چائے کی تاریخ

جب آپ ہلکے رنگ کا مرکب اپنے کپ میں انڈیلتے ہیں اور اس خوشبودارمشروب کو ہونٹوں کے ساتھ لگاتے ہیں تو یہ تصور کرنا مشکل ہوتا ہے کہ آپ پانچ ہزار سال پرانی روایت جاری رکھے ہوئے ہیں۔ بلاشبہ تاریخی اعتبار سے چائے ایک پرانا مشروب ہے۔ خیال کیا جاتا ہے کہ یہ افسانوی مشروب پانچ ہزار سال پہلے ایک غلطی کے نتیجے میں سامنے آیا جب چین کا بادشاہ پانی کے ابلتے ہوئے برتن میں چائے کے کچھ پتے دیکھ کر پریشان ہوگیا۔ تجسس کی وجہ سے بادشاہ نے پانی چکھا اور اسے اس کا ذائقہ پسند آیا۔ جلد ہی چائے چین کی ثقافت کا حصہ بن گئی اور سن ۸۰۰ء تک ایک ذین بدھ راہب چائے کے استعمال پر تفصیلی تاریخ لکھ چکا تھا اور چونکہ ذین بدھوں کا خیال تھا کہ چائے روحانی ارتکاز میں مدد دیتی ہے اس لیے یہ مشروب ان کی مذہبی رسومات کا حصہ بن چکا تھا۔ بدھ مشینری کے لوگ جب جاپان گئے تو اپنے ساتھ چائے بھی لے گئے۔ چائے کی دیومالائی داستان میں وہ وقت بھی آیا جب کچھ بھارتی اور جاپانی بدھوں نے چائے کا استعمال مہاتما بدھ کی کہانی بیان کرنے کے لیے کیا۔ ان کے مطابق مہاتما بدھ پانچ سال بعد جب مراقبے سے جاگے تو انہوں نے چائے کے جنگلی درخت سے پتے کھائے۔ جاپان میں تعارف کے بعد جلد ہی وہاں پر چائے کی ثقافت اور چائے کی رسم جسے ’’چائوتویو‘‘ بھی کہتے ہیں‘ نے جنم لیا جس کا لفظی معنی چائے کے لیے گرم پانی ہے۔ چائے کی اس رسم میں چائے انڈیلنا اور ’’گیشا‘‘ کے مہمان کو چائے پیش کرنا نفاست اور خوش اسلوبی کا انداز سمجھا جانے لگا۔ آئرش یونانی صحافی اور تاریخ دان لفسا دیون برن نے جسے اُس زمانے میں جاپانی شہریت ملی تھی‘ چائے کی اس رسم کو دیکھا اور اس کے بارے میں لکھا۔ جیسے جیسے وہاں کے امراء کے درمیان چائے کے مقابلے عام ہونے لگے چائے کے استعمال سے اصل ذین بدھ مت کا عنصر ختم ہونے لگا۔ ان مقابلوں میں چائے کی صحیح آمیزش بنانے والا مقابلہ جیت جاتا اور انعام میں اسے جواہر اور زرہ بکتر دیا جاتا۔ تیرہویں صدی میں بدھ راہبوں نے چائے کو اس کی اصلی ذین ترکیب استعمال کی طرف لانے کی ناکام کوشش کی۔ جب یورپی تجارت چین اور جاپان کے ساتھ عام ہوئی تو چائے یورپ میں لائی گئی لیکن کسی بھی تاجر کو معلوم نہیں تھا کہ یہ کیسے بنتی ہے۔ کچھ کا کہنا تھا کہ ا س کے ابلے ہوئے پتے نمک اور مکھن کے ساتھ کھائے جاتے ہیں۔۱۵۶۰ء میں جب پرتگالی مشنریوں نے چین کے ساتھ تجارتی تعلقات استوار کیے تو یورپ میں چائے درآمد کی جانے لگی۔ کچھ تاریخ داں اس کی مخالفت کرتے ہیں اور ان کا کہنا ہے کہ اس سے ایک سال پہلے عرب تاجر چائے وینس میں لاچکے تھے۔ شروع شروع میں چونکہ چائے بہت مہنگی تھی اس لیے یہ صرف امراء کا مشروب بن کر رہ گئی۔ ڈچ لوگو ں میں عام ہوئی۔ ہر کوئی اس انجانے مشرو ب کو پینے کو تیار بھی نہیں تھا۔ ڈاکٹرز اور اسکالرز کا کہنا تھا کہ یہ کالا اور کڑوا مرکب کیسے لوگوں کے لیے اچھا ثابت ہوسکتا ہے؟ تقریباً ایک سو سال کی بحث کے بعد سن ۱۶۰۰ میں عام لوگوں تک چائے کی رسائی ہوئی۔ ڈاکٹروں کی مخالفت کے باوجود یورپ کے لوگوں کی صحت پر چائے کا مثبت اثر ہوا۔ پینے کا پانی چونکہ صاف نہیں تھا‘ اس لیے چائے کو محفوظ سمجھا جاتا تھا۔

