تعارف
سعودی عرب اور خلیجی ملکوں کے اتحاد نے رواں برس جون میں قطر سے اپنے تعلقات منقطع کرلیے تھے، اب ان ملکوں نے سفارتی تعلقات کی بحالی اور پابندیاں اٹھانے کے لیے جو شرائط رکھی ہیں، ان میں سے ایک الجزیرہ چینل کو بند کرنا بھی شامل ہے۔قطر نے دیگر مطالبات کے ساتھ اس مطالبے کو بھی یکسر مسترد کردیاہے۔ اس بڑے میڈیا ہاؤس نے قطر کو مشرق وسطیٰ اور اس سے باہر اپنا اثر رسوخ بڑھانے میں مدد دی ہے۔ یہ ہی نہیں،اس بڑے میڈیا ہاؤس نے چھوٹی سی خلیجی ریاست کو خلیج تعاون کونسل میں اپنے بڑے اتحادیوں کی خارجہ پالیسیوں کو پیچھے دھکیلنے اور اپنا راستہ خود متعین کرنے میں مدد دی ہے۔اسی لیے قطر نے اپنی طاقت کے ایک ذریعے کو بند کرنے سے انکار کردیا ہے۔
قطر کے شاہی خاندان کے سرمائے نے الجزیرہ کو مارکیٹ کے دباؤ سے مکمل آزاد رکھا ہے۔الجزیرہ نے ریاست کے حامی روایتی قسم کے میڈیا سینٹر کے متبادل کے طور پر پیش کیا، اس میڈیا ہاؤس کی جانب سے عوامی مزاحمتی تحریکوں کی رپورٹنگ بھی طاقتور ریاستوں کو ناگوار گزری۔سعودی عرب، متحدہ عرب امارات، مصر اور بحرین نے الجزیرہ پر دہشت گردی کو ابھارنے کا الزم لگایا لیکن الجزیرہ نے الزام کو مسترد کرتے ہوئے اسے خطے میں آزادی اظہار رائے کو خاموش کرانے کی کوشش قرار دیا۔
الجزیرہ کب وجود میں آیا؟
شیخ حمد بن خلیفہ الثانی نے اپنے والد کے خونی بغاوت میں معزول ہونے کے بعد ۱۹۹۶ء میں الجزیرہ کی بنیاد رکھی۔ شیخ حمدقطرکے ایران،اسرائیل اور حماس جیسے اسلامی گروپس کے ساتھ تعلقات قائم کرکے اپنے آپ کو سعودی عرب کے سائے سے نکالنا چاہتے تھے۔ شیخ حمد کا ماننا تھا کہ ٹی وی نیوز اپنے جرأت مندانہ پروگرامات اور تحقیقاتی صحافت کے ساتھ عرب ناظر ین پر تیزی اور آزادی سے اپنے اثرات مرتب کرے گی، حکومتوں کو بالائے طاق رکھتے ہوئے قطر کا موقف عرب قوم کے گھروں تک پہنچے گا۔ ان کے صاحبزادے شیخ تمیم بن الثانی نے اس آزادانہ خارجہ پالیسی کوآگے بڑھایا۔
الجزیرہ کا آغازسیٹلائٹ چینل کے طور پر ہوا، جو مشرق وسطیٰ اور شمالی افریقا میں پھیلا ہوا تھا۔ جب سعودی عرب کی جانب سے اسٹیشن کو سیٹلائٹ ٹرانسمیشن سے ہٹایا گیا تو چینل نے بی بی سی کے عربی زبان کے چینل کے ملازمین کو ملازمت دے کر اپنے نیوز روم کی بنیاد رکھی۔ یونیورسٹی آف جنوبی کیلیفورنیا میں ابلاغ اور بین الاقوامی تعلقات کے پروفیسر جناب فلپ سیب کہتے ہیں کہ بی بی سی اور سی این این کی موجودگی میں اس چینل نے اپنی اعلیٰ پروڈکشن کے ساتھ الگ مقام بنایا ہے جس کی مثال خطے میں نہیں ملتی اور سب سے اہم بات کہ یہ عرب چینل ہے جو عرب ملکوں کے حالات حاضرہ کو پیش کررہا ہے۔
مشن کیا ہے؟
