پیغمبر اکرم حضرت محمد مصطفی کے اخلاق طیبہ، نبوت کی اعلیٰ خوبیوں کے ساتھ، اتنی محبت، رحم دلی اور انسانی ہمدردی کے حامل تھے کہ اس سے زیادہ کسی انسان کے لیے ممکن نہیں، قرآن مجید میں فرمایا گیا ’’وانک لعلی خلق عظیم‘‘ کہ آپr عظیم اخلاق کے حامل ہیں اور فرمایا گیا : ’’وما ارسلناک الا رحمۃ للعلمین‘‘۔ کہ ہم نے آپr کو سارے جہانوں کے لیے رحمت بناکر بھیجا ہے، آپ ایک طرف اپنے پروردگار کو راضی رکھنے کے لیے ہر طرح کی مشقت اور تکلیف اٹھاتے، اور اس کی مرضیات پر عمل کرتے، دوسری طرف سارے انسانوں کے ساتھ ہمدردی ومحبت کا ایسا عمل کرتے کہ اس کی مثال نہیں ملتی۔
آپr عبادت گزار اور ایسے شب زندہ دار تھے کہ رات کی نماز یعنی تہجد میں اتنی دیر تک کھڑے رہتے کہ پیروں میں ورم آجاتا، روزے اتنے رکھتے کہ رمضان سے قبل شعبان کا مہینہ بھی اکثر و بیشتر روزوں میں گزر جاتا، مال کو اللہ کی راہ میں اتنا خرچ کرتے کہ اپنے اور اپنے گھر والوں کے کھانے کے لیے کئی کئی مہینوں تک کوئی ایسی چیز باقی نہ ہوتی جس کے لیے گھر والوں کو آگ جلانا پڑے کبھی کھجور کے کچھ دانے حاصل ہو گئے انہی سے کام چلا لیا اور کبھی بکری کا دودھ ہوا، اسی کو پی کر مطمئن ہوگئے کبھی کچھ بھی نہ ملا تو یوں بے کھائے پیے ہی سو گئے۔
اس کا یہ مطلب نہیں کہ آپr مال و متاع سے بالکل محروم تھے ایسا نہیں تھا، بلکہ عموماً آپr کی ضرورت کے مطابق مال حاصل ہوجاتا تھا اور بعد میں مدینہ منورہ سے باہر فدک وغیرہ میں آپ کی ملکیت میں کچھ باغ آگئے تھے جن کی پیداوار سے کچھ آمدنی آپ کو حاصل ہونے لگی تھی، لیکن آپ کی طرف سے دوسروں کی مدد، داد و دہش اور مہمانوں کی مہمان داری اور اصحاب صفہ ( جو دین سیکھنے کے لیے آپ کے مکان کے سامنے مسجد کے ایک سرے پر مقیم رہتے تھے ) ان کے کھانے کی ذمہ داری بھی آپ نے اپنے ذمہ لے رکھی تھی۔
یہ اصحاب صفہ بعض مرتبہ ۷۰ کی تعداد تک پہنچ گئے تھے ان میں ایک صحابی حضرت ابو ہریرہ تھے جنہوں نے وہاں رہ کر خوب حدیثیں سنیں اور علم دین سیکھا چنانچہ آج حدیث شریف کا خاصہ حصہ ان ہی سے مروی ہے، ان ہی سے روایت ہے کہ ایک مرتبہ حضورr کے پاس کھانے کو کچھ نہ تھا، اصحاب صفہ بھی بھوکے تھے کہ آپ کے پاس کہیں سے دودھ کا ایک پیالہ ہدیہ میں آیا۔ آپr نے حضرت ابوہریرہ کو بلایا اور فرمایا کہ یہ دودھ آیا ہے، سب اصحاب صفہ کو بلا لائو۔ حضر ت ابوہریرہ فرماتے ہیں کہ مجھے تعجب ہوا کہ اتنے سے دودھ میں کتنے آدمی کام چلا سکیں گے، یہ تو خود آپ پی لیتے اور کچھ بچتا تو مجھ کو دے دیتے بجائے اس کے متعدد آدمیوں کو بلا کر پلایا جائے تو کسی کا بھلا نہ ہو گا۔ لیکن کرتا کیا حکم تھا، میں نے بلایا۔ آپؐ نے وہ پیالہ ایک کود یا کہ پیو پھر دوسرے کو دیا پھر ریسرے کو دیا ور وہ سب پیتے رہے اور حیرت کی بات یہ کہ وہ چلتا رہا حتیٰ کہ بلائے ہوئے سب آدمی پورے ہو گئے۔ پھر آپr نے پیالہ اپنے ہاتھوں میں لیا۔ حضرت ابوہریرہ کو دیکھا اور فرمایا: ابوہریرہ! ہم رہ گئے ہیں اور تم۔ حضرت ابوہریرہ کا یوں بھی امتحان ہو رہا تھا کہ ہر پینے والے پر یہ سوچتے ہوں گے کہ دودھ اب ختم ہو ا، تب ختم ہوا۔ میری باری دیکھو آتی بھی ہے یا نہیں آتی۔ حضورr کے یہ کہنے پر کہ اب ہم رہ گئے ہیں اور تم اور پیالہ آپ کے ہاتھ میں ہے اور دودھ تھوڑا ہے ظاہر ہے کہ اب آپ ہی مستحق ہیں کہ اس کو پورا کر دیں اور ابوہریرہ رہ جائیں۔ حضرت ابوہریرہ نے آپ کے اس جملہ پر کہ اب ہم رہ گئے ہیں اور تم کہا جی ہاں، آپ نے فرمایا: لو اب تم پیو وہ کہتے ہیں کہ میں نے پیا اور دودھ پھر بھی بچ گیا۔ میری طبیعت سیر ہو گئی، آپ نے فرمایا اور پیو، میں نے اورپیا، آپ نے فرمایا اور پیو، میں نے کہا یا رسول اللہ اب طبیعت سیر ہو گئی ہے۔ پھر آپ نے پیالہ واپس لیا اور اس کو پورا کر دیا۔
اس واقعہ کے اندر کئی باتیں آگئی ہیں ایک تو کھانے پینے کی چیزوں کی کمی، اور جب کوئی چیز آجاتی تو آپ سب کو دے کر کھاتے پیتے۔ دوسرے یہ اخلاق کہ چیز کے کم ہونے کے باوجودسب کا خیال رکھنا اور دوسروں کو اپنے اوپر ترجیح دینا۔ تیسری اس بات کی تربیت دینا کہ دوسرے کی ضرورت کو اپنی ضرورت پر ترجیح کا مجاہدہ ہو، اور اپنے محروم رہ جانے کا خطرہ برداشت کیا جائے۔ چوتھے یہ کہ اگر اخلاص اور بے نفسی دوسروں کی ہمدردی کے جذبہ سے کی جائے تو برکت ہوتی ہے اور کم چیز زیادہ آدمی کے کام آجاتی ہے۔ یہ برکت ہر وقت نہیں ہوتی، یہ اس وقت ہوتی ہے۔ جب جذبہ بھی اعلیٰ ہو اور مسئلہ کا حل کوئی دوسرا نہ ہو، تو اللہ تعالیٰ کا فضل ہوتا ہے اور وہ تھوڑی چیز کو زیادہ کا قائم مقام بنا دیتا ہے۔
ایسی برکت حضورr کے معاملے میں کئی مرتبہ ہوئی، لیکن ایسے موقعے بہت خاص خاص ہوتے تھے، عام طور پر عام حالات ہی پیش آتے تھے ورنہ ہر مرتبہ اگر ایسی برکت ہوتی رہتی تو آپr کو کبھی فاقہ نہ کرنا پڑتا اور نہ کبھی کوئی حاجت پوری ہونے میں دشواری ہوتی۔ لیکن آپr کو بارہا مال کی تنگی ہوتی تھی اور آپ اس کو خوشی خوشی برداشت کرتے تھے، حتیٰ کہ بعض بعض مرتبہ بھوک کی شدت کو دبانے کے لیے آپ کو پیٹ پر دودو پتھر باندھنے پڑھے جیسا کہ غزوہ خندق کے موقع پر ہوا۔ پھر اسی غزوۂ خندق کے موقع پر ایسا واقعہ بھی پیش آیا جس میں برکت کا ظہور ہوا۔ بہر حال اخلاص ونیک نیتی اور ایثار کے جذبے کے پوری طرح پائے جانے کے ساتھ ایسی حالت پیش آگئی ہو جس میں زندگی کے قائم رہنے کو خطرہ پیش آسکتا تھا، کوئی دوسرا ظاہری حل نہ ہوا تو اللہ تعالیٰ نے تھوڑی چیز کو زیادہ چیز کا قائم مقام بنا دیا۔ تفصیل کی اس وقت گنجائش نہیں۔
