میں نے عرب بیداری، اور تیونس اور مصر میں بڑھتے بحران کا جو حالیہ تجزیہ کیا، اس پر بے حد تنقیدی تبصرے سامنے آئے ہیں۔ عرب بیداری کی لہروں، ان کی تاریخ اور ان کی طرف سے اٹھائے گئے سوالات کے حوالے سے میرا موقف ٹھیک وہی ہے جو میں نے اپنی کتاب ’’اسلام اور عرب بیداری‘‘ (Islam and Arab Uprising) میں بیان کیا ہے۔ حالیہ واقعات نے اس موقف پر تصدیق کی مہر ثبت کر دی ہے۔ جو قارئین وضاحت کی تلاش میں ہیں، انہیں چاہیے کہ میری اس کتاب کو پڑھیں، اور جو پڑھ چکے ہیں، وہ دوبارہ اس کا مطالعہ کریں۔
جن لوگوں کا دعویٰ ہے کہ سیاسی اسلام اور اس کے تدریجی ارتقا پر میرا تنقیدی موقف پہلے سے مختلف اور موقع پرستی پر مبنی ہو گیا ہے، میں انہیں (تازہ تحریروں کے ساتھ ساتھ) ’’اسلام، مغرب اور جدیدیت کے چیلنج‘‘ (Islam, The West and The Challenges of Modernity) [1995] اور ’’بنیادی اصلاح‘‘ (Radical Reform) کا حوالہ دوں گا، یہ کتابیں بیداری کی ان لہروں سے خاصا پہلے تحریر کی گئیں، ان کتب میں سیاست، اور آزادی پر میرے خیالات، اور معاشی اور سماجی رجعتی قوت (Counter-Power) کے مقاصد پر میرا موقف واضح ہے۔ میرے حالیہ مضامین میں میری سابقہ تحریروں ہی کا عکس ہے، اور یہ حالیہ واقعات کی روشنی میں میرے موقف کی صداقت بیان کرتے ہیں۔ ۱۹۸۰ء کی دہائی کے اواخر سے سوڈان، الجزائر، مصر اور فلسطین کے حوالے سے میں اس موضوع کو بارہا ضبطِ تحریر میں لایا ہوں، اور اس تمام عرصے میں میری تجزیاتی روش یکساں رہی ہے۔
اس کے ساتھ ساتھ، سیکولرسٹوں اور اسلام پسندوں کے مابین جو بحث دو انتہائوں پر ہے، خصوصاً مصر اور تیونس میں، اس پر میں ایک مفصل رائے بھی رکھتا ہوں۔ مصر میں حالیہ فوجی بغاوت پر میرا تازہ ترین موقف جاننے والے بعض دانش وروں اور مرسی مخالف کارکنوں نے مجھ پر مرسی نواز، اخوان نواز اور اسلام پسند ہونے کا لیبل چسپاں کیا ہے، اور انہیں پروپیگنڈا مشین چالو کرنے کا گویا اِذن مل گیا ہے۔ معاملہ اگر واقعتاً اتنا سادہ ہوتا تو کتنا اچھا ہوتا۔ تاہم مرسی حکومت کے اقدامات اور اخوان المسلمون کے نظریاتی موقف کے حوالے سے غیر واضح موقف اختیار کرنے کا الزام مجھ پر لگانا ممکن نہیں، خواہ کتنی ہی شائستگی سے کام لیا جائے۔ میں پہلے بھی کہہ چکا ہوں اور پھر کہتا ہوں، لیکن فوجی بغاوت پر معذرت خواہانہ رویہ اپنانے والے ’’لبرلز‘‘ اور فوج کے محبان کے لیے، جو ظاہر ایسا کرتے ہیں کہ انہوں نے کچھ سنا ہے، نہ پڑھا ہے اور جو اپنے تمام مخالفین کو ’’اسلام پسند‘‘ اور ’’دہشت گرد‘‘ قرار دے کر مسترد کرتے ہیں، بہتر ہو گا کہ اصل موضوع پر توجہ دیں اور نہایت اہم کلیدی سوالوں کا جواب دیں۔
