ایئرمارشل حافظ الاسد سے ڈاکٹر بشارالاسد تک

حافظ الاسد نے ۱۹۴۶ء میں (مسیحی رہنما مائیکل ایفلاک کی قائم کردہ) بعث پارٹی میں بطور طالبعلم لیڈر، شمولیت اختیار کی۔

۵۵۔۱۹۵۰ء: میڈیکل کی تعلیم مہنگی ہونے کے سبب، حافظ الاسد نے حُمص ملٹری اکیڈمی میں داخلہ لیا اور فضائیہ کے پائلٹ کی تعلیم مکمل کی۔

۶۱۔۱۹۵۸ء: جب مصر، شام اور یمن نے یونائیٹڈ عرب ریپبلک (UAR) کی شکل میں باہم اِدغام کیا تو شام کے بعض بعثی افسروں نے، جو مصر میں جِلاوطنی کی کیفیت سے دوچار تھے، ایک ’’ملٹری کمیٹی‘‘ بنائی جس میں حافظ الاسد بھی شامل تھے۔ اس عمل کا مقصد بالآخر شام میں حکومت پر قبضہ کرنا تھا۔

۸ مارچ ۱۹۶۳ء: اسی ’’ملٹری کمیٹی‘‘ نے ۷ مارچ ۱۹۶۳ء کو شام کی حکومت سے بغاوت کرکے اقتدار پر قبضہ کا منصوبہ بنایا، جس کا راز فاش ہوگیا۔ مگر بعث پارٹی کے اثر و رسوخ کا یہ عالم تھا کہ سازش بے نقاب ہو جانے کے باوجود اقتدار پر اس کے قبضے کو روکا نہ جاسکا۔ یہ بغاوت بس ایک روز کے لیے ملتوی ہوئی۔ اگلے ہی روز (۸ مارچ ۱۹۶۳ء کو) بعث پارٹی نے شام کے اقتدار پر قبضہ کرلیا، حافظ الاسد کو فضائیہ کا سربراہ بنا دیا گیا۔

۶۹۔۱۹۶۳ء: شامی حکومت میں داخلی بغاوتوں کا سلسلہ چلتا رہا۔ تاآں کہ۱۹۶۶ء میں ایئر مارشل حافظ الاسد کو شام کا وزیر دفاع بنا دیا گیا۔ اس طرح وہ ملک کی دوسری اہم ترین شخصیت بن گئے۔ (۶ جون ۱۹۶۷ء کو اسرائیل کے حملے کے بعد شام، اپنے جولان کے پہاڑی علاقے اور بعض دیگر علاقوں سے پسپا ہوگیا۔ شامی فوج سرحدوں کا دفاع نہ کرسکی۔ وہ علاقے آج بھی اسرائیل کے قبضے میں ہیں)۔

۱۹۷۰ء: دو بغاوتوں کی مدد سے، حافظ الاسد نے ’’ملٹری کمیٹی‘‘ میں اپنے ہی رفقا کو برطرف کر کے، شام کے اقتدار پر اپنی گرفت مضبوط کر لی۔

۱۹۷۱ء: حافظ الاسد نے ’’بعث پارٹی‘‘ کی سربراہی باقاعدہ سنبھال لی۔ اپنے پیش رو قائدین کو جیلوں میں ڈال دیا۔ شامی فضائیہ کی تائید و حمایت کے بِل پر ملک کی صدارت پر بھی قبضہ کرلیا۔

۱۹۷۳ء: شام نے عرب اسرائیل جنگ میں پھر شکست کھائی، مگر حافظ الاسد نے خود کو فاتح قرار دیا۔

