اسلامی جمہوریۂ ایران حقوقِ انسانی کے آئینے میں

آج کے انفارمیشن ٹیکنالوجی کے ترقی یافتہ دور میں چہاردانگ عالم میں حقوقِ انسانی کا چرچا ہے۔ مغربی اقوام جو بزعمِ خود انسانی ارتقا کی انتہائی منازل پر ہیں‘ انسانی حقوق کی بظاہر چمپئن اور علمبردار بنی ہوئی ہیں۔ وہ ہر ملک اور معاشرے کو اپنے بنائے ہوئے اسی پیمانے سے ماپتے ہیں۔ ان کے فلسفی اور دانشور ایک طرف سے تہذیبوں کے ٹکرائو (Clash of Civilizations) اور اختتامِ زمانہ (End of times) کی تھویریاں پیش کر رہے ہیں تو دوسری طرف انہوں نے حقوقِ بشر کے نام پر مداخلتوں سے دنیا کے باقی ممالک کا ناطقہ بند کر رکھا ہے۔ وہ انہیں پسماندہ‘ غیرترقی یافتہ اور جہالت زدہ تصور کرتے ہیں اور اسی تناظر میں ہمہ وقت ان کے خلاف شور و غل اور ھاھاکار مچائے رکھتے ہیں اور ان کی تادیب و تعزیر کا کوئی موقع ہاتھ سے نہیں گنواتے۔ آپ آج سوڈان‘ ایران‘ سعودی عرب‘ بنگلہ دیش‘ مصر‘ صومالیہ‘ انڈونیشیا کی خلاف ہر طرف میڈیا پراپیگنڈا دیکھتے ہیں‘ جبکہ یہی انسانی حقوق اگر ہندوستان‘ روس‘ اسرائیل اور خود یورپ کے دل فرانس میں پامال ہو رہے ہیں تو ان کا کوئی ذکر تک نہیں سنتے اور نہ ہی جن لوگوں کے مذہبی اور انسانی حقوق پامال ہوتے ہیں‘ ان کو انسان سمجھا جاتا ہے۔ یہاں تک تو رہا ان کی انسانی حقوق سے متعلق دردِ دل کا قصہ‘ اگر آپ حقوقِ بشر کی سربلندی اور سرفرازی کے مناظر دیکھنا چاہیں تو حقوقِ بشر کے علمبردار ان ممالک میں جاکر دیکھیں‘ جہاں نہ تو خواتین محفوظ ہیں‘ نہ بچے‘ نہ چرچ محفوظ ہیں نہ مساجد‘ یہاں تک کہ اسکولوں اور مدرسوں کا کوئی تقدس نہیں۔ بچے گلیوں اور شراب خانوں میں تباہ حال پھرتے ہیں جہاں ان کا بدترین استحصال کیا جاتا ہے۔

