نیویارک ٹائمز سے متعلق صحافی ایتھان برونر (Ethan Bronner) نے گزشتہ دنوں غزہ کا دورہ کر کے یہ تاثرات قلم بند کیے۔
غزہ پر اسرائیلی جارحیت کو آٹھ ماہ پورے ہو رہے ہیں۔ ان آٹھ ماہ میں حماس کی پالیسی میں نمایاں تبدیلی دیکھی جا رہی ہے۔ یوں لگتا ہے، حماس نے دفاعی عسکری طریقوں کو فی الحال ملتوی کر کے ثقافتی محاذ سنبھال لیا ہے۔ وہ فلسطینی عوام کو اور عالمی سطح پر یہ پیغام دینا چاہتی ہے کہ اسرائیل کے خلاف مزاحمت جاری رکھی جائے گی تاہم مزاحمت کا انداز بدل جائے گا۔ حماس نے نئی حکمت عملی کو ’’مزاحمت کا کلچر‘‘ قرار دیا ہے۔ اس موضوع پر غزہ میں دو روزہ کانفرنس کی گئی۔ ’’مزاحمت کا کلچر‘‘ کے موضوع پر حالیہ دنوں میں ایک اسٹیج ڈرامہ منعقد کیا گیا، ایک مووی دکھائی گئی، آرٹ کی ایک نمائش ہوئی، نظموں کی ایک کتاب شائع ہوئی اور ٹیلی وژن پر ایک سیریز نشر ہونا شروع ہوئی۔ دستاویزی فلموں کا ایک مقابلہ بھی زیر غور ہے۔ ان میں سے اکثر سرگرمیاں حماس کی حکومت کے تعاون سے منعقد ہوئیں، اور ان سب میں غزہ کے فلسطینیوں کا احوال دکھایا اور سنایا گیا ہے جن سے وہ تین ہفتے جاری رہنے والی اسرائیلی جارحیت کے نتیجے میں دوچار ہوئے۔ حماس کے لیڈر ایمن طٰہٰ کا کہنا ہے ’’صورتحال تقاضا کرتی ہے کہ اسرائیل پر راکٹ حملے بند کیے جائیں۔ جنگ کے بعد عام لوگوں کی طرح مجاہدین کو بھی سستانے کی ضرورت ہے‘‘۔
حماس نے ۲۰۰۲ء میں اسرائیل پر غزہ سے چھوٹی رینج کے قسام راکٹ برسانا شروع کیے تھے، یہ باقاعدگی سے برستے رہے، بعض اوقات تو یومیہ درجنوں راکٹ برسائے گئے، تاہم خود فلسطینی عوام نے ان راکٹ حملوں کی افادیت پر سوال اٹھائے کیونکہ راکٹوں سے اسرائیلیوں کا اتنا نقصان نہیں ہوا جتنا فلسطینیوں کا ہوا، چنانچہ اسرائیلی فوج کے مطابق جون ۲۰۰۹ء میں غزہ سے صرف دو راکٹ برسائے گئے۔
دسمبر اور جنوری میں اسرائیلی جارحیت مقاصد کے حصول کے اعتبار سے کامیاب رہی تاہم رائے عامہ کے حوالے سے حماس کو فتح ملی۔ حماس نے دیکھا کہ عالمی سطح پر اسرائیل کی مذمت کی گئی کیونکہ حماس اور اسرائیل کی فوجی طاقت میں کوئی نسبت نہ تھی۔ حماس کے لیڈر جانتے ہیں کہ فریقین کی طاقت میں پایا جانے والا عدم توازن عالمی رائے عامہ کو اسرائیل سے متنفر کرنے کا باعث بنے گا، شاید یہی وجہ ہے کہ راکٹ حملے روکنا خود حماس کا مثبت تاثر اجاگر کرنے میں مددگار ہو گا۔
حماس کی حکومت کے وزیر ثقافت اسامہ العیسوی نے دو روزہ کانفرنس کے دوران ایک وقفے میں بین الاقوامی صحافیوں سے گفتگو میں کہا ’’ہم دہشت گرد نہیں بلکہ مزاحمت کار ہیں، ہم دنیا کو اپنی حقیقت سے آگاہ کرنا چاہتے ہیں۔ ہم چاہتے ہیں کہ دنیا بھر کے ادیب اور دانشور غزہ آئیں اور دیکھیں کہ فلسطینی عوام کی روز مرہ زندگی کیسے گزرتی ہے‘‘۔
