آیا صوفیہ:سیکولرازم کی بدترین شکست
Posted on July 28, 2020 by Soumaya Ghannoushi in Uncategorized // 0 Comments
زیر نظر مضمون عربی زبان کی معروف ویب گاہ www.noonpost.com سے لیا گیا ہے،اسے تیونس کی صحافی اور نامہ نگار سمیہ الغنوشی نے تحریر کیا ہے، مشرق وسطی ان کا خاص موضوع ہے۔ادارہ
سلطان محمد فاتح نے ۲۹ مئی ۱۴۵۳ء کو فتح قسطنطنیہ کے بعد مسجد آیا صوفیہ کو بیزنطینوں کے قبضے سے چھڑایا اور اناطولیہ کے قلب سے اسلام مخالف طاقتوں کو یہ واضح پیغام دیا کہ اسلام اب پوری قوت اور شان و شوکت سے اپنی عظمت رفتہ کو بحال کرے گا۔ اس سے قبل دمشق اور بغداد کئی صدیوں تک اسلامی خلافت کے مراکز تھے۔ یکم فروری ۱۹۲۵ء کو ایک اسلام بیزار، لبرل، آمر نے اس عظیم مسجد کو عجائب گھر میں تبدیل کرنے کا اعلان کر دیا۔ مسجد کی صفوں اور قالینوں کو پھاڑ کر پھنک دیا گیا، مسجد سے متصل سلطان فاتح کے قائم کردہ مدرسے کو مسمار کردیا گیا، مسجد کو روشن کرنے والی بڑی بڑی قندیلوں کو بجھا دیا گیا، اس مدرسے کو خلافت عثمانیہ کی پہلی جامعہ ہونے کا اعزاز بھی حاصل ہے۔ اتاترک کے کارندوں نے مسجد کے میناروں کو بھی نہیں چھوڑا۔ لیکن اس خوف سے کہ کہیں پوری مسجد نہ گر جائے، کچھ میناروں کو باقی رکھا۔
کمال اتاترک کے یہ سارے اقدامات اسلامی تہذیب و ثقافت کے آثار کو مٹانے اور اسلام کے مقابل قوم پرستی کے رجحان کو پروان چڑھانے کی ناپاک عزائم کا حصہ تھے۔ اس نے عثمانی عربی رسم الخط کو رومن میں تبدیل کردیا، عربی زبان میں اذان اور حجاب پر پابندی عائد کردی، سیکڑوں مساجد کو بند کردیا۔ کمال اتاترک نے اناضول (اناطولیہ) پر برطانوی اور فرانسیسی قبضے کے خلاف جدوجہد کے حوالے سے قانون سازی میں آزادی کا فائدہ اٹھا کر عثمانی آثار کے خلاف کھلی جنگ شروع کر دی تاکہ اس کے مقابلے میں جدیدیت، قوم پرستی، لبرل ازم کو فروغ اور اپنی آمریت کو مستحکم کر سکے۔
تین دہائی بعد عدنان مندریس نے جب ان اسلام مخالف اقدامات کو روکنے کی کوشش کی، عربی زبان میں اذان کو بحال کیا تو فوج نے اسے پھانسی دے کر یہ پیغام دیا کہ کسی بھی اسلامی شعائر کو بحال کر نے کی اجازت قطعاً نہیں دی جائے گی۔
ترکی نے بڑے نشیب و فراز دیکھے ہیں، ان حالات میں اسلامی شعائر کو مٹانے کی ہر ممکن کوشش کے باوجود اسی معاشرے سے ایک بطل جلیل نجم الدین اربکان نے سیاسی جدوجہد اور حکمتِ عملی کے ساتھ مدارس، مساجد اور جامعات کے ذریعے اسلام کے لیے فضا کو سازگار کیا۔ ستّر، اّسی کی دہائی میں رجب طیب ایردوان اسی جماعت کا حصہ تھے۔ تاہم بعد میں انھوں نے اپنے استاد نجم الدین سے مختلف راستہ اختیار کیا۔ بہت سادہ ہے وہ شخص جو یہ خیال کرتا ہے کہ ایردوان کا آیا صوفیہ کو دوبارہ مسجد کے طور پر بحال کرنے کا فیصلہ مسیحیت اور اسلام، مسجد اور کلیسا کے درمیان مخاصمت کی بنیاد پر ہے، بلکہ حقیقت میں یہ عمل ترکی کو دوبارہ اسلامی شعائر، تہذہب و ثقافت اور اپنی اصل بنیادوں پر استوار کرنے کی دور رس حکمتِ عملی کا حصہ ہے۔
