کیفیت مسئلہ
جب ہم اس مسئلے پرپہنچتے ہیں کہ جو معاشرے معرض تہذیب میں ہیں وہ کیوں اور کس طرح وجود میں آئے تو محسوس ہوتا ہے کہ ہم نے اس قسم کے اکیس معاشروں کی جو فہرست مرتب کی تھی، وہ خاص اس مسئلے کی حد تک دو گروہوں میں بٹ جاتی ہے، ہمارے پندرہ معاشروں کو اسی نوع کے پیش روؤں سے نسبت ابنیت حاصل ہے، ان میں سے چند کے درمیان باہم اتنی گہری وابستگی ہے کہ ان کے مستقل وجود کا مسئلہ محل نظر بن سکتا ہے۔ پیمانے کے دوسرے سرے پر بعض کا رشتہ تعلق اس درجے کمزور اور ڈھیلا ہے کہ اصطلاح ابنیت میں جو استعارہ مضمر ہے وہ بڑی حد تک مبالغہ آمیز معلوم ہوتا ہے لیکن اس بات کو یوں ہی رہنے دیجیے۔ جن پندرہ معاشروں میں کم و بیش نسبت ابنیت موجود ہے وہ ان چھ سے ایک جداگانہ گروہ ہیں جو ہماری تحقیق کے مطابق انسانوں کی ابتدائی زندگی سے براہ راست وجود میں آگئے، فی الحال ہم چاہتے ہیں کہ اپنی توجہ ان چھ کے اسباب تکوین کی طرف منعطف کریں یعنی مصری معاشرہ، سمیری معاشرہ، منوی معاشرہ، چینی معاشرہ، مایائی معاشرہ اور آنڈی معاشرہ۔
سوال پیدا ہوتا ہے کہ قدیم معاشروں اور اعلیٰ درجے کے معاشروں میں بنیادی فرق کیا ہے؟ اس فرق کا اداروں کے عدم وجود سے کوئی تعلق نہیں اس لیے کہ ادارے ان افراد کے درمیان غیر شخصی تعلقات کا وسیلہ ہوتے ہیں جن پر تمام معاشروں کا وجود موقوف ہے اور یہ حقیقت محتاج بیان نہیں کہ چھوٹے سے چھوٹے قدیم اداروں کی بھی بنیادیں افراد کے براہ راست شخصی تعلقات کے محدود دائرے سے بہت وسیع ہوتی ہیں، ادارے ’’معاشروں‘‘ کی پوری جنس کے طبعی اوصاف ہیں اس لیے انہی معاشروں کی دونوں نوعوں کی مشترکہ خصوصیات سمجھنا چاہیے۔ قدیم معاشروں کے بھی ادارے ہیں… سالانہ زرعی چکر کا عقیدہ، ٹوٹمزم، اگوتی شادیاں، ٹیبو، کسی مذہبی یا مجلسی نظام میں داخلے کی رسوم، بلحاظ عمر درجہ بندی، زندگی کے مختلف مراحل میں مرد و زن کی علیحدگی… ان میں سے بعض ادارے یقینا اتنے ہی منظم اور پُرپیچ ہیں جیسے تہذیبوں کے مخصوص ادارے۔
تہذیبوں کو قدیم معاشروں سے تقسیم عمل کی بنا پر بھی الگ نہیں کیا جاسکتا، اس لیے کہ تقسیم عمل کے کم ازکم ابتدائی نشان ہمیں قدیم معاشروں میں بھی ملتے ہیں۔ بادشاہ، جادوگر، کاریگر اور گویے۔ یہ تمام لوگ اپنے اپنے فن کے ماہر خصوصی تھے اگرچہ یونانی افسانوں میں ہفااسٹس نام کے جس کاریگر کا ذکر آیا ہے وہ لنگڑا اور ان انسانوں کا شاعر ہومر اندھا تھا۔ ان باتوں سے ذہن اس طرف منتقل ہوتا ہے کہ قدیم معاشروں میں درجہ اختصاص استثنائی حیثیت رکھتا تھا اور یہ انہی لوگوں تک محدود تھا جو تمام کام انجام دینے کی صلاحیت سے عاری ہوتے تھے، یعنی ہرفن مولا نہ بن سکتے تھے۔
تہذیبوں اور قدیم معاشروں کے درمیان جیسا ہم انہیں جانتے ہیں (اور یہ تنبیہ اہم ثابت ہوگی) ایک بنیادی فرق تقلید کی سمت و جہت کا ہے تقلید مجلسی زندگی کا ایک جنسی پہلو ہے، قدیم معاشروں اور تہذیبوں دونوں میں اس کا نفاذ دیکھا جاسکتا ہے اور یہ عام عورتوں کی فلمی ستاروں کے طرز و انداز کی پیروی سے لے کر اوپر تک ہر مجلسی سرگرمی پر حاوی ہے لیکن معاشرے کی دو قسموں میں اس کے عمل کی سمت و جہت مختلف ہے۔ قدیم معاشروں میں جیسا ہم انہیں جانتے ہیں سن رسیدہ لوگوں یا متوفی اجداد کی تقلید کی جاتی ہے جو اگرچہ منظر سے اوجھل ہوتے ہیں لیکن یاد سے اوجھل نہیں ہوتے، وہ زندہ بزرگوں کے عقب میں بیٹھے ہوئے ان کے وقار کو مستحکم کرتے رہتے ہیں۔ جس معاشرے میں تقلید کا رُخ ماضی کی طرف ہوتا ہے وہاں رسم و رواج کارفرما رہتے ہیں اور معاشرہ ساکن رہتا ہے، اس کے برعکس جو معاشرے معرض تہذیب میں ہیں ان میں تقلید کا رخ ان خلاق شخصیتوں کی طرف ہوتا ہے، جن کے پیچھے لوگ اس لیے چلتے ہیں کہ وہ علم داری کے منصب پر فائز ہوتے ہیں۔ ایسے معاشروں میں رسم و رواج کا بندھن ٹوٹ جاتا ہے، جیسا والٹر بیچ ہاٹ نے اپنی کتاب ’’طبیعات و سیاسیات‘‘ میں کہا ہے اور معاشرہ تغیر و ترقی کی راہ پر پوری قوت سے متحرک ہو جاتا ہے۔
