کتابوں کے بغیر آدھے ادھورے لوگ

اردو کتابوں کے شائقین کی تعداد کم سے کم تر ہوتی جارہی ہے ۔ ریل گاڑیوں، بسوں اور عوامی مقامات پر اب ایسا کوئی شخص شاذ و نادر ہی نظر آتا ہے کہ جس کے ہاتھوں میں اردو کی کوئی کتاب ہو۔ رسائل پڑھنے والے ، کم تعداد ہی میں سہی لیکن آج بھی موجود ہیں۔ اخبارات پڑھنے والوں کی تعداد میں کوئی کمی نہیں ہوئی ہے۔ لیکن کتابوں کے متوالے اتنے کم ہو گئے ہیں کہ ڈر لگتا ہے کہ کہیں وہ دَور نہ آجائے جب کتابوں کے کسی شائق کے ہاتھوں میں ایک دو کتابیں دیکھ کر لوگ باگ اس پر حیران ہوں ۔ اُسے دور قدیم کی کوئی مخلوق سمجھ بیٹھیں اور اُس سے دور ہو جائیں یا پھر اس کے خلاف پولیس میں شکایت درج کرا دیں کہ ایک شخص مشکوک حالت میں دیکھا گیاہے ویسے وہ دَور تو آ ہی چکاہے ۔ جب کسی علم و ادب دوست کے ملاقاتی اس کے ذخیرہ کتب کو دیکھ کر انگشت بدنداں رہ جاتے ہیں کہ ’’ آپ کے ہاں اتنی کتابیں ہیں !‘‘

کتابوں سے عدم دلچسپی کی وجوہات پر غور کیا جائے تو مشینی زندگی کی مصروفیت اور ٹیلی ویژن سے رغبت سامنے آتی ہیں جن سے کسی کو انکار نہیں لیکن جب انسان نے اپنے روز و شب کے معمولات میں کسی چیز کی تخفیف نہیں کی تو سوال یہ ہے کہ کتابوں کو کیوں خیرباد کہہ دیا؟ آدمی خواہ کتنا ہی عدیم الفرصت ہو، اگر اس میں چاہ ہے تو راہ بہ آسانی نکل سکتی ہے ۔ مثال کے طور پر ایک شخص اگر دن بھر مصروف رہتا ہے تب بھی وہ رات کو سونے سے پہلے چند صفحات پڑھ سکتا ہے اور اپنے علم میں اضافہ کرسکتا ہے لیکن ہم دیکھتے ہیں کہ اب کتاب کے لیے گھنٹہ، آدھ گھنٹہ بھی نہیں نکالا جا تا جب کہ اتنا وقت کسی دشواری کے بغیر نکل سکتا ہے ۔ ایسی صورت میں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ آخر کیا وجہ ہے کہ کتاب چھوٹ گئی ؟ کتاب کے چھوٹنے کا سب سے بڑا نقصان یہ ہو رہا ہے کہ ہمارے ذہن کورے کاغذ کی طرح سپاٹ ہوتے جارہے ہیں ، علم نا پید ہوتا جا رہا ہے ، علم کی وجہ سے شخصیت میں جو دبازت پیدا ہوتی تھی۔ مفقود ہوتی جا رہی ہے ۔ وہ گفتگو جس سے علم جھلکتا تھا ،گزرے دنوں کی داستان ہوتی جارہی ہے یعنی ’’جن سے مل کر زندگی سے عشق ہو جائے وہ لوگ‘‘ اب پیدا نہیں ہو رہے ہیں۔ ایسی صورت میں فیصلہ یہ کرنا ہو گاکہ ہمیں کیسا سماج اور معاشرہ چاہیے ؟ وہ سماج اور معاشرہ جس میں گھر ’’کتابوں ‘‘سے اور انسان ’’علم‘‘سے خالی ہوں؟

اگر ہم ایسے ہی سماج اور معاشرہ کی تشکیل کے خواہش مند ہیں تو لیجیے یہ اعتراف حاضر ہے کہ جو کچھ بھی ہو رہا ہے سب ٹھیک ہو رہا ہے۔ معاشرہ بالکل صحیح سمت میں سفر کر رہا ہے لیکن اگر ہمارے ذہن کا ایک معمولی سا گوشہ بھی اقرار کرتا ہے کہ انسانی زندگی کے لیے علم اور علم کے لیے کتابیں ضروی ہیں اور یہ کہ کتابیںروح کی غذا ہیں تو پھر ہمیں اپنے آپ کو ٹٹولنے اور اس سوال پر غور کرنے کی ضرورت ہے کہ آخر ہم نے کتابوں کو اپنی زندگی سے کیوں نکال دیا؟ ہمیں اپنا محاسبہ کرتے ہوئے یہ بھی سوچنا چاہیے کہ کتابوں سے دوری اختیار کر کے ہم کتنے ادھورے ہو گئے ہیں۔ ہم نبی کریمﷺ کے نام لیوا ہیں اور ان کی شان میں بجا طور پر کسی گستاخی کو برداشت نہیں کر سکتے لیکن ہم نے سیرت پر کوئی کتاب نہیں پڑھی۔

ہم اسلام کے نام پر جان نچھاور کرنے کو تیار ہیں لیکن ہم نے تاریخ اسلام نہیں پڑھی۔ ہم اپنے اسلاف اور آزادی ہند میں مسلمانوں کے کار ہائے نمایاں پر فخر محسوس کرتے ہیں لیکن ہم نے اسلاف کی تاریخ نہیں پڑھی۔ اب سے بیس پچیس سال پہلے تک بھی اکثر گھروں میں خواہ ان کا علم و ادب سے کوئی براہ راست تعلق نہ رہا ہو بہشتی زیوراور قصص الانبیاء جیسی کتابیں،ابن صفی کے ناول اور نور، بتول،شبستان یا ہما جیسے رسالے ضرور ہوتے تھے افسوس کہ آج کے قیمتی سے قیمتی گھر کل کے معمولی سے معمولی گھر کی برابری بھی نہیں کر پاتے۔ کیا ہمیں پتا ہے کہ ہم اتنے غیر معیاری ہو چکے ہیں؟ معاف کیجیے گا آج کے گھروں میں ایسی کوئی کتاب اور کوئی رسالہ نظر نہیں آتا۔

اگر ہمیں کتابوں کی اہمیت اور افادیت کا تھوڑا بہت بھی شعور اور احساس ہے تو پھر اس قیمتی اثاثے کو ایک بار پھر اپنے گھروں کی زینت بنانا ہو گا۔ اپنے مصروف شب و روز کا آدھ گھنٹہ ہی سہی کتاب پڑھنے پر صَرف کرنا ہوگا اور کتابوں کے بغیر لاحق ہونے والے اس ادھورے پن سے باہر نکلنا ہو گا جس نے ہماری شخصیت میں ایک ایسا خلا پیدا کر دیا ہے کہ جسے ہم ٹیلی ویژن سے پر نہیں کر سکتے ۔

(بشکریہ: سہ ماہی ’’اُردو بک ریویو‘‘ نئی دہلی۔ شمارہ: جولائی تا ستمبر ۲۰۰۷ء)

Be the first to comment

Leave a Reply

Your email address will not be published.


*