ایردوان ترکی کی عثمانی تاریخ اور عصر حاضر کی سیاسی حرکیات کا بخوبی ادراک رکھتے ہیں۔ انہیں معلوم کہ ہے کہ ترکی کی بقا اور استحکام اسلام سے وابستہ ہے اور اس مقصد کو درست حکمتِ عملی اور متوازن پالیسیوں کے ذریعے حاصل کیا جا سکتا ہے۔ امت کے اس عظیم رہنما نے ترکی کو اسلامی نہج پر واپس لانے کے عمل کا آغاز کردیا ہے، جس پر اتاترک نے پابندی عائد کردی تھی۔ ایردوان کی ماضی کی تقاریر کا اگر جائزہ لیا جائے تو اس سے بخوبی اندازہ ہوتا ہے کہ وہ آیا صوفیہ کی بحالی کا بہت پہلے ہی سے عزم رکھتے تھے۔ ہمیں نہیں بھولنا چاہیے کہ ایردوان کے پہلی مرتبہ جیل جانے کا اصل سبب ترکی کے شاعر ’’ضیا موقلب‘‘ کے درج ذیل اشعار کو اپنی تقریر میں پڑھنا تھا:
مینار ہمارا ہتھیار ہیں
گنبد ہمارا حفاظتی حصار ہے
مسجدیں ہماری فوجی بیرکس ہیں
مومنین ہمارے سپاہی ہیں
اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ ایردوان نیا عثمانی خلیفہ ہے جو ماضی کی طرف ہر حال میں لوٹنا چاہتا ہے بلکہ وہ جدید جمہوری ترکی کا ہی حصہ ہے، اس کے پیش نظر ترکوں کو بیدار کرنا اور دنیا کے سامنے ایک موثر طاقت کے طور پر پیش کرنا ہے۔ وہ نہ صرف ایک مدرسہ کا طالبعلم ہے بلکہ جامعہ سرمرۃ کے اکنامکس اینڈ مینجمنٹ ڈپارٹمنٹ کا گریجویٹ اور ترکی میں اسلامائزیشن کے احیاء کے بانی اربکان کا طالب علم بھی ہے۔ ایردوان آیا صوفیہ کو مسجد کے طور پر بحال کرنے کے اس عمل کو مساوات کا اظہار سمجھتے ہیں جس کو انہوں نے اپنے منصوبے کے تحت پایہ تکمیل تک پہنچایا۔ وہ ایک عملیت پسند سیاست دان ہیں، وہ طاقت کے توازن اور سیاست کی رکاوٹوں سے بخوبی واقف ہیں، جس نے ان کے استاد اربکان کا راستہ روکا، وہ اچھی طرح جانتے ہیں کہ موجودہ سیاسی نظام سیکولرازم پر قائم ہے۔ یہی وجہ ہے انھوں نے اپنی جدوجہد کا مرکز آمرانہ اور فوجی بالادستی کو کمزور کر نے اور اسے غیر جانب دار، جمہوری اور عوامی رائے کے احترام پر مبنی نظام کی تشکیل کی طرف مبذول کیا۔ جہاں عقیدے، عبادات اور اظہار کی آزادی حاصل ہو۔
آیا صوفیہ کی بحالی نے عالم اسلام میں قانون کی حکمرانی کے بیانیہ کو نئی روح دی۔ وسیع پیمانے پر اسلامی دنیا نے اس تاریخی فیصلے کو بڑی دلچسپی سے پڑھا اور سوشل و ڈیجیٹل میڈیا پر بڑے شوق سے اسے دیکھا۔ اس خبر کو عالمی سطح پر بڑی اہمیت دی گئی۔
شاید یہی وجہ ہے جس نے قاہرہ، ریاض، ابوظہبی اور دیگر عرب دارالحکومتوں میں صف ماتم برپا کردیا۔ سعودیہ جو کبھی سلفی نظریہ، عدم رواداری کا داعی تھا، اب مذہبی رواداری کا داعی بن گیا ہے۔
ریاض اور قاہرہ کیوں خوف زدہ ہیں؟