لیکن اگر ہم اپنے آپ سے یہ سوال کریں کہ آیا قدیم اور اعلیٰ معاشروں کے درمیان یہ فرق مستقل اور بنیادی ہے؟ تو ہمیں یہ جواب نفی میں دینا چاہیے ، اس لیے کہ اگر ہم نے قدیم معاشروں کو ساکن حالت میں دیکھا تو اس کی وجہ یہ تھی کہ ہماری نظر بلاواسطہ ان کی تاریخوں کے صرف آخری دور پر پڑتی، لیکن ہمارا بلاواسطہ مشاہدہ اگرچہ ہمارا ساتھ نہ دے، بایں ہمہ ہمارا استدلال ہمیں بتاتا ہے کہ ان قدیم معاشروں کی تاریخوں پر بھی ابتدائی مراحل گزرے ہوں گے جن میں یہ اس شدت سے متحرک رہے کہ کوئی ’’مہذب‘‘ معاشرہ اس کی مثال پیش نہیں کر سکتا۔ ہم کہہ چکے ہیں کہ قدیم معاشرے اتنے ہی قدیم ہیں جتنی انسانی نسل، لیکن زیادہ مناسب یہ تھا کہ ہم انہیں اس سے بھی قدیم تر قرار دیتے۔ ایک خاص قسم کی مجلسی ماحول کے بغیر انسانیت کا جامہ اختیار نہیں کیا۔ تحت الانسان کے انسان بننے کا عمل قدیم معاشروں کے زیر سرپرستی ایسے حالات میں پایہ تکمیل کو پہنچا جن کا ہمارے پاس کوئی ریکارڈ موجود نہیں۔ یہ اتنا گہرا تغیر اور نشو و ارتقاء میں اتنا عظیم الشان اقدام تھا کہ تہذیب کے زیر اثر انسان نے ترقی کے جو کارنامے انجام دیے ان میں سے کوئی بھی اس کی برابری کا دَم نہیں بھر سکتا۔
قدیم معاشروں کو جیسا کہ ہم بلاواسطہ مشاہدے کی بناء پر جانتے ہیں، ان لوگوں سے مشابہ قرار دیا جاسکتا ہے جو کسی چٹان کے پہلو پر سوئے پڑے ہوں۔ ایک کھڑی چٹان ان کے نیچے اور دوسری کھڑی چٹان ان کے اوپر ہو، تہذیبوں کو ان خوابیدہ لوگوں کے ساتھی سمجھ لیجیے جو آنکھیں کھول کر پاؤں پر کھڑے ہو چکے ہیں اور انہوں نے اوپر کی کھڑی چٹان پر چڑھنا شروع کر دیا ہے۔ ہم اپنے متعلق یہ تصور کرلیتے ہیں کہ نیچے کھڑے یہ حالات دیکھ رہے ہیں لیکن ہماری نگاہیں چٹان کے پہلو یا اوپر کی بلندی کی نچلی ڈھلوانوں تک محدود ہیں۔ ہم اس وقت اس منظر پر پہنچے جب پہاڑ کے اوپر کے مختلف لوگ مذکورہ بالا ہیئت و وضعت اختیار کر چکے تھے۔ بادی النظر میں ہم دونوں گروہوں کے درمیان ایک قطعی خطِ امتیاز کھینچنے پر مائل ہو سکتے ہیں، ہم اوپر چڑھنے والوں کو مشاق ورزشی قرار دے کر ان کی ستائش کریں گے اور جو لیٹے ہوئے ہیں ان کے متعلق یہ رائے دیں گے کہ وہ مفلوج ہیں لیکن ہم ذرا غور کریں گے تو احتیاط کا تقاضا یہی نظر آئے گا کہ اپنا فیصلہ ملتوی رکھیں۔
بہرحال لیٹے ہوئے لوگ حقیقتاً فالج زدہ نہیں ہوسکتے اس لیے کہ وہ چٹان کے پہلو پر پیدا نہ ہوئے تھے اور اگر وہ نیچے کی کھڑی چٹان کے اوپر پہنچے تو اپنے ہی زور و قوت سے پہنچے، کسی دوسرے انسان نے تو انہیں نہیں پہنچایا اور ان کے جو ساتھی فی الحال اوپر چڑھتے ہوئے نظر آتے ہیں ان کے بارے میں زیادہ سے زیادہ یہ کہا جاسکتا ہے کہ چٹان کے پہلو سے اٹھ کر انہوں نے چڑھائی شروع کردی ہے، اوپر کی چٹان کا پہلو ہماری نظروں سے اوجھل ہے اور ہم نہیں جانتے کہ وہ کتنی بلندی پر ہے یا اس تک پہنچنے میں کتنی مشقت اٹھانی پڑے گی، ہم صرف یہ جانتے ہیں کہ دوسرا پہلو کہیں بھی ہو، اس پر پہنچے بغیر ٹھہرنا اور سستانا غیر ممکن ہے۔ اگر ہم ہر چڑھنے والے کی طاقت، ہنرمندی اور قوت برداشت کا اندازہ بھی کرلیں تو ہم یہ نہیں کہہ سکتے کہ اس کے لیے بالائی حصے پر پہنچنے کے امکانات کیا ہیں جو اس کی موجودہ مساعی کا نصب العین ہے۔ ہمیں یقین ہے کہ ان میں بعض منزل مقصود پر نہ پہنچیں سکیں گے اور ہم یہ رائے بھی ظاہر کرسکتے ہیں کہ جتنے آدمی اس وقت اوپر چڑھنے کے لیے کوشاں ہیں ان سے دگنے (ہماری معدوم تہذیبیں) ناکام ہو کر انتہائی پہلو پر واپس آچکے ہیں۔
ہم جس چیز کی جستجو میں تھے وہ نہیں ملی، یعنی قدیم معاشروں اور تہذیبوں کے درمیان امتیاز کا مستقل اور بنیادی نقطہ لیکن ضمناً ہمیں اپنی موجودہ تحقیق کی غرض و غایت یعنی تہذیبوں کے اسباب تکوین کی نوعیت کے بارے میں کچھ روشنی مل گئی ہے۔ ہم نے قدیم معاشروں کی تہذیبوں میں منتقل ہونے سے تحقیق شروع کی تھی، ہم معلوم کر چکے ہیں کہ اس عمل انتقال سے معاشرہ ساکن حالت سے اٹھ کر محترک ہو جاتا ہے۔ جو تہذیبیں کسی زمانے میں زندہ تھیں ان کی مقتدر اقلیتیں جب اپنی قوتِ تحقیق کھو چکیں تو داخلی پرولتار نے ان سے علیحدگی اختیار کرلی، اس طرح نئی تہذیبیں ظہور میں آئیں اور ہم آگے چل کر دیکھیں گے کہ یہ فارمولا ان تہذیبوں کے بارے میں بھی درست ہے، ایسی مقتدر اقلیتیں ضمناً ساکن ہو جاتی ہیں۔ جب ہم یہ کہتے ہیں کہ ایک ترقی پذیر تہذیب کی خلاق اقلیت معرض انحطاط میں آگئی یا اس میں تخلیل کا عمل جاری ہوگیا اور وہ ایسی تہذیب کی مقتدر اقلیت بن گئی جس کا شیرازہ بکھر رہا ہے تو اس کا مطلب دوسرے لفظوں میں یہ ہوتا ہے کہ زیر غور معاشرہ متحرک حالت سے نکل کر ساکن حالت میں آگیا، اس حالتِ سکون میں پرولتار کی علیحدگی حرکت پیدا کرنے کا باعث بنتی ہے۔ اس روشنی میں دیکھ سکتے ہیں کہ مقتدر اقلیت سے پرولتار کی علیحدگی ایک نئی تہذیب کو وجود میں لاتی ہے یعنی معاشرہ حالت سکون سے نکل کر حرکت میں آجاتا ہے، ٹھیک اسی طرح قدیم معاشرے سے تہذیب پیدا ہوتی ہے، غرض تہذیبوں کے اسباب تکوین کے بارے میں خواہ وہ ایک دوسرے سے متعلق ہوں یا نہ ہوں جنرل سمٹس کا یہ قول بہت موزوں ہے کہ بنی نوع انسان پھر ایک مرتبہ متحرک ہوگئے ہیں۔