الجزیرہ نے اپنی رپورٹنگ سے خطے کے دیگرریاستی کنٹرولڈ چینلوں میں جگہ بنانے کی کوشش کی ہے، جس نے سرکاری بیانیے کو چیلنج کیا اور اپنے پروگراموں میں طرح طرح کے موقف کو پیش کیا۔نیٹ ورک کی رپورٹنگ اکثرحکومتوں کے خلاف ہوتی تھی اوریہ اْن عوامی مسائل کو اجاگر کرتے تھے، جنہیں سرکاری میڈیا شاید ہی سامنے لاتا ہو۔نیٹ ورک نے اسرائیل اور ایران کے موقف کو پیش کرکے عرب میڈیا کی روایت کو توڑا اور ساتھ ہی ساتھ یہودیوں اور شیعہ مخالف موقف کو بھی پیش کیا۔
مشرق وسطیٰ اور شمالی افریقا میں الجزیرہ کی مقبولیت نے قطر کو اْس کی حیثیت اور رقبے سے کافی زیادہ اثر ورسوخ دیا۔ متحدہ عرب امارات سے بھی چھوٹے صرف دو لاکھ آبادی والے اس ملک کی واحد زمینی سرحد سعودی عرب سے ملتی ہے لیکن اس کے پاس دنیا میں قدرتی گیس کے سب سے زیادہ ذخائر ہیں(زیر زمین فیلڈ ہے جو ایران کے ساتھ ہے)، خلیج تعاون کونسل کے دیگر ملکوں کے مقابلے میں قطر کی جی ڈی پی کی شرح سب سے زیادہ ہے۔قطر کے حکمران الثانی خاندان نے الجزیرہ کو بنانے میں اربوں ڈالر کی سرمایہ کاری کی ہے اور عالمی سیاست میں اپنے وزن سے زیادہ حصہ ڈالا۔(الجزیرہ کا انحصار قطری حکومت پر ہے، ۲۰۱۴ء سے ۲۰۱۶ء کے درمیان گیس کی قیمتوں میں کمی آئی تو نیٹ ورک کو اپنے پانچ سو ملازمین کو فارغ کرنا پڑا۔)
اگرچہ الجزیرہ قطر کے حکمرانوں کے معاملات پر اس طرح نظر نہیں رکھتا، جس طرح دیگر حکومتوں پر رکھتا ہے لیکن پھر بھی یہ چینل قطر کی زبان نہیں بولتا۔ماہرین کہتے ہیں کہ الجزیرہ نے خود کو سرکاری میڈیا کے متبادل کے طور پر پیش کیا اور قطری خارجہ پالیسی کے چند پہلوؤں کے ناپسندیدہ ہونے کے باوجوداس نیٹ ورک نے عرب عوام میں اچھی شہرت کمائی ہے۔عرب ممالک کے حالات حاضرہ پر نظر رکھنے والے امریکی تجزیہ کار شبلی تہامی (Shibley Tehami) لکھتے ہیں کہ عرب عوام کی جانب سے الجزیرہ نے قطریوں کو امریکی اتحادی ہونے پر سخت تنقید سے بچایا جہاں کے اڈوں سے امریکی جہاز اڑتے اور عراق پربم برساتے، ویسے عرب شہریوں کی جانب سے الجزیرہ کی پذیرائی اُن کی خواہشات کی عکاس ہے۔ یہ ہوائی اڈہ ان دنوں امریکی سینٹرل کمانڈ کا مرکز ہے اور یہیں سے طیارے شام اور عراق میں دولت اسلامیہ کے خلاف کارروائیاں کرنے کے لیے اڑان بھرتے ہیں۔
ناظرین کی تعداد
الجزیرہ کا کہنا ہے کہ انگریزی اور دیگر زبانوں میں توسیع کے بعد اُس کی رسائی ایک سو سے زیادہ ملکوں میں ۳۱۰؍ ملین گھروں تک ہوگئی ہے۔ اس طرح الجزیرہ کا شمار سی این این اور بی بی سی جیسے اداروں میں ہونے لگا ہے۔ شبلی تہامی کے مطابق آس پاس کے ۲۲ ملکوں میں اس کی پہنچ ۳۵۰ ملین افراد تک ہے۔ خبروں کا معاملہ ہو تو دس برس کے دوران عربوں کی تین چوتھائی سے زیادہ آبادی کے لیے الجزیرہ پہلی یا دوسری ترجیح میں شامل ہوگیا ہے۔
