انٹرنیٹ ایک بڑی نعمت ہے مگر صرف اُن کے لیے جنہوں نے تحقیق کے حوالے سے باضابطہ تربیت پائی ہو۔ جن لوگوں نے تحقیق کے حوالے سے تربیت نہ پائی ہو یا جو علمی حوالے سے مضبوط نہ ہوں اُن کے لیے انٹرنیٹ سے معیاری اور قابلِ اعتبار مواد یا حوالوں کا حصول ناممکن ہوجاتا ہے۔
ایک زمانہ تھا کہ کتب خانے علمی سطح پر ریفرنس سینٹر کا کردار ادا کرتے تھے۔ لوگ جب بھی کسی معاملے میں ریفرنس چاہتے تھے، کتب خانوں کا ذکر کرتے تھے۔ انٹرنیٹ کو کتب خانے کا متبادل قرار نہیں دیا جاسکتا کیونکہ یہ علم کے خزانے سے کہیں بڑھ کر دنیا بھر کی لایعنی چیزوں اور باتوں کی کچرا کنڈی کے مانند ہے۔ انٹرنیٹ میں دنیا بھر کے لوگ پتا نہیں کیا الا بلا ڈال رہے ہیں۔ انٹرنیٹ پر کام کی چیز تلاش کرنا انتہائی دشوار ہے کیونکہ دنیا بھر کے تجارتی، صنعتی اور مالیاتی ادارے اسے اپنے مقاصد کے لیے استعمال کررہے ہیں۔ انٹرنیٹ پر ایسا مواد اچھا خاصا ہے جو لوگوں کو گمراہ کرنے کے لیے یا پھر تجارتی مقاصد کے حصول کے لیے ڈالا گیا ہے۔ تمام مروّج اصولوں کے تحت کی جانے والی تحقیق بہت محنت طلب بھی ہے اور بیزار کن بھی۔ جو کچھ مطلوب ہو اُس تک پہنچنے کے لیے اچھی خاصی تحقیق کرنا پڑتی ہے۔ مواد کو پرکھنا، اس کا تجزیہ کرنا اور پھر مطلوبہ معلومات کو ایک طرف رکھنا… یہ سب کچھ بہت دشوار ہے۔ اتنی دشواری کیوں برداشت کی جائے؟ کمپیوٹر اسکرین کھولیے، صاف ستھری معلومات حاضر ہیں۔ استفادہ کیجیے۔ اور تحقیق؟ تحقیق کو خدا حافظ کہیے۔
ٹیکنالوجی کے حوالے سے امید کی دنیا میں رہنے والے کہیں گے کہ پرانے اطوار کو زیادہ اہمیت دینے کی کیا ضرورت ہے! انٹرنیٹ پر عوام کی رائے بھرپور انداز سے موجود ہے۔ رائے عامہ کا رخ دیکھ کر کوئی بھی فیصلہ کیا جاسکتا ہے۔ اور کبھی کبھی ایسا بھی ہوتا ہے کہ عوام کی رائے درست راستہ دکھاتی ہے۔ ٹھیک ہے، مگر سبھی کچھ عوام کی رائے پر تو نہیں چھوڑا جاسکتا۔ بہت سے معاملات میں عوام کی رائے صائب ثابت ہوتی رہی ہے مگر ہر اہم معاملے میں عوام کی رائے قابلِ اعتبار نہیں ہوتی کیونکہ وہ بہت عمومی انداز سے سوچتے ہیں۔ کسی بھی اہم اور خاص طور پر علمی معاملے میں متعلقہ شعبے کے ماہرین ہی کی رائے اہمیت کی حامل قرار دی جانی چاہیے کیونکہ اُس رائے پر عمل کرنے کی صورت میں اصلاح کی راہ نکلتی ہے۔ رائے عامہ کے مطابق رویّہ اختیار کرنے سے خرابیوں کی راہ بھی ہموار ہوسکتی ہے۔
مشہور سائنس فکشن رائٹر نے ایک اصول یہ بیان کیا ہے کہ علم کے نام پر جو کچھ بھی پایا جاتا ہے اُس کا کم و بیش 90 فیصد حصہ فضول باتوں پر مشتمل ہوتا ہے۔ اس وقت کم و بیش ایک ارب ویب سائٹس پائی جاتی ہیں۔ اگر تھیوڈور اسٹرجین کی بات کو درست مان لیا جائے تب بھی کم و بیش 10 کروڑ ویب سائٹس ایسی ہیں جن میں کچھ نہ کچھ کام کا ضرور پایا جاتا ہے۔ یہ ویب سائٹس سرکاری اداروں کی بھی ہیں اور نجی بھی۔ علمی اداروں کے پورٹلز بھی ہیں اور میڈیا کے بڑے اداروں کے پورٹلز بھی۔ یعنی عام آدمی چاہے تو اِن ویب سائٹس سے کام کی بہت سی باتیں کشید کرسکتا ہے۔