جو مرد و خواتین پانچ ہفتے سے زائد عرصہ مظاہرے منعقد کرتے رہے، اب ایسا ظاہر کیا جا رہا ہے کہ وہ سب کے سب ’’مرسی نواز‘‘ اور بنیادی طور پر اخوان المسلمون کے ارکان تھے۔ انہیں اس زمرے میں ڈالنا دروغ گوئی کے قریب قریب ہے۔ سرکاری میڈیا نے حقیقت پر جھوٹ کے دبیز پردے ڈالے اور ۸۰ فیصد مغربی اخباری ایجنسیاں اسی جھوٹ کو دنیا بھر میں نشر کرتی رہیں۔ انہوں نے سڑکوں پر کیے جانے والے عظیم الشان اور اب تک جاری مظاہروں کے لیے وہی اصطلاحات استعمال کیں۔ جو انہیں سرکاری میڈیا سے موصول ہوئیں۔ حقیقت یہ ہے کہ مظاہرین فوجی بغاوت کے مخالفین کے بینر تلے سڑکوں پر آئے تھے، ان میں ایسے مرد اور خواتین بھی تھے جو اخوان کے ارکان نہیں تھے، جو سلفی بھی نہ تھے، جو اسلام پسند بھی نہ تھے۔ ان میں ایک تعداد نوجوان بلاگرز، سیکولرسٹوں اور قبطیوں کی بھی تھی۔
حقیقت یہ ہے کہ مصری فوج سیاسی منظر سے کبھی الگ ہوئی ہی نہیں تھی۔ وہ جبروتشدد اپنانے کی جس حکمت عملی پر عمل پیرا ہے، اس کا اندازہ اس بات سے ہوتا ہے کہ وہ اپنے سیاسی، معاشی اور مالی فوائد کو برقرار رکھنے کے لیے پریشان ہے۔ دوسرے، وہ امریکی حکومت کے ساتھ اپنے قریبی روابط بھی استعمال کرتی آئی ہے۔ بعض یورپی ملکوں کے ساتھ ساتھ اسرائیل نے بھی مصری فوج کی حکمت عملی کو عین اپنے موافق پایا ہے۔ مغرب نے مصر میں فوجی بغاوت کی مذمت کی لیکن بزدلانہ، امریکی صدر بارک اوباما کا ردعمل بھی نیم دلانہ تھا (انہوں نے مشترکہ جنگی مشقیں منسوخ کر دیں، جس سے امریکا کی طرف سے مالی حمایت اور فوجی بغاوت کی درپردہ پشت پناہی کی تصدیق ہوتی ہے)، اس کے ساتھ میڈیا کے پروپیگنڈے نے فوج کو کھلی چھٹی دے دی کہ وہ تازہ تازہ نافذ کردہ ہنگامی حالت کی آڑ لے کر بڑے پیمانے پر ظلم و جبر کا ہر حربہ استعمال کرے۔ کریک ڈائون ابھی ختم نہیں ہوا، آگے بھی ہلاکتیں، تشدد اور قید خانے مصریوں کے منتظر ہیں۔
افسوس یہ ہے کہ کچھ بھی نہیں بدلا۔ سرکاری میڈیا دروغ گوئی میں مصروف ہے۔ وہ اطلاعات کو توڑ مروڑ کر پیش کر رہا ہے، یہ سب طویل عرصہ آزمائے ہوئے ہتھکنڈے ہیں۔ پولیس اور مسلح افواج کا دعویٰ ہے کہ وہ اپنے دفاع میں جائز کارروائی کر رہی ہیں۔ انہوں نے مظاہرین پر گولیاں برسائیں اور مرنے والوں کی تعداد کو منصوبے کے تحت گھٹا کر پیش کیا۔ جن مسجدوں میں مقتولین کی میتیں رکھی تھیں، ان مساجد ہی کو نذر آتش کر دیا گیا تاکہ ثبوت مٹ جائیں۔ دوسری مساجد مثلاً الایمان، جہاں مقتولوں کے لواحقین نماز جنازہ کی تیاریاں کر رہے تھے، گھیر لی گئیں۔ لواحقین کو اس وقت تک میتوں کی تدفین کرنے نہ دی گئی، جب تک انہوں نے تصدیق نہ کر دی کہ موت کا سبب خودکشی ہے، یا یہ تصدیق کہ ان کی موت بعد کی تاریخوں میں ہوئی تھی۔ دہشت کے نت نئے روپ، مگر حربے وہی پرانے۔ یہ بات ہرگز حیرت انگیز نہیں کہ اسلحے کے ذخائر برآمد کر کے انہیں فلمایا گیا اور دنیا بھر میں نشر کیا گیا۔ دریں اثنا احمق مظاہرین کو چھ ہفتے کے عوامی مظاہروں، اور ممکنہ فوجی کارروائی کے ایک ہفتے بعد بھی اس اسلحے کو استعمال کرنے کا کوئی موقع نہ مل سکا! اسی طرح گرجا گھروں کو نذر آتش کرنے کی حکمت عملی بھی السیسی کے پیش رو حکمرانوں کے طریقوں کا پرتو معلوم ہوتی ہے۔ یعنی عوام کو ایک دوسرے کے خلاف صف آرا کر دیا جائے اور ’’اسلامی دہشت گردوں‘‘ کو قبطیوں کا دشمن بنا کر پیش کیا جائے۔ اس طرح وہ ایک تیر سے دو شکار کرتے ہیں، اپنے ظلم و جبر کو جواز عطا کرتے ہیں، ساتھ ساتھ مغرب کا دل و دماغ بھی جیت لیتے ہیں۔ فوجی بغاوت کے مخالفین کو زبردستحماقت کا مرتکب بنا کر پیش کیا جاتا ہے۔ وہ مظاہرین جو ہفتوں تک، حتیٰ کہ ۸ جولائی کے قتل عام کے بعد بھی نظم و ضبط اور عدم تشدد پر عمل پیرا رہے، وہ یکایک تشدد پر اتر آئے، گویا فوج کو خوش کرنے کے لیے، گویا انہیں یہی کرنے کا اشارہ ملا تھا۔ حکومت کس کو بے وقوف بنا رہی ہے؟ ان کی باتوں پر بے وقوف بننے کو کون تیار ہے؟
مصری عوام کے لیے مرکزی نکتہ آزادی اور جمہوریت تھی اور رہے گی۔ آج مصر میں جو کچھ ہو رہا ہے، وہ بگاڑ اور خوف و دہشت کے سوا کچھ نہیں۔ پورا ملک اب مسلح افواج کے رحم و کرم پر ہے۔ اب مصر میں سرسری سماعت کی کارروائیاں ہوں گی، ظالمانہ قیدوبند، تشدد اور ریاست کی بلند ترین سطح پر بے باکانہ جھوٹ بولا جائے گا۔ جرنیلوں کو مغرب، امریکا اور اسرائیل کی مکمل حمایت ملی ہوئی ہے۔ یہ برہنہ حقیقت ہے۔ رہے وہ لوگ جن کے خون میں اسلام پسندوں سے نفرت رچی بسی ہے، وہ آج قتل اور تشدد پر آمادہ فوج اور پولیس کی حمایت پر کمربستہ ہیں۔ انہیں ایک دن اپنے اس فیصلے کا جواب دینا ہو گا۔ انہیں اپنے تجزیے کی نقاب کشائی بھی کرنی ہو گی، بیرکوں کے سائے میں تشکیل دیا گیا ان کا ’’جمہوری‘‘ سیاسی پروگرام کسی دن سامنے آئے گا، بدعنوانی میں لتھڑا ہوا، ایک ایسے مشرق وسطیٰ کے طوفانی بگولے کا مرکز جو بے سمت ہو چکا ہے۔ ان لوگوں نے نہتے شہریوں پر ظلم و تعدی کی حوصلہ افزائی اور اس کا جواز پیش کرنے کے لیے جو بھونڈے الزامات گھڑے، وہ ان پر بہت بڑی ذمہ داری عائد کرتے ہیں۔ واہ بے حیا ’’لبرلز‘‘ ، واہ جذباتی ’’ترقی پسند‘‘۔
(ترجمہ: منصور احمد)
(“Horror in Egypt: Saying it Once, Saying it Again”… “tariqramadan.com”. August 17, 2013)
Leave a Reply