سعودی شاہی خاندان نے اپنا نیوز نیٹ ورک ۲۰۰۳ء میں ’’العربیہ‘‘ کے نام سے دبئی میں قائم کیا۔ اس کی خبریں سعودی اور اماراتی مفادات کے قریب تر ہوتی ہیں۔ جیسا کہ مصر کے صدر عبدالفتح السیسی کی کوریج الجزیرہ تنقیدی انداز میں کرتا ہے۔ یہ دونوں نیوز نیٹ ورک قریب ترین حریف سمجھے جاتے ہیں۔ فلپ سیب کاکہنا ہے الجزیرہ خطے کی نیوز کوریج میں اپنی برتری برقرار نہیں رکھتا تو اس کی وجہ مارکیٹ اور ٹیکنالوجی کے رجحانات ہوسکتے ہیں۔ انٹرنیٹ تک رسائی بڑھنے کے باعث کئی چھوٹے اداروں اور آزادیٔ صحافت کے معاملے میں قدرے بہتر سمجھے جانے والے ملکوں نے مقامی ٹی وی نیٹ ورکس قائم کرلیے ہیں، جو کئی سیاسی رجحانات کو مناسب جگہ دے رہے ہیں۔
الجزیرہ نے ۲۰۰۶ء میں انگریزی زبان میں اپنا نیٹ ورک قائم کرکے عالمی سطح پر رسائی حاصل کی، بے زبانوں کی آواز بننے کا عزم ظاہر کرکے اور کرہ ارض کے جنوبی حصوں کی جامع کوریج کے ذریعے الجزیرہ نے بی بی سی جیسے عالمی ادارے کو چیلنج کیا۔ الجزیرہ نے ۲۰۱۶ء میں دبئی میں اپنا ہیڈکوارٹر ختم کیا اور دنیا بھر میں قائم ستر بیوروز میں ساڑھے چار ہزار ملازمین بھرتی کیے۔ الجزیرہ نے امریکی مارکیٹ تک رسائی کے لیے ۲۰۱۳ء میں الجزیرہ امریکا قائم کیا۔ اس کے تحت امریکا میں موجود ان طبقات پر توجہ دی گئی جنہیں دیگر ٹی وی چینلوں میں کم کوریج دی جاتی ہے۔ لیکن الجزیرہ کو کیبل کے ذریعے اپنی نشریات ناظرین تک پہنچانے کے لیے جدوجہد کا سامنا رہا، اس کے علاوہ بھی بعض مسائل کا اس نیٹ ورک کو سامنا رہا۔ امریکی نوجوانوں میں ویب سائٹ پر نیوز دیکھنے کے رجحان میں اضافہ ہوا تو الجزیرہ امریکا نے وہاں اپنی موجودگی یقینی بنائی اور کیبل پر دکھائے جانے والے ٹی وی چینلوں پر سبقت حاصل کرلی۔ پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں کمی کے بعد جو الجزیرہ کے مالکان کا اہم ذریعہ معاش ہے، اس نیٹ ورک نے تین سال سے بھی کم عرصے میں اپنا یہ مہنگا ترین آپریشن بند کردیا۔
خلیجی ریاستوں اور مصر کی ناراضی کی وجہ
الجزیرہ کی جس کوریج نے عربوں میں اس نیٹ ورک کو مقبول بنایا، اُسی کوریج کو کئی عرب حکومتوں نے اشتعال انگیز اور خطرناک قرار دیا۔ الجزیرہ کی کوریج کے باعث ۲۰۰۲ء میں سعودی عرب اور قطر کے تعلقات کشیدہ ہوئے اور ریاض نے دوحا سے اپنا سفیر واپس بلالیا۔ قطر کی جانب سے الجزیرہ کی سعودی عرب سے متعلق پالیسی میں نرمی کی یقین دہانی پر سعودی حکومت نے پانچ برس بعد دوحا سے سفارتی تعلقات دوبارہ بحال کیے۔