خواتین سے گھر‘ فیکٹریوں اور دفتروں میں سخت کام بھی لیا جاتا ہے اور ان کا جنسی استحصال بھی کیا جاتا ہے۔ بوڑھوں کے حقوق کا یہ حال ہے کہ انہیں اٹھا کر کوڑ کباڑ کی طرح اولڈ ایج ہومز میں پھینک دیا جاتا ہے جہاں ان کا کوئی پرسانِ حال نہیں ہوتا اور وہ اپنی تنہائیاں اور وحشتیں دور کرنے کے لیے کتوں اور بلیوں سے انس کا سہارا لینے پر مجبور ہو جاتے ہیں۔ رہے مزدور تو وہ بھی بری طرح سرمایہ داری نظام کے استحصال کا شکار بنتے ہیں۔ ان سے سخت ترین مشقت لی جاتی ہے اور معاوضہ اتنا دیا جاتا ہے کہ زندہ رہ سکیں۔ جو کچھ وہ بچاتے ہیں‘ وہ اپنے اوپر شدید جبر کر کے بچا لیتے ہیں۔ سودی نظام کا استحصال اس کے علاوہ ہے۔ ان لوگوں کو قرضے لے کر سہولتیں حاصل کرنے کی ترغیب دی جاتی ہے اور ایک طرف سے سرمایہ دار اپنی پراڈکٹس بیچتے ہیں تو دوسری طرف سود سے عوام کی کمر توڑ دیتے ہیں۔ ایسا کون ہے جو یورپ اور امریکا میں Mark up‘ Interest اور نام نہاد Profit کے شیطانی چکروں میں الجھا ہوا نہ ہو۔ گاڑی لیں یا مکان‘ فرنیچر لیں یا روز مرہ استعمال کی اشیا۔۔۔ آپ کو سودی چکر سے نجات نہیں۔ یہ انسانیت کے بدترین اقتصادی استحصال اور حقوقِ انسانی کی پامالی کی شکل ہے۔ سیاسی استحصال اس کے علاوہ ہے۔ جس جمہوریت کا وہ چرچا کرتے نہیں تھکتے‘ اس جمہوریت کا سارا نظام ہی پاپ سنگروں‘ کرکٹ اسٹاروں‘ گلوکارائوں اور مائیکل جیکسنوں کا مرہونِ منت ہے۔ سیاستدان وہاں ووٹروں پر مذکورہ ذرائع سے اثرانداز ہو کر اقتدار کے سنگھاسن پر جا بیٹھتے ہیں۔ کسی کو آزادانہ‘ خودمختارانہ اور غیرجانبدارانہ طور پر ووٹ کا استعمال نہیں کرنے دیا جاتا۔ یہی جمہوریت ہے ان کی جس میں بقول اقبال افراد کو گنتے ہیں تولتے نہیں۔ یہ تو ان کے استحصالی نظاموں کا ایک خلاصہ اور ان کے حقوقِ انسانی کی عملی تصویر تھی۔ انہی نظاموں کے خالق اور کرتا دھرتا حقوقِ انسانی کے علمبردار بنے بیٹھے ہیں۔ طرفہ تماشا ہے اسے کیا کہیے۔

دوسری طرف دینِ اسلام ہے جو حفظِ حقوقِ انسانی کا داعی اور علمبردار ہے۔ اس نے آج سے پندرہ سو برس پہلے میثاقِ مدینہ اور خطبۂ حج الوداع کی صورت میں انسانی حقوق کا بین الاقوامی چارٹر پیش کر دیا تھا۔ اگر آپ UNO کے منشورِ حقوقِ انسانی کا مطالعہ کر لیں تو اسے اسی الہامی اسلامی چارٹر کے مرکزی نکات کا چربہ یا عکس پائیں گے جو صدیوں پہلے رسولِ عربیؐ نے پیش کیا تھا۔ یعنی اس میں کوئی جدت‘ اپج یا نیا پن نہیں۔ اس سے پہلے کہ ہم ایرانِ اسلامی میں انسانی حقوق کی بحث کی طرف آئیں‘ ہمیں خطبۂ حج الوداع میں پیش کردہ منشورِ انسانی حقوق کا اقوامِ متحدہ کے چارٹر سے مقابلہ کر کے ایک مختصر جائزہ لینا ہو گا۔

