یمن میں امریکا کا آدمی
Posted on February 16, 2010 by John Barry, Kevin Peraino, Michael Hirsh in شمارہ 16 فروری 2010 // 0 Comments

علی عبداللہ صالح کوئی ایسا اتحادی نہیں جسے لازمی طور پر پسند کیا جاسکے۔ ایک زمانہ تھا جب علی عبداللہ صالح کو چھوٹا صدام کہا جاتا تھا کیونکہ ان کی نظر میں صدام حسین ہی ہیرو تھا۔ لیبیا کے معمر قذافی کے بعد وہ مشرق وسطیٰ میں طویل ترین مدت تک حکومت کرنے والے لیڈر ہیں۔ انٹرویو کے دوران علی عبداللہ صالح کا رویہ خاصا پیچیدہ ہوتا ہے۔ وہ کرسی پر اس طرح بیٹھتے ہیں جیسے اسکول کا کوئی بچہ سوال جواب کے سیشن میں بیزاری کے ساتھ بیٹھا ہو۔ انٹرویو کے دوران مختلف سوالات کے جواب دیتے وقت وہ اپنے دونوں پیر زمین پر پچھاڑتے رہتے ہیں۔ اگر گفتگو کے دوران انہیں اندازہ ہو جائے کہ انہوں نے کوئی کام کی بات کہی ہے تو فوراً اپنے معاونین کی طرف دیکھتے ہیں اور اس امر کو یقینی بناتے ہیں کہ انہوں نے بھی یہ بات سن لی ہے! ویسے عمومی طور پر علی عبداللہ صالح کا رویہ فیلڈ مارشل کا سا ہوتا ہے۔ وہ کسی کو خوش کرنے کی کوشش نہیں کرتے، یمن کے لیے سات کروڑ ڈالر کی فوجی امداد کنٹرول کرنے والے امریکی افسران کو بھی نہیں۔ اس امداد میں دگنا اضافہ بھی ہوسکتا ہے۔ اور اس وقت بھی علی عبداللہ صالح جس طرح چاہیں گے، خرچ کرسکیں گے۔ واشنگٹن سے تعاون کے بارے میں ان سے جب کبھی پوچھا جاتا ہے، ان کا نپا تلا، لگا بندھا اور معیاری جواب ہوتا ہے ’’میں امریکا کا ملازم نہیں ہوں۔‘‘
مشرق وسطیٰ کا کوئی بھی لیڈر اس بات کو پسند نہیں کرتا کہ اسے امریکا کا حاشیہ بردار یا توپچی قرار دیا جائے۔ اس معاملے میں تھوڑی بہت اداکاری بھی کرنی پڑتی ہے۔ سخت لہجے میں دنیا کو بتانا پڑتا ہے کہ امریکا کی غلامی کسی طور قبول نہیں۔ اب امریکا کی نظر یمن پر ہے۔ افغانستان اور پاکستان میں دہشت گردی ختم کرنے کے نام پر امریکا نے جس پالیسی کا مظاہرہ کیا ہے اس سے مزید جہادی پیدا ہوئے ہیں۔ اب یمن توجہ کا مرکز ہے۔ امریکی صدر بارک اوباما نے علی عبداللہ صالح پر نظریں جمالی ہیں، یہ جانتے ہوئے بھی کہ امریکیوں کی توجہ پانے کی صورت میں ان کی مقبولیت داؤ پر بھی لگ سکتی ہے۔ امریکی حکام یمن میں القاعدہ کے فعال ہونے پر حیران ہیں۔ کرسمس کے موقع پر ہالینڈ کے دارالحکومت ایمسٹرڈیم سے امریکی شہر ڈیٹرائٹ جانے والے طیارے میں نائجیریا کے نوجوان عمر فاروق عبدالمطلب کی جانب سے دھماکے کی کوشش کو امریکی خفیہ اداروں نے اس لیے سنجیدگی سے لیا ہے کہ عمر فاروق نے تفتیش کے دوران اعتراف کیا کہ اسے دھماکہ خیز مواد استعمال کرنے کی تربیت یمن میں دی گئی تھی۔ امریکی ایوان صدر کے مشیر برائے انسداد دہشت گردی جان برینن کہتے ہیں کہ جزیرہ نما عرب میں کام کرنے والے القاعدہ کے گروپ کا پاکستان میں قائم مرکزی گروپ سے رابطہ ہے۔ ایک امریکی افسر کا کہنا ہے کہ پاکستان کے قبائلی علاقہ جات (فاٹا) اور یمن کے درمیان رابطے رہے ہیں۔