سعودی عرب کی قیادت میں عرب اتحادیوں نے الزام لگایا ہے کہ الجزیرہ دہشت گردی کے لیے اکساتا ہے اور یہی اعتراضات کی بڑی وجہ ہے۔ اسی عرب اتحاد نے اخوان المسلمون کے مرکزی رہنما شیخ یوسف القرضاوی پر الزام لگایا کہ وہ اپنے ٹاک شوز میں پرتشدد کارروائیوں کی حمایت کرتے ہیں۔ کئی ملکوں نے الجزیرہ نیٹ ورک کے صحافیوں کو اپنی سرحدی حدود میں کام سے روکنے یا اپنے عوام کو اس نیٹ ورک کے پروگرامات دیکھنے سے روکنے کی کوشش کی۔
خطے میں ۲۰۱۱ء کے عرب بہار کی کوریج بھی اس کشیدگی میں اضافے کی وجہ بنی۔ الجزیرہ نے اپنی کوریج میں خطے میں بدلتے حالات کا احاطہ کیا، حکومت مخالف افراد کی آواز بنا اور اُن کے خلاف پرتشدد کارروائیوں کو اپنی اسکرین پر جگہ دی۔ اس کوریج کے نتیجے میں احتجاج شدید ہوتا گیا اور خطے کے دیگر حصوں تک احتجاج کی یہ لہر پھیل گئی۔
مصر میں پہلے منتخب صدر محمد مرسی کی منتخب حکومت ختم کرکے جنرل فتح السیسی نے اقتدار حاصل کیا تو الجزیرہ پر کڑی نظر رکھی جانے لگی۔ سیسی سمجھتے تھے کہ الجزیرہ کی رپورٹ کے باعث مصر میں جمہوریت اور خاص کر اخوان المسلمون کو فروغ مل رہا ہے۔ جنرل سیسی کے اقتدار میں آنے کے بعد پریس کے خلاف بڑا کریک ڈاؤن شروع کیا گیا۔ مصر میں الجزیرہ کی نشریات روک دی گئیں۔ صحافیوں کو گرفتار کرکے جیلوں میں ڈالا گیا اور بیورو بند کردیے گئے۔
بعض ماہرین سمجھتے ہیں کہ سعودی اتحاد کے حالیہ مطالبات کا تعلق دہشت گردی کے بجائے عرب بہار سے خطے میں حاصل جمہوری فوائد کو لپیٹ دینا ہے۔ امریکا کے صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے پیغام سے حوصلہ افزائی ملنے کے بعد اب خطے میں اس تبدیلی کے خلاف مربوط کوششیں کی جارہی ہیں۔
الجزیرہ کی بندش کے لیے دباؤ
قطر نے سعودی اتحاد کے مطالبات مسترد کرتے ہوئے واضح کیا ہے کہ دوحا الجزیرہ کی بندش کے مطالبے کو مذاکرات سے راہ فرار کا طریقہ سمجھتا ہے۔ میڈیا ناقدین کہتے ہیں کہ عرب بہار کے بارے میں الجزیرہ کی کوریج نے خطے میں قطر کی باضابطہ موجودگی کو ظاہر کیا۔ جن ملکوں میں مظاہرے اور احتجاج ہوا وہاں قطر نے پہلے مسلم اپوزیشن جماعتوں اور پھر جنگجو گروپس کی حمایت کی۔ قطر چاہتا تھا کہ اس طرح گروہوں کی حمایت کرکے نئے حالات میں وہ اپنی پوزیشن بہتر کرلے گا اور جواب میں دوحا کو بھی ان گروہوں کی حمایت حاصل ہوگی۔ لیکن سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات جیسے ممالک اخوان المسلمون اور اس جیسے سیاسی اسلامی گروہوں کو اپنے غیرجمہوری نظام کے لیے خطرہ سمجھتے ہیں۔ سعودی عرب کا شکوہ ہے کہ قطر نے ایسے گروہوں کی حمایت کرکے گزشتہ معاہدوں پر پانی پھیر دیا۔ یہی وجہ ہے کہ سعودی اتحاد اور قطر کے درمیان مصالحت کے لیے امریکی وزیر خارجہ ریکس ٹلرسن کی کوششوں کے باوجود بات چیت میں تعطل برقرار ہے۔
(ترجمہ: معاذ احمد)
“How Al Jazeera amplifies Qatar’s clout”. (“cfr.org”. July 12, 2017)
Leave a Reply