جنرل اسمبلی نے ۱۹۴۷ء میں فلسطین کی تقسیم کے حوالے سے اپنے منصوبے کو عملی شکل دینے کے لیے یروشلم کو بین الاقوامی حیثیت دینے کی سفارش کی تھی۔ تقسیم کی قرارداد میں یہ سفارش تھی کہ یروشلم کو ایک علیحدہ باڈی کی حیثیت دی جائے جو ایک خصوصی بین الاقوامی حکومت کے تحت ہو اور جس کا انتظام اقوامِ متحدہ کے ہاتھوں میں ہو۔ ٹرسٹی شپ کونسل کو اقوامِ متحدہ کی طرف سے انتظامی اختیار دیا گیا اور یہ مطالبہ کیا گیا کہ وہ پانچ مہینوں کے اندر اس شہر کے لیے تفصیلی ضوابط کو مرتب کرے اور منظور کرے۔ قرارداد میں یہ بھی سفارش کی گئی کہ شہر کو کسی فوجی نفری سے مبرا ہونا چاہیے اور یہ کہ اس کی غیرجانبدارانہ حیثیت کا اعلان کیا جانا چاہیے اور اسے برقرار اور محفوظ رکھا جانا چاہیے نیز کسی بھی نیم فوجی دستے کے قیام یا اس کی مشقوں یا اس کی سرگرمیوں کو اس شہر کے حدود کے اندر ممنوع قرار دینا چاہیے۔ اس دن سے لے کر آج تک یہ قرارداد کاغذ کے ایک ناکارہ ٹکڑے کی حیثیت رکھتی ہے۔ برطانوی انتداب کے اختتام پر اسرائیل نے اس علاقے کے ۵/۴ حصہ پر قبضہ کر لیا جسے شہر یروشلم میں شامل کرتے ہوئے اِسے علیحدہ باڈی کی حیثیت دی جانی تھی اور باقی حصوں پر اُردن کی فوج نے قبضہ کر لیا تھا۔ ۹ نومبر ۱۹۶۹ء کو قرارداد نمبر۳۰۳ میں جنرل اسمبلی نے پھر سے اپنے ارادے کا اعادہ کیا کہ یروشلم کو ایک مستقل بین الاقوامی حکومت کے زیرِ انتظام رہنا چاہیے اور ۲۹ نومبر ۱۹۴۷ء کو پاس ہونے والی قرارداد کے بنیادی نکات کی بھی توثیق کی۔ جنرل اسمبلی نے ٹرسٹی شپ کونسل سے یہ گذارش بھی کی کہ یروشلم کے ضوابط کی تیاری مکمل کرے اور فوری طور سے ان کے نفاذ کے لیے اقدام کرے۔ ۵ اپریل ۱۹۵۰ء کو ٹرسٹی شپ کونسل نے شہر کے لیے ضوابط کی منظوری دے دی لیکن جلد ہی اس نتیجے پر بھی پہنچ گئی کہ اس کے نفاذ میں نہ اسرائیل تعاون کرنے پر تیار ہے اور نہ اُردن۔ درحقیقت اسرائیل نے اپنی وزارتوں کے دفاتر کو تل ابیب سے یروشلم منتقل کر دیا تھا اور ۲۳ جنوری کو اس نے یروشلم کو اپنے دارالحکومت کے طور پر اعلان کر دیا تھا۔ اس دن کے بعد سے یروشلم کو بین الاقوامیائے جانے کے حوالے سے اقوامِ متحدہ کی جانب سے مزید کوئی اقدام نہیں کیا گیا اور وہی عملی فوجی صورتحال جو ۱۹۴۸ء میں پیدا ہوئی تھی‘ ۱۹۶۷ء تک برقرار رہی۔ ۵ جون ۱۹۶۷ء کو اسرائیل کی مسلح افواج نے شہر یروشلم پر حملہ کیا اور پرانے شہر پر قبضہ کر لیا نیز باقی فلسطینی علاقوں اور شام و اُردن کے کچھ علاقوں پر بھی قبضہ جما لیا۔ شہرِ قدیم کی فتح کے نشے میں اسرائیلیوں نے ایسے اقدامات کیے جو اس شہر کی بین الاقوامی‘ تاریخی اور مذہبی حیثیت کو مجروح کرتے تھے اور جن سے اس کے باشندوں کے حقوق پامال ہوتے تھے۔ اس قدیم شہر کا الحاق کا کام قانونی رنگ کے ساتھ اور انتظامی فرمان (ترمیم نمبر۱۱) مورخہ ۲۷ جون ۱۹۶۷ء کے تحت کیا گیا۔ اس ترمیم کی رو سے یہ بات جائز ٹھہرتی تھی کہ حکومت اپنے فرمان کے ذریعہ جن علاقوں کو اپنی سرزمین قرار دے لے وہاں ریاست کا قانون لاگو ہو گا‘ وہ ریاست کے حدود میں تسلیم کیے جائیں گے اور وہاں ریاستی انتظامیہ کا حکم چلے گا۔ دوسرے ہی دن اسرائیلی حکومت نے ایک فرمان جاری کیا جس نے اُس علاقے کو اسرائیل کے لیے مخصوص کر دیا جس میں پرانا شہر اور اس کے قرب و جوار کے علاقے شامل تھے جن پر ابھی حال ہی میں قبضہ کیا گیا تھا۔ اسی وقت سے یروشلم اور اس کے قرب و جوار کے علاقے سیاسی‘ انتظامی اور اقتصادی اعتبار سے ان سرزمینوں سے علیحدہ ہو گئے جن پر ۱۹۶۷ء میں قبضہ کیا گیا تھا اور اب انھیں اسرائیلی علاقے کے طور پر تسلیم کیا جانے لگا۔ ۱۹۴۸ء میں جس طرح نئے شہر کے الحاق کے وقت صورتحال تھی‘ اسرائیل نے قدیم شہر کے الحاق سے بھی انکار کیا اور یہ وضاحت کرنے کی پہلے کوشش کی کہ اس نے جو کارروائی کی ہے وہ اس کا ایک معصوم اقدام ہے جس کی کوئی سیاسی اہمیت نہیں ہے۔ جبکہ یروشلم کا الحاق ناجائز قبضے کے زمرے میں آتا ہے اور یہ عمل تین بنیادوں پر ناجائز ہے:
اولاً یہ کہ یروشلم کا الحاق اقوامِ متحدہ کے چارٹر اور بین الاقوامی قانون کی خلاف ورزی ہے۔ یہ اقوامِ متحدہ کا مسلّمہ اصول ہے کہ کسی بھی سرزمین پر بزورِ جنگ یا بزورِ طاقت قبضہ نہیں کیا جائے گا۔ مختلف قراردادوں میں جو ۵ جون ۱۹۶۷ء کی اسرائیلی جارحیت سے متعلق تھیں اور اس کے ذریعہ یروشلم کے الحاق سے متعلق تھیں‘ سلامتی کونسل اور جنرل اسمبلی دونوں نے جنگ اور فوجی قوت کے زور پر ہتھیائے جانے والی زمین کو قبول کرنے سے انکار پر زور دیا ہے اور اسرائیل کے ذریعہ یروشلم کی حیثیت تبدیل کیے جانے کو ایک باطل اقدام قرار دیا ہے۔ ان قراردادوں میں کہا گیا ہے کہ اسرائیل کو یروشلم کے الحاق یا اس پر قبضے کی بنیاد پر اس شہر کے کسی حصے پر حکمرانی کا کوئی حق نہیں پہنچتا ہے کہ اس کی پوزیشن ایک ناجائز قابض کی ہے۔
ثانیاً یہ کہ یروشلم کے الحاق اور قبضے کا اسرائیلی اقدام ایک ایسے علاقے پر قبضے کا اقدام تھا جسے جنرل اسمبلی نے اقوامِ متحدہ کے زیرِ انتظام رکھنے کی تاکید کی تھی۔ اس طرح اسرائیلی اقدام جنرل اسمبلی کی قرارداد مورخہ ۲۹ نومبر ۱۹۴۷ء اور اس کے بعد کی قراردادوں کے منافی ہے کہ جو یروشلم کو بین الاقوامی حیثیت دیے جانے پر مکرر تاکید کرتی ہیں۔ اسرائیل اقوامِ متحدہ کی قرارداد کی خلاف ورزی کر کے اس پر حکومت حاصل نہیں کر سکتا۔ یروشلم کی بین الاقوامی حیثیت اس پر اسرائیل کی کسی بھی قسم کی حکمرانی یا خودمختاری کے حق کی نفی کرتی ہے۔
