انسان دوستی

امیر المومنین حضرت علی ابن طالب نے اپنے فرزند محمد حنفیہ سے فرمایا:

’’میرے بیٹے!تمام انسانوں کے ساتھ اچھائی سے پیش آنا‘ اسی طرح جیسے تم دوسروں سے یہ توقع رکھتے ہو کہ وہ تم سے اچھا سلوک کریں۔

جس چیز کو اپنے لیے پسند کرتے ہو‘ وہی دوسروں کے لیے بھی پسند کرنا اور دوسروں کی جو چیز اپنے لیے ناپسند اور قبیح قرار دیتے ہو اُسی چیز کو اُن کے لیے بھی ناپسند اور قبیح سمجھنا۔‘‘

عصرِ حاضر کی تہذیب ایک ایسے جسم کی مانند ہے جس کے دو رُخ ہوتے ہیں۔ اس کا ایک رُخ دلربا اور خوبصورت ہے اور دوسرا رُخ وحشت ناک اور ہولناک۔

گزشتہ صدی میں علم و دانش ‘ صنعت و ٹیکنالوجی کی ترقی نے بظاہر ناممکن نظر آنے والے کاموں کو بھی جادوئی انداز میں انجام دے کر انسانوں کو حیرت زدہ کر دیا ہے اور بشریت کو طرح طرح کی آسائشیں فراہم کی ہیں۔ لیکن اس دوران انسانی فضیلتیں فراموش کردی گئی ہیں بلکہ ا س ترقی نے انسانی اقدار کو اپنے قدموں تلے روند کر ختم ہی کر ڈالا ہے۔

پس اگر آج کی دنیا میں پہلے کی طرح جسمانی تھکن اور پژمردگی کا نام و نشان نہیں‘ تو اس کے ساتھ ساتھ فضلیت ‘ شرافت ‘ سچے جذبات مثلاً محبت‘ ایثار‘ سچائی‘ امانداری ‘ وفاداری اور انکساری بھی باقی نہیںر ہی۔ لہٰذا جدید تمدن انسانوں کو زندگی کے وسیع سمندر سے خوش بختی و سعادت کے ساحل پر نہیں پہنچا سکا‘ بلکہ اس کے لیے طوفانی امواج وجود میں لانے کا سبب بنا ہے۔

آج کی دنیا کی غلط فہمی یہ ہے کہ اس جسمانی راحت ہی کو حقیقی خوش بختی اور کامیابی سمجھ لیا ہے‘ اور انسان کے اصل تقاضوں کے نصف حصے کو نظرانداز کردیا ہے۔ حالانکہ اصل اور واقعی نیک بختی اور کامیابی یہ ہے کہ انسان کی تمام خواہشات اور تقاضوں کا صحیح طور پر جواب دیا جائے۔

عصرِ حاضر کے تمدن کے بھینٹ چڑھنے والی ایک شے‘ انسان دوستی اور دوسروں کے لیے مہر و محبت کا جذبہ ہے۔ یہی جذبہ انسانی زندگی کو جوش اور ولولہ فراہم کرتا ہے۔ لیکن افسوس کہ آج کی دنیا میں ’‘’مہر و محبت‘‘ نے اپنی حقیقی قدروقیمت کھودی ہے۔ آج کی مشینی زندگی جس نے انسان کی جسمانی راحت اور لذت کے لیے انتہائی جدید ترین وسائل فراہم کئے ہیں اس نے انسانوں سے دوسروں کے لیے سوچنے تک کی فرصت چھین لی ہے‘ چہ جائیکہ وہ دوسروں سے جذباتی تعلق برقرار رکھیں اور ان سے محبت برتیں۔

ایک معروف نفسیات داں اور عمرانیات کا ماہر کہتا ہے کہ :’’آج کا انسان‘ خود اپنے آپ سے‘ اپنے ہم نوعوں سے اور طبیعت (Nature) سے بیگانہ ہوکر مالِ تجارت میں تبدیل ہوگیا ۔ وہ اپنی طاقت کو ایک طرح کی سرمایہ کاری سمجھتا ہے جو بازار کے حالات کے تحت اس کے لیے زیادہ سے زیادہ منافع کا ذریعہ بنے۔ انسانوں کے باہمی تعلقات اپنے آپ سے بیگانہ روبوٹس کے تعلقات کی مانند ہوچکے ہیں۔‘‘