ان دونوں ممالک کے لیے پریشان کن بات یہ ہے کہ کہیں کوئی ان دونوں سے اسلامی دنیا کی سیاسی سیادت اور چودراہٹ نہ چھین لے اور ان کی پوزیشن کو چیلنج نہ کردے۔ ایسا لگتا ہے کہ ترکی اور سعودیہ دونوں مخالف راستوں پر چل پڑے ہیں، ایک اسلامی تاریخ سے اپنے منقطع رشتے کو استوار کرنا چاہتا ہے، دوسرا حرمین شریفین کو علامتی طور پر باقی رکھ کر، اسلامی شعائر، تہذیب و ثقافت اور اسلامی اقدار سے چھٹکارا حاصل کرنا چاہتا ہے، گویا کہ وہ کوئی بوجھ ہیں۔ سعودی معاشرے پر مغرب کی اخلاق باختہ کلچر اور روایات کو بزور مسلط کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ دوسری جانب ایردوان آیا صوفیہ کے گنبدوں سے اذان کی صدا بلند کروا رہے ہیں۔ سعودیہ جو پہلے ہی کورونا سے متاثر ہے ایک انگریزی میگزین کے لیے عریاں اور فحش ماڈلوں کی فوٹوسیشن کا انعقاد مدینہ منورہ اور قبر رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے چند کلومیٹر کی دوری پر کررہا ہے۔
دوسری جانب ترکی اسلام کی عظمت رفتہ کی بحالی اور اسلامی خلافت کے قیام کے لیے جدوجہد کر رہا ہے۔ جبکہ عرب ممالک اپنی مفادات کے لیے نیتن یاہو سے خفیہ اور علانیہ اتحاد کر رکھا ہے۔ امریکی سفارت خانہ کے القدس منتقلی، بیت المقدس کو اسرائیل کا دارالحکومت بنانے کی سازشوں پر مجرمانہ خاموشی اختیار کر رکھی ہے اور جب ایردوان نے قمۃ القدس کے نام سے اجلاس بلایا تو ابنِ سلمان ابن زید اور سیسی اس اجلاس میں نہ صرف غیرحاضر رہے بلکہ دوسروں کو بائیکاٹ کرنے کے لیے ورغلایا۔
ان ممالک نے اپنا روحانی، سیاسی اور دینی وقار کھو کر ترکی کے لیے اسلام کے مرکز کے طور پر ابھرنے کا موقع فراہم کیا ہے۔ یہ عرب ممالک ہر قسم کی دینی رجحان کو دبانے میں مصروف ہیں۔
ان کا مقصد صرف مسلمانوں کی ابھرتی ہوئی سیاسی طاقتوں کو دبانا ہے۔ لہٰذا یہ اس مقصد کے حصول کے لیے پیسہ پانی کی طرح بہا رہے ہیں۔ یہ ممالک انتشار اور بگاڑ پیدا کرنے کے منصوبے پر عمل پیرا ہیں جیسا کہ لیبیا، یمن، عراق، ملائیشیا، پاکستان اور صومالیہ وغیرہ میں کیا جارہا ہے۔ دوسری جانب امریکا، یورپ اور ہندو انتہا پسندوں سے دوستی کی جارہی ہے۔ یہ ممالک مسلمانوں کیخلاف نسلی، علاقائی اور مذہبی تفریق پیدا کرنے کی کوشش کر رہے ہیں، مسلمانوں کو انتہا پسند، دہشت گرد، اور نجانے کیا کیا نام دے رہے ہیں۔
بہرحال فطرت اپنی اصل کی طرف لوٹ رہی ہے، موجودہ خلا کو پُر کرنے کے لیے کوئی آگے بڑھ رہا ہے۔ عرب دنیا کی ٹوٹ پھوٹ، انتشار اور اسلامی اقدار سے دوری کے اس موقع پر ترکی اسلامی قیادت کے صف میں آگے بڑھ رہا ہے اور بھرپور قوت سے اپنی اسلامی شناخت حاصل کر رہا ہے اور پوری دنیا کے مسلمانوں کے مفاد کے لیے کام کر رہا ہے۔
