چاہ بہار ۔ گوادر تقابل، تناظر کیا ہے؟

ایران،انڈیا اور افغانستان نے جس دن سے چاہ بہار معاہدے پر دستخط کیے ہیں،بھارتی،وسط ایشیائی اور پاکستانی میڈیا ایک ہذیانی کیفیت کا شکار ہے،کہیں خوف نے ڈیرا جمایا ہوا ہے تو کہیں خوشیوں کے شادیانے بجائے جا رہے ہیں۔ساری کہانی کو ایک رخ دے دیا گیا ہے کہ بھارت گوادر بندرگاہ کا مقابلہ چاہ بہار کی بندر گاہ سے کرے گا۔لیکن کوئی یہ سوال نہیں کرتا کہ مقابلہ کس تناظر میں ہو گا؟؟

چند سال قبل جب بھارت کی چاہ بہار میں دلچسپی کاغذات کی حد تک تھی اور چائنا پاکستان اقتصادری راہداری کا بھی کوئی وجود نہ تھا،دہلی کے انسٹی ٹیوٹ برائے دفاعی تجزیے ومطالعہ نے خبردار کیا تھا کہ’’گوادر کی بندرگاہ آبنائے ہرمز کے اتنا قریب ہے کہ اس کے اثرات بھارت پر مرتب ہوں گے اورپاکستان توانائی کی ترسیل کے اہم راستوں پر کنٹرول حاصل کر لے گا۔اور چین اس بندرگاہ کے ذریعے نہ صرف خلیج فارس اور بحیرہ عرب میں بھارتی اور امریکی بحریہ کی سرگرمیوں پر نظر رکھ سکے گا،بلکہ مستقبل میں دونوں کے درمیان ہونے والے سمندری تعاون پر بھی گہری نظر رکھنے کے قابل ہو گا‘‘۔

ہمارے تجزیہ نگاروں نے حالیہ دنوں میں ہونے والے چاہ بہار معاہدے کو چائنا پاکستان اقتصادی راہداری کے مقابلے میں ان تین ممالک کاباہمی جواب قرار دیا۔ لیکن یہ مقابلہ دراصل ہے کیا؟؟

اس میں کوئی شک نہیں کہ بھارت نے چاہ بہار بندرگاہ کی تعمیر و ترقی کے لیے ۲۰ ارب ڈالر کی سرمایہ کاری کا اعلان کیا ہے، اس کے ساتھ ساتھ اس سے متعلقہ صنعتیں بھی لگائی جائیں گی جس میں LNGپلانٹ،پیٹرو کیمیکل اور کھاد کی صنعتیں شامل ہیں۔اس کے برعکس کیا چین مالیاتی طور پر بھارت سے زیادہ طاقتور نہیں؟؟اگردیکھا جائے تو جس وقت ایران پر پابندیاں عائد تھیں، اور چین نے ون بیلٹ ون روڈ منصوبے کا اعلان بھی نہیں کیا تھا،تب بھی وہ ایران میں بھارت سے زیادہ سرمایہ کاری کرتا تھا۔اقوام متحدہ کے اعدادوشمار کے مطابق ایران میں غیر ملکی سرمایہ کاری کرنے والے ممالک میں چین ۲ء۷ ارب ڈالر کے ساتھ پہلے نمبر پر تھا،دوسرے نمبر پر ۵۴۹ ملین ڈالر کے ساتھ جنوبی افریقا تھا۔جبکہ بھارت کی سرمایہ کاری اتنی بھی نہ تھی کہ غیر ملکی سرمایہ کاری کے اعدادوشمار میں نمایاں کی جاتی۔چین،ایران تعلقات کے حوالے سے دیکھا جائے تو ۲۰۱۲ء تک کے اعدادوشمار کے مطابق پاکستان میں چین کی سرمایہ کاری ۲ء۲؍ارب ڈالر اور بھارت میں ۱ء۱؍ارب ڈالر تھی،یہ ایران کے مقابلے میں کافی کم ہے۔

اس بات کو بھی ذہن میں رکھنا چاہیے کہ ایران جب عالمی سطح پر تنہائی کا شکار تھا تو چین نے اس کی ہر ممکن مدد کی، اور Joint Comprehensive Plan of Action کے ذریعے اسے عالمی معیشت میں جگہ دلائی۔ایران،امریکا اور P5+1 مذاکرات کے دوران بیجنگ نے ثالث کا کردار ادا کرتے ہوئے ایران کو مضبوط سہارا فراہم کیا۔ اس کے علاوہ بیجنگ نے ان چینی ٹھیکیداروں کوجو ایران کو حساس آلات اور ٹیکنالوجی فراہم کر رہے تھے،کچھ نہ کہہ کر ایران کے ایٹمی پروگرام کی حمایت بھی کی۔ دوسری طرف ایران کے اس موقف کی بھی کھل کر حمایت کی کہ اسے بھی یورینیم کی افزودگی کا حق حاصل ہے۔حالیہ دنوں میں ایران کے سپریم لیڈر آیت اللہ خامنہ ای کا بیان بھی سامنے آیا، جس میں انہوں نے واضح طور پر کہا کہ ’’تہران نے کبھی بھی مغرب پر بھروسہ نہیں کیا، اس لیے وہ چاہتا ہے کہ مختلف آزاد ممالک سے تعلقات بڑھائے جائیں‘‘، جیسا کہ چین۔