واشنگٹن میں علی عبداللہ صالح پر تنقید میں اضافہ ہو رہا ہے۔ انتہا پسندوں اور دہشت گردوں پر قابو پانے کی ان کی صلاحیت پر سوالیہ نشان لگ رہا ہے۔ ناقدین کہتے ہیں کہ ان کی حکومت انتہا پسندوں سے نمٹنے کے لیے خاطر خواہ اقدامات نہیں کر رہی۔ اور اس کے نتیجہ یہ برآمد ہوا ہے کہ القاعدہ سے ہمدردی رکھنے والے عناصر یمن ہی میں نہیں، یمنی سکیورٹی فورسس میں بھی در آئے ہیں۔ پریشان کن بات یہ ہے کہ علی عبداللہ صالح کے قریبی افراد بھی انتہا پسندوں کی حوصلہ افزائی کرتے دکھائی دیتے ہیں۔ ۲۰۰۶ء میں ایک جیل سے انتہا پسندوں کے نکل بھاگنے کا واقعہ بھی بہت حد تک صدر کے قریبی لوگوں کی معاونت کا نتیجہ معلوم ہوتا ہے، گوکہ اس کے باضابطہ شواہد دستیاب نہیں۔ کانگریس کے شدت پسند ارکان (مثلاً جان لیبرمین) یہ انتباہ دہرا رہے ہیں کہ یمن خطرہ بن کر ابھر رہا ہے اور امریکا کی اگلی جنگ یمن میں ہوگی۔
اسامہ بن لادن کی مشکل یہ ہے کہ علی عبداللہ صالح اگر حاشیہ بردار ہیں تو امریکا کے۔ یمن میں امریکا ان کے سوا کسی پر بھروسہ نہیں کرسکتا اور یہی سبب ہے کہ ستمبر میں صدر اوباما نے علی عبداللہ صالح کو ایک خط لکھا تھا جس میں یمن کے لیے بھرپور حمایت اور مدد کا یقین دلایا گیا تھا۔ جزیرہ نما عرب میں یمن جنوب کی سمت بیٹھا ہے۔ سعودی عرب سے اس کے تعلقات کشیدہ رہے ہیں۔ ایک برطانوی سفارتکار نے یمن کو سمندری اعتبار سے افغانستان قرار دیا ہے۔ یمن صحرا اور کوہستانی علاقوں پر مشتمل ایسا ملک ہے جس میں آبادی کا بڑا حصہ قبائل پر مبنی ہے جو غیروں اور ان کے اثرات کو آسانی سے قبول نہیں کرتے۔ آبادی میں گروہ بندی عام ہے۔ ملک بھر میں سات بولیاں بولی جاتی ہیں۔ علی عبداللہ صالح جب موڈ میں ہوتے ہیں تو عربی بھول کر سنانی بولنے لگتے ہیں۔ یمن میں قومی سوچ کا پروان چڑھانا بھی اسی قدر ناگزیر ہے جس قدر اسے دہشت گردوں کی پناہ گاہ کے مقام سے ہٹانا ہے۔ آبادی تیزی سے بڑھ رہی ہے، بیروزگاری میں بھی اسی رفتار سے اضافہ ہو رہا ہے، شہروں کو روزانہ دو تین گھنٹے پانی ملتا ہے اور تیل کے ذخائر ایک عشرے میں نمایاں کمی سے دوچار ہوں گے۔ علی عبداللہ صالح کو فنڈ کی کمی کا سامنا ہے۔ شمال میں خانہ جنگی ہو رہی ہے اور جنوب میں انہیں علیٰحدگی پسند رجحانات کا سامنا ہے۔