جہاں تک عرب تنظیموں اور اداروں کا حال ہے تو وہ اپنی کوتاہیوں، کمزوریوں اور بداعمالیوں پر اپنے آپ ہی کو ملامت کرے۔ عربی میں ضرب المثل ہے کہ علیٰ نفسہا جنت براقش ’’جب کوئی اپنوں کی بدشگونیاں لائے‘‘۔
ترجمہ: محمود الحق صدیقی
(بحوالہ: “noonpost.com”۔ ۱۳؍جولائی ۲۰۲۰ء)
آیا صوفیہ : حیرت کیسی، غصہ کیوں؟
Posted on July 15, 2020 by Yvonne Ridley // 0 Comments
بازنطینی دور کی عمارت کو مسجد صوفیہ بنانے کے فیصلے سے رومن کیتھولک عیسائیوں کے روحانی پیشوا پوپ فرانسس بہت جزبز ہوئے ہیں۔ انہوں نے ۱۹۳۴ء سے عجائب گھر کی حیثیت میں موجود عمارت کو مسجد بنائے جانے کے فیصلے پر شدید ردعمل ویٹیکن سٹی سے جاری ہونے والے سرکاری رومن کیتھولک اخبار L’Osservatore Romano کے ذریعے ظاہر کیا ہے۔ میں یہ سمجھنے سے قاصر ہوں کہ بازنطینی دور میں گرجا گھر کے طور پر تعمیر کی جانے والی اس عمارت کی تبدیلی سے بھلا کیا فرق پڑے گا۔ اس حوالے سے اس قدر شور مچانے کی ضرورت کیا ہے کیونکہ استنبول کا رخ کرنے والے سیاحوں کے لیے یہ عمارت پہلے کی طرح پُرکشش ہی رہے گی۔ دوسری بہت سی عبادت گاہوں کے مقدر کو دیکھتے ہوئے میں یہ سوچنے پر مجبور ہوں کہ ردعمل کا بنیادی سبب عبادت سے ہٹ کر یا بڑھ کر سیاسی تو نہیں۔ دنیا بھر کے سیاسی قائدین کی نظر میں ترک صدر رجب طیب ایردوان ایک تقسیم پسند رہنما کی حیثیت رکھتے ہیں مگر دنیا بھر کے سُنّی مسلمانوں کی نظر میں وہ دِین کے محافظ کی حیثیت سے دیکھے جاتے ہیں۔ امریکا، یورپی یونین، روس یا کسی اور طاقت کی ناراضی کی پروا کیے بغیر ایردوان پناہ گزینوں سے روا رکھی جانے والی زیادتی اور بدسلوکی پر آواز اٹھاتے رہے ہیں۔ فلسطین، کشمیر، لیبیا، شام یا خانہ جنگی و عسکریت پسندی کی زد میں آئے ہوئے کسی اور خطے کے مسلمانوں پر ڈھائے جانے والے مظالم کے خلاف وہ یکساں جوش و خروش سے آواز اٹھاتے ہیں۔ یہی سبب ہے کہ کسی بھی بڑے دارالحکومت میں انہیں پسندیدگی کی نظر سے نہیں دیکھا جاتا۔
شام اور لیبیا میں ترکی کی عسکری مداخلت نے بہت سی طاقتوں کو ناراض کیا ہے اور سچ تو یہ ہے کہ اس حوالے سے چند مسلم ممالک بھی ان سے خفا ہیں۔ روس سے فوجی ساز و سامان کی خریداری کے فیصلے نے امریکا اور معاہدۂ شمالی بحرِ اوقیانوس کی تنظیم (نیٹو) دونوں کو ناراض کیا ہے۔
ایک دور تھا کہ دنیا بھر میں ظلم و ستم کا سامنا کرنے والے بے کسوں کی فریاد سننے کا فریضہ مذہبی رہنما انجام دیا کرتے تھے۔ خانہ جنگی میں پھنسے ہوئے بے سہارا انسانوں بالخصوص بیواؤں اور یتیم بچوں کی داد رسی کے حوالے سے جو کردار مذہبی رہنماؤں کو ادا کرنا تھا، وہ رجب طیب ایردوان نے ادا کیا ہے۔ اس حوالے سے انہیں غیر معمولی مقبولیت حاصل ہوئی ہے۔ ایک تلخ حقیقت اور بھی ہے اور وہ یہ کہ دنیا بھر میں مذاہب کے ماننے والوں میں یہ تاثر بہت تیزی سے ابھرا ہے کہ اُن کے روحانی پیشواؤں نے انہیں چھوڑ دیا ہے۔ یہی سبب ہے کہ مذہبی اجتماعات میں حاضری گھٹتی جارہی ہے۔
