اسلامی قوانین میں عورت کے موقف کا مسئلہ ایک عرصۂ دراز سے توجہ کا مرکز بنا رہا اور اکثر و بیشتر تذکیر و تانیث کی بنیاد پر عورت کی ثانوی حیثیت کا شکوہ نہ صرف عوام الناس بلکہ دانشور تعلیم یافتہ طبقہ بھی کرتا رہا ہے۔ چنانچہ اسلامی قانون وراثت میں عورت کے موقف کو صرف اس بنیاد پر ہدف تنقید بنایا گیا کہ اس میں عورت کا حصہ مرد کے حصہ کے نصف رکھا گیا ہے۔ اس اعتراض کا عقلی دلائل کی روشنی میں ایک جائزہ قارئین کے غور و فکر کے لیے پیشِ خدمت ہے۔
اگر ظہورِ اسلام سے قبل ایامِ جاہلیت میں عورتوں کے حقوق کا جائزہ لیا جائے تو معلوم ہو گا کہ تمام متروکہ جائیداد صرف مرد رشتہ داروں میں تقسیم کر دی جاتی تھی اور نہ صرف عورت کو مکمل طور پر محروم رکھا گیا تھا بلکہ ایسے مرد رشتہ دار جو عورت کے ذریعہ صاحبِ جائیداد سے رشتہ رکھتے ہوں انہیں بھی محروم کر دیا جاتا تھا۔ یہ ایسا طرزِ عمل تھا‘ جو صدیوں سے چلا آرہا تھا اور اس قدیم طرزِ عمل کو تبدیل کر کے متروکہ میں عورتوں کو حصہ داری کا حق عطا کرنا اسلام کا عورت کے مفاد میں ایک بہت بڑا کارنامہ ہے اور خصوصاً جب کہ اس تبدیلی سے دیگر مرد رشتہ داروں کا حصہ متاثر ہوتا ہو اس کو عملاً نافذ کرنا ایک آسان کام نہیں تھا۔ اس لیے ایسی تبدیلی کو یقینی بنانے کے لیے خداے بزرگ و برتر نے خاص اہتمام فرمایا اور خود قرآنِ کریم میں ان حصہ داروں کے نام اور مقدار و حصے کا تعین فرما دیا اور یہ بھی لازمی قرار دیا کہ متروکہ کی تقسیم میں سب سے پہلے قرآن میں صراحت کردہ حصہ داروں کو حصہ دیا جائے اور اس کے بعد باقی متروکہ دیگر حصہ داروں میں تقسیم کیا جائے۔ یہ انتظام اس لیے ضروری قرار پایا تاکہ کسی بھی طرح مقررہ حصہ داروں کے حقوق سے فرار ممکن نہ ہو سکے۔ ایسے رشتہ داروں کی تعداد بارہ ہے جن کے نام اور حصہ قرآن میں بیان فرما دیے گئے ہیں۔ ان بارہ حصہ داروں میں آٹھ خواتین ہیں اور چار مرد‘ یعنی ان بارہ حصہ داروں میں عورتوں کی تعداد مرد حصہ داروں سے دوگنا ہے۔ ان آٹھ خواتین کے نام اور حصہ مندرجہ ذیل ہیں۔
بیوی ۸/۱ حصہ‘ ماں ۶/۱‘ دادی یا پڑدادی ۶/۱‘ بیٹی ۲/۱ حصہ‘ بیٹیاں دو یا دو سے زائد ہوں تو سب کو اجتماعی طور پر ۳/۲ حصہ (لیکن یہ ایسی صورت میں جبکہ بیٹا موجود نہ ہو)‘ پوتری ۲/۱‘ سگی بہن ۲/۱‘ علاتی بہن ۲/۱‘ اخیانی بہن ۶/۱‘ ان آٹھ خواتین کے علاوہ چار مرد حصہ دار یہ ہیں: باپ ۶/۱ حصہ‘ دادا یا پڑ دادا ۶/۱‘ شوہر ۴/۱ حصہ‘ اختیانی بھائی ۶/۱‘ اب اس فہرست میں ان رشتہ داروں کے حصوں کی مقدار کو تذکیر و تانیث کی بنیاد پر غور فرمائیے جس کی جدول اس طرح ترتیب دی جاسکتی ہے۔ ماں باپ ۶/۱ حصہ‘ پڑ دادا پڑ دادی ۶/۱ حصہ‘ شوہر بیوی ۴/۱۔۸/۱ حصہ‘ بیٹی پوتری ۲/۱ حصہ‘ سگی بہن‘ علاتی بہن ۲/۱ حصہ‘ اخیانی بھائی اخیانی بہن ۶/۱ حصہ۔ اس فہرست پر غور فرمائیے اور دیکھیے کہ کس طرح ماں اور باپ دونوں کو بلا کسی تفریق کے تذکیر و تانیث مساوی ۶/۱ حصہ دیا گیا۔ اسی طرح دادا‘ پڑ دادا‘ دادی‘ پڑ دادی‘ اخیانی بھائی اور اخیانی بہن کو بلا تفریق تذکیر و تانیث ۶/۱ حصہ دیا گیا۔ یعنی اس فہرست میں درج ایسے تمام رشتہ دار جن کے درمیان تذکیر و تانیث کا فرق موجود ہے‘ ان کے حصول کی مقدار میں کوئی فرق نہیں رکھا گیا بلکہ ہر ایک کو بلاتفریق تذکیر و تانیث مساوی حصے دیے گئے۔ اس لیے یہ اعتراض کہ عورت کے ساتھ محض جنس کی بنیاد پر امتیاز کیا گیا درست نہیں ہے۔ اس طرح اگر صاحبِ جائیداد کی اولاد میں بیٹا موجود نہیں ہے تو بیٹی کی جائیداد کا ۲/۱ حصہ ملتا ہے اور اگر بیٹیاں ایک سے زائد ہوں تو سب کو مجموعی طور پر ۳/۲ حصہ ملتا ہے۔ البتہ اگر بیٹے کے ساتھ بیٹی بھی مشترک الوجود ہو تو صرف ایسی صورت میں بیٹے اور بیٹی کے حصوں کا تناسب ۱:۲ ہو جاتا ہے اور بیٹی کو بیٹے کے حصے کا نصف دیا جتا ہے۔ یہاں یہ بات قابلِ غور ہے کہ مقرر کردہ حصہ داروں کے درمیان جیسا کہ اوپر بیان کیا گیا‘ تذکیر و تانیث کی بنیاد پر کوئی فرق نہیں رکھا گیا اور ماں باپ‘ دادا دادی‘ پڑ دادی یا اخیانی بھائی اور اخیانی بہن کے حصے مساوی قرار دیے گئے تو آخر بیٹے اور بیٹی کے درمیان ۱:۲ کا تناسب کیوں رکھا گیا ہے؟ اس مسئلے کے چند عقلی دلائل حاضرینِ کرام کی خدمت میں غور کے لیے پیش ہیں۔
اسلام ایک دینِ فطرت ہے یعنی یہ انسانی فطرت کے عین تقاضوں کو ملحوظ رکھتے ہوئے اوامر و نواہی کے مناسب حدود متعین کرتا ہے۔ اس لیے ضروری ہے کہ اس مسئلہ کا بھی فطرت انسانی کے تقاضوں کی روشنی میں جائزہ لیا جائے۔ قارئین کرام‘ تہذیب یافتہ سماج میں ’’خاندان‘‘ کا تصور ایک بہت ہی اہم اور پرمعنی حیثیت کا حامل ہے جو انسانی رشتوں کی بنیادیں قائم کرتا ہے۔ عام طور پر خاندان کی شناخت مرد کے ساتھ کی جاتی ہے۔ اس لیے مرد کو خاندان میں ایک مرکزی حیثیت حاصل ہوتی ہے۔ ماں باپ‘ بیٹے بیٹیاں اور بھائی بہن خاندان کے اہم رشتہ دار ہیں اور کسی خاندان کی عزت‘ حیثیت اور سماجی مقام کا تعین ان ہی رشتہ داروں سے منسلک ہوتا ہے یعنی خاندان کی اکائی (Unit) کے ضروری عناصر یہی رشتہ دار ہیں اور انہی عناصر کی انفرادی حیثیت خاندان کی اجتماعی حیثیت کو تشکیل دیتی ہے۔ خاندان کی دولت اسی خاندان کے افراد کے پاس محفوظ رہے اور یہ دوسرے خاندان میں جانے نہ پائے۔ یہ ایک ایسا فطری تقاضا ہے جو اوائل انسانیت سے ہی سماج میں کارفرما رہا ہے اور اس کے لیے کسی خاص مذہب‘ ملک یا خطہ کو موردِ الزام نہیں ٹھہرایا جاسکتا کیونکہ یہ فطری تقاضا عالمِ انسانیت کے پورے ڈھانچے میں موجود پایا جاتا ہے اور اس کے لیے کسی خاص نظامِ وراثت پر بھی تنقید مناسب نہیں معلوم ہوتی۔
(بحوالہ نقوش ڈاٹ کام)
Leave a Reply