اگر ہمیں آج کا معاشرہ بے حساب مسائل کے ساتھ نبرد آزما نظر آتا ہے اور سعادت و کامیابی کی جانب جانے کا کوئی راستہ اسے نہیں سوجھ رہا ہے تو اس کی ایک وجہ یہ ہے کہ آج کا انسان دوسروں سے بیگانہ ہوکر تنہا اور صرف خود اپنے لیے سوچتا ہے۔

اس لیے انسانوں میںجذبۂ محبت پروان چڑھانے اور اسے قوی بنانے کی ضرورت ہے۔ اگر انسانوں میں پائے جانے والے اس جذبے کا گلا گھونٹ دیا جائے اور انسان کے اس بنیادی تقاضے کا مثبت جواب نہ دیا جائے تو انسانوں کے لیے بے حساب مشکلات جنم لیں گی جن کا ازالہ کسی صورت ممکن نہ ہوگا۔

سب سے پہلا اثر جس نے آدمی کو خود سے اور دوسروں سے بیگانہ کیا ہے اور اسے ایک تنہا انسان بنایا ہے‘ وہ خود سے بیگانگی کا شرمناک عفریت ہے جو تمام نفسیاتی اور اجتماعی مشکلات‘ بے لگام آزادی‘ ناتوانی ‘ گوشہ نشینی‘ بدگمانی اور اقدار اور اعتقادات سے محرومی کو جنم دیتا ہے۔

اس بناء پر اگر کوئی معاشرہ خوش بختی اور کامرانی کا حصول چاہتا ہے تو اس کا راستہ انسانوں میں باہمی محبت اور نوع دوستی کی پرورش ہے۔ اگر انسان میں یہ صلاحیت تقویت پالے تو وہ نہ صرف دوسروں سے محبت کرے گا بلکہ اس کی فطری خواہشات کی تسکین بھی ہوگی اور وہ خود بھی دوسروں کی محبت سے مستفیض ہوگا۔

اسلام اور محبت:

اسلام جو ایک جاویدانی مکتب ہے اور جس میں انسانی فطرت اور تمام صحیح انسانی تقاضوں کی تسکین کا اہتمام کیا گیا ہے اس نے محبت اور باہمی دوستی کے مسئلے پر بھرپور توجہ دی ہے۔ اسلام تمام انسانوں کو ایک ہی جڑ سے قرار دیتا ہے اور غلط قبائلی‘ قومی اور مادّی امتیازات کو قبول نہیںکرتا اور تمام انسان کیونکہ خدا کی مخلوق اور ایک ہی ماں باپ کی اولاد ہیں اس لیے سب کو احترام ‘ محبت اور رہ نمائی کے قابل سمجھتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ہمارے عظیم الشان پیغمبر صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اسلام کے آزادی بخش منشور کو کسی ایک خاص گروہ کے لیے مخصوص قرار نہیں دیا ہے‘ بلکہ اسے تمام انسانوں کے لیے لے کر آئے ہیں۔

آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا فرمان ہے:

’’انسانوں سے محبت کرو‘ لوگ تم سے محبت کریں گے۔‘‘ (وسائل۔ ج۸۔ ص۴۳۳)

امیر المومنین حضرت علیؓ نے اپنے فرزند محمد حنفیہ سے فرمایا:

’’میرے بیٹے! تمام انسانوں کے ساتھ اچھائی سے پیش آنا‘ اُسی طرح جیسے تم دوسروں سے یہ توقع رکھتے ہو کہ وہ تم سے اچھا سلوک کریں۔

جس چیز کو اپنے لیے پسند کرتے ہو ‘ وہی دوسروں کے لیے بھی پسند کرنا اور دوسروں کی جو چیز اپنے لیے ناپسند اور قبیح قرار دیتے ہو اُسی چیز کو اُن کے لیے بھی ناپسند اور قبیح سمجھنا۔ لوگوں سے اس طرح خوش اخلاقی کے ساتھ پیش آنا کہ وہ تمہاری غیر موجودگی میں بھی تم سے اظہارِ محبت کریں اور تمہارے لیے آنسو بہائیں اور غمگین ہوں‘‘۔

