برطانیہ ہندوستان سے کُل کتنی دولت لوٹ کے لے گیا؟
Posted on September 1, 2018 by ظفر سید in شمارہ یکم ستمبر 2018 // 0 Comments

آج بادشاہ کی سالگرہ ہے اورمغل روایات کے مطابق انھیں تولا جانا ہے۔ اس موقعے پر برطانوی سفیر سر ٹامس رو بھی دربار میں موجود ہیں۔
تقریب پانی میں گھرے ایک چوکور چبوترے پر منعقد کی جا رہی ہے۔ چبوترے کے بیچوں بیچ ایک دیوہیکل طلائی ورق منڈھا ترازو نصب ہے۔ ایک پلڑے میں کئی ریشمی تھیلے رکھے ہوئے ہیں، دوسرے میں خود چوتھے مغل شہنشاہ نورالدین محمد جہانگیر احتیاط سے سوار ہوئے۔
بھاری لبادوں، تاج اور زر و جواہر سمیت شہنشاہ جہانگیر کا وزن تقریباً ڈھائی سو پاؤنڈ نکلا۔ ایک پلڑے میں ظلِ الٰہی متمکن رہے، دوسرے میں رکھے ریشمی تھیلے باری باری تبدیل کیے جاتے رہے۔ پہلے مغل بادشاہ کو چاندی کے سکوں سے تولا گیا، جو فوراً ہی غریبوں میں تقسیم کر دیے گئے۔ اس کے بعد سونے کی باری آئی، پھر جواہرات، بعد میں ریشم، اور آخر میں دوسری بیش قیمت اجناس سے بادشاہ سلامت کے وزن کا تقابل کیا گیا۔
یہ وہ منظر ہے جو آج سے تقریباً ٹھیک چار سو سال قبل مغل شہنشاہ نورالدین محمد جہانگیر کے دربار میں انگریز سفیر سر ٹامس رو نے دیکھا اور اپنی ڈائری میں قلم بند کر لیا۔ تاہم دولت کے اس خیرہ کن مظاہرے نے سر ٹامس کو شک میں ڈال دیا کہ کیا بند تھیلے واقعی ہیرے جواہرات یا سونے سے بھرے ہوئے ہیں، کہیں ان میں پتھر تو نہیں؟
سوال یہ ہے کہ ایک دور دراز کے چھوٹے سے جزیرے پر مشتمل ملک کا سفیر اس وقت ہندوستان میں کیا کر رہا تھا؟
انگلستان کے ساتھ معاہدہ ’شان کے خلاف‘
دراصل سر ٹامس ایک خاص مشن پر ہندوستان آئے تھے۔ ان کی کوشش تھی کہ وہ کسی نہ کسی طرح جہانگیر سے ایک معاہدے پر دستخط کروا لیں، جس کے تحت ایک چھوٹی سی برطانوی کمپنی کو ہندوستان میں تجارتی حقوق حاصل ہو جائیں۔
لیکن جیسا کہ سر ٹامس کی طویل ڈائری سے پتہ چلتا ہے، یہ کام اتنا آسان نہیں ثابت ہوا اور اس سلسلے میں محنتی انگریز سفیر کو سخت پاپڑ بیلنا پڑے۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ مغل شہنشاہ پوری دنیا میں صرف ایران کے صفوی بادشاہ اور عثمانی خلیفہ کو اپنا مدِ مقابل سمجھتے تھے۔ ان کی نظر میں انگلستان ایک چھوٹا سا بے وقعت جزیرہ تھا، اس کے کسی معمولی بادشاہ کے ساتھ برابری کی سطح پر معاہدہ کرنا ان کی شان کے خلاف تھا۔
تاہم سر ٹامس نے ہمت نہیں ہاری، اور وہ تین سال کی انتھک محنت، سفارتی داؤ پیچ اور تحفے تحائف دے کر جہانگیر سے تو نہیں، البتہ ولی عہد شاہجہاں سے آج سے ٹھیک چار سو برس قبل اگست ۱۶۱۸ء میں ایک معاہدے پر دستخط کروانے میں کامیاب ہو گئے، جس کے تحت اس کمپنی کو سورت میں کھل کر کاروبار کرنے کا اجازت مل گئی۔
اس کمپنی کا نام ایسٹ انڈیا کمپنی تھا اور یہ واقعہ اس کی تاریخ میں سنگِ میل کی حیثیت رکھتا ہے۔ یہ پہلا موقع تھا کہ مغل حکومت نے براہِ راست ایک یورپی ملک کے ساتھ باقاعدہ تجارتی معاہدہ کر کے اس کی ایک کمپنی کو مراعات دی تھیں اور یوں اسے ہندوستان میں قدم جمانے کا پروانہ مل گیا تھا۔
یہ کچھ ایسا ہی واقعہ تھا جیسے مشہور کہانی کے اونٹ کو بدّو نے اپنے خیمے میں سر داخل کرنے کی اجازت دے دی تھی!
