افغانستان میں امریکا کا کردار خاتمے کی طرف بڑھ رہا ہے، اس کا انداز دوسری جنگِ عظیم میں اتحادیوں کی فتح کے بعد تین غیرفیصلہ کُن جنگوں جیسا ہے۔ جوں جوں افغان جنگ طوالت اختیار کرتی جارہی ہے، امریکی عوام میں مایوسی بڑھتی جارہی ہے۔ کل تک افغانستان سے انخلا کی حکمتِ عملی پر زور دیا جارہا تھا۔ اب زور انخلا پر ہے، حکمتِ عملی پر نہیں۔ امریکا نے افغانستان میں بنیادی طور پر اس لیے قدم رکھا تھا کہ القاعدہ کو تقویت بہم پہنچانے والے طالبان کو سبق سکھایا جاسکے، جس نے اسامہ بن لادن کی قیادت میں نائن الیون کے حملے کیے تھے۔ بعد میں افغانستان کی تعمیرِ نو کا کام بھی سنبھال لیا گیا۔ مگر اب اندازہ ہو رہا ہے کہ افغان قوم کا خمیر کچھ اس نوعیت کا ہے کہ وہ بیرونی قوتوں کے خلاف مزاحمت کی صورت ہی میں کچھ کرنے کے قابل ہو پاتی ہے۔ جب بیرونی قوتیں نکل جاتی ہیں تو افغان قوم آپس میں لڑنے لگتی ہے۔ یہ لڑائی مختلف علاقوں پر کنٹرول کے لیے ہوتی ہے۔
افغانستان سے انخلا کی حکمتِ عملی میں بنیادی چیز یہ رہی ہے کہ ملک اس حد تک مضبوط ہو کہ بعد میں خطرہ نہ بنے۔ امریکی حکومت پر الزام عائد کیا جاتا رہا ہے کہ جب افغانستان میں بڑے پیمانے پر فنڈز کی ضرورت تھی تب عراق میں وسائل جھونک دیے گئے۔ براک اوباما نے اقتدار میں آنے کے بعد عراق سے انخلا کو اہمیت دینے کے ساتھ ساتھ افغانستان میں فوجیوں کی تعداد بڑھانے اور مزید وسائل بروئے کار لانے پر توجہ دی۔ میں نے اس عمل کی حمایت کی تھی مگر اب اس کی منطقی حد آچکی ہے۔
امریکی حکومت کو اس بات کی فکر زیادہ لاحق ہے کہ ۲۰۱۴ء میں مکمل انخلا تک افغان سیکورٹی فورسز ملک کا نظم و نسق سنبھالنے کی پوزیشن میں ہوں گی یا نہیں۔ امریکا اور اس کے تمام اتحادی اس بات کو یقینی بنانا چاہتے ہیں کہ ۲۰۱۴ء تک مکمل انخلا کرلیا جائے۔ بعض ممالک میں اندرونی دباؤ غیرمعمولی ہے۔ امریکا میں رائے عامہ کے حالیہ جائزوں سے معلوم ہوا ہے کہ ۷۰ فیصد افراد چاہتے ہیں کہ امریکی افواج افغانستان سے نکل آئیں۔
امریکا نے جرمنی کی وساطت سے طالبان رہنماؤں سے مذاکرات کی ابتدا کردی ہے۔ جرمنی میں طالبان کے قائد ملا عمر کے نمائندے سے امریکی حکام کی ملاقاتیں ہوئی ہیں،جن میں امریکا اور اس کے اتحادیوں کے باعزت اور محفوظ انخلا کی راہ ہموار کرنے سے متعلق امور پر بات چیت ہوئی۔ اسامہ بن لادن کی ہلاکت آپریشنل اعتبار سے زیادہ اہم نہیں۔ یہ علامتی نوعیت کا واقعہ ہے جس نے افغانستان میں اتحادیوں سے برسرِ پیکار دھڑوں کو دو گروپوں میں ضرور بانٹ دیا ہے۔ امریکا کے سامنے بنیادی کام اب بھی یہ ہے کہ کسی بڑے قضیے کو روکتے ہوئے کس طور افغانستان سے نکلا جائے اور جنگ کو منطقی انجام تک پہنچایا جائے۔