بہر حال یہ بات قابل توجہ ہے کہ نبی اکرمr کے سامنے کوئی ایسا موقع آتا کہ دوسرا بھی ضرورت مند ہو تو نہ صرف اس کو شریک کر لیتے، بلکہ اس کو ترجیح دیتے۔ اس ایثار اور سب کی فکر کے نتیجے میں آپ کے پاس ضرورت کی چیز کم ہوجانا قدرتی بات تھی چنانچہ کئی کئی فاقوں کی نوبت آجاتی تھی، حالانکہ آپ کو اتنا مال ذاتی طور پر حاصل ہوتا تھا۔ کہ روک روک کر خرچ کرتے تو آپ اپنا کام اس کے ذریعہ بخوبی چلا سکتے تھے لیکن آپ ان کی فکر اپنی فکر کی طرح رکھتے تھے، چنانچہ آپؐ نے ایک بار اعلان فرمایا کہ کوئی مسلمان انتقال کر جائے تو اس کا چھوڑا ہو امال اس کے وارثوں کا ہے، اور جو وہ قرض چھوڑ گیا ہو تو اس کی ادائیگی میرے ذمہ ہے بھلا یہ کون کر سکتا ہے ؟ پھر ایک دو کے لیے نہیں بلکہ اپنے تمام ساتھیوں اور ماننے والوں کے لیے آپ کا یہ سلوک عام تھا کہ کہ فائدہ ہو تو تم لو، اور نقصان ہو تو اس کی تلافی میرے ذمہ ہے۔
آپr نے اخلا ق و محبت کی اپنی ان خصلتوں سے لوگوں کے دل جیت لیے تھے، جو بھی آپr سے ایک بار مل لیتا تو آپr کا گرویدہ و فریفتہ ہو جاتا، وہ دیکھتا کہ آپr کو دنیاوی فائدے کی کوئی فکر نہیں، آپ کو اپنی ذات کے لیے فائدہ اٹھانے سے کوئی دلچسپی نہیں، دوسروں کی ہمدردی اور دوسروں کی فکر صرف دنیاوی فائدے ہی کے لیے نہ تھی بلکہ زیادہ فکر آخرت کے فائدہ کی تھی۔ آپ نے فرمایا کہ میری مثال اور تمہاری مثال ایسی ہے جیسے آگ جل رہی ہو اور اس میں لوگ گر رہے ہوں، میں کمرسے پکڑ پکڑ کر لوگوں کو اس سے بچا رہا ہوں، آپr کی یہ فکر اتنی بڑھی ہوئی تھی کہ خود اللہ تعالیٰ نے اپنے کلام پاک میں فرمایا: لعلک باخع نفسک الا یکونوا مومنین‘‘ کہ آپ شاید اپنے آپ کو ہلاک کر ڈالیں گے کہ یہ لوگ ایمان والے کیوں نہیں بن جاتے، اور واقعی آپ کڑھتے رہتے تھے کہ لوگ گمراہ ہیں ان کا آخرت میں کیا ہوگا۔ ان کو گمراہی سے کیسے نکالا جائے، اس کے لیے آپ نہ زور زبردستی کرتے تھے، نہ ڈانٹتے، نہ سختی کرتے، بلکہ محبت سے، اخلاق کے ساتھ ان سے مخاطب ہوتے اور نرمی کے ساتھ سمجھاتے تھے۔
ایک طرف آپr کی انسانیت نوازیاں و ہمدردیاں اور دوسری طرف آپ کی طرف سے اپنی اور دوسروں کی عافیت کی فکر میں ان کی بے چینی کا یہ عالم تھا کہ جو بھی اس وقت قریب سے دیکھ لیتا، بالکل بدل جاتا، اور آپ کا ہو جاتا۔ بعض اوقات کوئی شخص کفار قریش کے بہکانے پر آپ کو قتل کرنے کے لیے آتا اور آپ کا سامنا ہوتے ہی، آپr کے میٹھے بول سنتے ہی ڈھیلا پڑ جاتا تھا، ارادہ بدل جاتا اور بات چیت کے بعد گرویدہ ہو جاتا اور آپ پر فدا ہو کر لوٹتا۔
آخرت میں لوگوں کی نجات کے لیے آپ غیر معمولی طور پر فکر مند رہا کرتے تھے، اور ہر ممکن امداد کے لیے آمادہ رہا کرتے تھے۔
جس کی طرف خداوند عالم نے قرآن مجید میں اس طرح اشارہ کیا ہے۔ لقد جائکم رسول من انفسکم عزیز علیہ ما عنتم حریص علیکم بالمومنین رئوف رحیم۔ ۲ کہ تمہارے پاس تم میں کا ہی رسول آیا، اس کو تمہاری تکلیف بہت شاق ہوتی ہے۔ وہ تمہاری بے حد فکر کرنے والا ہے اور ایمان والوں کے لیے تو بہت ہی ہمدردی اور رحم کا جذبہ رکھنے والا ہے۔ اور فرمایا: لعلک باخع نفسک الا یکونوا مومنین۔۳ کہ شاید آپ اپنے آپ کو بہت تکلیف میں ڈال دیں گے کہ یہ لوگ کیوں ایمان والے نہیں بنتے۔
