افریقا میں تجارت اور سرمایہ کاری کے حوالے سے امریکی کوششوں میں تیزی آتی جارہی ہے۔ امریکا چاہتا ہے کہ افریقا کی ترقی میں بھی کسی نہ کسی حد تک کردار ادا کرے تاکہ اس خطے میں اس کے اثر و رسوخ میں اضافہ ہو۔ اسی عزم کے ساتھ امریکی وزیر خارجہ ہلیری کلنٹن یکم اگست کو افریقی ممالک کے گیارہ روزہ دورے کے ابتدائی مرحلے میں سینیگال کے دارالحکومت ڈاکار (Dakar) پہنچیں۔ اس دورے میں وہ یوگنڈا، جنوبی سوڈان، ملاوی، جنوبی افریقا، گھانا اور کینیا بھی گئیں۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ جب امریکا اور اس کے یورپی حلیف افغانستان اور عراق میں جنگ لڑ رہے تھے تب چین نے ۵۵ ممالک والے بر اعظم افریقا کے بیشتر بڑے ترقیاتی منصوبوں میں نہایت اہم کردار ادا کیا۔ اس کے نتیجے میں اب اس خطے میں اس کی پوزیشن خاصی مستحکم ہوچکی ہے۔ افریقا میں امریکی اثرات خاصے گھٹ گئے ہیں۔ ہلیری کلنٹن کے دورے کا بنیادی مقصد چین کے اثرات کم کرنا تھا تاکہ امریکا کے لیے راہ ہموار ہو۔
ہلیری کلنٹن گزشتہ برس آزادی پانے والے جنوبی سوڈان کا دورہ کرنے والی بلند ترین منصب کی حامل امریکی شخصیت ہیں۔ اس دورے کا مقصد بھی نو زائیدہ عیسائی مملکت کو سلامتی کے حوالے سے اور تیل کی برآمدات میں اضافے کے لیے اقدامات میں تعاون کا یقین دلانا تھا۔
امریکی وزیر خارجہ نے جنوبی افریقا کے دورے میں ملک کے سابق صدر اور نسل پرستی کے خلاف زندگی بھر جدوجہد کرنے والے ۹۴ سالہ رہنما نیلسن مینڈیلا سے بھی ملاقات کی۔ ہلیری کلنٹن کے دورے کی آخری منزل گھانا تھی جہاں انہوں نے سابق صدر آنجہانی جان ایٹا ملز (John Atta Mills) کی آخری رسوم میں شرکت کی۔ امریکی وزیر خارجہ نے سینیگال میں جمہوریت کے ارتقا پر نیک خواہشات کا اظہار کیا۔ مارچ کے عام انتخابات میں اپوزیشن لیڈر سال (Sall) نے ۲۰۰۰ء سے اقتدار میں رہنے والے عبداللہ وعدے کو شکست دی تھی۔
امریکی صدر براک اوباما نے جون میں صحرائے صحارا کے زیریں ممالک میں سلامتی کے حوالے سے نئی پالیسی کا اعلان کیا تھا۔ اس خطے میں چین کے معاشی حملے کو روکنا بھی امریکی پالیسیوں کا بنیادی جُز ہے۔ امریکا نے ایفریکوم (Africom) کے عنوان سے فوج کی افریقی کمانڈ بھی تشکیل دے دی ہے، جو مغربی افریقا میں تربیتی پروگرام شروع کر رہی ہے۔ یہ پروگرام خطے میں امریکی فوج کے لیے راہ ہموار کرنے کی خاطر ہے۔ واشنگٹن میں قائم مائیکل ایس انصاری افریقا سینٹر کے سربراہ پیٹر فیم (Peter Pham) کہتے ہیں ’’ہلیری کلنٹن کا گیارہ روزہ دورہ ثابت کرتا ہے کہ امریکا کے لیے صحرائے صحارا کا خطہ تزویراتی اعتبار سے کس قدر اہمیت اختیار کرگیا ہے۔ صومالیہ میں دہشت گرد مستحکم ہوچکے ہیں اور اب مالی میں بھی انہوں نے خود کو مضبوط کرنا شروع کردیا ہے۔ امریکا نے اب توانائی کے حصول کے لیے شمالی افریقا اور خلیج گنی پر انحصار بڑھا دیا ہے۔ افریقا کے کئی خطے اِسی لیے اہم ہوگئے ہیں‘‘۔
لندن کے تھنک ٹینک کیتھم ہاؤس میں افریقی پروگرام کے سربراہ الیکس وائنز کہتے ہیں ’’ہلیری کلنٹن کے دورے کا بنیادی مقصد امریکی کمپنیوں کے لیے کاروباری مواقع میں اضافہ کرنا ہے۔ براک اوباما دو تین برس سے یہ ثابت کرنے کی کوشش کرتے رہے ہیں کہ امریکی کمپنیاں کسی بھی خطے میں کسی بھی نوعیت کی مہم جوئی کے لیے تیار ہیں۔ ہلیری کلنٹن کو بھی یہی پیغام دینے کے لیے افریقا بھیجا گیا‘‘۔