امریکا کا مسئلہ یہ ہے کہ اس کا اپنا بجٹ خسارہ خطرناک حد تک بڑھ چکا ہے اور وہ پالیسی کے اعتبار سے راہ سے بھٹک گیا ہے۔ ایسے میں اس کے لیے یمن کو مکمل ناکام ریاست میں تبدیل ہونے سے روکنا بہت مشکل ہے۔ اگر علی عبداللہ صالح ناکام رہے تو یمن صومالیہ جیسی صورت حال سے دوچار ہوجائے گا جہاں کوئی بھی مرکزی حکومت نہیں اور ملک کو جنگجو سردار چلا رہے ہیں۔ امریکا کے پاس بہترین آپشن یہ ہے کہ علی عبداللہ صالح کی مدد کی جائے، ان کی حکومت کو بڑے پیمانے پر فنڈ فراہم کیے جائیں تاکہ وہ حامد کرزئی ہوکر نہ رہ جائیں۔ علی عبداللہ صالح کو یمن کے دیگر علاقوں پر کنٹرول کے قابل بنانا امریکا کا فرض ہے ورنہ وہ محض صنعا کے حکمران کہلائیں گے۔ علی عبداللہ صالح کہتے ہیں کہ انہیں اقتدار پر گرفت مستحکم رکھنے کے لیے جو کچھ کرنا پڑتا ہے اسے سانپوں کے نرغے میں آکر ان سے بچنے کی کوشش ہی کہا جاسکتا ہے۔
یمن ایک ’’وسیع تر جہادستان‘‘ کا حصہ ہے جو مشکلات میں گھرے ہوئے ممالک میں نمودار ہوتا رہتا ہے۔ ہمسایہ ممالک مثلاً صومالیہ وغیرہ میں یمن کے جہادیوں کی سرگرمیوں سے انکار نہیں کیا جاسکتا۔ ۲۰۰۶ء تک یہ سمجھا جارہا تھا کہ یمن میں القاعدہ کو ختم کردیا گیا ہے۔ پاکستان، افغانستان، عراق اور دیگر ممالک میں جہادیوں کو کچلا جاتا ہے تو وہ کہیں اور نمودار ہو جاتے ہیں۔ یمن میں القاعدہ کا دوبارہ ابھرنا بھی سعودی عرب میں کامیاب آپریشن کا نتیجہ ہے۔
یمن اور دوسرے بہت سے ممالک میں ابھرنے والے القاعدہ گروپ نائن الیون والے القاعدہ نہیں۔ یہ گروپ انفرادی حیثیت کے حامل ہوتے ہیں اور عموماً انٹرنیٹ کے ذریعے نوجوانوں کو جہاد کی ترغیب دیتے اور انفرادی حیثیت میں دہشت گردی کے لیے اکساتے ہیں۔ فورٹ ہڈ بیس، امریکا میں میجر ندال حسن کو ۱۳ ؍افراد کی ہلاکت پر اور عمر فاروق عبدالمطلب کو امریکی طیارہ تباہ کرنے کی کوشش پر اکسانے والے یہ القاعدہ گروپ ہی تھے۔ دونوں کے یمن سے روابط ثابت ہوئے ہیں اور دونوں نے انوار الاولاکی سے جہاد کی تحریک پائی تھی۔ امریکا میں پرورش اور تربیت پانے والے الاولاکی کا تعلق یمن سے ہے اور وہ انٹرنیٹ پر جہاد کی تحریک دینے میں پیش پیش ہے۔ کرسمس سے قبل یمنی فوجوں نے انوار الاولاکی اور القاعدہ سے تعلق رکھنے والی دیگر سرکردہ شخصیات کے خلاف کریک ڈاؤن شروع کیا۔ القاعدہ سے قربت رکھنے والے یمنی صحافی عبداللہ حیدر شایہ نے بتایا ہے کہ انوار الاولاکی زندہ ہے اور اس سے فون پر بات بھی کی ہے۔ یمنی وزیر خارجہ کا ابو بکر القربی کا کہنا ہے کہ جزیرہ نما عرب میں القاعدہ کا سربراہ نصر الوحیشی اور القاعدہ کا یمن میں سربراہ علی الشہری بھی ان حملوں میں بچ گئے ہیں۔ اس دوران صنعا حکومت کے مخالفین نے آپریشن کو بنیاد بناکر حکومت پر نکتہ چینی شروع کردی ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ یہ آپریشن امریکی دباؤ پر کیا جارہا ہے۔