اگر امریکا چاہتا ہے کہ طالبان سے مذاکرات بار آور ثابت ہوں تو چار شرائط کا پورا کیا جانا ناگزیر ہے۔ اول یہ کہ جنگ بند ہو، دوم یہ کہ امریکا سمیت تمام اتحادی افواج نکلنا شروع کردیں، سوم یہ کہ ایک مضبوط عبوری حکومت قائم کی جائے یا پھر افغانستان کو متحارب گروپوں میں تقسیم کردیا جائے اور چوتھے یہ کہ ان تینوں شرائط پر عمل درآمد یقینی بنانے کا کوئی میکینزم طے کیا جائے۔
عمل درآمد سے متعلق میکینزم کا ہونا ناگزیر ہے کیونکہ ایسا نہ ہونے کی صورت میں افغان دھڑے، جو تین عشروں سے لڑائی میں مصروف رہے ہیں، دوبارہ لڑائی کی طرف چلے جائیں گے۔ طالبان، جن کی فورسز بہرحال وہاں ہیں، صورت حال کا فائدہ اٹھاکر جنگ بندی کی خلاف ورزی کریں گے اور زیادہ سے زیادہ رقبے کو اپنے کنٹرول میں لینا چاہیں گے۔
امریکی قیادت کے لیے بنیادی مسئلہ یہ ہے کہ انخلا کے معاملے میں عوام کا دباؤ بڑھتا جارہا ہے۔ اگر انخلا کے عمل میں تیزی لائی جائے گی تو بہت سے دوسرے معاملات بگڑیں گے۔ ایسے میں امریکیوں کو اپنی ترجیحات کا تعین بہت سوچ سمجھ کر کرنا ہوگا۔ انخلا کے لیے دباؤ میں اضافہ تیزی سے خرابیاں پیدا کر رہا ہے۔
افغانستان سے نکلنے کے معاملے میں امریکیوں کو ایک بات یقینی بنانی ہوگی۔۔۔ یہ کہ انخلا حتمی ہو یعنی دوبارہ مداخلت کی کوئی گنجائش نہیں ہونی چاہیے۔ ساتھ ہی امریکیوں کو یہ بات بھی یقینی بنانی ہوگی کہ بین الاقوامی نوعیت کی کوئی ضمانت فراہم کی جائے تاکہ انخلا سے متعلق شرائط اور اصولوں پر عمل درآمد ہوتا رہے۔
افغانستان کے معاملے میں امریکا تمام امور پر حاوی رہا ہے اس لیے یہ تاثر کمزور رہا ہے کہ یہ بین الاقوامی مسئلہ ہے۔ اگر امریکا نے افغانستان سے نکلنے کے معاملے میں دانش مندی سے کام نہ لیا اور دنیا کو یہ تاثر ملا کہ واحد سپر پاور شکست کھاگئی ہے تو علاقائی اور عالمی سطح پر جہاد اِزم کو فروغ ملے گا۔ مسلم عسکریت پسندوں کو مقبوضہ کشمیر یا بھارتی سرزمین پر تیزی سے اقدامات کی تحریک ملے گی۔ ایسی حالت میں افغانستان میں نسلی بنیاد پر خانہ جنگی اور بھارت اور پاکستان کے درمیان ایک اور ڈھکی چھپی جنگ کی راہ ہموار ہوسکتی ہے۔
اگر افغانستان میں طالبان دوبارہ اقتدار میں آئے تو کئی ممالک کے لیے مشکلات پیدا ہوں گی۔ روس میں چیچنیا کا علاقہ اور چین میں سنکیانگ کا صوبہ عسکریت پسندی کی لپیٹ میں آسکتا ہے۔ ایران میں سنی عسکریت پسند مستحکم ہوسکتے ہیں۔ ایسا ہوا تو ایران جواب میں افغانستان کی شیعہ آبادی کو ملیشیا کی سطح پر مدد فراہم کرے گا جیسا کہ اس نے لبنان اور عراق میں کیا ہے۔