ہم دیکھتے ہیں کہ اسلام نہ صرف انسانوں کے احترام کی تاکید کرتا ہے بلکہ اُس نے انسان دوستی کو انتہائی بلند مقام دیا ہے اور اپنے پیروکاروں کو حکم دیتا ہے کہ جس طرح خود اپنی کامیابی اور کامرانی کے خواہشمند ہوتے ہو‘ اُسی طرح دوسرے انسانوں کے لیے بھی پسند کرو۔

ایک حقیقی مسلمان ہمیشہ معاشرے کا خدمت گزار ہوتا ہے۔ وہ حتی الامکان انسانوں کی فکری‘ اعتقادی‘ اخلاقی اور اقتصادی مدد کرتا ہے۔

یہی مخلصانہ احساسات اور محبتیں ہیں جن کی بنیاد پر مسلمانوں پر نصیحت‘ ایک دوسرے کی راہنمائی اور امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کی بھاری ذمہ داری عائد ہوتی ہے اور یہی وجہ ہے کہ مسلمان دوسرے انسانوں کے اعمال و رفتار سے لاتعلق نہیں رہ سکتا۔

پیغمبرِ اسلام صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم سے دریافت کیا گیا: خدا کی نظر میں کون انسان سب انسانوں سے زیادہ محبوب ہے؟ آنحضرت نے فرمایا:

’’وہ انسان جس سے لوگوں کو زیادہ فائدہ پہنچے‘‘۔ (کافی۔ ج۲۔ ص۱۶۴)

ہم پوچھتے ہیں‘ انسانوں کے لیے انسانی اور اخلاقی اقدار کے احیاء سے بڑھ کر اور کون سی چیز نفع بخش ہو سکتی ہے؟

نیز آنحضرتؐ ہی کا ارشاد ہے:

’’ایسا شخص جو کسی کی یہ صدا سنے کہ: اے مسلمانو! میری مدد کرو اور اس کی اس صدا کا جواب نہ دے تو ایسا شخص (حقیقی) مسلمان نہیں‘‘۔ (کافی۔ ج۲۔ ص۱۶۴)

یہاں ان چند صفحات میں ہم انسان دوستی کے حوالے سے اسلام کی اعلیٰ اور انسانی تعلیمات کو تفصیل سے بیان نہیں کر سکتے لیکن ان چند مختصر مثالوں کے ذریعے اس بارے میں اسلام کی روش اور تعلیمات کو جان سکتے اور دینِ سلام کے ’’دینِ محبت‘‘ ہونے کا اعلان کر سکتے ہیں۔

کفار سے دوستی؟

اب یہ سوال پیش آتا ہے کہ اگر اسلام محبت اور انسان دوستی کا مذہب ہے تو اس نے غیرمسلموں کے ساتھ دوستی سے کیوں منع کیا ہے؟

مسلمان کیوں اسلام مخالف گروہوں اور کفار کے ساتھ دوستی کا بندھن قائم نہیں کر سکتے؟ اس بارے میں قرآنِ کریم نے بہت سے مقامات پر گفتگو کی ہے اور فرمایا ہے:

ترجمہ: ’’صاحبِ ایمان مومنین کو چھوڑ کر کفار کو اپنا ولی اور سرپرست نہ بنائیں‘‘۔ (آلِ عمران:۲۸)

ترجمہ: ’’ایمان والو! یہود و نصاریٰ کو اپنا دوست نہ بنائو‘‘۔ (المائدہ:۵۱)

ترجمہ: ’’ایمان والو! خبردار میرے اور اپنے دشمنوں کو دوست مت بنانا‘‘۔ (الممتحنہ:۱)

ترجمہ: ’’ایمان والو! خبردار اہلِ کتاب میں جن لوگوں نے تمہارے دین کو مذاق اور تماشا بنا لیا ہے اور دیگر کفار کو اپنا ولی اور سرپرست نہ بنانا اور اﷲ سے ڈرتے رہنا اگر تم واقعی صاحبِ ایمان ہو‘‘۔ (المائدہ:۵۷)