دریں اثنا چین اور ایران کے درمیان تجارت کا حجم ۲۰۰۳ء میں ۴؍ارب ڈالر سے بڑھ کر ۲۰۱۳ء میں ۵۳؍ارب ڈالر ہو چکا ہے، اور اس میں مزید اضافہ ہو گا کیونکہ دونوں ممالک نے حال ہی میں طے کیا ہے کہ آنے والے دس سالوں میں باہمی تجارت کا حجم ۶۰۰؍ارب ڈالر تک بڑھایا جائے گا۔ اس کے برعکس انڈیا کی ایران سے ہونے والی تجارت کا اوسط حجم پچھلے چھ سال سے ۱۴؍ارب ڈالر ہے۔

ویسے تو یہ حقائق اس موقف کو مکمل طور پر غلط ثابت کرتے ہیں کہ ایران چین کو کنارے لگانے کا متحمل ہو سکتا ہے۔لیکن اگر اس کو اس پیرائے میں بھی دیکھا جائے تو یہ یقین کر لینے کے لیے کافی شواہد موجود ہیں کہ چاہ بہار اور گوادر بندر گاہ کا آپس میں کوئی مقابلہ نہیں۔گوادر کا مقصد چینی تجارت کے لیے راستے کی فراہمی جبکہ چاہ بہار کا مقصد بھارت کی ایران، افغانستان اور وسط ایشیا تک رسائی ہے۔ اس لیے یہ دونوں بندرگاہیں نہ صرف دو مختلف منڈیوں تک رسائی ممکن بنائیں گی بلکہ ان دونوں کا آپس میں تعلق بھی نہ ہونے کے برابر ہے۔

ورلڈبینک کے اعداد و شمار کے مطابق چین کا درآمدات اور برآمدات کا ملکی پیداوار سے تناسب پچھلے پانچ سالوں میں %۴۵ رہا ہے،جبکہ یہی تناسب افغانستان اور وسطی ایشیا میں ۴۵ سے ۹۰ فیصد تک رہا ہے۔تاہم چینی معیشت کے حجم (روس اور بھارت کے مشترکہ مجموعی ملکی پیداوار سے بھی زیادہ)سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ چین کی گوادر کے راستے ہونے والی ممکنہ تجارت کا حجم انڈیا کی چاہ بہار کے راستے ہونے والی ممکنہ تجارتی حجم سے کئی گنا زیادہ ہو گا۔

اس کے علاوہ یہ خیال بھی پایا جاتا ہے کہ بھارت ایران گٹھ جوڑ کا مطلب ہے کہ یہ دونوں مل کر اپنے خفیہ اداروں کے ذریعے گوادر بندرگاہ کے منصوبے کو ناکام بنانے کے لیے دخل اندازی کر سکتے ہیں۔تاہم یہ بات ذہن میں رکھنی چاہیے کہ پاک فوج اس منصوبے کی مکمل طور پر نگرانی کر رہی ہے۔کیونکہ اس میں اس کا اپنا مفاد بھی ہے۔اقتصادی راہداری بننے سے ملکی معیشت کے حجم میں اضافہ ہو گا نتیجتاً فوج کے وسائل میں بھی اضافہ ہوگا۔دوسری بات یہ کہ چاہ بہار ایران کے غیر مستحکم علاقوں میں سے ایک ہے جہاں سنی عسکری گروہوں کی جانب سے حکومت کے خلاف حملوں کی ایک طویل تاریخ ہے۔اگر ایران پاکستان میں دخل اندازی کرے گا تو یہ کھیل پاکستان بھی مہارت سے کھیل سکتا ہے، جس کا اندازہ پاکستان کی ’’اسٹریٹجک ڈیپتھ‘‘ کی پالیسی سے لگایا جا سکتا ہے۔

کچھ لوگ اس خطرے کے بارے میں بھی بات کر رہے ہیں کہ چاہ بہار بندرگاہ کو گوادر کے مقابلے میں افغانستان اور وسطی ایشیائی ریاستوں کو ہونے والی سامان کی نقل و حمل کے سلسلے میں زیادہ فائدہ ہو گا۔دراصل گوادر کی تعمیر کا بنیادی مقصد تو چائنا پاکستان اقتصادی راہدار ی ہے، بقیہ افغانستان اور وسط ایشیائی ریاستوں سے ہونے والی تجارت تو اضافی فوائد میں شمار ہوگی۔ویسے بھی پاکستان کو کراس کر کے بھارت کے راستے افغانستان اور وسطی ایشیا تک رسائی کسی صورت بھی عقلمندی نہیں۔ اور پاکستان زمینی تجارت کے حوالے سے قواعد وضوابط بہتر بنا کر چاہ بہار بندرگاہ پر گہری چوٹ لگا سکتا ہے۔ اس کے علاوہ تاپی گیس منصوبہ اور کاسا ۱۰۰۰ منصوبہ پر بھی کام کا آغازہو چکا ہے،اور سب جانتے ہیں کہ اس وقت افغانستان میں سب سے زیادہ سرمایہ کاری چین کر رہا ہے،تو افغانستان کے لیے یہ کسی صورت ممکن نہ ہوگا کہ وہ گوادر کے خلاف کسی سازش کا حصہ بنے کیونکہ گوادر کے خلاف سازش کا مطلب چین کے خلاف سازش ہو گا۔ اور وہ چین کی ناراضی کا متحمل نہیں ہو سکتا۔