سر ٹامس رو کو جہانگیر کے ساتھ دوسرے پلڑے میں تلنے والی دولت پر یقین کرنے میں حیرت ہوئی تھی، لیکن ان کے طے کردہ معاہدے کے نتیجے میں برطانیہ اگلے ساڑھے تین سو برسوں میں ہندوستان سے جو دولت سمیٹ کر لے گیا، اس کے بارے میں ماہرینِ معاشیات نے کچھ تخمینے لگانے کی کوشش ضرور کی ہے۔
اس کا ذکر آگے چل کر آئے گا، پہلے یہ دیکھتے ہیں کہ ایسٹ انڈیا کمپنی اور برطانوی راج کے ہندوستان پر اقتدار کے دوسرے اثرات کیا مرتب ہوئے جو محض دولت لٹنے سے کہیں زیادہ بھیانک تھے۔
تاریخ کی چوتھی بدترین سفاکی
امریکی تاریخ دان میتھیو وائٹ نے ’This Great Big Book of horrible Things‘ کے نام سے ایک کتاب لکھی ہے، جس میں انھوں نے تاریخ کی ایک سو بدترین سفاکیوں کا جائزہ پیش کیا ہے جن کے دوران سب سے زیادہ انسانی جانیں ضائع ہوئیں۔ اس کتاب میں تاریخ کی چوتھی بدترین سفاکی برطانوی دور میں ہندوستان میں آنے والے قحط ہیں، جن میں وائٹ کے مطابق دو کروڑ ۶۶ لاکھ ہندوستانیوں کی جانیں ضائع ہوئیں۔
اس تعداد میں وائٹ نے دوسری جنگِ عظیم کے دوران بنگال میں آنے والے قحط کو شمار نہیں کیا جس میں ۳۰ سے ۵۰ لاکھ کے قریب لوگ مارے گئے تھے۔
اگر اس قحط کو بھی شامل کر لیا جائے تو ایسٹ انڈیا کمپنی اور بعد میں برطانیہ کی براہِ راست حکومت کے دوران تین کروڑ کے قریب ہندوستانی قحط کے باعث جان سے ہاتھ دھو بیٹھے۔
ہندوستان کا شمار دنیا کے سب سے زرخیز خطوں میں ہوتا تھا اور اب بھی ہوتا ہے، پھر اتنے لوگ کیوں بھوکوں مر گئے؟
وائٹ نے ان قحطوں کی وجہ ’تجارتی استحصال‘ (commercial exploitation) قرار دی ہے۔ اس اجمال کی تفصیل کے لیے ہم صرف ایک قحط کا ذکر کرتے ہیں جو ۱۷۶۹ء میں بنگال ہی میں آیا تھا۔
نوبل انعام یافتہ ماہرِ معاشیات امرتیہ سین نے اس قحط میں ہونے والی اموات کی تعداد ایک کروڑ بتائی ہے۔ اس دور کا ایک منظر ایک انگریز ہی کی زبانی دیکھیے:
’دسیوں لاکھ لوگ چند بقیہ ہفتوں تک زندہ رہنے کی آس لیے مر گئے جو انھیں فصل تیار ہونے تک گزارنے تھے۔ ان کی آنکھیں ان فصلوں کو تکتی رہ گئیں جنھیں اس وقت پکنا تھا جب انھیں بہت دیر ہو جاتی۔‘
شاندار فصل کے اندر ڈھانچے
فصلیں تو اپنے وقت پر تیار ہوئیں لیکن اس وقت تک واقعی بہت دیر ہو چکی تھی۔ ۱۷۶۹ء کی یہی کہانی پونے دو سو سال بعد ایک بار پھر مشرقی بنگال میں دہرائی گئی۔ ٹائمز آف انڈیا اخبار کا ۱۶؍نومبر ۱۹۴۳ء کا تراشہ:
’مشرقی بنگال میں ایک ہولناک مگر عام منظر یہ تھا کہ نصف صدی کی سب سے شاندار فصل کے دوران پڑا ہوا گلا سڑا کوئی انسانی ڈھانچہ نظر آ جاتا تھا۔‘
ساحر لدھیانوی نے اس قحط پر نظم لکھی تھی، جس کے دو شعر:
