتشر کرنے کے لیے ایک دن قبل ہی ٹینکوں کو داخل کر دیے جانے کے بعد بارہ افراد کی الیپو کے جنوبی شہر ماریٹ ال۔ نعمان میں ہلاکت کی اطلاع ہے۔
’’ریم‘‘ نامی خاتون (جس کے ارکان خاندان کی حفاظت کے لیے ہم نے اس کا نام تبدیل کر دیا ہے)، گزشتہ ہفتہ شام کے روزنامہ آبزرور سے بات چیت کرتے ہوئے یہ بات بتائی۔
ریم، جس کی عمر ۲۲ سال ہے اور اسے آئندہ چند ہفتوں میں اپنے پہلے بچہ کی توقع ہے اس کا شوہر ایک حکومت مخالف کارکن ہے، اسے دوبارہ گرفتار کر لیا گیا جوکہ اب بھی زیر حراست ہے۔ جبکہ ریم کے والد کو حکومت کے ایک سینئر کارکن سے ملاقات کے لیے مدعو کیا گیا تھا اور اس کے کچھ دیر بعد انہیں بھی گرفتار کر لیا گیا۔
ریم کا کہنا ہے کہ ’’میں ان خواتین کی دوست ہوں جنہیں میری طرح ہی گرفتار کیا گیا ہے‘‘ لیکن جس وقت وہ دوبارہ احتجاج کے لیے جارہی تھی، اس وقت ڈیرہ میں لوگوں کے لیے اکٹھا کی گئی طبی اشیا مہیا کرنے پرمیری ایک دوست کو گرفتار کر لیا گیا اور سیکورٹی برانچ میں اسے مارا پیٹا اور زدوکوب کیا گیا تھا۔ انہوں نے جبراً اسے اپنے سر کا اسکارف نکال دینے کے لیے بھی کہا۔ اسے دو ہفتوں تک حراست میں رکھنے کے بعد دو دن قبل ہی رہا کیا گیا۔
’’وہ ایک انتہائی پرجوش اور متحرک خاتون ہے جو دوبارہ احتجاج کرنے کے لیے تیار ہورہی ہے۔ صرف ایک چیز ایسی ہے جو اب بھی مجھے گھر میں رکھے ہوئے ہے اور وہ یہ ہے کہ میں آئندہ دو ہفتوں میں ایک بچہ کی امید کر رہی ہوں‘‘۔
اب تک بھی، ریم رپورٹنگ کے ذریعہ خود کو یہ اطمینان دلا رہی ہے کہ اس نے کیا دیکھا اور وہ کیا جانتی ہے، جس میں ایک ایسا ملک جہاں بین الاقوامی میڈیا پر بڑے پیمانے پر پابندی عائد کر دی گئی ہے، کافی خطرہ موجود ہے۔ ’’اگر آپ کو سچائی بتائوں‘‘، تو آپ سن کر حیرت زدہ ہو جائیں گے۔ اس نے کہا ’’وہاں گرفتاری کا ایک بہت بڑا موقع رہتا ہے علاوہ ازیں آپ کے ساتھ مارپیٹ کا خطرہ رہتا ہے اور آپ کے ساتھ برا سلوک بھی کیا جاتا ہے۔
٭ گزشتہ ہفتہ الجزیرہ کی ایک صحافی ڈروتی پرویز، جنہیں دمشق میں شام کی جانب سے گرفتار کر لیا گیا تھا، انہوں نے اس برتائو کی وضاحت کی کہ سیکورٹی بیرکوں میں جہاں انہیں گرفتار کر کے رکھا گیا تھا بے شمار نوجوان دہشت زدہ خواتین کا سامنا کرنا پڑا۔ ان کی رہائی پر پرویز نے اس بات کی توضیح کی کہ جب اس نے دو نوجوان خواتین سے ملاقات کی تھی تو ان کی جو حالتِ زار تھی وہ اسے بیان کرنے سے قاصر ہے۔ ریم نے ان نوجوان خواتین کی گرفتاری کی وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ ’’ان نوجوان خواتین کو موبائل کے ساتھ سڑکوں پر دیکھتے ہی گرفتار کر لیا گیا‘‘۔
ریم نے ایک نوجوان خاتون کو دیکھ کر اس بات کی توضیح کی کہ ایک دکان کے اندر مظاہرے میں سیکورٹی فورسز کی جانب سے اس خاتون کو گھسیٹا جارہا ہے۔ اس بارے میں اس نے کہا ’’ہم نے ایک نوجوان لڑکی اور چند سیکورٹی جوانوں کو شہری کپڑوں میں ملبوس دیکھا۔ جو اس لڑکی کا سر پکڑ کر اسے باہر کی جانب گھسیٹ رہے تھے اور اسے غدار کہہ کر مخاطب کر رہے تھے جس پر اس لڑکی نے کہا کہ وہ غدار نہیں ہے، تو ان جوانوں نے اسے ایک دکان کے اندر دھکیل دیا۔ ہم نے اس لڑکی تک پہنچنے کی کوشش بھی کی لیکن انہوں نے ہم پر دروازے بند کر دیے اور پھر اسے کہیں اور لے کر چلے گئے۔
مارچ میں ہونے والے سب سے پہلے مظاہرے کے بعد سے خواتین نے واقعی بہت ہی اہم کردار ادا کیا ہے جو میری طرح اور ضمیر کے قیدیوں کی دیگر مائوں اور بہنوں کی طرح عدم تشدد کی کارکن ہیں۔
خواتین جو حصہ ادا کر رہی ہیں وہ مزید انتہائی اہم ہو گیا ہے۔ انسانی حقوق کی وکیل امیرا کا کہنا ہے، کہ ’’بعض علاقوں میں کئی لوگوں کو ہلاک کردیا گیا، گرفتار کر لیا گیا اور انہیں زخمی بھی کر دیا گیا ہے۔ یہ خواتین ہی ہیں جو احتجاج کی مخالفت کر رہی ہیں۔ سب سے بڑا مسئلہ ایسے لوگوں کو تلاش کرنے کی کوشش کرنا ہے جو گم یا غائب ہو گئے ہیں۔ سیکورٹی فورسز اس معاملے میں کچھ بھی کہنے سے قاصر ہیں کہ وہ کہاں ہیں، اور ان کے ارکانِ خاندان بات چیت کرنے کے لیے خوفزدہ ہیں‘‘۔
دوسری طرف عوام بھی تبدیلی کے لیے بے حد پرعزم نظر آتے ہیں۔ اور ساری دنیا صبر اور جبر کی اس کشمکش کو بہت دلچسپی سے دیکھ رہی ہے۔
(بحوالہ: ’’نقوش ڈاٹ کام‘‘)
Leave a Reply