حضور کریمؐ نے مومن کو مومن کا بھائی قرار دیتے ہوئے ان کی جان‘ مال‘ عزت و آبرو کو ایک دوسرے پر حرام قرار دیا‘ بالکل ویسے ہی جیسے کہ حجِ اکبر کا وہ دن اور ذی الحجہ کا وہ مہینہ دونوں محترم اور مقدس مہینوں میں سے ہیں۔ آپؐ نے سود کو حرام قرار دیا کہ یہ دوسروں پر تجاوز اور خدا اور رسولؐ سے جنگ ہے۔ آپ نے خونِ انسانی کی حرمت پر تاکید کی۔ خواتین کے حقوق پر زور دیا۔ ان سے نیک سلوک کا حکم دیا اِلّا یہ کہ وہ فحشا و منکرات اور برائیوں کی مرتکب ہوں۔ آپ نے بیویوں کو امانتِ خدا قرار دیا جو کلمات خدا کے حوالے سے حلال ہو جاتی ہیں۔ اسی طرح آپ نے امانتوں کو صاحبانِ امانت تک پہنچانے کا حکم فرمایا۔ آپ نے رنگ و نسل کی تفریق اور تعصب سے منع فرمایا۔ انسانی مساوات کا حکم دیتے ہوئے فرمایا کہ گورے کو کالے اور عربی کو عجمی پر کوئی فضیلت نہیں۔ خدا کے نزدیک عزت دار وہ ہے جس کا تقویٰ زیاد ہو۔ اب آیئے اقوامِ متحدہ کے چارٹر کی طرف جس کے ۳۰ آرٹیکل ہیں اور ان کے مطابق سب انسان بنیادی حقوق میں برابر ہیں اور انہیں بھائی چارے کی بنیاد پر ایک دوسرے سے سلوک روا رکھنا چاہیے۔ یعنی سب کو نسل‘ زبان‘ رنگ‘ مذہب اور قومیت سے قطع نظر مساوی حقوق حاصل ہیں۔ سب کو زندگی‘ آزادی اور امن سے رہنے کا حق حاصل ہے۔ غلامی کی اجازت نہیں۔ کسی پر ظلم و تشدد نہ ہو گا اور کسی کی بے عزتی نہ ہو گی۔ سب کو برابر کا قانونی تحفظ حاصل ہو گا۔ کسی پر ظلم و تشدد نہ ہو گا اور کسی کی بے عزتی نہ ہو گی۔ سب کو برابر کا قانونی تحفظ حاصل ہو گا۔ سب کو حقوقِ انسانی کے مخالف اقدام کے خلاف غیرجانبدار عدلیہ کا تحفظ حاصل ہو گا۔ جب تک کوئی جرم ثابت نہ ہو‘ افراد کو بے گناہ تصور کیا جائے گا۔ انسانوں کو نقل و حرکت‘ رہائش اور دوسرے ممالک میں سیاسی پناہ کی آزادی ہے۔ ہر شخص کو قومیت کا حق حاصل ہے۔ پسند کی ازدواج کی آزادی ہے۔ خاندان کو معاشرتی اور حکومتی تحفظ حاصل ہو گا۔ ہر کسی کو ملکیت رکھنے کا حق حاصل ہے اور اسے اس سے محروم نہ کیا جائے گا۔ لوگوں کو رائے‘ فکر‘ ضمیر اور مذہب کی آزادی حاصل ہو گی۔ نیز پُرامن اجتماع‘ ووٹ دینے اور حکومت میں شرکت کا حق بھی حاصل ہے۔ معاشرتی تحفظ‘ نیز ہنر‘ تعلیم اور کام کے انتخاب کا حق ہو گا۔ آرام اور فرصت کے ساتھ ساتھ ساعاتِ کار کے تعین اور تنخواہ کے ہمراہ مدتی چھٹیوں کا حق ہے‘ حفظانِ صحت کا حق نیز زچہ و بچہ کی دیکھ بھال اور تحفظ حاصل رہے گا۔ مفت بنیادی تعلیم کا حق حاصل ہو گا۔ والدین کو حق حاصل ہو گا کہ اپنی اولاد کو جیسی تعلیم بھی دلوانا چاہیں‘ دلوائیں۔ آپ نے ملاحظہ کیا کہ حقوق کا جو نقشہ دینِ اسلام نے اور حجۃ الوداع کے موقع پر پیغمبرِ اسلامؐ نے پیش کیا تھا‘ بنیادی طور پر اسی کو اقوامِ متحدہ نے تمام اقوام کی موافقت سے اختیار کیا ہے۔

اس سے ثابت ہوا کہ اسلام مکمل بلکہ اکمل اور جامع دین ہے‘ جس نے انسانی ضروریات کا ہر طرح احاطہ کیا ہوا ہے۔ چنانچہ جمہوری اسلامی ایران جس کا نظام اسلام اور قرآن پر مبنی ہے‘ اپنے آئین‘ دستوراتِ دولتی اور حقوقِ بشر کے حوالے سے ایک ترقی یافتہ اور پیش رفتہ ملک ہے اور انقلابِ اسلامی کے بعد نہایت جامع انداز میں اس ضمن میں کام ہو رہا ہے۔