انٹرنیٹ کی دنیا سے مستفید ہونے کے لیے احتیاط لازم ہے۔ دنیا کے بہت سے شرپسند بھی تو سائبر اسپیس میں موجود ہیں۔ داعش اور اسی نوعیت کی دوسری بہت سی انتہا پسند اور بنیاد پرست تنظیمیں بھی انٹرنیٹ پر ویب سائٹس چلا رہی ہیں۔ اگر احتیاط سے کام نہ لیا جائے تو عام آدمی اُن کے پروپیگنڈے سے متاثر ہوکر اُن کے خیالات اور نظریات کو اپنا بھی سکتا ہے۔ دنیا بھر کے ذہین ترین افراد اب سائبر اسپیس میں اپنا وجود رکھتے ہیں۔ وہ اچھی طرح جانتے ہیں کہ انہیں کس طور اپنا وجود منوانا ہے اور دنیا کو متاثر کرنا ہے۔ عام آدمی کو کسی زمانے میں اپنی بات دنیا تک پہنچانے کے لیے غیر معمولی دشواریوں کا سامنا رہتا تھا۔ اب ایسا نہیں ہے۔ اب ایسی ویب سائٹس کی کمی نہیں جو بالکل مفت یا ذرا سی فیس لے کر آپ کی بات دنیا تک پہنچا سکتی ہیں۔
مشہور مصنف نکولس کار نے نشاندہی کی ہے کہ جب گوٹنبرگ نے پرنٹنگ پریس ایجاد کیا تھا تب مذہبی اور علمی حلقے بہت جزبز ہوئے تھے۔ ان کا کہنا تھا کہ جب کچھ بھی چھاپنا آسان اور عام ہوجائے گا تب علمی طبقے کے لیے مسائل پیدا ہوں گے اور مذہب کے حوالے سے بھی بے بنیاد باتیں تیزی سے پھیلیں گی۔ انٹرنیٹ کو آج کی دنیا کا گوٹنبرگ پریس سمجھ لیجیے جو فائبر آپٹک کی رفتار سے کام کررہا ہے۔
انٹرنیٹ بہت بڑی نعمت ہے مگر صرف اُن کے لیے جو اچھی طرح جانتے ہیں کہ مستند معلومات کس طور حاصل کی جاسکتی ہیں۔ انٹرنیٹ پر ایسا بہت کچھ دستیاب ہے جو کسی کام کا نہیں۔ جو لوگ تحقیق کے حوالے سے اچھی طرح تربیت پاچکے ہوں وہ انٹرنیٹ سے اچھی طرح استفادہ کرسکتے ہیں۔ اگر کسی کو اندازہ ہی نہ ہو کہ مستند معلومات کہاں سے حاصل ہوسکتی ہیں وہ لاکھ کوشش کرنے پر بھی مطلوبہ درست ترین معلومات تک پہنچ نہیں پائے گا۔
انٹرنیٹ کس طرح کی خرابیاں پیدا کرسکتا ہے اس کا اندازہ لگانے کے لیے آپ کو تھوڑا بہت غور کرنا پڑے گا۔ انٹرنیٹ پر بہت سے ایسے گروپ اور کمیونٹیز ہیں جو ہم خیال لوگوں کی ہیں۔ ایسے کسی بھی گروپ میں وہی لوگ شامل ہوتے ہیں جو ایک دوسرے کو، ایک دوسرے کے خیالات کو پسند کرتے ہوں۔ ایسے میں اختلافات کی گنجائش کم ہی رہتی ہے۔ یعنی لوگ بلا ضرورت اور بلا جواز بھی ایک دوسرے کی ہاں میں ہاں ملا رہے ہوتے ہیں۔ اس کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ اصلیت یا حقیقت تک پہنچنے کے لیے درکار ہمت کم ہی لوگوں میں پیدا ہوپاتی ہے۔ بہت کم لوگ اس بات کو پسند کرتے ہیں کہ ان کی سوچ، نظریات یا عقائد کو چیلنج کیا جائے۔ انہیں ہر وہ بات بری لگتی ہے جس میں ان کے لیے ذرا سا بھی چیلنج پایا جاتا ہو۔ یہی سبب ہے کہ انٹرنیٹ پر ہم خیال لوگوں کے گروپ کا حصہ بننے والا ہر شخص اپنے (صحیح یا غلط) خیالات اور نظریات میں پختہ تر ہونے کے ساتھ ساتھ زیادہ سے زیادہ متشدد ہوتا چلا جاتا ہے۔ اُسے ہر وہ شخص برا لگتا ہے جو اُس کی لگی بندھی سوچ کو چیلنج کرتا ہو۔ سچ تو یہ ہے کہ انٹرنیٹ کے ذریعے سوچنے کی صلاحیت گھٹتی جاتی ہے، خیالات کا معیار پست سے پست تر ہوتا چلا جاتا ہے۔ انٹرنیٹ پر موجود مواد سے بہتر طور پر مستفید ہونا چونکہ سب کے بس کی بات نہیں اس لیے ماہرین کہتے ہیں کہ انٹرنیٹ خوبیاں کم اور خرابیاں زیادہ پیدا کررہا ہے۔ ایسے میں یہ کس طرح سوچا جاسکتا ہے کہ محض انٹرنیٹ کی مدد سے ہم اپنا معیارِ زندگی بہتر بنا سکتے ہیں؟
ماہرین کا دوسرا بڑا اعتراض یہ ہے کہ لوگ انٹرنیٹ پر صرف آسانی تلاش کرتے ہیں۔ اُنہیں ہر معاملے میں آسانی پسند ہے۔ علم کا معاملہ ہو یا عمل کا، لوگ آسانی کی تلاش میں رہتے ہیں۔ یہی سبب ہے کہ وہ حقیقی اور زیادہ مفید باتوں تک نہیں پہنچ پاتے۔ کسی بھی معاملے میں اُنہیں ایسا مشورہ درکار ہوتا ہے جو آسانی سے قبول کرلیا جائے۔ وہ جب بھی کسی معاملے میں ماہرانہ رائے تلاش کرتے ہیں تب اس بات کو غیر معمولی اہمیت دیتے ہیں کہ جو رائے ملے وہ قابلِ قبول ہو۔ سوال معیار کا نہیں، آسانی کا ہے۔ یہی سبب ہے کہ خرابیاں بڑھتی جارہی ہیں۔ لوگ انٹرنیٹ سے وہ سب کچھ حاصل نہیں کرپاتے جو کرنا چاہیے۔ بیشتر افراد انٹرنیٹ پر زیادہ سے زیادہ سہولت حاصل کرنے کے فراق میں رہتے ہیں۔ اس کے نتیجے میں وہ معیار کو یکسر نظرانداز یا فراموش کردیتے ہیں۔ ایسے میں عمومی سوچ کا معیار مزید گرے تو اس میں حیرت کی بات کیا ہے؟
مہارت اور جمہوریت
اس حقیقت سے بھلا کون انکار کرسکتا ہے کہ علمی معاملات میں اکثر غلطیاں بھی سرزد ہوتی ہیں۔ فطری علوم کا معاملہ لے لیجیے۔ بہت سے سائنسی نظریات ایک مدت تک لوگوں کے سامنے رہے اور انہیں سندِ قبولیت حاصل رہی۔ پھر کوئی اور اعلیٰ ذہن آیا اور ان تمام نظریات کو غلط قرار دے دیا۔ سائنس کی دنیا میں لوگ اپنی غلطیوں ہی سے سیکھتے ہیں۔ بہت سے سائنس دان اس فکر میں مبتلا ہوئے بغیر کہ جو کچھ وہ سوچ رہے ہیں، غلط بھی ہوسکتا ہے، اپنی بات پورے اخلاص کے ساتھ دنیا کے سامنے رکھتے ہیں۔ ان کے خیالات اور نظریات کو دنیا قبول بھی کرلیتی ہے، مگر ایک مدت کے لیے۔ نئے سِرے سے کی جانے والی تحقیق ثابت کرتی ہے کہ اُن کے خیالات اور نظریات غلط تھے۔ مگر خیر، فطری علوم کے کسی ماہر کو غلط ثابت کرنے کی بنیاد پر اُس کی اہمیت سے انکار نہیں کیا جاسکتا۔ کوئی بھی سائنس دان جو کچھ بھی کہتا ہے اُس کی بنیاد مظاہر اور شواہد پر ہوتی ہے۔ اُسے جو کچھ درست دکھائی دے رہا ہوتا ہے اُسی کو بیان کرتا ہے۔ ایسا کرنے میں اُس کی نیت کا کوئی عمل دخل نہیں ہوتا۔ اُسے یہ خوف بھی نہیں ستاتا کہ اُس کی بات غلط ثابت ہوگی تو لوگ اُسے ہدفِ استہزاء بنائیں گے۔ خالص علمی کام کرنے والوں کو اس بات کی چنداں پروا نہیں ہوتی کہ لوگ کیا کہیں گے۔ وہ اپنا کام کرتے ہیں اور اس دنیا سے چلے جاتے ہیں۔