برطانیہ میں چائے کی تجارت سن ۱۶۵۲ء میں ہوئی۔ اسی سال کافی اور کوکا کی بھی آمد ہوئی۔ سن ۱۷۰۰ میں برطانیہ ۲۴۰۰۰۰ پانڈ چائے برآمد کررہا تھا۔ چائے کی وجہ سے انگریزوں کی روزمرہ کی زندگی میں ایک خوشگوار تبدیلی آئی اور سہ پہر کی چائے کا رواج عام ہوا۔ برطانوی تجارتی کمپنیاں چائے کی برآمد کے لیے سارے یورپ میں مشہور ہوئیں خاص طو رپرایسٹ انڈیاکمپنی جس نے برطانوی راج بھارت تک پھیلانے میں اہم کردار ادا کیا تھا۔اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ تجارتی ساتھیوں میں بہت تعاون تھا۔ ایسٹ انڈیاکمپنی نے بھارت میں سیاسی عدم استحکام کی آڑ لیتے ہوئے یہ کہنا شروع کیا کہ اس کی وجہ سے تجارت کو نقصان ہور ہاہے۔ آہستہ آہستہ بھارت کو پوست اگانے پر مجبور کیا جس کے بدلے وہ چین سے چائے خریدتے تھے۔ اس طرح انگریز اصل سرمایہ اپنی سلطنت تک ہی محدود رکھتے۔ پوست کے بدلے چائے کی اس تجارت کی وجہ سے اٹھارہویں صدی میں پوست کی جنگیں ہوئیں جس کے بعد انگریز مکمل طو رپر چائے کی تجارت پر قابض ہوگئے۔ انیسویں صدی کے دوسرے نصف میں یورپ اور امریکا کی معاشرتی تحریکوں میں چائے نے اہم کردار ادا کرنا شروع کردیا۔ انگلینڈ میں ایک عورت نے جو روٹی کی دکان پر کام کرتی تھی اپنے مالک کو مجبور کیا کہ وہ اسے اپنے خاص گاہکوں کو چائے پیش کرنے اجازت دے۔ سن ۱۸۶۴ میں اس عورت نے اجازت لی کہ دکان میں کچھ میز کرسیاں رکھ سکے تاکہ لوگ ادھر بھی چائے پی سکیں۔ اس طرح چائے خانہ خواتین کے لیے ایک نئی طرز کے معاشرتی میل جول کا ذریعہ بنااور خواتین کی آزادی کا سبب بنا۔ اسی طرح اُن لوگوں کے لیے جو شراب نہیں پیتے تھے چائے ایک متبادل مشروب کی صورت میں اُبھرا۔ امریکیوں نے ۱۹۰۴ء میں آئس ٹی ایجاد کرکے چائے کو مزید ترقی دی اور پھر ۱۹۰۸ء میں پہلی بار ’’ٹی بیگ‘‘ بنا کر اس کے استعمال میں اضافہ کیا۔ آج کل چائے مختلف اقسام میں ملتی ہے۔ روایتی طو رپر امریکی اور یورپی لوگ کالی چائے پسند کرتے آئے ہیں لیکن اب سبز چائے کے فوائد کی بناء پر اس کی طرف بھی راغب ہیں۔ اب ہر کوئی اپنی مرضی اور ذائقہ کے مطابق چائے لے سکتا ہے۔ چائے پینے کے انداز اور طریقے سے لوگ اپنی انفرادیت کا اظہار کرتے ہیں حالانکہ جب ۱۳۰۰ سال پہلے ذین بدھوں نے چائے کو ذاتی غور و فکر کے لیے عام کیا تو ان کا یہ ہرگز مقصد نہیں تھا۔

(بحوالہ : مہر نیوز ایجنسی)

Be the first to comment

Leave a Reply

Your email address will not be published.


*