اسلامی جمہوریۂ ایران میں انسانی حقوق کی حفاظت و صیانت سے متعلق امور اور قوانین کو ہم نکتہ وار پیش کرتے ہیں‘ جس سے ایک اسلامی فلاحی ریاست کا نقشہ سامنے آئے گا۔

اقلیتوں کے حقوق

فقہ جعفری صدیوں سے اجتہاد کی راہ طے کر رہی ہے اور آج بھی معاصر مسائل میں اجتہاد کر کے زندہ ہے‘ اعلم مجتہد نظامِ اسلامی کو رکود اور جمود سے نجات دیتے ہوئے رواں دواں رکھتے ہیں۔ لہٰذا پہلے تو اقلیتوں کی مشکلات کا جائزہ لینے کے لیے ایک کمیٹی تشکیل دی گئی ہے اور ساتھ ہی صدرِ مملکت نے تمام حکومتی اداروں کو ایک سرکلر کے ذریعے حکم دیا ہے کہ وہ ملازمتوں میں انتخاب کے وقت اقلیتوں کے حقوق کا خیال رکھیں۔ اسی طرح پارلیمنٹ (مجلس شوراے اسلامی) اور عدلیہ میں اقلیتوں کے انسانی حقوق کے تحفظ سے متعلق اقدامات کیے جارہے ہیں۔

بعض مجتہدینِ عظام کے فتاویٰ کی بنیاد پر مجلس نے قانون تعزیرات اسلامی کے آرٹیکل نمبر۲۹۷ میں اس مسئلے کو قانونی حیثیت دے دی ہے کہ ذمی کی دیت مسلمان کے برابر ہے۔

خواتین کی حالت

اقتصادی‘ معاشرتی اور ثقافتی موضوعات کو جنس کے زاویۂ نگاہ سے تیسرے پنجسالہ منصوبے میں شامل کر لیا گیا ہے۔ اسی طرح مرکز امور شرکت زنان کے وسیلے سے خواتین کے لیے جامع قانونی اور عدالتی نظام کا پلان بھی تیار کیا گیا ہے۔ مزید برآں خواتین پر تشدد کے خاتمے کے لیے وزارتِ صحت و تعلیم میں ایک کمیٹی تشکیل دی گئی ہے۔ جبکہ مقامی بجٹوں میں خواتین کی ترقی سے متعلق خاص فنڈ بھی مختص کر دیے گئے ہیں۔

