کتنا آزاد ہے مغرب کا ’’آزاد‘‘ میڈیا؟

مشکل ہی سے کوئی دن ایسا گزرتا ہے جب مسلمانوں کو باور نہ کرایا جاتا ہو کہ مغرب کے معیارات ہی سب کچھ ہیں اور ساتھ ہی انہیں مشورہ دیا جاتا ہے کہ اگر اچھی، پرسکون اور قابل رشک زندگی بسر کرنی ہے تو مغرب کے معیارات کو اپنالیں۔ مغرب کے بعض مبصرین تو اس حد تک جاچکے ہیں کہ وہ مسلمانوں کے جذبات کو مجروح کرنے کو بھی اپنا پیدائشی حق سمجھنے لگے ہیں۔ ڈنمارک کے ملعون کارٹونسٹ کو حضور نبی کریم صل اللہ علیہ وسلم کی شان میں گستاخی کرنے کا حق ہے، مغربی میڈیا کو توہین آمیز خاکے شائع کرنے کی آزادی ہے اور مسلمانوں کو اس آزادی کے سائے میں زندہ رہنا چاہیے! ہمیں بتایا جاتا ہے کہ مغرب میں عوام اور میڈیا کے نمائندوں کو ہر اعتبار سے اپنی رائے کے اظہار کی کھلی چھوٹ ملنی چاہیے۔ سوال صرف مسلمانوں کی مذمت کرنے کا نہیں ہے بلکہ ان کے جذبات کو ٹھیس پہنچانے کا ہے۔

اپنی رائے کا اظہار کرنے کی یہی آزادی اس وقت صلب کرلی جاتی ہے جب صہیونی ریاست کے مظالم کو دنیا کے سامنے پیش کرنے کا سوال اٹھ کھڑا ہوتا ہے۔ اسرائیل پر کسی بھی قسم کی تنقید کو فوری طور پر یہودی مخالف جذبات کا نام دے دیا جاتا ہے۔ جون میں ۸۹ سالہ ہیلن تھامس کو امریکی ایوان صدر کی رپورٹنگ کی جاب سے اس لیے محروم کردیا گیا کہ انہوں نے ایک ربی کے سامنے کہا تھا کہ یہودیوں کو فلسطین سے نکل جانا چاہیے۔ یہ وہی خاتون رپورٹر ہیں جنہوں نے دس امریکی صدور کا زمانہ دیکھا ہے اور ان کے سیکرٹریوں سے بھی رابطے میں رہی ہیں۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ ہیلن تھامس کو الفاظ کے انتخاب میں احتیاط سے کام لینا چاہیے تھا کیونکہ تمام یہودی صہیونی نہیں ہیں۔ مگر ربی نیزنوف نے بھی حد کردی۔ انہوں نے ہیلن کے ریمارکس کو ریکارڈ کیا اور اپنی ویب سائٹ www.rabbilive.com پر اپ لوڈ بھی کردیا۔ صہیونی اور دائیں بازو سے تعلق رکھنے والے ان کے ساتھی پھٹ پڑے۔ ہیلن کو صحافت میں ۶۲ سالہ شاندار کیریئر کے بعد ملازمت سے فارغ کردیا گیا۔

اب ہمارے سامنے مغربی میڈیا کے دو بنیادی اصول ہیں۔ پہلا یہ کہ اسلام اور مسلمانوں پر جب جی میں آئے، جی بھر کے تنقید کرو، مذاق اڑاؤ۔ اور دوسرا یہ کہ یہودیوں پر تنقید کی قطعاً اجازت نہیں ہے۔

جولائی میں ہمیں ایک اور قانون یا اصول جاننے کو ملا۔ یہ کہ آپ مغربی میڈیا میں کام کرتے ہوئے کسی بھی مسلم لیڈر یا اسکالر کی تعریف میں کچھ نہیں کہہ سکتے۔ سی این این کی اوکٹیویا نصر نے حزب اللہ کے روحانی پیشوا سمجھے جانے والے شیخ سید فضل اللہ کی رحلت پر ٹوئٹر میں بلاگ اینٹری کچھ اس طرح کی۔ ’’شیخ سید فضل اللہ کی وفات کا سن کر بہت دکھ ہوا۔ وہ عظیم اسکالر تھے اور میں ان کا بہت احترام کرتی ہوں۔‘‘ بس اتنا کافی تھا، صہیونی اور ان کے ہم خیال عیسائی حرکت میں آگئے اور سی این این میں شکایات کے انبار لگا دیے۔