چین کے صدر ہوجن تاؤ نے ۱۹؍ جولائی کو بیجنگ میں افریقی رہنماؤں کے اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ چین تین برسوں کے دوران افریقی حکومتوں کو بنیادی ڈھانچا بہتر بنانے کے لیے ۲۰؍ ارب ڈالر سے زائد کے قرضے فراہم کرے گا۔ ان قرضوں کا کچھ حصہ مینوفیکچرنگ کے شعبے کو ترقی دینے کے لیے بھی استعمال ہوگا۔ چین نے دو عشروں کے دوران افریقا میں بڑے پیمانے پر سرمایہ کاری کی ہے۔ سوڈان اور انگولا سے وہ بڑے پیمانے پر تیل درآمد کرتا رہا ہے۔ زیمبیا اور جمہوریہ کانگو سے چین نے بڑے پیمانے پر تانبا خریدنے اور افریقا میں پائپ لائنز، سڑکیں اور بندرگاہیں تعمیر کرنے پر خاص توجہ دی ہے۔ ناقدین اور مبصرین کہتے ہیں کہ چین نے افریقا کی مجموعی ترقی سے زیادہ اپنے مینوفیکچرنگ کے شعبے کے فروغ کو اہمیت دی ہے۔ بنیادی ڈھانچے کی تعمیر میں بھی چینی محنت کشوں سے کام لیا گیا ہے۔ صدر ہوجن تاؤ کا کہنا تھا کہ چین اور افریقا کے درمیان تجارت ۶ برسوں کے دوران دگنی ہوچکی ہے اور ۲۰۱۱ء میں مجموعی تجارت کا حجم ۳ء۱۶۶؍ارب ڈالر تک جا پہنچا۔ افریقا میں چین کی براہِ راست سرمایہ کاری بھی اب ۱۵؍ارب ڈالر سے زائد ہوچکی ہے۔
عالمی تجارت کے فروغ سے متعلق چینی کونسل کے سربراہ یوپنگ (YuPing) نے ایک پریس کانفرنس میں افریقی حکومتوں کو یقین دلایا کہ چینی کمپنیاں اپنی معاشرتی ذمہ داریاں بھی نبھائیں گی اور افریقی معاشروںمیں بہبودِ عامہ کی سطح بلند کرنے میں اپنا کردار ادا کریں گی۔ چند برسوں کے دوران چین نے افریقا میں اپنے معاشی مفادات کو مستحکم کرنے پر غیر معمولی توجہ دی ہے مگر اس نے بر اعظم کے لیے امداد بڑھانے اور عمومی معیارِ زندگی بلند کرنے پر خاطر خواہ توجہ نہیں دی۔ امریکا نے ۲۰۰۹ء میں افریقا کو ۸؍ ارب ۲۰ کروڑ ڈالر کی امداد دی۔ اوباما انتظامیہ نے افریقا میں صحتِ عامہ کی سطح اور معیار بلند کرنے پر خاص توجہ دی ہے۔
افریقا میں چینی اثرات کم کرنے کی امریکی کوششوں پر چین کی جانب سے حیرت انگیز طور پر شدید ردعمل ظاہر کیا گیا ہے۔ چین کی سرکاری خبر رساں ادارے سنہوا (Xinhua) نے ایک تبصرے میں لکھا کہ امریکی وزیر خارجہ نے چھ افریقی ممالک کا دورہ کرکے در اصل چین اور افریقی حکومتوں کے معاشی روابط کو غیر اہم قرار دینے کی کوشش کی ہے جو چند برسوں کے دوران غیر معمولی حد تک پنپ گئے ہیں۔ سنہوا نے چین اور افریقی حکومتوں کے روابط کے حوالے سے ہلیری کلنٹن کے ریمارکس کو بھی اہانت آمیز قرار دیا۔
ہلیری کلنٹن نے ڈاکار میں سینیگالی سیاست دانوں اور کاروباری شخصیات سے خطاب میں کہا کہ امریکا نے افریقا سے معاشی روابط کا ایسا ڈھانچا تیار کیا ہے جس کا بنیادی مقصد خطے کو ترقی دینا ہے، محض (معدنی) وسائل نکالنا نہیں۔ سنہوا نے تبصرے میں لکھا کہ افریقا کو مزید ترقی کی ضرورت ہے۔ اگر امریکا کوئی کردار ادا کرنا چاہتا ہے تو اچھی بات ہے مگر اس معاملے میں کسی ملک کے خلاف جانے کی ضرورت نہیں۔ واشنگٹن کو ناپختہ ہتھکنڈے اپنانے سے گریز کرنا چاہیے۔
(مصنف اقوام متحدہ کے لیے بنگلہ دیش کے سابق سفیر ہیں)
(“Hillary’s Attempt to Counter Chinese Influence”… “Weekly Holiday” Dhaka. August 31st, 2012)
Leave a Reply