مجلس میں خواتین کے خلاف ہر قسم کے تعصب کے خاتمے سے متعلق کنونشن میں ایران کی شمولیت سے متعلق ایک بل بھی پیش کر دیا گیا ہے۔ تمام وزارتوں میں خواتین یونٹوں کی تعداد کی افزائش اور صدر کے دفتر برائے امور زنان کی بہ عنوان دفتر شرکت خواتین اپ گریڈنگ اور نیز اسی مرکز میں قومی کمیٹی برائے حلِ مشکلاتِ خواتین بھی عمل میں آچکی ہے۔ ۱۹۹۷ء میں خواتین سے متعلق این جی اوز کی تعداد ۶۷ تھی جبکہ یہ تعداد بڑھ کر ۲۰۰۱ء میں ۲۴۸ ہو گئی۔ اسی طرح اداروں کی سربراہ خواتین کی تعداد میں بھی خصوصاً گذشتہ پانچ برسوں کے دوران ۵ء۵ فیصد کا اضافہ ہو چکا ہے۔ یونیورسٹیوں کے علمی بورڈز کی ۳۴ فیصد ارکان خواتین ہیں جبکہ یونیورسٹیوں میں ۶۴ فیصد حصہ طالبات پر مشتمل ہے۔ گذشتہ پانچ برسوں میں پرائمری تعلیمی اداروں میں طالبات کی شرحِ داخلہ ۸۰ فیصد سے بڑھ کر ۹۶ فیصد ہو چکی ہے۔ ملک بھر میں تقریباً ۷۱ مجلّے خواتین شائع کرتی ہیں جبکہ ۸۹ مجلّوں اور روزناموں کی ایڈیٹرز بھی خواتین ہیں۔ موجودہ دور میں خواتین کی غربت و افلاس دور کرنے اور خواتین میں سیلف ایمپلائمنٹ کی حوصلہ افزائی کے لیے ۲۱ این جی اوز مشغولِ کار ہیں۔ لڑکیوں کے لیے شادی کی عمر کم سے کم ۹ سال سے بڑھا کر ۱۳ سال کر دینے کا قانون نافذ ہو چکا ہے۔ ملک میں خواتین کی بے روزگاری کی شرح ۹ء۱۸ فیصد ہے۔ موجودہ سال میں خواتین کی سرگرمیوں میں اضافہ کے لیے بجٹ میں ۲۷۰ ارب ریال کا اضافہ کیا گیا ہے۔ موجودہ صورت میں ملک میں قابلِ تعلیم لڑکیوں کو ۶۰ فیصد سے زیادہ کوریج دی گئی ہے اور اعلیٰ تعلیم کے لیے داخلہ لینے والی طالبات طلبا امیدواروں کی کل تعداد کا ۶۲ فیصد ہے۔ خانہ دار خواتین کا بیمہ پلان جس کے تحت ملک بھر کے ۵۲ شہروں میں اس سال کے آخر تک اکیس ہزار خواتین کا بیمہ کیا جاچکا ہے۔ موجودہ سال کے آخر تک پرائمری اور مڈل سطح تک کی ۶۰ فیصد طالبات کو سنِ بلوغ اور دورانیہ حمل کے بارے میں تعلیم دی جائے گی۔ اس وقت مجلس شورائے اسلامی میں ۱۳ خواتین ارکان موجود ہیں۔ علاوہ بریں خواتین کے انسانی حقوق اور ان پر تشدد کے خاتمے نیز تشدد کی شکار خواتین کے مدد کے لیے مختلف ورکشاپیں منعقد کی جارہی ہیں۔ تھانوں اور بڑے شہروں میں خصوصی خواتین سنٹروں کا قیام عمل میں آچکا ہے۔ اکتوبر ۲۰۰۴ء سے ۴۰۰ پولیس وومن کی خدمات انتظامیہ کے حوالے ہو چکی ہیں۔ اس طرح انقلابِ اسلامی کے بعد پہلی بار زنانہ پولیس سے استفادہ ہو رہا ہے۔ ملازمت پیشہ خواتین کی مشکلات حل کرنے کے لیے ایک کمیٹی پہلے ہی تشکیل دی جاچکی ہے۔ خواتین پر گھریلو تشدد کے مطالعے کے قومی منصوبے کو جاری رکھا گیا ہے۔ طالبات کو ان کے قانونی حقوق کی تعلیم دینے کا منصوبہ نافذ کر دیا گیا ہے۔ ورکر خواتین اور گھرانوں کے پنشن سے متعلق قانون کو موثر بنایا گیا ہے۔

اولاد کے لیے ماں کی سرپرستی کے بل کی منظوری

اس بل کی رو سے ۷ سال کی عمر تک ہر جنس کے بچے کو ماں کی پُرمہر و محبت گود میں رہنے کا حق حاصل ہو گا۔

خواتین کے خلاف ہر قسم کا تعصب روکنے سے متعلق کنونشن

خواتین کے خلاف ہر قسم کا تعصب ختم کرنے سے متعلق عالمی کنونشن میں شامل ہونے کا نہ صرف بل مجلس شوراے اسلامی میں پیش کیا جاچکا ہے بلکہ اسمبلی کی ثقافتی و معاشرتی امور کی کمیٹی اس پر غور و فکر کا عمل بھی مکمل کر چکی ہے اور اسے مجلس کی کارروائی کا حصہ قرار دے دیا گیا ہے۔

مجلس میں خواتین کے لیے طلاق کے برابر حق کے بل کی منظوری

مجلس شوراے اسلامی نے خواتین کے لیے مردوں کے برابر طلاق کے حقوق کا بل منظور کر لیا ہے۔