ترجمہ: ’’محمد اﷲ کے رسول ہیں اور جو لوگ ان کے ساتھ ہیں‘ وہ کفار کے لیے سخت ترین اور ایک دوسرے کے لیے رحم دل ہیں‘‘۔ (الفتح:۲۹)

ان آیات کی روشنی میں ہم سمجھ سکتے ہیں کہ اسلام اور قرآن میں کس طرح اور کس حد تک اسلام مخالف گروہوں اور کفار سے دوستی کو منع کیا گیا ہے؟

کیا اسلام یہ کہتا ہے کہ کفار سے نیکی نہ کرو؟ یا ان کی رہنمائی نہ کرو؟ یا اُن کی سعادت اور حیاتِ معنوی کے لیے کوشش نہ کرو؟ نہیں! یہ اسلام کی منطق نہیں‘ وہ اسلام جس کا پیغمبر عالمین کے لیے رحمت اور جس کا دین پوری بشریت کے لیے ہے۔

بلکہ یہ کہنا چاہیے کہ یہ تمام آیات اور اس بارے میں دوسری آیات‘ مسلمانوں کے لیے اس بات کا ایک انتباہ (Warning) ہیں کہ وہ کفار سے اتنے قریب نہ ہوں کہ یک جاں دو قالب بن جائیں۔ کیونکہ اس قسم کی دوستیاں‘ جن کے نتیجے میں دوریاں ختم ہو جاتی ہیں اور اخلاق‘ ارادہ‘ عمل و عقیدہ‘ تمام کی تمام چیزیں ایک رنگ اور ایک ہی صورت اختیار کر لیتی ہیں اور کوئی فرق باقی نہیں رہتا ہے۔ ظاہر ہے کہ دشمنانِ اسلام سے اس قسم کی دوستی اور محبت مسلمانوں کے جذبات و احساسات پر گہرے اثرات کا موجب ہونے کے ساتھ ساتھ ان کے اسلامی عقیدے اور یکتا پرستی کو متزلزل کر دیتی ہے اور ارتقا کی جانب اسلامی معاشرے کے سفر میں رکاوٹ بنتی ہے۔ اسی طرح دشمن بھی ہمیشہ تاک میں رہتا ہے کہ مناسب موقع سے فائدہ اٹھائے اور اپنے مخالف پر کاری ضرب لگائے۔ اس مقصد کے لیے اس کے پاس اس قسم کی دوستیوں کے نتیجے میں پیدا ہونے والے جذباتی تعلق سے بڑھ کر مناسب موقع اور کیا ہو سکتا ہے؟

اسی بنا پر اسلام نے مسلمانوں کو انتباہ کیا ہے کہ وہ ہمیشہ چوکس اور بیدار رہیں اور دشمن کے ساتھ محتاط طرزِ عمل اختیار کریں اور اس کے ساتھ ایسی گہری دوستی برقرار نہ کریں جو اس کی پیروی اور اسلامی معاشرے کی کمزوری کا باعث بنے۔

اسلام یہ نہیں کہتا کہ مسلمان غیرمسلم گروہوں کے ساتھ اپنے تعلقات توڑ لیں اور ان کے ساتھ خوش رفتاری اور مہربانی کا برتائو نہ کریں۔ لیکن اس قسم کے روابط میں احتیاط کا دامن ہاتھ سے نہیں چھوڑنا چاہیے۔ تاکہ دشمن اس صورتحال کو اپنے فائدے (جو استعماری اور انسانیت مخالف منصوبہ ہے) میں استعمال نہ کرے۔

اگر اسلام یہ کہتا ہے کہ اپنے دشمنوں سے دوستی کا معاہدہ نہ کرو تو اس کے معنی یہ نہیں ہیں کہ اسلام مخالف گروہوں سے نیکی اور محبت کا سلوک نہ کرو کیونکہ ہم جانتے ہیں کہ انسانیت کے ناطے ہر انسان حسنِ سلوک اور محبت کے قابل ہے اور اسلام انسان دوستی کا سب سے بڑا مکتب ہے۔

