اسرائیل کے حالیہ عام انتخابات خطے کی سیاست پر دور رس اثرات مرتب کرسکتے ہیں۔ کسی بھی نئی حکومت کے لیے ناگزیر اتحادی کی حیثیت سے ابھرنے والی یش ایتد پارٹی (Yesh Atid Party) کے سربراہ یاری لاپد (Yari Lapid) نے بنیامین نیتن یاہو کے لیے نئے حکمراں اتحاد کی تشکیل انتہائی دشوار کردی ہے۔ پارلیمانی انتخابات میں یش ایتد پارٹی نے ۱۹ نشستیں جیتی ہیں۔ لیکود اور بیتینو پارٹی کے اتحاد کے بعد یش ایتد پارٹی پارلیمنٹ میں سب سے بڑی قوت بن کر ابھری ہے۔ ۱۲۰ رکنی پارلیمنٹ میں لکود اور بین تینو اتحاد نے ۳۱ نشستیں حاصل کی ہیں۔ اب اگر یش ایتد پارٹی نے نیتن یاہو کے ساتھ جانے کا فیصلہ کیا تو پارلیمنٹ میں اس اتحاد کی کم و بیش ۶۷ نشستیں ہو جائیں گی۔ یش ایتد کی ہم خیال ہابایت ہایہودی (Habayit Hayehudi) پارٹی کی گیارہ اور ہاتونا (Hatuna) پارٹی کی چھ نشستیں بھی ممکنہ طور پر اسی اتحاد کا حصہ ہوں گی۔ بہت سے ماہرین کا یہ خیال بھی ہے کہ یاری لاپد خود بھی ۶۴ ارکان پر مبنی حکمراں اتحاد بنانے کی کوشش کرسکتے ہیں مگر خیر یہ قدرے ناممکن دکھائی دیتا ہے۔
یاری لاپد نے کسی بھی حکمراں اتحاد کا حصہ بننے کے لیے دو بنیادی شرائط رکھی ہیں۔ ایک طرف تو وہ چاہتے ہیں کہ ان کی پارٹی کو حکومت میں آئین اور قانون کے مطابق مناسب ترین حصہ ملے اور دوسرے یہ کہ فلسطینیوں سے مذاکرات جلد از جلد شروع کیے جائیں تاکہ خطے میں حقیقی امن کی راہ ہموار ہو اور اسرائیل کی سکیورٹی کو لاحق خطرات بھی ختم یا کم ہوں۔ یاری لاپد نے ایک قانون کا مسودہ بھی تیار کیا ہے، جس کے تحت اسرائیل میں اٹھارہ سال کی عمر کو پہنچنے والا ہر شخص فوجی بھرتی کے مرکز میں حاضر ہوگا اور فوجی افسران طے کریں گے کہ وہ فوجی تربیت کے قابل ہے یا نہیں۔ لازمی فوجی بھرتی کے مسودۂ قانون کو اب تک تمام جماعتوں کی حمایت حاصل نہیں ہوسکی ہے۔ حکومت نہیں بلکہ فوج طے کرے گی کہ کسے فوج کی لازمی سروس میں جانا ہے اور کسے قومی خدمات انجام دینی ہیں۔ مذہبی اداروں کے ۴۰۰ غیر معمولی طلبہ کو البتہ ہر اینلسمنٹ پیریڈ پر لازمی فوجی خدمات سے استثنیٰ ملے گا۔
ایش ایتد پارٹی چاہتی ہے کہ اسرائیل میں مکانات کی قیمتیں اور کرائے معقول سطح پر لائے جائیں۔ تعلیمی اصلاحات پر بھی زور دیا جارہا ہے تاکہ بہتر اور معیاری تعلیم کم فیس پر حاصل کرنا ممکن ہو۔ یہ پارٹی چاہتی ہے کہ کابینہ مختصر ہو یعنی اس کے ارکان کی تعداد زیادہ سے زیادہ اٹھارہ ہو۔ پارٹی میں چند ایک امور پر اختلافات پائے جاتے ہیں۔ تعلیمی اصلاحات پر پارٹی کے تمام حلقے متفق نہیں۔ الٹرا آرتھوڈوکس کی رائے کو نظر انداز کرنے سے یاری لاپد نے انکار کردیا ہے۔ دوسری طرف پارٹی کے چند حلقوں کا کہنا ہے کہ تعلیمی اصلاحات یقینی بنانے کے لیے الٹرا آرتھوڈوکس کی مدد یا حمایت ناگزیر نہیں۔
نیف تالی بینیٹ کی سربراہی میں کام کرنے والی ہابایت ہایہودی پارٹی سے بہتر تعلقات کے معاملے میں ایش ایتد پارٹی میں کم ہی لوگوں کو شبہات کا سامنا ہے۔ انہیں اس بات کا یقین ہے کہ اس پارٹی کے ساتھ مل کر وہ بہتر انداز سے کام کرسکیں گے۔