میرا خیال یہ ہے کہ پوپ فرانسس کو اس بات سے زیادہ پریشانی لاحق ہونی چاہیے تھی کہ امریکا اور یورپ میں سیکڑوں گرجا گھر فروخت ہوچکے ہیں، حاضری کم ہوتی جارہی ہے اور سب سے بڑھ کر یہ کہ پادری بڑی تعداد میں بچوں سے زیادتی کے واقعات میں مقدمات کا سامنا کر رہے ہیں اور بہت سوں کو تو سزا بھی سنائی جاچکی ہے۔ یہ باتیں زیادہ پریشان کن ہیں مگر اِن پر متوجہ ہونے کے بجائے ترکی میں ایک گرجا گھر کو مسجد بنانے پر ردعمل کا اظہار کیا جارہا ہے۔
مجھے یاد نہیں پڑتا کہ جب اسرائیل نے صفد (Safad) میں تیرہویں صدی کی مسجد احمر کو نائٹ کلب میں تبدیل کیا تو دنیا بھر میں کسی بھی مذہب سے تعلق رکھنے والے کسی بھی رہنما نے ردعمل ظاہر کیا؟ شراب خانے میں تبدیل کیے جانے سے قبل یہ مسجد یہودیوں کا مرکز تھی اور پھر کدما پارٹی نے (جو ایریل شیرون اور زپی لیونی نے مل کر قائم کی تھی) اسے اپنا الیکشن آفس بنایا۔ گزشتہ برس اسرائیل میں نزارتھ کی ایک عدالت میں فلسطینی وقف بورڈ کے سیکرٹری خیر طبری نے مسجد احمر کی حوالگی کے حوالے سے مقدمہ دائر کیا تھا۔ اس مسجد پر انتہا پسند یہودیوں نے حملہ بھی کیا اور قرآن کے نسخوں کی بے حرمتی بھی کی۔ ان نسخوں کو ہٹا کر وہاں احکامِ عشرہ کے نسخے رکھ دیے گئے۔ یہ بات خیر طبری نے لندن میں قائم اخبار ’’القدس العربی‘‘ کو بتائی۔ ۱۹۴۸ء سے اب تک اسرائیل نے دوسری بہت سی مساجد کی بے حرمتی کی ہے، انہیں بمباری کا نشانہ بنایا ہے، مسمار کیا ہے مگر اس حوالے سے عالمی برادری کا کوئی ردعمل سامنے نہیں آیا۔
۲۰۱۸ء میں جب امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے شام کی گولان کی پہاڑیاں اسرائیل کے حوالے کیں تو اقوام متحدہ نے معمولی نوعیت کا ردعمل ظاہر کیا اور وہ بھی جلد ختم ہوگیا اور پھر ’’قنیطرہ‘‘ (Quneitra) نامی قصبے کا تذکرہ خال خال ہی سنائی دیا۔ ۲۰۰۱ء میں پوپ جان پال دوم نے وہاں اسرائیلی بمباری سے تباہ ہونے والے گرجا گھر میں عبادت بھی کی تھی! وہ شام کے تاریخی دورے کا تیسرا دن تھا اور پوپ نے ۱۹۷۴ء میں اسرائیلیوں کے انخلا کے وقت گرجا گھر کی باقیات کا دورہ کیا۔ برسوں کے قبضے کے بعد اسرائیلی فوجیوں نے انخلا کے وقت قنیطرہ کو شدید بمباری کا نشانہ بنایا۔ میں نے جب ۲۰۱۰ء میں اس قصبے میں قدم رکھا تو دیکھا کہ وہاں اسرائیلی فون کے انٹینا بھی ہیں اور فوجی بھی تعینات ہیں جنہوں نے قصبے پر نظر رکھی ہوئی تھی۔ پوپ نے جن میں عبادت کی وہ گریک آرتھوڈوکس چرچ کی باقیات تھیں۔ پوپ کے ساتھ جانے والے صحافیوں نے دیکھا کہ اسرائیلی بمباری سے گرجا گھر تباہ ہوا اور اس سے ملحق احاطے میں موجود قبور کی شدید بے حرمتی ہوئی مگر پھر بھی پوپ جان پال دوم نے اس حوالے سے کچھ بھی کہنے سے کامل احتراز کیا۔ پوپ جان پال دوم دراصل سینٹ پال کے نقوشِ قدم پر چل رہے تھے جنہوں نے دمشق کی راہ پر گامزن ہوتے ہوئے عیسائیت قبول کی تھی۔ پوپ جان پال دوم کے دورے کا بنیادی مقصد مسلمانوں اور عیسائیوں کے درمیان پائے جانے والے اختلافات دور کرکے ہم آہنگی کی فضا پیدا کرنا تھا۔ انہوں نے شام کے دارالحکومت دمشق میں بنو اُمیہ کے دور کی ایک مسجد کا بھی دورہ کیا تھا۔ اسی مسجد میں، مقبول روایات کے مطابق، یحییٰ علیہ السلام کا مقبرہ بھی ہے۔
میرا اندازہ ہے کہ اگر آج پوپ جان پال دوم ہوتے تو رجب طیب ایردوان کے حکم کو سمجھنے میں غلطی نہ کرتے اور کھلے دل سے قبول کرتے۔ یوں بھی ایردوان نے حکم کے ذریعے ۱۹۳۴ء کے اس حکم نامے کو منسوخ کیا ہے جس کے تحت آیا صوفیہ کو عجائب گھر میں تبدیل کیا گیا تھا۔ آیا صوفیہ کو اقوام متحدہ کے ادارے یونیسکو نے تاریخی ورثے میں شمار کیا ہوا ہے۔
گرجا گھر سے مسجد میں تبدیل کیے جانے والے آیا صوفیہ کو عجائب گھر میں تبدیل کرنے کا کوئی قانونی جواز یوں بھی نہیں تھا کہ اس عمارت کو ۱۴۵۳ء میں سلطان محمد دوم نے ایک وقف بورڈ کے تحت قانونی تحفظ فراہم کیا تھا۔ اس حوالے سے معرضِ وجود میں آنے والی دستاویز آج بھی انقرہ میں ہے۔ اس طاقتور ترک حکمران نے تب یہ گرجا گھر متعلقہ عیسائی حکام سے باضابطہ طور پر خریدا تھا۔
ایردوان کے فیصلے سے سب سے زیادہ جزبز یونانی حکومت ہوئی ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ انیسویں صدی میں آزادی نصیب ہونے پر یونانی حکمرانوں نے سلطنت عثمانی کے دور کی سیکڑوں مساجد اور دیگر مذہبی عمارتوں کو تباہ کیا۔ بہت سی مساجد کو بند کردیا گیا یا پھر گرجا گھر میں تبدیل کردیا گیا۔ سلطنتِ عثمانیہ کے دور کی سیکڑوں تاریخی عمارتوں کو فوجی جیل خانوں، دفاتر، سنیما گھروں، ہاسٹل اور گودام میں تبدیل کردیا گیا۔
روس نے بھی ایردوان کے اقدام کی مذمت کرتے ہوئے کہا ہے کہ وہ دنیا کو تقسیم کر رہے ہیں۔ یہ بات ایک ایسے ملک کے منہ سے بہت عجیب لگتی ہے جس نے شام میں بشارالاسد کی سفّاک آمریت کو مضبوط تر بنانے میں کلیدی کردار ادا کیا ہے اور ایک ایسی خانہ جنگی کو ہوا دی ہے جس نے شام کی نصف سے زائد آبادی کو بربادی سے دوچار کر رکھا ہے۔ بہت سے اقدامات ہیں جو روس کی منافقت ظاہر کرنے کے لیے کافی ہیں۔ اس نے کرائمیا کے حوالے سے قابلِ مذمت کردار ادا کیا۔ لیبیا میں باغی کمانڈر فیلڈ مارشل خلیفہ ہفتار کا ساتھ دیا۔ شام میں بشار الاسد کی پشت پناہی کی۔ لٹیوینینکو کے قتل میں اس کا کردار ہے۔ مغرب کے انتخابات میں اس کی مداخلت بھی کوئی ڈھکی چھپی حقیقت نہیں۔