سکون و حرکت یا حرکت و سکون اور حرکت کے اس زیر و بم کو بہت سے مبصر بہت سے مختلف ادوار میں فطرت کائنات کی ایک بنیادی خصوصیت سمجھتے رہے ہیں۔ چینی معاشروں کے داناؤں نے اپنے معنی خیز تصورات سے کام لے کر ان متبادل حالتوں کے لیے ’’ین‘‘ اور ’’ینگ‘‘ کی اصطلاحیں ایجاد کیں… ین حالت سکون اور ینگ حالت حرکت۔ چینی طبیعت کا جو جو ہر حالت ین کی نمائندگی کرتا ہے۔ کچھ اس قسم کا ہے جیسے کالے بادل اٹھ اٹھ کر سورج کو ڈھانپ لینے کے درپے ہوں، اس کے برعکس ’’ینگ‘‘ ایسے جوہر طبیعت کا مظہر ہے جیسے مطلع بالکل صاف ہو اور قرص آفتاب اپنی روشن کرنیں ہر طرف بکھیر رہی ہو۔ چینی تمثیل میں ’’ین‘‘ کا ذکر پہلے آتا ہے اور ہم چشم تصور سے کام لے کر دیکھ سکتے ہیں کہ ہماری نسل نے تین لاکھ سال پیشتر قدیم انسانی فطرت کے پہلوئے کوہ پر پہنچ کر اس مدت کا ۹۸ فیصد حصہ سستانے میں بسر کردیا، پھر وہ تہذیب کی اس منزل میں داخل ہوئی جسے ’’ینگ‘‘ یا حرکت سے تعبیر کرتے ہیں۔ اب ہمیں اس مثبت عامل کو ڈھونڈنا چاہیے، خواہ وہ کچھ ہو جس نے اپنے زور سے انسانی زندگی کو پھر حرکت کے راستے پر لگایا، پہلے ہم دو راستوں کی چھان بین کریں گے جو انجام کار تاریک ثابت ہوں گے۔
نسل
بظاہر یہی معلوم ہوتا ہے کہ جس مثبت عامل نے گزشتہ چھ ہزار سال میں انسانیت کے ایک حصے کو جھنجھوڑ کر جگایا، چٹان کے پہلو پر سوئے ہوئے قدیم معاشروں کو حالت سکون (ین) سے اٹھایا اور تہذیبوں کی ’’بالاکوش‘‘ حالت حرکت (ینگ) پر پہنچایا، اس کی تلاش یا تو ہمیں ان انسانوں کے کسی خاص وصف میں کرنی چاہیے جو اس تغیرکے ذمہ دار تھے یا اس ماحول کی کسی خصوصیت میں کرنی چاہیے جہاں یہ تغیر عمل میں آیا یا پھر ان دونوں کے تعامل میںاس چیز کو ڈھونڈنا چاہیے۔ ہمیں پہلے اس امکان پر غور کرنا چاہیے کہ ان عاملوں میں سے پہلو یا دوسرا بذات خود وہ چیز مہیا کردے گا جس کی تلاش ہے؟ پھر کیا ہم تہذیبوں کے اسباب تکوین کو کسی ایک نسل کے خاص اوصاف کا نتیجہ قرار دے سکتے ہیں؟
نسل کی اصطلاح سے مراد یہ ہوتی ہے کہ انسانوں کے خاص گروہوں میں چند امتیازی وصف ہیں جو ان کے جانشینوں میں بطور میراث منتقل ہو جاتے ہیں نسل کے یہ مزعومہ اوصاف جن سے ہمیں یہاں سروکار ہے وہ ممتاز نفسی یا روحانی خصائص ہیں جو مختلف معاشروں کی فطرت و جبلت میں داخل سمجھے جاتے ہیں لیکن نفسیات خصوصاً مجلسی نفسیات کا علم ابھی ابتدائی مراحل میں ہے اور نسل کو تہذیب کی تکوین میں ایک عامل قرار دیتے ہوئے جتنی بحثیں اب تک ہوئی ہیں وہ اس مفروضے پر مبنی ہیں کہ قابل قدر نفسی خصائص اور بدیہی جسمانی خصائص کے درمیان گہرا تعلق ہے۔ جس جسمانی خصوصیت پر نسلی نظریات کے مغربی داعی بطور خاص زور دیتے رہے ہیں وہ رنگ ہے یہ بات تصور میں ضرور آسکتی ہے کہ روحانی اور ذہنی برتری کسی نہ کسی طریقے پرچمڑے کے رنگ و روغن سے وابستہ ہے، اس وجہ سے ان دونوں کے درمیان واقعی ایک علاقہ ہے، اگرچہ حیاتیات کے نقطہ نظر سے یہ بات غیر اغلب معلوم ہوتا ہے، غرض تہذیب کے نسلی نظریات میں سے سب سے ہردلعزیز نظریہ وہ ہے جس میں سفید فام نسل کے سنہرے بالوں، بھوری آنکھوں اور لمبوترے سر والے لوگوں کو تخت برتری پر اٹھایا گیا، بعض نے ان لوگوں کو نارڈک (شمالی نسل کے جرمن) قرار دیا، نٹشے نے انہیں بھورے رنگ کے حیوان کا نام دیا، ٹیوٹانیوں کی منڈی کے اس صنم کے اسناد و شائق کی چھان بین فائدے سے خالی نہ ہوگی۔