چند ایک معاملات ایسے بھی ہیں جو امید کی کرن کا درجہ رکھتے ہیں۔ علی عبداللہ صالح نے جولائی میں امریکی سینٹرل کمانڈ کے سربراہ جنرل ڈیوڈ پیٹریاس سے ملاقات کی۔ اس ملاقات میں دونوں لیڈروں نے دہشت گردی کے خلاف تعاون بڑھانے سے اتفاق کیا۔ امریکا نے یقین دلایا کہ یمن کو دہشت گردی کے خلاف بہتر تربیت بھی دی جائے گی اور حساس معلومات کے تبادلے کا نظام بہتر بنایا جائے گا۔ امریکا اور یمن کے درمیان اس امر پر بھی اتفاق ہوا کہ دہشت گردوں کا قلع قمع کرنے کے لیے یمنی حکومت کی اجازت سے امریکی طیاروں اور بالخصوص ڈرون کو بھی استعمال کیا جائے گا۔ یہ بات ایک یمنی اعلیٰ افسر نے نام پوشیدہ رکھے جانے کے استدعا کے ساتھ بتائی۔ یمنی ساحل سے ۲ سو کلومیٹر کے فاصلے پر سکورتا کے جزیرے کو چھوٹی سی ایئر اسٹرپ سے بڑھاکر پورے اڈے میں تبدیل کیا جارہا ہے تاکہ عسکری امداد کے پروگرام پر عملدرآمد ممکن ہوسکے۔ ڈیوڈ پیٹریاس نے یمنی فوجوں کو مزید ہمویز اور ہیلی کاپٹر دینے پر بھی آمادگی ظاہر کی۔
دہشت گردی کے خلاف طویل المیعاد حکمت عملی میں ان معاشرتی وجوہ کا خاتمہ بھی شامل ہے جن کے باعث انتہا پسندی فروغ پاتی ہے، تاہم ڈیوڈ پیٹریاس کے مینڈیٹ میں فی الحال یہ شامل نہیں۔ افغانستان میں قبائلیوں تک امریکیوں کی رسائی ممکن تھی۔ علی عبداللہ صالح نے امریکا سے کہا ہے کہ دہشت گردی کے خلاف کردار کو صرف فوجوں تک رکھا جائے۔ یمنی امور کے ماہرین کہتے ہیں کہ بد ترین منظرنامہ یہ ہوسکتا ہے کہ امریکی فوج کے چند یونٹ یمن کی سرزمین پر آپریشن کریں۔ یمن میں امریکا کی سابق سفیر باربرا بوڈین کا کہنا ہے کہ یمن کی ۷۰ فیصد آبادی ایسے دیہات میں مقیم ہے جن میں سے ایک گاؤں کی آبادی ۵ سو سے زیادہ نہیں۔ پاکستان میں ڈرون حملوں سے یہ بات ثابت ہوچکی ہے کہ اس نوعیت کی فضائی کارروائیاں شدید سیاسی ردعمل کی حامل ہوتی ہیں۔ یمن میں ایسے ہی ردعمل کا خدشہ ہے۔ ایک یمنی افسر کا کہنا ہے کہ جو کچھ پاکستان میں ہوا ہے (یعنی ڈرون حملے) اگر وہی یمن میں بھی ہونے دیا گیا تو اللہ جانے کیا نتیجہ برآمد ہوگا۔
علی عبداللہ صالح سے ڈیل کرنا بھی امریکا کے لیے کوئی چھوٹا درد سر نہیں۔ انہیں احساس ہے کہ القاعدہ ان کی حکومت کے لیے خطرہ بن سکتی ہے۔ چند ایک مقامات پر آپریشن بھی کیا گیا ہے۔ علی عبداللہ صالح سے ڈیلنگ میں امریکا کے لیے سب سے بڑا مسئلہ اس بات کو یقینی بنانا ہے کہ وہ وفاداری تبدیل نہ کریں۔ امریکی حکام نے علی عبداللہ صالح پر زور دیا ہے کہ وہ القاعدہ کے خلاف آپریشن پر توجہ دینے کے لیے جنوب میں شیعہ قبیلے حوثی سے خانہ جنگی ختم کردیں۔ امریکیوں نے یہ انتباہ نہیں کیا کہ ایسا نہ کرنے پر امداد نہیں ملے گی یا کم ملے گی۔ امریکی حکام کو بھی اندازہ ہے کہ علی عبداللہ صالح مشروط معاملات پسند نہیں کرتے۔ انہیں وہی کرنا ہے جو وہ پسند کرتے ہوں۔ امریکا چاہے گا کہ یمن کے حوالے سے جو کچھ وہ چاہتا ہے وہی علی عبداللہ صالح بھی چاہیں۔
(بشکریہ: ہفت روزہ ’’نیوز ویک‘‘۔ ۱۸ ؍جنوری ۲۰۱۰ء)
Leave a comment