آیا صوفیہ کے حوالے سے سب سے بڑا منافقانہ کردار تو یونیسکو کا ہے جس نے اس عمارت کے حوالے سے تاریخی ورثہ ہونے کا رونا رویا ہے۔ ۲۰۰۲ء میں جب چند فلسطینیوں نے بیت الحم کے چرچ آف نیٹیویٹی میں پناہ لی تھی تب اسرائیلی فوجیوں نے ان پر گولی چلانے سے گریز نہیں کیا تھا۔ عیسائیوں کی عبادت گاہ کا تقدس اسرائیلی فوجیوں کے ہاتھوں پامال ہونے پر یونیسکو نے کچھ نہیں کہا تھا۔ پوپ جان پال دوم نے معمولی نوعیت کا ردعمل ظاہر کیا تھا تاہم چرچ آف انگلینڈ کی طرف سے ایک لفظ نہیں کہا گیا۔
یہ بات خاص طور پر قابل ذکر ہے کہ امریکا اور اسرائیل نے تاریخی اور ثقافتی ورثے کی نگہبانی پر مامور اقوام متحدہ کے ادارے یونیسکو سے ۲۰۱۷ء میں باضابطہ طور پر الگ ہونے کا اعلان کیا۔ دو ڈھائی عشروں کے دوران امریکا کو تاریخی ورثے کے تحفظ سے زیادہ عراق کی تیل کی تنصیبات کے تحفظ کی فکر لاحق رہی ہے۔
مسجد اقصٰی اور دیگر متبرک مسلم مقامات کی بے حرمتی کے حوالے سے اخباری مضامین اور تجزیوں میں توجہ دلائی جاتی رہی ہے مگر کوئی شنوائی نہیں ہوئی۔ اسپین کے شہر کارڈوبا (قرطبہ) میں عظیم الشان مسجد آج بھی گرجا گھر کی شکل میں موجود ہے۔ اسی طور Seville کی مسجد بھی عیسائیوں کے معبد میں تبدیل کردی گئی ہے۔ اس حوالے سے احتجاج کی توفیق کسی کو نصیب نہیں ہوئی۔
غزہ کی پٹی کے لیے MEMO (مڈل ایسٹ مانیٹر) کے نمائندے معتصم دلول نے ایک رپورٹ میں لکھا ہے کہ اگر عبادت گاہوں کی نوعیت بدلنے پر احتجاج بنتا ہے تو پھر اسپین پر ۱۴۹۲ء میں عیسائی افواج کے قبضے کے بعد وہاں کی سب سے بڑی مسجد کو گرجا گھر میں تبدیل کرنے کا بھی نوٹس لیتے ہوئے اس پر احتجاج کیا جانا چاہیے۔ دنیا بھر میں جہاں بھی عبادت گاہوں کو تبدیل کیا گیا ہے، اُس کا نوٹس لیا جانا چاہیے۔ معتصم دلول نے اپنی رپورٹ میں مزید لکھا ہے کہ اس حقیقت کو کسی بھی طور نظر انداز نہیں کیا جاسکتا کہ مسلم حکمرانوں نے آیا صوفیہ کو عیسائی انتظامیہ سے باضابطہ خریدا تھا، طاقت کے ذریعے اس پر تسلط قائم نہیں کیا تھا۔
دنیا بھر میں جتنے بھی سیاسی قائدین ایردوان کے فیصلے پر جزبز ہوئے ہیں اور ان پر تنقید کے حوالے سے جوش و جذبہ محسوس کر رہے ہیں، انہیں اس نکتے پر غور کرنا چاہیے کہ ماضی کی غلطیوں کو درست کرنا لازم ہے اور یہ اچھا موقع ہے ایسا کرنے کا۔ ماضی میں جو کچھ بھی غلط ہوا، اُس کے ازالے پر توجہ دینی چاہیے۔ جہاں مذہب اور عبادت کی بات آجائے، وہاں سیاست کو ترجیح دینا کسی بھی اعتبار سے کوئی قابلِ ستائش رویہ نہیں۔ اور خاص طور پر ان کے لیے جو (ما سوائے پوپ فرانسس کے) مذہب کے بارے میں یوں بھی کم ہی جانتے ہیں اور اپنی تاریخ سے تو اور بھی کم واقف ہیں۔
(ترجمہ: محمد ابراہیم خان)
“Hagia Sophia: Religious and political leaders are missing their own chances to right historical wrongs”. (“middleeastmonitor.com”. July 13, 2020)
Leave a Reply