شمالی نسل کے ان لوگوں (نارڈک) کو پہلے پہل ایک فرانسیسی امیر کومتے دی گابی نو نے انیسویں صدی کے اوائل میں برتری کی یہ کرسیدی ’’بھورے حیوان‘‘ کو مرکز عقیدت بنانے کا یہ واقعہ انقلاب فرانس سے پیدا ہونے والے مناقشات میں پیش آیا۔ جب فرانسیسی امیروں کی جاگیریں چھینی جارہی تھیں، انہیں وطن سے نکالا یا پھانسی پر لٹکایا جارہا تھا تو انقلابی جماعت کے مدعیان کے لیے تسکین قلب کی اس کے سوا کوئی صورت نہ تھی کہ اپنے عہد کے واقعات کو قدامت کا جامہ پہنا کر پیش کریں، انہوں نے اعلان کیا کہ گال (فرانس کے اصلی باشندے) چودہ صدیوں کی محکومی کے بعد اپنے فرینک (جرمن نسل کے لوگ) فاتحوں کی پھر رہائن پار کے اس ظلمت زار کی طرف دھکیل رہے ہیں جہاں سے یہ بسلسلہ مہاجرت آئے تھے۔ گالوں کی سرزمین میںآزادی بحال ہو رہی ہے اور اس سرزمین نے بربریوں کے طول غاصبانہ قبضے کے باوجود اپنے اوصاف و خصائص کبھی نہ کھوئے۔
اس لغویت کاجواب گابی نو نے زیادہ زور دار لغویت میں دیا، اسکے جواب کا خلاصہ یہ تھا:
’’میں تمہاری تشخیص کو قبول کرتا ہوں۔ ہم یہ مان لیتے ہیں کہ فرانس کے عوام گالوں کی نسل سے ہیں اور امرافرینکوں کی اولاد ہیں، دونوں نسلیں بالکل خالص رہی ہیں اور ان کی جسمانی و نفسی خصوصیات میں مستقل تعلق ہے لیکن کیا تمہارا خیال واقعی یہ ہے کہ گال تہذیب کے نمائندے ہیں اور فرینک بربریت کے؟ وہ تہذیب کہاں سے آئی جس کے تم دعوے دار ہو؟ یہ روما سے آئی۔ روما کو عظمت کی منزل پرکس نے پہنچایا؟ اس کا جواب مجھ سے سنو۔ یہ عظمت اس نارڈک خون کی بدولت حاصل ہوئی جو ابتدا میں رومیوں کی رگوں میں داخل کیا گیا، وہی خون مجھ فرینک کی رگوں میں دوڑ رہا ہے۔ قدیم رومی… اور اسی طرح قدیم یونانی جو ہومر کے نزدیک اکیانی ہیں… سنہرے بالوں والے فاتح تھے جو شمال کی روح افروز فضا سے اترے اور بحیرہ روم کی روح فرسا کے ضعیف القویٰ باشندوں پر مسلط ہو گئے۔ مرد و زن سے ان کے خون میں آمیزش ہوگئی جس نے ان کی نسل کو کمزور کردیا، ان کی طاقت و عظمت دونوں پر زوال آگیا، وقت آگیا کہ ان کی امداد کے لیے سنہری بالوں والے فاتحوں کی ایک نئی جماعت فرانس سے اترے اور تہذیب کی نبض کو پھر پہلی حالت میں لے آئے، ان فاتحوں میں فرینک بھی شامل تھے۔
یہ ہے گابی نو کا بیان اس سلسلہ واقعات کے بارے میں جسے ہم اولاً یونانی تہذیب، ثانیاً مغربی تہذیب کے ماخذ کا خاکہ پیش کرتے ہوئے بڑی حد تک مختلف انداز میں بیان کرچکے ہیں۔ یہ سیاسی لطیفہ ایک معاصرانہ انکشاف کے باعث بظاہر معقول بن گیا اور گابی نو نے اس سے فائدہ اٹھانے میں تاخیر سے کام نہ لیا، اکتشاف یہ تھا کہ یورپ کی تقریباً تمام زندہ زبانیں، نیز لاطینی اور یونانی، ان کے علاوہ ایران اور شمالی ہندوستان کی زندہ زبانیں، نیز قدیم ایرانی اور قدیم سنکسرت ایک وسیع لسانی خاندان کے ارکان کی حیثیت میں ایک دوسرے سے متعلق ہیں۔ یہ خیال درست تھا کہ کسی قدیم ’’آریائی‘‘ یا ’’ہندی یورپی‘‘ زبان سے اس خاندان کے تمام معلوم ارکان پیدا ہوئے لیکن یہ نتیجہ غلط تھا کہ جن قوموں میں ہم جنس زبانیں رائج تھیں وہ جسمانی لحاظ سے اسی درجے میں باہم دگر متعلق تھیں جس درجے میں ان کی زبانیں اور یہ کہ وہ تمام قومیں ایک قدیم آریائی یاہندی یورپی نسل سے پیدا ہوئیں جو اپنے ابتدائی وطن سے فتوحات کے زور میں نکلی اور فتح کے ارادے سے زرتشت اور بدھ جیسے عظیم المرتبت داعیانِ مذہب پیدا ہوئے اسی سے یونانی فنکاری اوررومی تدبرو سیاست کے کمالات وجود میں آئے، اسی نسل نے انتہائی نقطہ عروج پرپہنچ کر ہم جیسے رفیع المرتبت لوگوں کو جنم دیا، غرض انسانی تہذیب نے آج تک جو کارنامے انجام دیے ان کی ذمہ دار حقیقتاً یہی نسل تھی۔ زندہ دل فرانسیسی نے جو شوشہ چھوڑا تھا اسے سنجیدہ مزاج جرمن ماہرین السنہ نے اٹھا لیا اور اصلاح کرکے ’’ہندی یورپی‘‘ کی ترکیب کو ’’ہندی جرمن‘‘ بنا دیااور شاہ پروشیا کے ممالک محروسہ کو اس خیالی نسل کا ابتدائی وطن قرار دیا۔ ۱۸۔۱۹۱۴ء کی جنگ شروع ہونے سے کچھ دیر ہلے باؤسٹن اسٹیورٹ چیمبرلین نامی ایک انگریز نے جو جرمنی کا عاشق زار بن گیا تھا ایک کتاب لکھی تھی جس کا نام تھا ’’انیسویں صدی کی بنیادیں‘‘ اس کتاب میں اس نے دانتے اور یسوع مسیح علیہ السلام کو بھی ہندی جرمنوں کی فہرست میں شامل کردیا۔
اہل امریکا نے بھی نارڈک نسل کی اصطلاح سے فائدہ اٹھایا۔ ۱۹۱۴ء سے ربع صدی پیشتر جنوبی یورپ سے تارکین وطن کا سیل امریکا پہنچنے لگا تو اہل امریکا خوفزدہ ہوگئے، میڈیسن گرانٹ اور لوتھر اپ سٹاڈرڈ جیسے مصنفوں نے مطالبہ کیا کہ اس سیل کو روکا جائے اور باہر سے آنے والوں کی تعداد محدود کردی جائے۔ ان کے نزدیک یہی ایک طریقہ تھا جس سے امریکا کے مجلسی معیاروں نہیں بلکہ نارڈک نسل کی امریکی شاخ کی پاکیزگی کو محفوظ رکھا جاسکتا تھا۔