فلسطینیوں کی زندگی واقعی سخت دشوار ہو چکی ہے۔ اسرائیل نے اقتصادی پابندیاں لگا رکھی ہیں چنانچہ اقتصادی سرگرمیاں محض کاشتکاری اور بنیادی تجارت تک محدود ہیں۔ اسرائیل خوراک اور دوائوں کے اگرچہ یومیہ سو ٹرک داخل ہونے کی اجازت دیتا ہے تاہم یہ مطلوبہ مقدار سے بہت کم ہوتا ہے۔ کچھ اسمگلرز مصر سے سرنگوں کے ذریعے اشیائے صرف پہنچاتے ہیں۔ لگتا ہے، اسرائیل نے بھی حالیہ جنگ سے سبق لیے ہیں۔ اس نے طویل عرصہ بعد پہلی بار گزشتہ دنوں چند آلات اور شیشہ غزہ میں آنے کی اجازت دی۔
اسرائیل حکام بھی سمجھتے ہیں کہ انہیں فلسطینی عوام کے ساتھ تعلقات بہتر بنانے چاہییں، چنانچہ فریقین عالمی رائے عامہ کی حمایت حاصل کرنے کے لیے ایک بار پھر ایک دوسرے کے مقابل آ چکے ہیں۔ دونوں ہی، صحافیوں پر فریق مخالف کے ساتھ ہمدردی کا الزام عائد کرتے ہیں۔
غزہ شہر کے ایک ثقافتی مرکز میں آج کل ایک کھیل ’’غزہ کی خواتین اور صبر‘‘ چل رہا ہے۔ اس کھیل کے مصنف، ڈائریکٹر اور اداکار سعید البیطار کا کہنا ہے کہ راکٹ حملوں کو کامیاب قرار دینا بہت بڑا جھوٹ ہے، اور ہم سب اس جھوٹ کی قیمت ادا کر رہے ہیں، یہ عوام کے جذبات ہیں جن کا اظہار میں کھیل کے ذریعے کر رہا ہوں‘‘۔ بیطار حماس کے حامی نہیں ہیں، پھر بھی یہاں مقبول ہیں۔ انہوں نے اعتراف کیا کہ حماس کی پالیسیوں پر تنقید کے باوجود حکومت نے ان پر نکتہ چینی یا ان کو تنگ نہیں کیا ہے اور برداشت سے کام لیا ہے۔
سعید البیطار کے ایک اقدام پر اسلام پسندوں کو اعتراض ہے۔ کھیل کے تمام اداکار، خود ان کے سوا، خواتین ہیں، حتیٰ کہ خواتین اسٹیج پر آ کر گاتی ہیں۔
اسلامی یونیورسٹی میں ادب کے پروفیسر اور شاعر عبدالخالق الاف ثقافتی امور پر حماس حکومت کے مشیر اعلیٰ ہیں اور غزہ کے کیس کو بیرونی دنیا میں سلیقے سے پیش کرنے کے لیے آرٹسٹوں اور ادیبوں کے ساتھ کام کر رہے ہیں۔ انہوں نے صحافیوں کو بتایا کہ غزہ کی صورتحال کو بہترین طریقے سے دنیا کے سامنے پیش کرنے پر ادیبوں، شاعروں اور ہدایت کاروں کو ایوارڈ بھی دینے کا منصوبہ ہے۔ غزہ کے موضوع پر رمضان المبارک میں ٹی وی پر ایک سیریز پیش کی جائے گی۔
حماس کے صف اوّل کے رہنما ڈاکٹر محمود الزہار کی تحریر کردہ ایک مووی کا پریمیئر گزشتہ دنوں اسلامی یونیورسٹی میں منعقد ہوا۔ یہ مووی حماس کے کمانڈر عماد عقیل کی زندگی پر مبنی ہے جنہیں ۱۹۹۳ء میں اسرائیلی فوج نے شہید کر دیا تھا۔ دو گھنٹے طویل اس مووی میں عقیل شہید کے مختلف بھیس دکھائے گئے ہیں۔ ایک بھیس میں وہ اسرائیلی مذہبی شخصیت ہیں۔ مناظر جنوبی غزہ میں ایک نئے میڈیا سینٹر میں فلمائے گئے ہیں جو اس جگہ تعمیر کیا گیا ہے جہاں پر پہلے یہودی آبادکار رہتے تھے۔ یہ علاقہ چار سال پہلے اسرائیل فوج نے خالی کر دیا تھا۔
(بحوالہ: ’’نیویارک ٹائمز‘‘۔ ۲۴ جولائی ۲۰۰۹ء)
Leave a Reply