پچاس لاکھ فسْردہ، گلے سڑے ڈھانچے / نظامِ زر کے خِلاف احتجاج کرتے ہیں
خموش ہونٹوں سے، دَم توڑتی نگاہوں سے / بشر بشر کے خلاف احتجاج کرتے ہیں
قحط تو قدرتی آفات کے زمرے میں آتے ہیں۔ اس میں ایسٹ انڈیا کمپنی کا کیا قصور؟ مشہور فلسفی ول ڈیورانٹ اس بارے میں لکھتے ہیں:
’ہندوستان میں آنے والے خوفناک قحطوں کی بنیادی وجہ اس قدر بے رحمانہ استحصال، اجناس کی غیرمتوازن درآمد اور عین قحط کے دوران ظالمانہ طریقوں سے مہنگے ٹیکسوں کی وصولی تھی کہ بھوک سے ہلاک ہوتے کسان ٹیکس ادا نہیں کر سکتے تھے۔۔۔ حکومت مرتے ہوئے لوگوں سے بھی ٹیکس وصول کرنے پر تلی رہتی تھی۔‘
ایک چھوٹی سی کمپنی اتنی طاقتور کیسے ہو گئی کہ ہزاروں میل دور کسی ملک میں کروڑوں لوگوں کی زندگیوں اور موت پر قادر ہو جائے؟
اس کے لیے ہمیں تاریخ کے چند مزید صفحے پلٹا ہوں گے۔
۱۴۹۸ء میں پرتگیزی مہم جو واسکو ڈے گاما نے افریقا کے جنوبی کونے سے راستہ ڈھونڈ کر ہندوستان کو سمندری راستے کے ذریعے یورپ سے منسلک کر دیا تھا۔ آنے والے عشروں کے دوران دھونس، دھمکی اور دنگا فساد کے حربے استعمال کر کے پرتگیزی بحرِ ہند کی تمام تر تجارت پر قابض ہو گئے اور دیکھتے ہی دیکھتے پرتگال کی قسمت کا سورج نصف آسمان پر جگمگانے لگا۔
ان کی دیکھا دیکھی ولندیزی بھی اپنے توپ بردار بحری جہاز لے کر بحرِ ہند میں آ دھمکے اور دونوں ملکوں کے درمیان جوتم پیزار ہونے لگی۔
انگلستان یہ سارا کھیل بڑے غور سے دیکھ رہا تھا، بھلا وہ اس دوڑ میں کیوں پیچھے رہ جاتا؟ چنانچہ ملکہ الزبتھ نے ان دو ملکوں کے نقشِ قدم پر چلتے ہوئے دسمبر ۱۶۰۰ء میں ایسٹ انڈیا کمپنی قائم کروا کر اسے ایشیا کے ملکوں کے ساتھ بلاشرکتِ غیرے تجارت کا اجازت نامہ جاری کر دیا۔
لیکن انگریزوں نے ایک کام کیا جو ان سے پہلے آنے والے دو یورپی ملکوں سے نہیں ہو سکتا تھا۔ انھوں نے صرف جنگ آمیز تجارت پر ساری توانائیاں صرف نہیں کیں بلکہ سفارت کاری پر بھی بھرپور توجہ دی۔ یہی وجہ ہے کہ انھوں نے ٹامس رو جیسے منجھے ہوئے سفارت کار کو ہندوستان بھیجا تاکہ وہ ایسٹ انڈیا کمپنی کے لیے بند دروازے کھول دے۔
مغلوں کی طرف سے پروانہ ملنے کے بعد انگریزوں نے ہندوستان کے مختلف ساحلی شہروں میں ایک کے بعد ایک تجارتی اڈے قائم کرنا شروع کر دیے، جنھیں فیکٹریاں کہا جاتا تھا۔ ان فیکٹریوں سے انھوں نے مصالحہ جات، ریشم اور دوسری مصنوعات کی تجارت شروع کر دی جس میں انھیں زبردست فائدہ تو ہوتا رہا، لیکن جلد ہی معاملہ محض تجارت سے آگے بڑھ گیا۔
جوڑ توڑ