انگریزوں نے جو اسرائیلی نظریہ ایجاد کیا، وہ بھی اسی قسم میں داخل ہے اگرچہ انہوں نے مختلف اصطلاحات استعمال کیں اورخیالی تاریخ کے لیے عجیب و غریب مذہبی عقیدے سے امداد لی۔
یہ بات بڑی عجیب ہے کہ ہماری تہذیب کے نسلی مبلغین تو توجلد کی سفیدی کو روحانی برتری کانشان قرار دینے پراصرار کرتے ہیں اور اس طرح اہل یورپ کو دوسری نسلوں اور نارڈک لوگوں کو عام اہل یورپ سے برتر بتاتے ہیں، جاپانیوں نے اس غرض کے لیے بالکل مختلف جسمانی معیار استعمال کیا، اتفاق یہ ہے کہ جاپانیوں کے جسم غیر معمولی طور پر بالوں سے پاک ہوتے ہیں اور ان کے پڑوس میں شمالی جزیرے میں بالکل مختلف قسم کی ایک قدیم قوم آباد ہے جس کا جسمانی نمونہ اہل یورپ سے ایک حد تک ملتا جلتا ہے انہیں ’’بالوں والے آئینو‘‘ کہا جاتا ہے۔ اس بنا پر جاپانیوں نے طبعاً بالوں کے نہ ہونے کو روحانی برتری کا نشان قرار دے لیا، اگرچہ ان کا یہ دعویٰ ویساہی بے بنیاد ہے جیسا سفید رنگ کی برتری کا ہمارا دعویٰ ۔ لیکن سطحی طور پر ان کا دعویٰ زیادہ معقول نظر آتا ہے اس لیے کہ جس انسان کے بدن پربال نہ ہوں وہ اپنے اس بھائی کے مقابلے میں بندر سے زیادہ دور ہے جس کے بدن پر تھوڑے بہت بال ہوں۔
نسلیات کے ماہروں نے جسمانی نمونوں کی بنا پر سفید فام آدمیوں کی درجہ بندی کرتے ہوئے (لمبوترے سروں والے اورگول سروں والے، سفید رنگ والے اور گندمی رنگ والے) ان کے تین بڑے حصے قرار دیے ہیں جن کے نام انہوں نے یہ رکھے ہیں: نارڈک (شمالی سمت کے جرمن لوگ) ایلپس کے لوگ اور بحیرہ روم کے لوگ۔ اس تقسیم کی حیثیت خواہ کچھ ہو ہم یہ اندازہ کریں گے کہ ان میں سے ہر نسل نے کتنی تہذیبوں کی تشکیل میں مثبت حصہ لیا نارڈک نسل نے چار یا شاید پانچ میں حصہ لیا۔ یعنی ہندی، یونانی، مغربی، روس کی آرتھوڈکس مسیحی اور شاید متّی تہذیب، الپائن نے سات یا شاید نو میں حصہ لیا… سمیری، متّی، یونانی، مغربی، مرکزی آرتھوڈکس مسیحی اور اس کی روسی شاخ، ایرانی اور شاید مصری اور منوی تہذیب۔ بحیرہ روم والی نسل نے دس تہذیبوں کے لیے کام کیا، مصری، سمیری، اتری، سریانی، یونانی، مغربی، مرکزی آرتھوڈکس مسیحی، یونانی، عربی اور بابلی تہذیب۔ انسانی نسل کے دوسرے گروہوں مثلاً گندمی رنگ کے لوگوں ان سے مراد ہندوستان کے دراوڑ اورانڈونیشیا کے ملائی ہیں) نے صرف دو تہذیبوں کے لیے کام کیا۔ ہندی اور ہندو تہذیب، زرد فام نسل نے تین تہذیبوں کے بنانے میں حصہ لیا: چینی تہذیب اور مغرب اقصیٰ کی دو تہذیبیں یعنی مرکزی چینی تہذیب اور اس جاپانی شاخ، امریکا کی سرخ فام نسل نے چار امریکی تہذیبیں پیدا کیں، سیاہ فام کی نسل اب تک کسی تہذیب کے لیے مثبت کام نہ کرسکی، غرض سفید فام نسلیں اس وقت سب سے آگے ہیں لیکن یہ یاد رکھنا چاہیے کہ ایسی بہت سی سفید قومیں موجود ہیں جو سیاہ فام قوموں کی طرح کسی تہذیب کے لیے کوئی کام کرنے کی دعوے دار نہیں ہو سکتیں۔ اس درجہ بندی سے اگر کوئی مثبت نتیجہ نکلتا ہے تو یہ ہے کہ آدھی سے زیادہ تہذیبیں ایک سے زیادہ نسلوں کی محنت و ہمت کا ثمرہ ہیں۔ مغربی تہذیب اور یونانی تہذیب میں تین نسلیں معاون بنیں اور اگر ہم زرد فام، گندمی رنگ اور سرخ فام نسلوں کو بھی اسی طرح شاخوں میں تقسیم کریں جس طرح سفید فام نسل کو تین شاخوں میں بانٹا، یعنی ناردک، الپائن اور بحیرہ روم کی نسل تو اغلب ہے کہ تمام تہذیبوں کے لیے کام کرنے والوں کی تعداد بہت بڑھ جائے گی یہ معاملہ بالکل جداگانہ حیثیت رکھتا ہے کہ اس تقسیم کی کوئی قدر و قیمت بھی ہے یا نہیں یا یہ لوگ تاریخی اور معاشی نقطہ نگاہ سے کسی وقت بھی مستقل قوموں کی حیثیت رکھتے تھے یا نہ رکھتے تھے؟ بہرحال یہ مضمون سراسر حد درجے مبہم ہے۔
لیکن ہم جو کچھ کہہ چکے ہیں وہ اس نظریے کے استرداد میں ہمیں حق بجانب ثابت کرنے کے لیے بہ ہمہ وجوہ کافی ہے کہ اعلیٰ نسل کم و بیش چھ ہزار سال میں دنیا کے ایک حصے یا دوسرے حصے کو حالت ’’ین‘‘ سے حالت ’’ینگ‘‘ یا حالت سکون سے حالت حرکت میں لانے کا باعث اور علت تھی۔
ماحول