سی این این اور مغربی میڈیا کے دیگر ادارے ڈنمارک میں توہین آمیز خاکوں کی اشاعت پر احتجاج کے لیے کھڑے ہوئے تھے؟ کیا اس وقت رائے کے اظہار کی آزادی کا اصول غلط طریقے سے استعمال نہیں کیا گیا تھا؟ اوکٹیویا نصر لبنان سے تعلق رکھنے والی عیسائی ہے۔ اسے ملازمت سے ہاتھ دھونے پڑے۔ اوکٹیویا نصر کو ملازمت سے فارغ کرنے کی ذمہ داری سی این این انٹرنیشنل نیوز گیتھرنگ کی سینئر وائس پریزیڈنٹ پیریزا خسروی کو سونپی گئی۔ انہیں یہ ذمہ داری اس لیے سونپی گئی کہ اس بات کا یقین کرلیا گیا تھا کہ وہ اس سے بہتر طور پر عہدہ برآ ہوں گی۔ اگر کسی رپورٹر نے اسلام، اسلامی ریاست یا مسلمانوں کے خلاف کچھ کہا ہوتا تو وہ اسے برطرف کرنے کی جسارت ہرگز نہ کرتی۔ اوکٹیویا سے ملاقات کا احوال اس نے ایک انٹرنل میمو میں اس طرح بیان کیا۔ ’’آج صبح اوکٹیویا سے میری ملاقات ہوئی۔ میں یہ بتانا چاہتی ہوں کہ ہم دونوں نے اس ملاقات میں طے کیا کہ اوکٹیویا ادارہ چھوڑ دے گی۔‘‘

لبنان میں برطانوی سفیر فرانسس گائے کو بھی شیخ فضل اللہ کے بارے میں توصیفی ریمارکس لکھنے پر شدید تنقید کا سامنا کرنا پڑا۔ فرانسس نے اپنے بلاگ میں لکھا ’’جب بھی شیخ فضل اللہ سے ملاقات ہوتی، یہ بات ضرور یقینی ہوتی کہ کوئی نہ کوئی عالمانہ دلیل سننے کو ملے گی اور احترام بھی۔ ان سے ملنے کے بعد ان کے بارے میں رائے کا مزید بہتر ہو جانا فطری امر تھا۔‘‘

فرانسس کا اتنا لکھنا تھا کہ قیامت ہی برپا ہوگئی۔ اسرائیل کی وزارت خارجہ بھی حرکت میں آگئی اور اس بات پر زور دیا کہ برطانوی وزارت خارجہ اس سلسلے میں کیا کہتی ہے۔ برطانوی دفتر خارجہ حرکت میں آیا اور فرانسس گائے پر دباؤ ڈالا گیا کہ اپنے بلاگ سے شیخ فضل اللہ کے بارے میں انٹری کو ڈیلیٹ کردے۔ مشہور کالم نگار رابرٹ فسک نے اس پر قدرے ناراض ہوکر ۱۰ جولائی کو برطانوی اخبار انڈی پینڈنٹ میں اپنے کالم میں لکھا ’’میں جاننا چاہوں گا کہ اسرائیلی وزارت خارجہ ان برطانوی پاسپورٹس کے بارے میں کیا رائے رکھتی ہے جو دبئی میں حماس کے رہنما محمود المبحوح کو قتل کرنے والے افراد کو جاری کیے گئے۔‘‘

ہمیں مغرب کے آزاد میڈیا کے حوالے سے یہ قانون یا اصول بھی مل گیا ہے کہ کسی بھی حالت میں کسی مسلم لیڈر کی تعریف نہیں کی جائے گی۔ مغربی میڈیا کی آزادی اور کسی بھی بات کو کھل کر کہنے کی روایت کو سراہنے والے آج کہاں ہیں؟

(بشکریہ: ’’کریسنٹ انٹرنیشنل‘‘۔ اگست ۲۰۱۰ء)

Be the first to comment

Leave a Reply

Your email address will not be published.


*