ثالثاً یہ کہ اسرائیل اقوامِ متحدہ کی تخلیق ہے اور اسی نے اسرائیل کے زمینی حدود کا تعین کیا ہے اور ساتھ ساتھ اس کے حقوق اور فرائض کا بھی تعین کیا ہے اور یہ صرف انہی سرزمینوں پر اپنا دعویٰ جما سکتا ہے جو اس کے خالق نے اس کے لیے متعین کیا ہے۔ چنانچہ اسرائیل اپنے ان جغرافیائی حدود سے متجاوز نہیں ہو سکتا جو اس کے خالق نے اپنے چارٹر میں متعین کر دیا ہے اور نہ ہی یہ اپنا تصدیق نامۂ پیدائش (Birth Certificate) ہی دوسرا تحریر کر سکتا ہے۔
مزید برآں اسرائیل نے ان قراردادوں کو بالخصوص قرارداد مورخہ ۲۹ نومبر ۱۹۴۷ء اور قرارداد مورخہ ۱۱ دسمبر ۱۹۴۸ء کو عملی جامہ پہنانے کا اُس وقت عہد کیا ہے جب وہ اقوامِ متحدہ میں بطور رُکن اپنی شمولیت کے لیے درخواست دے رہا تھا۔ موخرالذکر دونوں قرارداد یروشلم کو بین الاقوامی حیثیت دیے جانے پر تاکید کرتے ہیں۔ اسرائیل اپنے اعلانات اور وضاحتوں کی رُو سے پابند ہے اور یہ خود اپنی تحریری یقین دہانیوں کے سبب اقوامِ متحدہ کی قراردادوں کی خلاف ورزی نہیں کر سکتا اور نہ ہی یروشلم پر حکمرانی کے حق کا دعویٰ کر سکتا ہے۔ یروشلم پر قانونی حق یا حکمرانی کے حق کی عدم موجودگی کا اطلاق نئے شہر اور قدیم شہر دونوں پر ہوتا ہے۔ اس امر کے درمیان کہ ۱۹۴۸ء میں یروشلم کے ایک حصے کا اسرائیل کی جانب سے الحاق یا اس پر اس کا قبضہ اور ۱۹۶۷ء میں اس کے دوسرے حصے کا الحاق یا قبضہ کے درمیان ظاہر ہے قانون یا حقیقت کے اعتبار سے کوئی فرق نہیں ہے۔ وہی اسباب جو اول الذکر کو ناجائز قرار دیتے ہیں‘ موخر الذکر کو بھی ناجائز قرار دیتے ہیں۔ ۱۹۶۷ء کی جنگ میں قبضہ کیے جانے والی زمینوں کا قابلِ قبول نہ ہونا ثابت کرتا ہے کہ ۱۹۶۲ء میں بھی قبضہ کیے جانے والی سرزمین قابلِ قبول نہیں ہے۔ لہٰذا ان دونوں صورتوں میں سے کسی بھی صورت میں اسرائیل حکمرانی کا مجاز نہیں ہے۔ یہاں مزید وضاحت کے لیے ایک دوسرے قانونی نکتے کو پیش کیا جاتا ہے کہ نیا شہر اور قدیم شہر مل کر ایک علیحدہ زمینی تشخص کی تشکیل کرتے ہیں جو اقوامِ متحدہ کی سوچ کے تحت ہے یعنی یہ کہ اس کا انتظام ایک بین الاقوامی حکومت کے تحت ہو۔ یہ نہیں سوچا جا سکتا کہ اس علیحدہ تشخص والے شہر کے ایک حصہ کی حیثیت اس کے دوسرے حصے سے مختلف ہو گی۔ یہ غیرقانونی صورتحال جو یروشلم میں پیدا ہوئی ہے‘ وہ ناقابلِ تقسیم ہونے کے حوالے سے ہے اور جو غلطی ۱۹۴۸ء میں کی گئی‘ اس کی تلافی کی بھی اتنی ہی ضرورت ہے جتنی کہ ۱۹۶۸ء میں کی جانے والی غلطی کی تلافی کی ضرورت ہے۔ اس کا ماحصل بالکل واضح ہے‘ وہ یہ کہ اسرائیل کے ذریعہ یروشلم کا الحاق یا اس کا اس پر قبضہ غیرقانونی اور ناجائز ہے اور اسرائیل کا فرض ہے کہ وہ پورے شہر سے دست بردار ہو جائے۔ یہ جارحیت ہے جو فلسطین کے حقیقی باشندوں کی مرضی کے خلاف کی گئی ہے اور یہ اقدام فلسطینیوں کے حقوق کے خلاف اور بین الاقوامی اصولوں کے سراسر خلاف ہے۔
(بشکریہ: روزنامہ ’’ڈان‘‘ کراچی۔ شمارہ: ۲۹؍اکتوبر ۲۰۰۶ء)
Leave a Reply