یہاں تک تو معاملہ درست ہے۔ سائنس کی دنیا کے لوگ اپنی غلطیوں سے سیکھتے اور نئے خیالات پیش کرتے ہیں۔ ماہرین اگر اس حد تک غلط ہوں تو کوئی بات نہیں، مگر پریشانی اُس وقت اٹھ کھڑی ہوتی ہے جب کوئی شخص ماہر تو کسی ایک شعبے کا ہو مگر اپنے آپ کو کسی اور شعبے کا ماہر ثابت کرنے پر بھی تُل جائے۔ ایسے میں بدنیتی مرکزی کردار ادا کررہی ہوتی ہے۔ اگر کوئی شخص کسی دوسرے شعبے کی مہارت کا حامل نہ ہونے پر بھی اس شعبے کے حوالے سے ماہرانہ رائے دینے پر مُصِر ہو تو خرابیاں بڑھ جاتی ہیں۔ ایسے میں کسی بھی شعبے کی پوری ساکھ ہی داؤ پر لگ سکتی ہے۔ کسی بھی شعبے کے ماہرین کا فرض ہے کہ وہ اپنی ماہرانہ رائے کو اپنے شعبے تک محدود رکھیں۔ اگر وہ کسی اور شعبے میں قدم رکھیں گے تو صرف خرابیاں پیدا ہوں گی۔ ایسے میں معاملات انتہائی پیچیدہ بھی ہوسکتے ہیں۔ ہر شعبے میں مہارت کے حصول کے چند طریقے ہوتے ہیں۔ ان طریقوں ہی کے ذریعے حقیقی مہارت حاصل کی جاسکتی ہے۔ کوئی محض انٹرنیٹ پر چند باتیں پڑھ کر کسی شعبے کا ماہر نہیں بن سکتا۔
علمی دنیا میں یہ تو عام سی بات ہے کہ جب بھی ماہرین کوئی بڑی غلطی کرتے ہیں تو اس کا اعتراف کرتے ہوئے ان اقدامات کا بھی اعلان کرتے ہیں جو غلطی کے ازالے کے لیے کیے جاتے ہیں۔ پبلک پالیسی کے معاملات میں ایسا شاذ و نادر ہی ہوتا ہے۔ جب حکومت کوئی غلطی کرتی ہے تو اُس کا اعتراف کرنے میں بخل اور تاخیر دونوں سے کام لیتی ہے۔ اور سچ تو یہ ہے کہ کوئی بھی حکومت اپنی غلطیوں اور کوتاہیوںکا اعتراف کم کم ہی کرتی ہے۔ معاملہ یہ ہے کہ کسی بھی غلطی کو تسلیم کرنے کی صورت میں کوئی بڑا سیاسی بکھیڑا بھی کھڑا ہوسکتا ہے۔ ایسے میں سیاست دان اپنی غلطیوں کا اعتراف کم ہی کرتے ہیں۔ اگر حکومتیں اپنی کوتاہیاں تسلیم کرنے کی عادت ڈالیں اور معاملات کو خوامخواہ سیاسی بحران میں تبدیل ہونے کی اجازت نہ دیں تو بہت کچھ بہت تیزی سے درست ہوسکتا ہے۔ ماہرین کے حوالے سے برٹرنڈ رسل نے خوب لکھا ہے کہ جب بھی چند ماہرین کسی نکتے پر متفق ہوجاتے ہیں تو کوئی بھی مخالفانہ نکتہ قابل قبول نہیں ٹھیرتا۔ اور اگر وہ کسی نکتے پر متفق نہ ہوں تو پھر کسی اور کی رائے کی چنداں اہمیت نہیں ہوتی۔ اور اگر ماہرین یہ طے کرلیں کہ کسی بھی معاملے میں کوئی باضابطہ اور ٹھوس رائے قائم نہیں کی جاسکتی تب عام آدمی کا فرض ٹھیرتا ہے کہ اپنی رائے تبدیل کرلے اور ماہرین کا ہم خیال اور اُن کی رائے سے ہم آہنگ ہو۔