مغرب افغانستان کو امداد تو دے سکتا ہے لیکن امداد سے معیشت کبھی اس طرح مضبوط نہیں ہو سکتی جیسے کے سرمایہ کاری سے،اور افغانستان میں سرمایہ کاری اس وقت چین ہی کر رہا ہے۔’’اینڈریو اسمال‘‘اپنی کتاب( جو آج کل موضوع بحث بنی ہوئی ہے)میں لکھتے ہیں کے’’چین وہ واحد ملک ہے جو افغانستان کی ضرورت کے مطابق وہاں سرمایہ کاری کر سکتا ہے اوراسے بحران سے نکال سکتا ہے۔چین پہلے ہی ۴ء۴؍ارب ڈالر کی سرمایہ کاری کے ایک معاہدے پر دستخط کر چکا ہے،جس کے تحت چین کی دو سرکاری کمپنیاں تانبے کی صنعت میں سرمایہ کاری کریں گی۔ اس کے علاوہ تیل کی تلاش کے لیے سات ارب ڈالر کے ایک اور معاہدے پر بھی دستخط ہو چکے ہیں۔ ویسے بھی افغان صدر اشرف غنی چین کی مکمل حمایت کے حوالے سے پُرامید نظر آتے ہیں، اور اپنی سابقہ نوکری یعنی ورلڈبینک کے دوران چین سے معاملات کرنے کے حوالے سے حاصل ہونے والے تجربے کا بھی بھر پور فائدہ اٹھا رہے ہیں۔

خلاصہ یہ ہے کہ چاہ بہار کی بندر گاہ کا کسی بھی طور سے گوادر کی بندرگاہ سے موازنہ کیا جا سکتا اور نہ ہی چاہ بہار کی بندرگاہ کا ہوّا بنانے کی ضرورت ہے کیونکہ دونوں بندرگاہیں مختلف منڈیوں کے استعمال میں آئیں گی۔ چین معیشت کے لحاظ سے اس وقت خطے کے استحکام کی علامت ہے۔ اور خوش قسمتی یہ ہے وہ پاکستان کے ساتھ کھڑا ہے (کم ازکم ابھی تک تو)۔ یہ کہنا کہ یہ دو بندرگاہیں بھارت اور چین کو مقابلے پر لارہی ہیں، غلط ہو گا، کیونکہ ایسا کہنے سے چین اور بھارت کو ایک صف میں کھڑا کر دیا جاتا ہے، جبکہ ایسا حقیقت میں ہے نہیں۔ چین ایسی طاقت ہے کہ اس کو کنارے کرنا خطے میں کسی کے بس کی بات نہیں، اور اس تناظر میں پاکستان چین کو ٹیکس میں رعایتیں دے کر ٹھیک ہی کر رہا ہے۔

اس وقت پاکستان کو اگر کسی چیز سے ڈرنا چاہیے تو وہ چاہ بہار نہیں بلکہ چین تا تہران براستہ وسطی ایشیا چلائی جانے والی مال بردار ٹرین کا حالیہ منصوبہ ہے۔یہ راستہ سمندری راستے کے مقابلے میں تقریباً ایک ماہ کی طوالت کم کر دے گا، لیکن یہ ابھی واضح نہیں کہ آیا یہ کم وقت میں طے ہونے والا زمینی راستہ سمندری راستے کے مقابلے میں اخراجات کی مد میں بھی فوائد کا حامل ہو گا یا نہیں۔

اگر چین پاک اقتصادی راہداری پر تیزی سے کام ہوتا ہے، کام کرنے والوں کا تحفظ یقینی بنایا جاتا ہے۔گوادر بندرگاہ اور راہداری کا مغربی روٹ طے شدہ وقت پر مکمل ہو جاتا ہے تو چاہ بہار کی بندرگاہ گوادر کے مقابلے میں اپنی اہمیت کھو دے گی۔

وہ طاقتیں جو سفارتی ذرائع سے چاہ بہار منصوبے کو روکنے کی کوشش کر رہی ہیں، ان کو چاہیے کہ وہ بھارت کو گوادر کے راستے تجارت کی اجازت دینے پر بھی زور دیں تاکہ چاہ بہار کی رہی سہی اہمیت بھی ختم ہوجائے۔امید ہے کہ اچھے فیصلوں پر ہی عملدرآمد ہوگا۔

(ترجمہ :حافظ محمد نوید نون)

“Gwadar & Chabahar: Competition of what?”. (“brecorder.com”. May 30, 2016)

Be the first to comment

Leave a Reply

Your email address will not be published.


*