چونکہ ایسٹ انڈیا کمپنی کی دوسرے یورپی ملکوں سے اکثر جنگیں چلتی رہتی تھیں اور یہ ایک دوسرے کا مال لوٹنے میں کوئی عار محسوس نہیں کرتے تھے، اس لیے انگریزوں نے اپنی فیکٹریوں میں بڑی تعداد میں مقامی سپاہی بھرتی کرنے شروع کر دیے۔ زیادہ وقت نہیں گزرا کہ یہ فیکٹریاں پھیل کر قلعوں اور چھاؤنیوں کی شکل اختیار کرنے لگیں۔
جب کمپنی کی فوجی اور مالی حالت مضبوط ہوئی تو اس کے اہلکار مقامی ریاستوں کے آپسی لڑائی جھگڑوں میں ملوث ہونے لگے۔ کسی راجے کو سپاہیوں کے دستے بھجوا دیے، کسی نواب کو اپنے حریف کو زیر کرنے کے لیے توپیں دے دیں، تو کسی کو سخت ضرورت کے وقت پیسہ ادھار دے دیا۔ اس جوڑ توڑ کے ذریعے انھوں نے رفتہ رفتہ اپنے پنجے ساحلی علاقوں سے دور تک پھیلا دیے۔
مسلسل پھیلاؤ کے اس سفر میں سب سے اہم موڑ ۱۷۵۷ء میں لڑی جانے والی جنگِ پلاسی ہے، جس میں ایسٹ انڈیا کمپنی کے ایک کلرک رابرٹ کلائیو کے تین ہزار سپاہیوں نے بنگال کے نواب سراج الدولہ کی ۵۰ ہزار فوج کو شکست دے دی۔
کیسے شکست دی، یہ کہانی مطالعۂ پاکستان کی کتاب میں درج ہے، بس اس کہانی کا اخلاقی نتیجہ یاد رکھیے کہ جنگ کے بعد کلائیو نے سراج الدولہ کا صدیوں کا جمع کردہ خزانہ سمندری جہازوں میں لدوا کر بالکل اسی طرح لندن پہنچا دیا جس طرح ۱۸؍سال قبل نادر شاہ دہلی کی دولت دونوں ہاتھوں سے نچوڑ کر ایران لے گیا تھا۔
لیکن کلائیو نے تمام دولت شاہی خزانے میں جمع نہیں کروائی بلکہ اپنے لیے بھی کچھ حصہ رکھ لیا، جس کی مالیت آج کل کے حساب سے تین کروڑ ڈالر بنتی ہے۔ اس رقم سے اس نے برطانیہ میں ایک شاندار محل بنوایا اور وسیع جاگیر خریدی جس کا نام ’پلاسی‘ رکھا۔ یہی نہیں، اس نے پیسہ دے کر نہ صرف اپنے لیے بلکہ اپنے باپ کے لیے بھی پارلیمان کی نشست خرید لی۔ بعد میں اسے سر کا خطاب بھی عطا کر دیا گیا۔
’ہاتھ اتنا ہولا کیوں رکھا!‘
لیکن اسی دوران بنگال میں آنے والے خوفناک قحط اور اس کے نتیجے میں صوبے کی ایک تہائی آبادی کے فنا ہو جانے کی خبریں انگلستان پہنچنا شروع ہو گئی تھیں جن کا سبب لارڈ کلائیو کی پالیسیوں کو قرار دیا گیا۔
لاٹ صاحب پر انگلیاں اٹھنے لگیں، چہ میگوئیاں ہونے لگیں۔ کرتے کرتے نوبت پارلیمان میں قرارداد پیش ہونے تک جا پہنچی۔ یہ قرارداد تو خیر منظور نہیں ہو سکی، کیوں کہ اس زمانے میں پارلیمان کے ایک چوتھائی کے لگ بھگ ارکان کے خود ایسٹ انڈیا کمپنی میں حصص تھے۔
بحث کے دوران کلائیو نے کسرِ نفسی سے کام لیتے ہوئے اپنی وسیع و عریض دولت کے بارے میں کہا کہ ’’میں تو خود سخت حیران ہوں کہ میں نے ہاتھ اس قدر ’ہولا‘ کیوں رکھا!‘‘ ورنہ وہ چاہتے تو اس سے کہیں زیادہ مال و زر سمیٹ کر لا سکتے تھے۔
تاہم ہندوستان میں برپا ہونے والی قیامت کے اثرات کسی نہ کسی حد تک کلائیو کے دل و دماغ پر اثرانداز ہونے لگے اور اس نے بڑی مقدار میں افیم کھانا شروع کر دی۔ نتیجہ یہ نکلا کہ وہ ۱۷۷۴ء میں اپنے کمرے میں پراسرار حالت میں مردہ پائے گئے۔