جمہوریت ہو یا آمریت، ماہرین کی اہمیت گھٹتی نہیں۔ اُن کی خدمات ہر شعبے میں درکار ہوتی ہیں۔ ماہرین چونکہ ایک زمانہ لگاکر کسی شعبے میں مہارت پیدا کرتے ہیں اس لیے اُن کی فطری خواہش ہوتی ہے کہ اُن کی رائے کو اہمیت دی جائے، اُنہیں اہم گردانا جائے۔ وہ اپنی ماہرانہ رائے کے ذریعے یہ ثابت کرنے کی بھرپور کوشش کرتے ہیں کہ کسی بھی معاملے میں اُن کی رائے کو نظرانداز کرنا مکمل طور پر ممکن نہیں۔ حکومت منتخب ہو، یا منتخب حکمرانوں کو ہٹاکر آنے والے، سبھی کو ماہرین کی سنگت اختیار کرنا پڑتی ہے۔ اس کا بنیادی سبب یہ ہے کہ معاشرے میں ہر شعبہ چند ماہرین کے ہاتھ میں ہوتا ہے۔ یہ لوگ عشروں کی محنت کے بعد مہارت کے حامل ہوپاتے ہیں۔ ایسے میں اُن کی اہمیت سے انکار ممکن ہی نہیں۔ ماہرین کی آراء سُن کر عام آدمی بھی کوئی نہ کوئی رائے ضرور قائم کرتا ہے۔ وہ اچھی طرح جانتا ہے کہ ماہرین کو یکسر نظرانداز کرنا اُس کے لیے ممکن ہے نہ حکومت کے لیے۔ ماہرین کی خدمات کے حوالے سے جمہوریت اور آمریت میں تھوڑا سا فرق ہے۔ آمر چاہتے ہیں کہ ماہرین اُن کی مرضی کے مطابق رائے دیں، یعنی تھوڑی بہت ڈنڈی ماریں۔ اس کے لیے وہ دھمکی اور لالچ دونوں ہی طریقوں سے کام لیتے ہیں۔ یہی سبب ہے کہ جمہوریت کے مقابلے میں آمریت میں ماہرین کی اہمیت کم ہوتی ہے اور اُن کی آراء سے معاشرے کا بھلا کم ہوتا ہے۔ جمہوری معاشروں میں ماہرین اپنی آراء کھل کر بیان کرتے ہیں۔ اُن کی آراء کی مدد سے لوگ اپنا راستہ متعین کرتے ہیں۔ وہ اچھی طرح جانتے ہیں کہ ماہرین جو کچھ بھی کہہ رہے ہیں اُس کی کوئی نہ کوئی ٹھوس بنیاد ضرور ہے اور یہ کہ وہ کسی دھمکی کے زیر اثر رائے کا اظہار نہیں کررہے۔
ماہرین اور عام شہریوں کے درمیان احترام کا رشتہ ہوتا ہے اور ہونا چاہیے۔ عوام کو کسی بھی معاملے میں جو ماہرانہ رائے درکار ہوتی ہے وہ اگر سامنے آئے تو اُسے قبول کرنا چاہیے۔ عوام کے لیے بہتر یہی ہے کہ ہر معاملے میں اپنی کوئی رائے قائم کرنے اور اس پر اِصرار کرنے کے بجائے ماہرین کی طرف دیکھیں، اُن کی بات سُنیں اور جو کچھ وہ کہیں اُسے سمجھنے کی کوشش کریں۔ ایسی صورت میں وہ کسی بھی بامقصد نتیجے تک پہنچنے میں کامیاب رہیں گے۔ ماہرین کا احترام نہ کرنے کی صورت میں عوام الجھن میں مبتلا رہتے ہیں۔ انٹرنیٹ کی مدد سے اگر وہ خود کو ماہرین میں شمار کرنے لگیں تو معاملات مزید خرابی کی طرف جاتے ہیں۔ اگر عوام علمی معاملات اپنے ہاتھ میں لینے کے بجائے ماہرین کے سپرد کریں اور ان کی رائے پر بھروسہ کریں تو مشکلات دور کرنے میں مدد ملتی ہے۔ ماہرین کسی بھی شعبے کے حوالے سے بہترین آراء پیش کرنے کی کوشش کرتے ہیں جس کے نتیجے میں متعلقہ شعبے کے اربابِ اختیار کو ٹھوس اور بارآور پالیسی تیار کرنے میں غیر معمولی حد تک مدد ملتی ہے۔ معاشرے اِسی طور پھلتے پھولتے ہیں۔ اگر ہر شخص اپنے حصے کا کام کرے تو معاملات نہیں بگڑتے۔