بچوں کے حقوق

بچوں کے حقوق کی (بین الاقوامی) کمیٹی نے بچوں کے بقا اور رشد و ترقی و حمایت کے سلسلے میں ۱۹۹۰ء میں سربراہانِ ممالک کے جلسے کے اعلامیے کے بڑے اہداف و مقاصد کو عملی جامہ پہنانے کے بارے میں ایران کی تعریف کی ہے۔ یونیسیف کے تعاون سے حقوقِ اطفال کا اجتماع تہران میں منعقد کیا گیا‘ جسے عالمی بینک کے سربراہ نے سراہا۔ اسلامی جمہوریۂ ایران میں ایک کمیٹی تشکیل دی گئی ہے جس کو ۱۹۹۰ء میں بچوں کے سلسلے میں عالمی سربراہانِ مملکت کے اجلاس کے نتائج کو نافذ کرنے کا جائزہ لینا تھا۔ اس کمیٹی نے شہریور ۱۳۷۹ شمسی میں اپنی رپورٹ پیش کر دی‘ جسے عالمی بینک نے بے حد سراہا۔ بچوں کے حقوق کی کمیٹی نے وزارتِ خارجہ کے زیرِ نظر حقوقِ اطفال پر پہلی رپورٹ پیش کی۔ عدلیہ میں خصوصی دفاتر تشکیل دیے گئے ہیں جو مظلوم بچوں‘ عورتوں اور جوانوں کے مقدمات پر نظر رکھیں گے اور ان کے جلد فیصلے کے لیے سعی کریں گے۔ انقلابِ اسلامی کے بعد ایران میں ترقی یافتہ ترین قوانین میں سے ایک بچوں اور نوجوانوں کی عدالتوں کی تشکیل کے بل کا ڈرافٹ کا تیار کیا جانا ہے‘ عدلیہ کی فائنل منظوری کے بعد جسے اسمبلی میں پیش کر دیا جائے گا۔

حقوقِ انسانی کے سلسلے میں تعاون

ایسی حالت میں جبکہ عالمی کمیشن برائے انسانی حقوق نے ایران کی طرف سے حقوقِ انسانی کی قرارداد کو منظور نہیں کیا۔ اسلامی جمہوریہ ایران نے اس امر کو ثابت کرنے کے لیے قراردادوں کی منظوری‘ جو زیادہ تر سیاسی محرکات کی وجہ سے پیش اور منظور کیے جاتے ہیں اور اپنی ثقافتی و تمدنی عقائد کی بنیاد پر انسانی حقوق کی ارتقا میں مدد دینے کے لیے ملک کے اندر اور باہر کے اداروں سے نہ صرف تعاون کا عندیہ دیا ہے بلکہ اس سلسلے میں بعض مثبت اقدامات بھی کیے ہیں جن کی تفصیل آگے آرہی ہے۔

حقوقِ انسانی کے اداروں سے موضوعاتی پالیسیوں کے فریم ورک میں تعاون

ایران نے انسانی حقوق کے اداروں کے مختلف موضوعات پر رپورٹرز اور کارکنوں کو ایران آنے کی کھلی اور عام دعوت دی ہے۔ اس دعوت کے بعد اب تک ضد و عناد میں لاک اپ اور جبری طور پر غائب شدگان اور عورتوں پر تشدد کے رپورٹرز نیز حقوقِ انسانی کے ہائی کمشنر کی فنی اور مشاورتی خدمات کی کمیٹی کی آمد کے لیے مناسب طور پر زمین ہموار کر دی گئی ہے جس سے ان کو وزٹ کا موقع ملا۔

یورپین یونین سے حقوقِ انسانی کے سلسلے میں تعاون اور مذاکرات

یورپ کے ساتھ مذاکرات کے سلسلے میں حقوقِ انسانی کی پہلی گول میز کانفرنس اس سال تہران میں منعقد ہوئی‘ جسے شریک وفود نے بے حد سراہا۔