۸۲۔۱۹۸۰ء: ملک میں نُصیری (علوی) فرقے کی اقتدار پر بڑھتی ہوئی گرفت سے تنگ آئے ہوئے عوام نے (جن کی ۹۰فیصد تعداد سُنّی ہے) حافظ الاسد کی حکومت سے بغاوت کی۔ شدید خوں ریزی کے بعد بعثی حکومت نے حالات پر قابو پایا۔ الیپو کے علاقے پر قبضے میں سو افراد کو قتل کیا (یہاں غیر مسلم زیادہ ہیں)۔ جبکہ حَماۃ نامی شہر پر ٹینک کشی کرکے اس کی اینٹ سے اینٹ بجادی گئی۔ کم سے کم اندازے کے مطابق بھی تیس ہزار شہریوں کو بے رحمی سے موت کے گھاٹ اُتار دیا گیا اور ہزاروں مرد و خواتین کو نذرِ زنداں کر دیا گیا۔

جنوری ۱۹۹۴ء:حافظ الاسد کے بڑے بیٹے باسل الاسد، جن کو جانشیں کے طور پر تیار کیا گیا تھا، ایئرپورٹ کے راستے میں کار کے حادثے میں ہلاک ہوگئے۔ لندن میں زیر تعلیم دوسرے بیٹے بشارالاسد کو حکم ملا کہ فوراً واپس آجائو۔ بشارالاسد ماہرِ امراضِ چشم کی تعلیم مکمل کر رہے تھے۔

جون ۲۰۰۰ء: طویل علالت اور مسلسل گرتی صحت کے باوجود اقتدار سے چمٹے رہنے والے حافظ الاسد کو دل کا دورہ پڑا، جو جان لیوا ثابت ہوا۔ سیاست اور اقتداری کھیل کے نووارد ڈاکٹر بشار الاسد نے یہ خلا پُر کیا۔ (سوشلسٹ جمہوریہ ملک کی) صدارت، سپہ سالاری اور حکمراں ’’بعث پارٹی‘‘ کی سربراہی کسی ولی عہد کی طرح ان کی جھولی میں آگری۔ ان کا تاثر ایک مفاہمت پسند شخص اور نظام میں اصلاحات کے حامی لیڈر کا بنایا گیا۔

دسمبر ۲۰۰۰ء: صدر ڈاکٹر بشارالاسد نے لندن میں پیدا ہونے اور پڑھنے والی، شامی نژاد دوشیزہ، اسماالاخراص سے شادی کرلی، جن سے دورانِ تعلیم ملاقات رہی تھی۔

۲۰۱۱ء: ’’بہارِ عرب‘‘ کی انقلابی لہر پیدا ہوئی اور بڑھتے بڑھتے شام تک پہنچ گئی۔ ’’اصلاحات کے حامی‘‘ بشارالاسد نے اپنے ہاں کے نظامِ ریاست کو کسی بڑی اصلاح و تبدیلی سے گزارنے کا راستہ نہیں اپنایا، بلکہ باجبروت ریاستی مشینری کی مدد سے عوامی مظاہروں کو سفاکی و بے رحمی سے کچلنے کا فیصلہ کیا۔ نتیجہ یہ ہے کہ آج پورا ملک شام، آگ اور بارود، خاک اور خون میں ڈوبا ہوا ہے۔ ستر ہزار شہری اور فوجی مارے جاچکے ہیں یا شدید زخمی ہیں۔ ہزار ہا مکانات خود شامی فضائیہ کی بمباری اور فوجی گولہ باری سے تباہ و برباد ہوچکے ہیں اور لاکھوں شامی باشندے ملک کے اندر بھی اور پڑوسی ممالک میں بھی، بے گھر و بے سہارا ہجرت کیے پڑے ہیں۔

۲۰۱۲ء: شام کی تباہی و بربادی جاری ہے۔ مگر حافظ الاسد ٹولہ اقتدار سے چمٹا، آخری دَم تک مرنے مارنے پر تُلا ہوا ہے۔ بظاہر کوئی دیرپا اور رائے عامہ کے لیے قابلِ قبول حل نظر نہیں آرہا۔ عالمی قوتیں اپنا کھیل کھیلنے میں لگی ہوئی ہیں۔

(ہفت روزہ میگزین ’’نیوزویک پاکستان‘‘ شمارہ: ۱۵؍مارچ ۲۰۱۳ء کی مدد سے تیار کردہ۔ شکریہ کے ساتھ)

Be the first to comment

Leave a Reply

Your email address will not be published.


*