کسی بھی معاشرے میں خیالات کا بہاؤ رکنا نہیں چاہیے۔ عوام اور ماہرین دونوں کو اپنی رائے کا اظہار کرنا چاہیے، مگر عوام کبھی اپنی رائے کو ماہرین کی رائے سے برتر نہ سمجھیں اور ماہرین کبھی اپنی رائے کے سامنے عوام کی رائے کو یکسر لاحاصل اور ازکار رفتہ نہ گردانیں۔ معاشرہ اُسی وقت پروان چڑھتا ہے جب کسی کی رائے کا احترام کیا جاتا ہے۔ ماہرین اگر رائے عامہ میں خامی دیکھیں تو نرمی اور اخلاص کے ساتھ غلطی یا خامی کی نشاندہی کریں۔ اس معاملے میں لعنت ملامت کسی بھی طور سودمند ثابت نہیں ہوتی۔ اس وقت امریکا (اور بہت حد تک پورے مغربی معاشرے) میں لوگ سرکاری پالیسیوں کو سمجھنے اور ان میں اپنی مرضی کی تبدیلیاں یقینی بنانے کے حوالے سے بالکل بچوں کی معصومیت کے حامل ہوچکے ہیں۔ مغرب میں عام آدمی کو بظاہر اس بات سے کچھ غرض ہی نہیں کہ اُس کے اردگرد جو کچھ ہورہا ہے وہ کیوں ہورہا ہے اور اُسے درست کرنے کے حوالے سے کیا کِیا جاسکتا ہے یا اُسے کیا کرنا چاہیے۔
اگر عوام فعال ہوں، سوچتے ہوں اور سوچ کا اظہار بھی کرتے ہوں تو حکومت کو پالیسی سازی کے حوالے سے بہت کچھ کرنے کی تحریک ملتی ہے۔ وہ کسی بھی معاملے کو نظرانداز نہیں کرسکتی۔ مگر ایسا اُسی وقت ہوتا ہے یا ہوسکتا ہے جب ہر شعبے کے ماہرین حکومت کے پاس ہوں اور اُن میں اخلاص بھی پایا جاتا ہو۔ آسٹریا کے معروف معیشت دان ایف اے ہائیک نے 1960ء میں لکھا تھا کہ اس وقت لبرل معاشروں کا بنیادی مسئلہ یہ ہے کہ حکومتی صفوں میں ایسے ماہرین ہونے چاہئیں جو اپنے اپنے شعبوں کے حوالے سے غیر معمولی اہمیت ہی نہ رکھتے ہوں بلکہ اُنہیں مفادِ عامہ کی بھی فکر لاحق ہو۔ اگر وہ عوام کے مفاد کو نظرانداز کریں گے تو معاشرے میں صرف خرابیاں پیدا ہوں گی۔
اس وقت امریکا اور دیگر مغربی معاشروں میں معاملہ یہ ہے کہ اشرافیہ نے بیشتر معاملات اپنے ہاتھ میں لے لیے ہیں۔ عوام کے اجتماعی مفاد کو زیادہ اہمیت نہیں دی جارہی۔ انٹرنیٹ نے معاملات کو درست کرنے کے بجائے مزید بگاڑ دیا ہے۔ لوگ سطحی سوچ کے حامل ہوتے جارہے ہیں۔ تمام شعبوں کے بیشتر ماہرین نے اشرافیہ کی سوچ کو اپنالیا ہے۔ مفادِ عامہ کو اولیت دینے سے گریز کیا جارہا ہے۔ انٹرنیٹ پر بڑے کاروباری ادارے اپنی حاکمیت قائم کرچکے ہیں۔ انہیں اچھی طرح معلوم ہے کہ انٹرنیٹ سے اپنی مرضی کے نتائج کس طور حاصل کیے جاسکتے ہیں۔ اس وقت مغربی معاشروں میں بالعموم اور امریکی معاشرے میں بالخصوص کیفیت یہ ہے کہ عوام کی اکثریت کو اندازہ ہی نہیں کہ بیشتر حکومتی معاملات کس طور چل رہے ہیں یا چلائے جارہے ہیں۔ ایسے میں ماہرین نے بھی اپنے آپ کو مفادِ عامہ سے الگ کرلیا ہے اور آپس میں رابطوں ہی پر گزارا کررہے ہیں۔