یہ معمہ تو آج تک حل نہیں ہو سکا کہ آیا کلائیو نے خودکشی کی تھی یا افیم کی زیادہ خوراک جان لیوا ثابت ہوئی۔ لیکن یہ بات بالکل واضح ہے کہ ان کی ہندوستان میں حکمتِ عملی کے بعد ایسٹ انڈیا کمپنی جس راستے پر چل نکلی وہ ہندوستان کی آزادی کے لیے ضرور جان لیوا ثابت ہوئی۔
اس دوران مغل کچھ اپنی نااہلی اور کچھ بیرونی حملوں اور مرہٹوں کی چیرہ دستیوں کے باعث اس قدر کمزور ہو چکے تھے کہ وہ دور ہی دور سے انگریزوں کے رسوخ کو دن دگنا، رات چوگنا بڑھتے دیکھنے کے علاوہ کچھ نہ کر سکے۔ چنانچہ جنگِ پلاسی کے صرف نصف صدی بعد ایسٹ انڈیا کمپنی کی سپاہ کی تعداد ڈھائی لاکھ سے تجاوز کر گئی اور انھوں نے بنگال سے نکل کر ہندوستان کے بڑے حصے پر اپنا تسلط قائم کر لیا۔
مغل شہنشاہ کمپنی کا وظیفہ خوار
نوبت یہاں تک پہنچی کہ ۱۸۰۳ء کے آتے آتے دہلی کے تخت پر بیٹھا مغل شہنشاہ شاہ عالم ایسٹ انڈیا کمپنی کا وظیفہ خوار بن کر رہ گیا۔ ایک زمانہ تھا کہ اسی شاہ عالم کے پرکھ جہانگیر کے آگے انگریز سفیر ٹامس رو گھنٹوں کے بل جھکتا تھا، اب یہ حالت تھی کہ اسے ایسٹ انڈیا کمپنی کے ایک کلرک کو جھک کر پورے بنگال کا اختیارنامہ پیش کرنا پڑا۔
یہ بات حیرت انگیز ہے کہ یہ سارا کام برطانوی حکومت نے نہیں، بلکہ ایک کمپنی نے کیا جس کا صرف ایک اصول تھا، ہر ممکن ہتھکنڈے استعمال کر کے اپنے حصہ داروں کے لیے زیادہ سے زیادہ منافع کمانا۔ یہ کمپنی لندن کے ایک علاقے میں ایک چھوٹی سی عمارت سے کام کرتی تھی اور قیام کے ایک صدی بعد تک بھی اس کے مستقل ملازمین کی تعداد صرف ۳۵ تھی۔
لیکن اس کے باوجود دنیا کی تاریخ میں کوئی کمپنی ایسی نہیں گزری جس کے پاس اس قدر طاقت ہو۔
اگر آپ کو شکایت ہے کہ آج کی بین الاقوامی کمپنیاں بہت طاقتور ہو گئی ہیں اور وہ ملکوں کی پالیسیوں پر اثرانداز ہو رہی ہیں، تو اب ذرا تصور کیجیے کہ گوگل، فیس بک، ایپل، مائیکروسافٹ اور سام سنگ مل کر ایک کمپنی بن جائیں جس کے پاس اپنی جدید ترین ہتھیاروں سے لیس فوج ہو اور جو ملک ان کی مصنوعات خریدنے سے انکار کرے، یہ کمپنی اس پر چڑھ دوڑے۔
افیم کیوں نہیں خریدتے؟
ایسٹ انڈیا کمپنی نے بالکل یہی کام چین کے ساتھ کیا۔ اوپر ہم نے لارڈ کلائیو کی افیم کے ہاتھوں موت کا ذکر کیا تھا۔ یہ افیم ایسٹ انڈیا کمپنی ہندوستان میں اگاتی تھی لیکن ساری کی ساری اس کے عہدے دار نہیں کھا جاتے تھے بلکہ اس کا بڑا حصہ چین لے جا کر مہنگے داموں بیچا جاتا تھا۔ جب چینیوں کو احساس ہوا کہ یہ تو ہمارے ساتھ گھپلا ہو رہا ہے، تو انھوں نے مزید افیم خریدنے سے معذرت کر لی۔