افغانستان سے امریکی انخلا کا معاملہ زیادہ پیچیدہ اس لیے ہوگیا ہے کہ پاکستان اور ایران سے امریکا کے تعلقات کھنچے ہوئے ہیں۔ ان دونوں ممالک کے پاس افغانستان سے نکلنے کا آپشن نہیں۔ اگر ان کے اور ہمارے مفادات میں یکسانیت نہ بھی پائی جاتی ہو تو افغانستان کو ان کے معاملے میں دباؤ ہی کا سامنا کرنا ہوگا۔ جب تک افغانستان کی سیکورٹی یقینی بنانے کا کوئی واضح اور مستحکم اہتمام نہیں کیا جائے گا تب تک اس کے پڑوسی ممالک مختلف دھڑوں کو فرقہ وارانہ یا لسانی بنیاد پر مدد دیتے رہیں گے اور وہ دھڑے حالات کے دباؤ کے تحت مدد لینے اور متعلقہ ممالک کا ساتھ دینے پر مجبور ہوں گے۔ ایسے میں افغانستان وہی کردار کرتا رہے گا جو پہلی جنگِ عظیم سے قبل بلقان کا خطہ ادا کر رہا تھا۔
اگر افغانستان میں استحکام پیدا کرنے کا اہتمام نہ کیا گیا تو امریکا سے زیادہ افغانستان کے پڑوسی ممالک خطرے میں رہیں گے۔ طالبان سے بات چیت کے معاملے میں عالمی اور علاقائی نوعیت کا اہتمام کیا جانا چاہیے تاکہ ملک کی سلامتی کو یقینی بنانے میں مدد ملے۔ جب تک بنیادی بوجھ امریکا برداشت کرے گا، افغانستان کے پڑوسیوں کو مشکل فیصلوں سے بچنے میں مدد ملے گی۔ امریکا اور نیٹو نے انخلا کے لیے الگ الگ ڈیڈ لائنز مقرر کر رکھی ہیں۔ ایسے میں عجلت کا مظاہرہ خانہ جنگی کی راہ ہموار کرسکتا ہے۔ اگر امریکا نے عجلت کا مظاہرہ کیا تو بنا بنایا کھیل بگڑ جائے گا۔ سیکورٹی سے متعلق مشترکہ مفادات کا احاطہ کرنے والی سفارتی کوششوں کو جلد از جلد سامنے آنا چاہیے تاکہ دہشت گردوں کی تربیت جیسے بنیادی مسائل سے نمٹنے میں مدد ملے۔ ایسے میں لازم ہے کہ ڈیڑھ سے دو سال کے لیے کم از کم فوجی موجودگی یقینی بنائے رکھنے کا اہتمام کیا جائے اور حتمی انخلا کے بعد کوئی فوجی باقی نہیں رہنا چاہیے۔ اگر کوئی حتمی بین الاقوامی سیٹ اپ معرضِ وجود میں آئے تو امریکی فورسز کو اس میں ضم کیا جاسکتا ہے۔ طالبان سے مذاکرات کو کامیابی سے ہمکنار کرنے کے لیے علاقائی کانفرنس ناگزیر ہے۔ اگر افغانستان کے پڑوسی ممالک نے اس عمل میں شرکت ضروری نہ سمجھی تو اس کے نتائج بھی انہی کو بھگتنے ہوں گے۔
افغانستان اور عراق سے مکمل انخلا کے بعد اور مصر سمیت متعدد ممالک میں انقلابی کیفیت برپا ہونے کے پیشِ نظر اب امریکا کے لیے نیا قائدانہ کردار ناگزیر ہے۔ افغان بحران کے حل کے لیے علاقائی سطح کا معاہدہ بہترین آغاز ہوگا۔
(ہنری کسنجر ۱۹۷۳ء سے ۱۹۷۷ء تک امریکا کے وزیر خارجہ رہے۔ انہوں نے خارجہ پالیسی سمیت کئی اہم سفارتی موضوعات پر معیاری کتب تحریر کی ہیں۔ ’’آن چائنا‘‘ اُن کی تازہ ترین کتاب ہے۔)
(بشکریہ: ’’واشنگٹن پوسٹ‘‘۔ ۸ جون ۲۰۱۱ء)
Leave a Reply