دورِ جدید کے مغربی مفکرین اس وجہ سے تاریخ میں نسلی عامل کی اہمیت جتاتے اور اس میں مبالغہ کرتے رہے کہ گزشتہ چار صدیوں میں مغربی معاشرہ دنیا کے ہر حصے میں پھیل گیا تھا۔ اس پھیلاؤ نے مغربی اقوام کو ان اقوام سے دوچار بلکہ متصادم کر دیا جو صرف ثقافت ہی میں نہیں بلکہ جسمانی خصوصیات میں بھی مختلف تھیں اور اس قسم کے اتصالات سے اسی نتیجے کی امید رکھی جاسکتی تھی کہ حیاتیات کے نقطہ نگاہ سے اعلیٰ نمونوں اور ادنیٰ نمونوں کا تصور دماغوں میں پیدا ہو جائے خصوصاً اس وجہ سے کہ چارلس ڈارون اور سائنس کے دوسرے محققین کی تصانیف نے انیسویں صدی میں مغربی قلوب و اذہان و حیاتیات سے خبردار کردیا تھا۔
قدیم یونانی بھی تجارت اور آبادکاری کے ذریعے سے اردگرد کی دنیا میں پھیل گئے، ان کی دنیا بہت محدود تھی وہاں متعدد ثقافتیں موجود تھیں، لیکن جسمانی نمونوں میں زیادہ اختلاف نہ تھا۔ مصری اور سیتھی اگرچہ طرز بود وماند کے اعتبار سے ایک دوسرے سے اور اپنے یونانی شاہد (مثلاً ہیروڈوٹس) سے بہت دور تھے لیکن جسمانی لحاظ سے ان دونوں میں ویسا حیرت انگیز اختلاف نہ تھا جیسا اہل یورپ اور مغربی افریقا کے حبشیوں یا امریکا کے سرخ فام باشندوں میں تھا۔ لہٰذا یونانیوں نے اپنے گرد و پیش ثقافت میں جو اختلافات دیکھے ان کے لیے طبعاً انہیں جسمانی خصوصیات کی حیاتیاتی میراث یعنی نسل کے بجائے کسی دوسرے عامل کی تلاش کرنی پڑی… وہ اس نتیجے پر پہنچے کہ یہ تفاوت مرزبوم، زمین اور آب و ہوا کے جغرافیائی اختلافات سے پیدا ہوا۔
بقراطی مکتب طب کے رسائل کا جو مجموعہ محفوظ ہے اس میں پانچویں صدی قبل مسیح کا ایک رسالہ ہے جس کا نام ہے ’’فضا، پانی اور موقع و محل کے اثرات‘‘ اس رسالے سے یونانی نقطہ نگاہ بخوبی واضح ہوتا ہے۔ مثال کے طور پر اس میں سے مندرجہ ذیل عبارت کو لیجیے:
’’جسمانی ساخت کے اعتبار سے انسانوں کی مختلف قسمیں ہو سکتی ہیں، اول وہ لوگ جو ایسے پہاڑوں میں رہتے ہیں جہاں گھنے جنگل اور بکثرت پانی ہے۔ دوم وہ لوگ جو مہین مٹی والے بے آب علاقوں میں سکونت رکھتے ہیں۔ سوم وہ لوگ جو دلدلی چراگاہوں میں مقیم ہیں، چہارم وہ لوگ جو ایسے میدانوں میں رہتے ہیں جنہیں صاف اور خشک کیا جاچکا ہے۔ پہاڑوں، چٹانوں اور سیراب علاقوں کے باشندے بلند مقامات پررہتے ہیں جہاں موسم جلد جلد بدلتے جاتے ہیں، ان کے شانے چوڑے چکلے ہوں گے اور جسمانی لحاظ سے وہ ہمت اور جفاکشی کے زیادہ اہل ہوں گے… جو لوگ سیراب چراگاہوں میں بستے ہیں جہاں عموماً گرم ہوائیں چلتی رہتی ہیں، سرد ہوائیں نہیں پہنچتیں اور وہاں امن پیدا ہوجاتا ہے وہ عموماً نیم گرم پانی پیتے ہیں ان کے ہاڑ نہ بڑے ہوں گے نہ دبلے، بلکہ ان کے جسم گھٹے ہوئے اور گوشت سے بھرے ہوئے ہوں گے۔ بال سیاہ رنگ سفید نہیں بلکہ سانولا ان کے جسموں میں بلغم کم ہوگا اور صفرا زیادہ، ان کی سیرتوں میں ہمت اور جفاکشی اس پیمانے پر نہ ہوگی جس پیمانے پر صفتیں پہلی قسم کے لوگوں میں پائی جاتی ہیں لیکن اداروں کے ذریعے سے ان میں یہ صفتیں پیدا کی جاسکیں گی… جو لوگ ایسے اونچے مقامات پر رہتے ہیں جہاں تیز ہوائیں چلتی ہیں اور پانی بکثرت ہوتا ہے وہ چوڑے چکلے ہوں گے اور ان میں انفرادیت بالکل نہ ہوگی نیز ان کی سیرتوں میں بزدلی اور بودا پن پایا جائے گا۔ اکثر حالتوں میں آپ کو معلوم ہوگا کہ انسان کا جسم اور اس کی سیرت ملک کی نوعیت کے اعتبار سے بدلتے رہتے ہیں۔
لیکن یونانیوں نے نظریہ ماحول کی تائید میں جو محبوب مثالیں دیں وہ یہ تھیں کہ زیریں وادی نیل کی زندگی نے مصریوں کی جسمانی ساخت، سیرت اور اداروں پر ایک قسم کا اثر ڈالا اور یوریشیائی کے صحرائی علاقے کی زندگی نے سیتھیوں کی جسمانی ساخت، سیرت اوراداروں پر بالکل مختلف اثر ڈالا مختلف اجزائے انسانیت کی نفسی (ذہنی اور روحانی) روش و عمل میں جو اختلاف نظر آتا ہے، نظریہ نسل اور نظریہ ماحول دونوں اس کی توجیہ اس مفروضے کی بنا پر کرتے ہیں کہ یہ نفسی تنوع مستقلاً اور دواماً غیر نفسی دائرہ کائنات میں مشہور و تنوع کے بعض عناصر سے علت و معلول کا سا تعلق رکھتا ہے۔ نسلی نظریے کے نزدیک اختلاف کا سبب انسانی جسم کی ساخت ہے، نظریہ ماحول کے نزدیک آب و ہوا اور جغرافیے کی مختلف حالتیں جن میں مختلف معاشرے زندگیاں گزارتے ہیں، دونوں نظریوں کا جوہر دو بدلنے والے جوڑوں کا باہمی تعلق ہے، ایک جوڑا سیرت اور جسمانی ساخت، ان کے اثبات کے لیے ضروری ہے کہ یہ تعلق مستقل اور دوامی ثابت ہو ہم دیکھ چکے ہیں کہ اس امتحان میں نظریہ نسل پورا نہیں اترتا۔ اب ہم نظریہ ماحول پر غور کریں، یہ اگر پہلے نظریے جتنا غیر معقول نہیں ہوتا۔ ہمیں اس سلسلے میں یونانی نظریے کی دونوں محبوب مثالوں کو پرکھنا چاہیے یعنی یوریشیا کے صحرائی علاقے کی مثال اور وادی نیل کی مثال۔ ہمیں روئے زمین پر ایسے خطے تلاش کرنے چاہئیں جو جغرافیے اور آب و ہوا کے اعتبار سے مذکورہ بالا دونوں خطوں میں سے ہر ایک سے مشابہ ہوں، اگر ان سب کی آبادیوں کے متعلق ثابت ہو جائے کہ وہ سیرت اور اداروں میں اولاً سیتھیوں سے اور ثانیاً مصریوں سے مشابہ تھیں تو نظریہ ماحول درست ثابت ہوگا ورنہ مسترد قرار پائے گا۔