کمپنی اپنے منافع میں کمی کیسے برداشت کرتی۔ اس نے ۱۸۳۹ء میں چند توپ بردار جہاز چین بھیج کر چین کا دقیانوسی بحری بیڑا تہس نہس کر دیا۔ چینی شہنشاہ نے اپنی غلطی تسلیم کرتے ہوئے نہ صرف افیم کی درآمد پر پابندی اٹھا دی بلکہ بطور جرمانہ ہانگ کانگ بھی برطانیہ کو ہبہ کر کے دے دیا جو ۱۹۹۷ء میں کہیں جا کر واپس چین کو ملا۔
اس دوران ایسٹ انڈیا کمپنی نے ہندوستان میں اپنی پیش قدمی جاری رکھی اور ایک کے بعد ایک ریاست، ایک ایک بعد ایک راجواڑہ ان کی جھولی میں گرتا رہا۔ ۱۸۱۸ء انھوں نے مرہٹوں کو سلطنت ہتھیائی، اس کے بعد اگلے چند عشروں میں سکھوں کو شکست دے کر تمام مغربی ہندوستان یعنی آج کے پاکستان پر بھی قابض ہو گئی۔ اب درۂ خیبر سے لے کر برما اور ہمالیہ کی برفانی چوٹیوں سے لے کر راس کماری تک ان کا راج تھا۔
اب اونٹ نے خیمے میں گھس کو بدو کو مکمل طور پر بے دخل کر دیا تھا۔
تاجِ برطانیہ کا سب سے درخشاں ہیرا
معاملات یوں ہی چلتے رہے، لیکن پھر بدقسمتی نے گھیرے ڈال دیے۔ ۱۸۵۷ء میں کمپنی کے اپنے ہی تنخواہ دار سپاہیوں نے بغاوت کر دی جس کے دوران بڑے پیمانے پر خون خرابہ ہوا۔ اس زمانے میں اخبار عام ہو گئے تھے۔ اس ساری گڑبڑ کی خبریں انگلستان تک پہنچیں۔
ہوتے ہوتے کمپنی کا تاثر برطانیہ میں اتنا خراب ہو گیا کہ بالآخر پارلیمان کو عوامی دباؤ کے زیرِ اثر کمپنی کو قومیانے کا فیصلہ کرنا پڑا اور ہندوستان براہِ راست برطانوی حکومت کی عملداری میں آ کر ملکہ وکٹوریہ کے ’تاج کا سب سے درخشاں ہیرا‘ بن گیا۔
ایسٹ انڈیا کمپنی پھر بھی چند سال گھسٹ گھسٹ کر زندگی گزارتی رہی، لیکن کب تک۔ آخر یکم جون ۱۸۷۴ء کو پونے تین سو سال کی طویل شان و شوکت کے بعد یہ کمپنی تحلیل ہو گئی۔
کمپنی کی وفاتِ حسرت آیات پر اس زمانے میں ٹائمز اخبار نے جو نوٹ لکھا تھا وہ کمپنی کی تاریخ کی عمدہ ترجمانی کرتا ہے:
’اس (کمپنی) نے جو کارہائے نمایاں سرانجام دیے وہ بنی نوعِ انسان کی تاریخ میں کسی اور تجارتی کمپنی کے حصے میں نہیں آ سکے۔ نہ ہی آئندہ آنے والے برسوں میں امکان ہے کہ کوئی اور کمپنی اس کی کوشش بھی کر پائے گی۔‘
نہ کوئی جنازہ نہ کوئی مزار
ٹائمز کا قصیدہ اپنی جگہ، لیکن لگتا یہی ہے کہ شاید انگریزوں کو اپنی اس کمپنی کے ’کارہائے نمایاں‘ پر کچھ زیادہ فخر نہیں ہے۔ کیوں کہ آج لندن میں لیڈن ہال اسٹریٹ پر جس جگہ کمپنی کا ہیڈکوارٹر تھا، وہاں ایک بینک کی چمچماتی عمارت کھڑی ہے، اور کہیں کوئی یادگار، کوئی مجسمہ، حتیٰ کہ کوئی تختی تک نصب نہیں ہے۔ نہ کوئی جنازہ اٹھا، نہ کہیں مزار بنا۔