بہر حال آنحضرتr میں انسانیت نوازی، اخلاق و محبت کی خصوصیات، اس قدر بھری ہوئی اور غیر معمولی تھیں کہ جس کا واسطہ پڑتا متاثر ہوئے بغیر نہ رہتا تھا۔ اسی کے ساتھ ساتھ آخرت میں سر خرو ہونے کے لیے آپ کی جو توجہ دہانی اور نصیحت و دعوت تھی کہ آپ کڑھتے رہتے تھے کہ کس طرح لوگوں کو اس پر آمادہ کیا جائے کہ وہ اپنی آخرت کو ٹھیک کرنے، اور آخرت میں راحت کی زندگی پانے کے لیے جو کچھ بھی کر سکتے ہیں، کریں، ایمان لائیں اور عمل صالح انجام دیں، ایک طرف آپ مجسم ہمدردی اورمحبت تھے، دوسری طرف انسانی قدروں کے اعلیٰ درجہ کے محافظ اور داعی تھے۔ تیسری طرف آپ اپنی زندگی کو، اپنے مال و متاع کو رضائے الہٰی کے حصول اور دنیا و آخرت کی فلاح کا طریقہ بتانے اور خود اس پر عمل کرنے پر لگائے ہوئے تھے۔
آپr کی طرف سے نہایت ہمدردی کی مثال یہ ہے کہ جب شب معراج میں نماز فرض کی گئی اور اس کے اوقات پچاس رکھے گئے تو آپ نے بار بار رب العالمین سے التجا کی کہ اوقات کی تعداد میں کمی فرما دی جائے۔ بالآخر وہ پچاس کے بجائے پانچ وقت کر دی گئی، یہ بھی آپ کی بے حد ہمدردی کی بات ہے کہ آپ نے اللہ تعالیٰ کا یہ حکم سنایا کہ الدین یسر‘‘ مذہب پر عمل کرنا آسان رکھا گیا ہے اور حکم دیا گیا کہ اعتدال سے کام لو۔ اپنے دنیوی لازمی تقاضہ کو پورا کرو، مذہبی اعمال اور دنیوی زندگی ایک دوسرے ٹکراتی نہیں، دنیا کی لازمی ضرورت کو بھی پورا کرو اور دین کے احکام پر بھی پورا عمل کرو۔
اسلام کی یہی وہ جامعیت ہے کہ جس میں وہ تمام مذاہب کے درمیان منفرد ہے بلکہ اس میں اپنی واقعی دنیاوی ضرورت کو اللہ کے حکم کے مطابق اور رضائے الہٰی کی نیت سے پورا کیا جائے تو اس طرح ثواب ملتا ہے کہ جیسا کسی مذہبی عمل پر یا عبادت پر ملتا ہے۔ یہ وہ جامعیت ہے کہ جس کو ہمارے پیغمبرr لے کر آئے تھے اور ساری انسانیت کو اس کا پیغام دیا۔ اپنی دنیاوی ضروریات کو جائز طریقے سے پورا کرنا، دوسروں کے ساتھ خوش اخلاقی اور ہمدردی کا برتائو کرنا ان کی زندگی اور سیرت کا اٹوٹ حصہ رہا ہے جس پر وہ خود بھی عمل پیرا تھے اور جس کا پیغام انہوں نے پوری انسانی برادری کے نام بھی جاری کیا کہ دوسروں کے ساتھ ہمدردی، خوش اخلاقی اور محبت کے ساتھ پیش آنا اور اپنے سارے اعمال کو خواہ وہ دنیوی ہی کیوں نہ ہوں اپنے پروردگار کی مرضی کے مطابق ہی انجام دینا یہ آپ کی سیرت و اخلاق اور حیات طیبہ کی وہ میراث ہے جو آپ نے اپنے تمام امیتوں کے لیے چھوڑی ہے جس کو اپنانا ہر مسلمان کا فرض ہے اور آپ نے اخلاق و محبت اور انسانیت نوازی کا اسوہ اور نمونہ اپنی امت کے لیے چھوڑا۔ اس پر آپ کے امتیوں میں سے ایک خاصی تعداد نے عمل بھی کیا۔ اور یہ سلسلہ برابر قائم ہے۔ اللہ تعالیٰ کی طرف سے آپ پر لائے ہوئے دین کی حفاظت کا وعدہ ہے اس کی بنا پر اسوہ نبویr کی پیروی کے واقعات بھی برابر پیش آتے رہیں گے یہی شریعت محمدی کی شان ہے جس کی وجہ سے دوسروں کے مقابلے میں وہ ممتاز ہے۔
(بحوالہ: سہ ماہی ’’راہِ اسلام‘‘ نئی دہلی۔ شمارہ: جولائی تا ستمبر ۲۰۰۷ء)
Leave a Reply