آیئے پہلے یوریشیا کے صحرائی علاقے کو سامنے لائیں جس کے وسیع رقبے میں سے یونانی صرف جنوب مغربی گوشے سے واقف تھے۔ ہم افریشیا (مراد ہے افریقا اور ایشیا سے) کے صحرائی علاقے کو اس کے برابر رکھتے ہیں جو عرب سے شمالی افریقا کے آر پار پھیلا ہوا ہے۔ کیا یوریشیا اور افریشیا کے صحرائی علاقوں کی مشابہت ان انسانی معاشروں میں بھی ویسی ہی مشابہت پیدا کرسکی جو ان دو خطوں میں ابھرتے رہے؟ اس کا جواب اثبات میں ہے۔ دونوں جگہ خانہ بدوش معاشرے پیدا ہوئے، اس خانہ بدوشی میں بعض چیزیں یکساں تھیں اور بعض مختلف… اختلاف کے سلسلے میں پالتو جانوروں کی مثال پیش کی جاسکتی ہے… یہ یکسانی اور اختلاف دونوں خطوں کے مخصوص حالات کے عین مطابق تھا لیکن مزید غور کیا جائے تو یہ تعلق قائم رہتا اس لیے کہ دنیا کے جن دوسرے حصوں کا ماحول خانہ بدوش معاشروں کے لیے سازگار تھا… شمالی افریقا اور وینزویلا کے مرغزار، ارجنٹائن کے لق و دوق میدان اور آسٹریلیا کی چراگاہیں… وہاں اس قسم کے معاشرے پیدا نہ ہوئے۔ ان علاقوں کے ممکنات پر اعتراض نہیں ہوسکتا اس لیے کہ یہ ممکنات دورِ حاضر میں ہمارے مغربی معاشرے کی ہمت و سرگرمی کی بدولت بروئے کار آچکے ہیں۔ مغرب سے جو گلہ بان شروع شروع میں وہاں گئے انہیں شمالی امریکا میں ’’کٹو بوائے‘‘ کا لقب ملا۔ جنوبی امریکا میں ’’گاشو‘‘ کا اور آسٹریلیا میں ’’کیٹل مین‘‘ کا… انہوں نے زراعت و صنعت کے پہنچنے سے چند پشتیں پہلے ان غیر آباد علاقوں پر قبضہ جمایا اور ان سے کام لیتے رہے، انہوں نے بھی سیتھیوں، تاتاریوں اور عربوں کی طرح فاتحانہ شان سے انسانیت کے قلوب و اذہان کو مسحور کرلیا۔ امریکا اور آسٹریلیا کے صحرائی علاقوں کے ممکنات یقینا بڑے ہی زبردست مانے جاتے اگر یہ اس معاشرے کے علم داروں کو ایک بھی پشت کے لیے خانہ بدوش بنا دیتے جس کے پیچھے خانہ بدوشی کی کوئی روایت نہ تھیں اور وہ جب سے وجود میں آیا تھا محض زراعت و صنعت پر زندگی گزارتا رہا تھا۔ یہ بات اور بھی حیرت انگیز ہے کہ اولین مغربی مکتشفین نے جن لوگوں کو ان زمینوں پر قابض پایا، انہیں ماحول نے کبھی خانہ بدوشی پر آمادہ نہ کیا بلکہ وہ خانہ بدوشی کے ان بہشت زاروں سے صرف شکار گاہوں کا کام لیتے رہے۔ اگر ہم اس نظریے کو ان خطوں کے جائزے کی بنا پر پرکھیں جو زیریں وادی نیل سے مشابہ ہیں تو ہمارا تجربہ ویسا ہی ہوگا۔
زیریں وادیٔ نیل افریشیا کے صحرائی علاقے میں ایک انوکھی مخلوق کی حیثیت رکھتی ہے۔ مصر کی آب و ہوا اگرچہ ارد گرد کے وسیع خطے کی طرح خشک ہے لیکن اس میں ایک استثنائی خصوصیت ہے… پانی کا ایک کبھی ختم نہ ہونے والا سلسلہ اور دریائی کھاد، یہ دونوں چیزیں وہ عظیم الشان دریا مہیا کرتا ہے جس کا منبع صحرائی علاقے کی حدوں سے باہر بکثرت بارش والے علاقے میں واقع ہے… مصری تہذیب کے بانیوں نے اس قابل قدر خصوصیت سے فائدہ اٹھا کر ایک ایسا معاشرہ پیدا کیا جو دونوں طرف کی خانہ بدوشی سے حیرت انگیز طور پرمختلف تھا۔ تو کیاہم یہ سمجھ سکتے ہیں کہ مصر میں نیل کا پیدا کردہ خاص ماحول وہ مثبت خصوصیت ہے جس سے مصری تہذیب پیدا ہوئی؟ اس نظریے کے اثبات کے لیے ہمیں یہ ثابت کرنا پڑے گا کہ آیا ہر دوسرے جداگانہ علاقے میں جہاں ذیل کی وضح کا ماحول موجود تھا ویسی ہی تہذیب استقلالاً پیدا ہوئی؟ یہ نظریہ ایک ہمسایہ علاقے میں تو پیش نظر کسوٹی پر پورا اترتا ہے جہاں مطلوب حالات موجود تھے یعنی دجلہ و فرات کی وادی زیریں میں، یہاں ہمیں ویسے ہی طبعی حالات اور ویسا ہی معاشرہ ملتا ہے اس سے مراد ہے سمیری معاشرہ لیکن وادی اردن کے ویسے ہی اور تنگ تر ماحول میں اس نظریے کی بنیاد منہدم ہو جاتی ہے اس لیے کہ وہاں کبھی کوئی تہذیب پیدا نہ ہوئی، وادی سندھ میں بھی ہم بڑی حد تک ایسی ہی صورت حالات سے دوچار ہوتے ہیں… یعنی اگر ہم اپنے اس قیاس میں حق بجانب ہیں کہ سمیری آبادکار سندھی ثقافت کو وہاں پہنچانے کے ذمہ دار تھے، گنگا کی وادی زیریں کو اس امتحان کے دائرے سے خارج رکھا جاسکتا ہے اس لیے کہ وہ زیادہ مرطوب اور زیادہ معتدل ہیں لیکن سخت سے سخت نقاد اس حقیقت سے انکار نہیں کرسکتا کہ مصر اور عراق کے ماحول کی تمام کیفیتیں ریاست ہائے متحدہ امریکا کے دریائے ریوگرینڈی اور دریائے گولوریڈو کی وادیوں میں بھی موجود تھیں۔ دورِ جدید کے یورپی آبادکاروں کے ہاتھوں جو بحر ظلمات کی دوسری جانب سے ضروری وسائل اور سازو سامان کے ساتھ لیس ہو کر آئے تھے ان دریاؤں کے کناروں پر وہی معجزے رونما ہوئے جو نیل اور فرات کے کناروں پر مصری اور سمیری مہندسوں کے ہاتھوں رونما ہوئے تھے لیکن ان آبادکاروں کو یہ جدو کولوریڈو اور ریوگرینڈی نے نہیں سکھایا تھا وہ ان دریاؤں کے کناروں پر پہنچ کر مشاق نہیں بنے تھے بلکہ دوسری جگہوں سے سب کچھ سیکھ کر آئے تھے۔
ان شہادتوں سے ثابت ہوگیا کہ دریائی تہذیبوں کے ظہور و نمود میں ماحول کے عامل کو مثبت عامل نہیں سمجھا جاسکتا اور اگر ہم بعض دوسرے ماحولوں پر نظر ڈالیں جنہوں نے بعض خطوں میں تہذیبیں پیدا کیں اور بعض میں نہ کیں تو ہماری محولا بالا رائے پختہ تر رائے ہو جائے گی۔
آنڈی تہذیب ایک سطح مرتفع پر وجود میں آئی لیکن اس کے عین نیچے دریائے ایمیزن کے جنگلوں پر نظر ڈالی جائے تو حالت بالکل مختلف دکھائی دے گی اور یہ اخذ کرنے میں حق بجانب ہوں گے کہ آنڈی معاشرہ صرف سطح مرتفع کے باعث اپنے وحشی ہمسایوں سے آگے نکل گیا؟ اس خیال کو تسلیم کرنے سے پیشتر ہمیں چاہیے کہ اسی استوائی عرض البلد میں افریقا پر ایک نظر ڈال لیں جہاں مشرقی افریقا کی سطوح مرتفع عین وادی کانگو کے جنگلوں کے ساتھ ساتھ واقع تھیں، لیکن افریقا میں نہ سطح مرتفع پر کوئی ’’مذہب‘‘ معاشرہ پیدا ہوا اور نہ بڑے دریا کنارے کے گرم جنگلوں میں۔
اسی طرح ہم دیکھتے ہیں کہ منوی معاشرہ جزیروں کے ایک جھنڈ میں پیدا ہوا جو خشکی سے گھرے ہوئے سمندر میں واقع تھے اور انہیں بحیرہ روم کی خوشگوار آب و ہوا کی برکات حاصل تھیں لیکن جاپان کے خشکی سے گھرے ہوئے سمندر میں کوئی جزائری تہذیب پیدا نہ ہوئی حالانکہ ماحول بالکل ویسا ہی تھا، جاپان میں کوئی مستقل تہذیب وجود پذیر نہ ہوسکی وہاں براعظم ایشیا کی تہذیب کی ایک شاخ مسلط ہوگئی جو اندروں چین میں ظہور پذیر ہوئی تھی۔
چینی تہذیب کو بعض اوقات دریائے زرد کا نتیجہ قرار دیا جاتا ہے اس لیے کہ یہ دریائے زرد کی وادی میں پیدا ہوئی لیکن وادی ڈینیوب میں جہاں آب و ہوا، زمین، میدان اور پہاڑ بڑی حد تک ویسے ہی تھے اس قسم کی کوئی تہذیب پیدا نہ ہو سکی۔
مایائی قوم کی تہذیب گواٹی مالا، اور برطانوی ہانڈراس کے گرم سیر اور کثیر المطر سبزہ زاروں میں پیدا ہوئی دریائے ایمیزن اور دریائے کانگو کے کناروں پر اگرچہ حالات بالکل ویسے ہی تھے لیکن وہاں کی وحشت نے کسی تہذیب کا جامہ نہ پہنا، اس حقیقت میں کوئی شبہ نہیں کہ ان دو دریاؤں کے طاس خط استوا کے آر پار واقع ہیں اور مایائی قوم کی تہذیب کا وطن ان سے ۱۵ درجے شمال میں ہے لیکن اگر ہم ۱۵ درجے کے اسی خط کے ساتھ ساتھ کرہ ارض کا چکر کاٹیں تو کمبوڈیا کے گرم سیر اور کثیر المطر سبزہ زاروں میں پہنچ جاتے ہیں جہاں انگ کورواٹ کے وسیع کھنڈر ملتے ہیں یہ مایائی قوم کے شہروں کو پان اور اکس کون کے کھنڈروں سے مشابہ ہیں لیکن آثار قدیمہ کی شہادت سے واضح ہوتا ہے کہ انگ کورواٹ جس تہذیب کا ایک نشان ہے وہ کمبوڈیا میں پیدا نہ ہوئی تھی بلکہ ہندو تہذیب کی ایک شاخ تھی جس نے ہندوستان میں جنم لیا۔ اس سلسلے میں مزید مثالیں پیش کی جاسکتی ہیں لیکن ہم اب تک جو کچھ کہہ چکے ہیں وہ قاری کو یہ یقین دلانے کے لیے کافی ہے کہ نسل یا ماحول بجائے خود ایسے مثبت عامل نہیں بن سکتے جنہوں نے گزشتہ چھ ہزار سال کی مدت میں عالم انسانیت کو قدیم معاشروں کی حالت سکون سے جھنجھوڑ کر اٹھایا اور جستجوئے تہذیب کے خطرناک راستے پر لگایا۔
بہرحال جیسا کہ ہم دیکھ چکے ہیں نسل یا ماحول میں کوئی بھی چیز اب تک نہ اس عقیدے کو حل کر سکی ہے اور نہ شاید کرسکے کہ تاریخ انسانیت میں مختلف مقامات پر اور مختلف اوقات میں یہ عظیم الشان تغیر کیوں پیدا ہوا؟
(بحوالہ: کتاب ’’تاریخ عالم کا مطالعہ‘‘۔ ترجمہ: غلام رسول مہر)
Leave a Reply