انٹرنیٹ پر بہت کچھ الٹا سیدھا پڑھ کر امریکیوں کی اکثریت نے اپنی حکومت سے سیاست اور معیشت کے حوالے سے بہت سی ایسی توقعات وابستہ کرلی ہیں جن کی کوئی ٹھوس بنیاد نہیں۔ عام امریکی چاہتا ہے کہ اس کی حکومت اس کے لیے زمانے بھر کی سہولتوں کا اہتمام کرے۔ ایسا ممکن نہیں۔ باقی دنیا سے بہتر معیارِ زندگی یقینی بنانے کے لیے لازم ہے کہ یا تو بہت محنت کی جائے یا پھر دوسری (کمزور) اقوام کا استحصال کیا جائے۔ اور جب امریکیوں کو اپنے مطلوبہ نتائج دکھائی نہیں دیتے تو ان کا غصہ دیدنی ہوتا ہے۔ بے بنیاد توقعات جب بارآور نہ ہوں تو ایسا ہی ہوا کرتا ہے۔
عوام کا بنیادی مسئلہ یہ ہے کہ وہ کوئی بھی ایسی بات سمجھنا نہیں چاہتے جو انہیں بہت مشکل دکھائی دیتی ہو۔ جب حکومت کی طرف سے بتایا جاتا ہے یا ماہرین نشاندہی کرتے ہیں کہ معیارِ زندگی بلند کرنے سے متعلق ہر خواب کو آسانی سے شرمندۂ تعبیر نہیں کیا جاسکتا تب عوام کی امیدوں کے چراغ بجھ جاتے ہیں۔ جب انہیں بتایا جاتا ہے کہ معاملات ایسے آسان نہیں جیسے دکھائی دیتے ہیں تب وہ آنکھیں بند کرلیتے ہیں، منہ پھیر لیتے ہیں۔ ایسے میں ان کے پاس ایک ہی آپشن رہ جاتا ہے … حکومت اور اشرافیہ کو موردِ الزام ٹھیرانا۔ اِس سے آسان آپشن کوئی ہے بھی نہیں۔
یہ نکتہ بھی نظر انداز نہیں کیا جاسکتا کہ سیاست دان تمام معاملات میں مہارت نہیں رکھتے۔ کوئی بھی سیاست دان چین، ماحول، صحتِ عامہ اور دیگر بہت سے امور سے متعلق پالیسیوں کا بیک وقت ماہر نہیں ہوسکتا۔ یہی سبب ہے کہ امریکا میں جب بھی کسی پیچیدہ معاملے پر کانگریس میں سماعت چل رہی ہو تو متعلقہ امور کے ماہرین کو رائے دینے کے لیے طلب کیا جاتا ہے تاکہ متعلقہ معاملات میں ٹھوس پالیسی وضع کرنے اور اہم فیصلے کرنے میں مدد ملے۔
امریکیوں کی اکثریت کو اندازہ ہی نہیں کہ وہ جس طرز حکومت کے تحت جی رہے ہیں وہ اس ملک کے بانیان کو مقصود نہ تھی۔ یہ تو محض راستے کی طرح کی تھی جس پر چل کر وہ حکومت قائم کرنا تھی جو مفادِ عامہ کی نگہبان ہو۔
جمہوریت بہترین طرزِ حکومت ہے مگر صرف اُس وقت جب عوام باشعور ہو اور انہیں اچھی طرح اندازہ ہو کہ معاملات کو بہتر بنانے میں انہیں اپنا کردار کس حد تک ادا کرنا ہے۔ اگر عوام ہی کو کچھ اندازہ نہ ہو کہ ان کا ملک کس طرح چلایا جارہا ہے، پالیسیاں کس طور وضع کی جاتی ہیں، فیصلے کس طور کیے جاتے ہیں اور ان پر عمل کی صورت کیا ہے تو سیدھی سی بات ہے کہ معاملات خراب ہی رہیں گے۔ عوام کو تو اپنے حقیقی نمائندے منتخب کرنے کا شعور بھی نہیں۔ وہ جمہوریت پر عمل ضرور کر رہے ہیں مگر خود بھی معلوم نہیں کہ جمہوریت کو بہتر انداز سے چلانے اور مستحکم رکھنے کے لیے کس طرح کے لوگ درکار ہیں۔