بنیامین نیتن یاہو نے شاس اور یونائٹیڈ توراہ جوڈوازم کو حکمراں اتحاد کا حصہ بنانے کا عندیہ دیا ہے۔ ساتھ ہی وہ ملک کی دس فیصد آبادی پر مبنی الٹرا آرتھوڈوکس طبقے کے ایک ہمہ گیر مسودۂ قانون پر بھی اتفاق رائے کے حصول کی کوشش کر رہے ہیں۔ اس وقت الٹرا آرتھوڈوکس طبقے کے لوگوں کو فوجی خدمات سے استثنیٰ حاصل ہے۔
یاری لاپد نے واضح کردیا ہے کہ وہ تعلیمی اصلاحات اور آرتھوڈوکس طبقے کے مفادات کی پاسداری کے عہد کے بغیر حکومت کا حصہ نہیں بنیں گے۔ دوسری طرف بنیامین نیتن یاہو نے اس امر کا جائزہ لینا شروع کردیا ہے کہ فلسطینیوں سے مذاکرات کس طور شروع کیے جاسکتے ہیں۔ براک اوباما نے دوبارہ صدر منتخب ہونے کے بعد یہ کہہ دیا ہے کہ اسرائیل کو فلسطینیوں سے ہر حال میں مذاکرات بحال کرنے اور امن کو یقینی بنانا ہوگا۔ لکود پارٹی کے ذرائع کا کہنا ہے کہ بنیامین نیتن یاہو کو بھی اندازہ ہوچکا ہے کہ وہ امریکی صدر سے فلسطینیوں کے معاملے میں ہر نکتے پر شدید اختلاف کے متحمل نہیں ہوسکتے۔ نیتن یاہو کو بہت تیزی سے بہت کچھ طے کرنا ہے۔ نئی حکومت کے حوالے سے ان کے فیصلوں کی غیر معمولی اہمیت ہوگی۔ اگر وہ چاہتے ہیں کہ اسرائیل میں استحکام ہو اور عالمی برادری میں اس کے حوالے سے شکوک و شبہات ختم ہوں تو لازم ہے کہ خطے میں ہر قیمت پر امن کو یقینی بنایا جائے اور ملک میں بھی حقیقی استحکام کی راہ ہموار کی جائے۔ اسرائیل میں نئی حکومت کے قیام کے حوالے سے کچھ کہنے سے امریکی ایوان صدر نے گریز کیا ہے۔
نیتن یاہو اب تک دو ریاستوں کے نظریے کو تسلیم کرنے کے لیے تیار نہیں۔ دوسری طرف امریکی صدر چاہتے ہیں کہ فلسطینی ریاست قائم ہو اور فلسطینی بھی اسرائیل کے وجود کو تسلیم کرلیں۔ ایسے میں دونوں رہنماؤں کے تعلقاتِ کار کیا نوعیت اختیار کریں گے، یہ مبصرین کے لیے الجھن کا باعث ہے۔
مشرق وسطیٰ میں امن مذاکرات کے حوالے سے امریکی صدر کے رابطہ کار رابرٹ سیری کا کہنا ہے کہ اب ہاتھ پر ہاتھ دھرے بیٹھے رہنے کا وقت گزر گیا۔ فلسطین کا مسئلہ حل کرنے کے ٹھوس بنیاد پر کچھ نہ کچھ کرنا ہوگا۔ اگر دو ریاستوں کے نظریے کو بچانا ہے تو عملی طور پر بھی کچھ کرنا ہی پڑے گا۔ رابرٹ سیری مزید کہتے ہیں کہ اگر اسرائیل معاملات کو درست رکھنا چاہتا ہے تو اسے فلسطینی علاقوں میں ٹیکس اور دیگر ذرائع سے آمدنی یقینی بنانی ہوگی۔ اس معاملے میں تاخیر کی گنجائش نہیں۔ اگر اسرائیل دو ریاستوں کے نظریے کو کسی بھی سطح پر قابلِ قبول سمجھتا ہے تو اسے فلسطینی علاقوں میں یہودیوں کی آباد کاری روکنی ہوگی۔ جب تک یہودی بستیاں بسائی جاتی رہیں گی، تب تک فلسطینیوں کے دلوں میں نفرت کی آگ بھی بھڑکتی رہے گی۔ حقیقی اور ہمہ گیر امن کو یقینی بنانے کے لیے چند ایسے فیصلے کرنا ہوں گے جن میں جرأت نمایاں ہو۔
رابرٹ سیری کہتے ہیں کہ نیتن یاہو کا ذہن بعض معاملات میں اب تک واضح نہیں۔ کسی کو کچھ اندازہ نہیں کہ وہ کیا چاہتے ہیں۔ فلسطینی ریاست کے قیام اور اسے تسلیم کرنے کے معاملے میں نیتن یاہو نے تا حال کوئی ایسی بات نہیں کہی جسے گرین سگنل تصور کیا جائے۔ مگر خیر انہیں بہت جلد کوئی نہ کوئی فیصلہ تو کرنا ہی پڑے گا۔ امریکی صدر بھی اس معاملے میں سنجیدہ ہیں۔
(“Impact of Israeli Elections on the Region”… “The Jordan Times”. Jan. 26th, 2013)
Leave a Reply