حقوقِ انسانی کے سلسلے میں دوطرفہ تعاون

اس سلسلے میں مختلف ممالک منجملہ جاپان اور آسٹریلیا سے تعمیری مذاکرات اور تعاون کی فضا تیار کر لی گئی ہے اور اس موضوع پر چند اور دو طرفہ تعاون نیز اقوامِ متحدہ کے مختلف اداروں سے مکمل تعاون کیا گیا جبکہ ایران کی طرف سے کوئی قرارداد بھی موجود نہیں تھی۔

مجلس شوراے اسلامی میں حقوقِ انسانی کی کمیٹی کا قیام

ایک قسم کی مصلحت اندیشی سے کام لیتے ہوئے ایرانی عدلیہ کے سربراہ نے سنگساری کی سزا کے حکم کو متوقف کر دیا۔

مجلس میں ایذارسانی روکنے کے لیے منصوبہ

مذکورہ منصوبے کو جو پہلے مجلس کی منظوری سے آئین کا حصہ بن گیا تھا‘ شوراے نگہبان نے زیادہ مصادیق شامل کرنے کے بعد دوبارہ مجلس کو بھیج دیا تھا۔ اس پر دقیق غور و خوض کے بعد مجلس نے اسے دوبارہ شوراے نگہبان میں بھیج دیا‘ جس نے اس پر دوبارہ اعتراضات کر کے اسے مجلس کی طرف پلٹا دیا۔ اسی بنیاد پر ایذا رسانی اور عقوبت کی روک تھام سے متعلق منصوبے پر مصلحت نظام کی تشخیص کا ادارہ ضروری فیصلے کرے گا۔

اسلامی سزاؤں کے قانون کے آرٹیکل نمبر ۵۷۰ میں ترمیم

اس ترمیم میں یہ آیا ہے کہ حکومتی اداروں اور مختلف محکموں میں جو حکام قانون کے برخلاف افراد کی شخصی آزادی سلب کریں گے یا انہیں آئین کے تحت دیے گئے حقوق سے محروم کریں گے‘ انہیں برطرف کیے جانے اور ایک سے پانچ سال تک حکومتی کاموں سے روکے جانے کے علاوہ ۲ ماہ سے لے کر ۳ سال تک کی سزاے قید بھی دی جاسکے گی۔

خانہ دار خواتین کا اجتماعی بیمہ

دفتر امورِ خواتین کے ڈائریکٹر جنرل نے اعلان کیا ہے کہ موجودہ سال میں تمام صوبوں کے ایک یا دو ضلعوں کی خانہ دار خواتین اجتماعی بیمے سے مستفید ہوں گی۔ اس بیمے ک آدھا حصہ حکومت اور آدھا بیمہ شدہ خواتین ادا کریں گی۔ اس کے علاوہ خواتین کی ثقافتی معاشرتی شوریٰ میں خواتین منشور پر فائنل غور و خوض نیز قرآن‘ سنت اور قوانین میں خواتین کے بنیادی کردار کے حوالے سے اسلامی جمہوریہ ایران میں خواتین کے حقوق اور ذمہ داریوں کا منشور تیار کر لیا گیا ہے۔ اس منشور میں زمان و مکان کے تقاضوں کے علاوہ خواتین کی ذمہ داریوں اور ان کی انسانی حرمت کو واضح کر دیا گیا ہے اور یہ منشور بین الاقوامی برادری کو نظام الاسلام میں خواتین کے مقام سے روشناس کراسکتا ہے۔

دفتر حمایت خواتین و بچگان

خواتین کے ادارۂ مشارکت کے قانونی مرکز کے اعلان کے مطابق عدلیہ کے حکم نامہ نمبر۱۸/۱۰/۸۱ کی رو سے تمام صوبوں میں دفتر حمایت خواتین و بچگان کی بنیاد رکھی جانی ہے۔

حاملہ خواتین کی طبی چھٹی

کابینہ کے حکم نامے نمبر۲۴/۷/۸۲ کے مطابق حاملہ خواتین اپنے زمانۂ حمل کے دوران معالج کی سفارش پر ۴ ماہ تک کی چھٹی کی حقدار ہوں گی اور یہ چھٹی ان کی عام طبی تعطیلات کے علاوہ ہوں گی۔