کمپنی کی کوئی جسمانی یادگار ہو نہ ہو، اس نے جو کام کیے ان کے اثرات آج تک محسوس کیے جا سکتے ہیں۔
شاید یہ بات بہت سے لوگوں کے لیے حیرت کا باعث ہو کہ اس کمپنی کے غلبے سے پہلے اورنگ زیب عالمگیر کے دور میں ہندوستان دنیا کا امیر ترین ملک تھا اور دنیا کی کُل جی ڈی پی کا ایک چوتھائی حصہ پیدا کرتا تھا۔ جب کہ اسی دوران انگلستان کا حصہ صرف دو فیصد تھا۔
ہندوستان کی زمین زرخیز اور ہر طرح کے وسائل سے مالامال تھی، اور لوگ محنتی اور ہنرمند تھے۔ یہاں پیدا ہونے والے سوتی کپڑے اور ململ کی مانگ دنیا بھر میں تھی، جب کہ جہاز رانی اور اسٹیل کی صنعت میں بھی ہندوستان کا کوئی ثانی نہیں تھا۔
دنیا کی مختلف معیشتوں کا جائزہ (چارٹ)
یہ ساری صورتِ حال جنگِ پلاسی کے بعد بدل گئی اور جب ۱۹۴۷ء میں انگریز یہاں سے گئے تو سکندر کے برعکس ان کی جھولی بھری ہوئی اور ہندوستان کے ہاتھ خالی تھے۔
’دنیا کا غریب ترین ملک‘
بھارت کے سابق وزیرِ اعظم اور ماہرِ اقتصادیات من موہن سنگھ نے اسی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا تھا:
’’اس میں کوئی شک نہیں کہ سلطنتِ برطانیہ کے خلاف ہماری شکایات کی ٹھوس بنیاد موجود ہے۔۔۔ ۱۷۰۰ء میں انڈیا تنِ تنہا دنیا کی ۶ء۲۲ فیصد دولت پیدا کرتا تھا، جو تمام یورپ کے مجموعی حصے کے تقریباً برابر تھی۔ لیکن یہی حصہ ۱۹۵۲ء میں گر کر صرف ۸ء۳ فیصد رہ گیا۔ ۲۰ویں صدی کے آغاز پر ’تاجِ برطانیہ کا سب سے درخشاں ہیرا‘ درحقیقت فی کس آمدنی کے حساب سے دنیا کا غریب ترین ملک بن گیا تھا‘‘۔
اب اس سوال کی طرف آتے ہیں کہ انگریزوں کے دو سو سالہ استحصال نے ہندوستان کو کتنا نقصان پہنچایا۔
اس سلسلے میں مختلف لوگوں نے مختلف اندازے لگانے کی کوشش کی ہے۔ ان میں سے زیادہ قرینِ قیاس ماہرِ معاشیات اور صحافی منہاز مرچنٹ کی تحقیق ہے۔ ان کے مطابق ۱۷۵۷ء سے لے کر ۱۹۴۷ء تک انگریزوں کے ہاتھوں ہندوستان کو پہنچنے والے مالی دھچکے کی کُل رقم ۲۰۱۵ء کے زرمبادلہ کے حساب سے ۳۰ کھرب ڈالر بنتی ہے۔
ذرا ایک منٹ رک کر اس رقم کا احاطہ کرنے کی کوشش کریں۔ اس کے مقابلے پر نادر شاہ بے چارے کو دہلی سے صرف ۱۴۳؍ارب ڈالر لوٹنے ہی پر اکتفا کرنا پڑی تھی۔
چار سو سال پہلے جہانگیر کے دربار میں انگریز سفیر کو شک گزرا تھا کہ آیا واقعی ہندوستان اتنا امیر ہے کہ اس کے شہنشاہ کو سونے چاندی اور ہیرے جواہرات میں تولا جا سکتا ہے، اور کہیں دوسرے پلڑے میں درباریوں نے ریشم کی تھیلیوں میں پتھر تو نہیں ڈال دیے؟
اگر کسی طرح سر ٹامس رو کو واپس لا کر انھیں یہ اعداد و شمار دکھا دیے جائیں تو شاید ان کی بدگمانی ہمیشہ کے لیے دور ہو جائے۔
(بشکریہ: ’’بی بی سی اردو ڈاٹ کام‘‘ ۱۵؍اگست ۲۰۱۸ء)
Leave a comment