آپ نے سنا ہی ہوگا کہ بہت سے والدین اپنے بچوں کو پولیو سمیت مختلف بیماریوں سے بچاؤ کے قطرے نہیں پلواتے، ٹیکے نہیں لگواتے۔ اس کے نتیجے میں بچے معذوری کی طرف بھی چلے جاتے ہیں۔ یہی حال اُن عوامی نمائندوں کا ہے جو اہلیت نہ رکھتے ہوں۔ اگر عوام آنکھ بند کرکے کسی کو بھی ووٹ دے دیں تو لازم ہے کہ معاشرے میں خرابیاں پیدا ہوں۔ اگر عوام کے معاملات کو عمدگی سے سمجھنے کی صلاحیت نہ رکھنے والے لوگ منتخب ایوان میں پہنچیں گے تو حکومتی اور ریاستی مشینری کی کارکردگی بھی شدید متاثر ہوگی اور وہ سب کچھ حاصل نہیں کیا جاسکے گا جس کی تمنا کی گئی ہو۔ اگر عوام سوچے سمجھے بغیر ووٹ کاسٹ کریں تو پھر انہیں بہتری کی توقع بھی نہیں رکھنی چاہیے۔
آج ہمیں اپنے ماحول میں جو خرابیاں دکھائی دے رہی ہیں وہ بہت حد تک اس حقیقت کی کوکھ سے نکلی ہیں کہ ہم ماہرین کی آراء کی قدر نہیں کرتے اور اپنی رائے کو ہر شے پر مقدم رکھنے پر بضد ہیں۔ ماہرین کا فرض ہے کہ وہ جمہوری معاشرے کو زیادہ سے زیادہ مستحکم کرنے کے حوالے سے اپنا کردار ادا کریں یعنی مفادِ عامہ کو ہر شے پر ترجیح دیں اور وہی رائے کھل کر دیں جو مفادِ عامہ کے حوالے سے توانا ہو۔ ماہرین کا ایک بنیادی فریضہ عوام کو حقوق و فرائض کے حوالے سے باشعور بنانا ہے۔ عوام کو میٹھی اور قابلِ قبول باتوں سے لبھانے کے بجائے جہاں ضروری ہو وہاں اُن کی رائے کو چیلنج کرتے ہوئے اُنہیں آئینہ دکھانے کی بھی ضرورت ہے۔ عوام کو کھل کر بتایا جائے کہ حکومتی اور ریاستی مشینری کس طور کام کرتی ہے۔ اُنہیں یہ بھی بتایا جائے کہ بہت سے مسائل ویسے سادہ نہیں ہوتے جیسے دکھائی دیتے ہیں، یعنی اُنہیں حل کرنے کے لیے خاصی محنت درکار ہوتی ہے اور کبھی کبھی بہت محنت کے بعد بھی معاملات درست نہیں ہو پاتے۔ ماہرین کی ذمہ داری ہے کہ عوام کو کسی بھی شعبے میں ٹھوس رائے قبول کرنے کے لیے نفسیاتی طور پر آمادہ کریں۔ اس حوالے سے عوام کی ذہن سازی ناگزیر ہے۔ اُنہیں سمجھایا جانا چاہیے کہ سب کچھ ویسا آسان نہیں ہوتا جیسا دکھائی دے رہا ہوتا ہے۔ ہر معاملے میں اپنی رائے قائم کرنے کی ضرورت نہیں۔ ماہرین کی رائے کو ہر حال میں مقدم سمجھا جانا چاہیے۔ ہاں، اگر کسی معاملے میں ماہرین کی رائے سے اختلاف کی گنجائش ہو تو اُس سے ہٹ کر سوچا جاسکتا ہے، اپنی رائے قائم کی جاسکتی ہے۔ مگر عوام کو یہ نہیں بھولنا ہے کہ کسی بھی شعبے میں حتمی رائے اُس شعبے کے ماہرین کی ہوتی ہے۔ اگر سبھی اپنے طور پر رائے قائم کرنے لگیں تو چل چکی یہ دنیا۔
(ترجمہ: محمد ابراہیم خان)
“How America Lost Faith in Expertise”. (“Foreign Affairs”. March-April 2017)
بہترین موضوع
بہترین مضمون
اور بہت ہی اعلیٰ ترجمہ