ہوم ایڈمنسٹریشن کے امتحان میں کنکور (مقابلے کے امتحان) کے بغیر شرکت

سیکرٹری تعلیم و تحقیقات برائے مرکز امور مشاورت قوانین کے اعلان کے مطابق اس مرکز کے اور دانشگاہ جامع علمی کی مسلسل کوششوں سے خواتین کی علمی و ثقافتی ارتقا کے لیے ہوم ایڈمنسٹریشن کی مہارت کا کورس منظور کر لیا گیا ہے۔

آئندہ برسوں میں خواتین کی بیروزگاری میں کمی

ایک تحقیق کے مطابق ۱۳۸۳ شمسی میں خواتین کے روزگار کی شرح ۹ء۱۱ فیصد اور بے روزگاری ۹ء۱۲ فیصد تک پہنچ جائے گی۔

۶ سال سے کم عمر بچوں کے لیے مفت غذا

امداد امام خمینی کمیٹی نے وزارتِ صحت کے تعاون سے چھ سال سے کم عمر کے بچوں جو کم خوارگی (Malnuitrition) کی شکار حاملہ خواتین کو مفت غذا فراہم کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔

اہواز میں خواتین اور بچوں کے قانونی دفتر کی تشکیل

اس دفتر کا کام مفت قانونی مشورے اور لیگل سروس فراہم کرنا ہے۔

سڑکوں پر کام کرنے والے بچوں کے لیے مہمان خانہ

تہران میں سڑک پر کام کرنے والے بچوں کے لیے ایک مہمان خانہ بنام ’’سلات‘‘ کھل چکا ہے۔ اس میں ۱۲ سے ۱۸ سال کے بچوں کو (بشرطیکہ وہ کام کاج میں مشغول ہوں) ۵ بجے شام سے صبح ۷ بجے تک رہائش کی سہولت حاصل ہو گی اور اس دوران انہیں دو وقت کا کھانا بھی دیا جائے گا۔

مندرجہ بالا امور سے یہ بات پایہ ثبوت کو پہنچتی ہے کہ انقلابِ اسلامی کے بعد ایران ایک مکمل فلاحی ریاست بننے جارہا ہے‘ جس میں اقلیتوں سے لے کر طلبا‘ مزدوروں‘ خواتین‘ بچوں اور بوڑھوں کو مکمل تحفظ مل رہا ہے اور ملے گا نیز ملک اور قوم کے وسائل خود انہیں پر صرف کیے جاتے ہیں۔ اس کے علاوہ بھی بے شمار رفاہی کام حکومت‘ بنیاد شہید اور امام خمینی امدادی کمیٹی انجام دے رہی ہے جس میں بچوں کی تعلیم سے لے کر بیوائوں کی مدد اور غریب بچیوں کے لیے جہیز کی فراہمی تک سب کچھ شامل ہے۔ کلی طور پر یہ کہا جاسکتا ہے کہ اسلامی جمہوریہ ایران اسلام کے رفاہی‘ اخلاقی‘ مجلسی اور تعاونی قدروں کا ایک عملی نمونہ ہے‘ جس میں حکومت‘ اس کے مختلف آرگن‘ رفاہی ادارے‘ نیم سرکاری ادارے سب مل کر عوام کے بہبود کی کاوشوں میں مصروف ہیں اور انسانی حقوق کے نام نہاد علمبرداروں کے پروپیگنڈا کے برعکس یہاں اسلامی قدروں اور شرف و کرامت انسانی کا ہر لحاظ سے احترام کیا جاتا ہے جو ثنا خوانانِ تقدیس مشرق کے لیے ایک قابلِ دید نمونہ جبکہ عالمی استعمار کے لیے مقامِ اصلاحِ احوال ہے۔

(تلخیص و ترجمہ: جاوید اقبال قزلباش)

(بشکریہ: ’’پیغامِ آشنا‘‘۔ اسلام آباد)

Be the first to comment

Leave a Reply

Your email address will not be published.


*