بلکہ دینِ اسلام میں ایسی دوستی سے منع کیا گیا ہے جس کے زیرِ اثر کفار کے عقائد اور رسوم و رواج کی پیروی پیدا ہو‘ یا وہ اس سے غلط فائدہ اٹھائیں۔ مسلمان کو اس سلسلے میں ہمیشہ سخت گیر ہونا چاہیے اور اس اعتبار سے کہ وہ اسلامی معاشرے کا ایک رکن ہے‘ بیگانوں کے ساتھ اس کا ربط و تعلق ایسا نہیں ہونا چاہیے جو پیکرِ اسلام کی یگانگت اور استقلال کو نقصان پہنچائے۔

اس بارے میں قرآنِ کریم کہتا ہے:

ترجمہ: ’’وہ (خدا) تمہیں ایسے لوگوں کے ساتھ نیکی کرنے اور عدل و انصاف کے ساتھ پیش آنے سے منع نہیں کرتا جو تم سے دین کے بارے میں جنگ نہیں کرتے اور جو تمہیں وطن سے نہیں نکالتے‘ کیونکہ خدا عدل و انصاف کرنے والوں کو دوست رکھتا ہے۔ خدا تمہیں فقط ان لوگوں کے ساتھ دوستی سے منع کرتا ہے جو تمہارے دین کے خلاف جنگ کرتے ہیں اور تمہیں تمہارے وطن سے نکالتے ہیں اور تمہیں نکالنے کے لیے دشمنوں کی مدد کرتے ہیں جو ان سے دوستی کرے گا وہ یقینا ظالم ہو گا‘‘۔ (الممتحنہ:۸۔۹)

مختصر یہ کہ اسلام اپنے پیروکاروں کو یہ تعلیم دیتا ہے کہ کوئی بھی انسان جب تک اسلام کے خلاف نہ اٹھے‘ اس وقت تک وہ حسنِ سلوک اور دوستی کے لائق ہے۔ لیکن ایسا شخص جو اسلام کے خلاف اٹھ کھڑا ہو‘ وہ دوستی کے لائق نہیں۔ یہی وجہ ہے کہ اسلام کہتا ہے کہ اگر کسی نے اسلام کا لبادہ اوڑھا ہوا ہو‘ لیکن وہ ظالم اور مجرم ہو تو اس سے دوستی نہیں رکھی جاسکتی۔ اسلام ظالم کے دوست کو بھی ظالم قرار دیتا ہے۔

پیامبرِ رحمتؐ:

پیغمبرِ اسلام صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم اور اسلام کے دوسرے سچے رہنمائوں نے ہمیشہ اہلِ عالم کو اس انسانی دستورِ عمل کی طرف دعوت دی ہے اور خود اپنی زندگی میں ہمیشہ اس روش پر کاربند رہے ہیں۔ پیغمبرِ اسلام کی گراں قدر زندگی کی تاریخ پر ایک سرسری نگاہ ڈالتے ہی اس بات کا علم حاصل ہو جاتا ہے کہ آپ کو کیوں ’’پیامبرِ رحمت‘‘ کا لقب دیا گیا ہے۔

ایک غیرمسلم نوجوان‘ پیغمبرِ اسلام کا پیروکار نہ ہونے کے باوجود‘ دن اور رات کا بہت سا وقت رسولِ گرامی کی خدمت میں گزارتا تھا۔ آنحضرت کی خدمت میں کثرت سے آمد و رفت رکھنے کی بنا پر بے تکلفی اور دینِ اسلام پر اعتقاد نہ رکھنے کی وجہ سے پیغمبرِ اسلام کی عظمت و بزرگی کو فراموش کر دیتا تھا اور آپ کے حوالے سے ضروری احترام کو ملحوظ نہیں رکھتا تھا۔ اس کے باوجود آنحضرت اس سے محبت کا اظہار کیا کرتے تھے اور اس کے ساتھ شفقت سے پیش آتے تھے‘ حد یہ ہے کہ وہ جوان اپنے روز مرہ کاموں میں پیغمبر سے مدد لیا کرتا تھا۔ اب پورا واقعہ تاریخ کی زبانی سنیے:

کئی روز سے یہ جوان پیغمبرِ اسلام کے یہاں نہیں آیا تھا۔ پیغمبر نے اپنے اصحاب سے دریافت کیا: کئی دن ہو گئے‘ وہ غیرمسلم جوان نظر نہیں آ رہا؟ اصحاب نے جواب دیا: اے اﷲ کے رسول! وہ بیمار ہو گیا ہے اور شاید عمر کے آخری لمحات گزار رہا ہے۔ پیغمبر اپنی جگہ سے کھڑے ہو گئے اور اپنے اصحاب سے فرمایا: اٹھو‘ چلو اس کی عیادت کو چلتے ہیں۔

جب آنحضرت اس کی سرہانے پہنچے‘ تو وہ اپنے بستر پر لیٹا اپنی موت کی گھڑیاں گن رہا تھا۔ پیغمبر نے محبت بھرے لہجے میں اسے اس کے نام سے پکارا۔ جوان نے اپنی آنکھیں کھول کر دیکھا اور جب پیغمبرِ اسلام کو اپنے گھر میں پایا تو آنحضرت کو دیکھ کر اس کے ہونٹوں پر مسکراہٹ بکھر گئی۔ شاید وہ دل میں کہہ رہا ہو کہ تعجب ہے میں تو آنحضرت کی عزت نہیں کرتا تھا‘ وہ کیسے مجھ سے ملاقات کو آگئے؟ آنحضرت نے خوشی سے دمکتے اس کے چہرے سے اندازہ کر لیا کہ وہ اس حساس لمحے میں اسلام قبول کرنے پر تیار ہے۔ لہٰذا آپ نے فرمایا: اے جوان! اسلام قبول کر لے۔ کمرے کے ایک کونے میں اس جوان کا باپ بیٹھا ہوا تھا۔ جوان نے اس کی جانب دیکھا اور خاموش رہا۔ آنحضرت نے پھر فرمایا: اسلام قبول کر لے اور کلمۂ شہادت پڑھ لے۔ جوان نے پھر اپنے باپ کی جانب دیکھا اور جواب نہ دیا۔ یوں نظر آتا تھا کہ اسے اپنی زندگی کے ان آخری لمحات میں اپنے باپ کا دین چھوڑتے ہوئے اسے شرم محسوس ہو رہی ہے۔ آنحضرت نے تیسری مرتبہ وہی جملہ دہرایا۔ اس مرتبہ اس جوان کے باپ نے کہا: بیٹا! اگر تم دینِ اسلام قبول کرنا چاہتے ہو تو میری طرف سے تمہارے لیے کوئی رکاوٹ نہیں ہے۔ یہ سنتے ہی جوان نے بلاتوقف لا الہ الا اﷲ محمد رسول اﷲ کا کلمہ کمزور اور نحیف آواز لیکن عشق و عقیدت سے سرشار دل کے ساتھ اپنی زبان پر جاری کیا اور آنحضرت کی رسالت کی گواہی دی۔ کلمہ پڑھتے ہی اس کی روح عالمِ جاویدانی کی جانب پرواز کر گئی۔

پیغمبرِ اسلام نے حکم دیا کہ اس نومسلم نوجوان کو غسل و کفن دیا جائے۔ اس کے بعد آپ نے خود اس کی نماز پڑھی‘ گھر سے باہر تشریف لائے اور اس طرح ایک انسان کو گمراہی سے نجات دلا سکنے پر خدا کا شکر ادا کیا۔ (جامع الاحادیث۔ ج۱۔ ص:۲۴۱)

پیغمبرِ اسلام صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم کی انسانوں سے محبت اور مہربانی کا یہ ایک چھوٹا سا نمونہ تھا لیکن جب عقیدے اور ایمان کے سلسلے میں مخالفین سے جنگ و جہاد کی نوبت آتی تو نہ صرف یہ کہ آپ محبت اور دوستی کی گنجائش نہ رکھتے بلکہ ضرورت پڑنے پر نوازش اور نیکی کی بجائے شمشیر سے کام لیتے۔ یہ ایک خالص اور عالمگیر دین کا تقاضا ہے کہ ہمیشہ اپنے مقصد اور عقیدے کو ہر چیز پر حتیٰ کہ اپنی جان پر بھی مقدم رکھے۔

(بشکریہ: دو ماہی ’’رسالت‘‘ کراچی۔ مارچ تا جون ۲۰۰۵ء)

Be the first to comment

Leave a Reply

Your email address will not be published.


*