اسلام ایک مکمل دین اور طریقۂ زندگی ہے۔ اس کا پیش کردہ نظامِ فکر و عمل ہر دَور کے انسان کی انفرادی اور اجتماعی زندگی کے ہر پہلو کے لیے واحد قابلِ عمل ضابطۂ ہدایت ہے۔ اسلام کا پیروکار اس بات کا پابند ہے کہ اپنی خواہشات کو اللہ کے دین کے تابع کردے اور کسی بھی خواہش کی تکمیل و تسکین کے لیے صرف وہی راستہ اور طریقِ کار اپنائے جس کا تعین دین میں کیا گیا ہے۔
اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: ’’اے لوگو جو ایمان لائے ہو، دائرہ اسلام میں پورے کے پورے داخل ہو جائو‘‘۔
اور رسول اللہﷺ نے فرمایا ہے: ’’تم میں سے کوئی بھی اُس وقت تک مومن نہیں ہو سکتا جب تک اس کی خواہشات میری لائی ہوئی تعلیمات کے تابع نہیں ہو جائیں‘‘۔
اس آیت اور حدیث سے ثابت ہے کہ اسلامی تعلیمات کا دائرہ انسان کی پوری زندگی پر محیط ہے۔ یہ تعلیمات انسانی زندگی کے ہر فکری و عملی پہلو کے لیے راہنما اصول فراہم کرتی ہیں جن کی پشت پر رسول اللہﷺ کا نمونۂ عمل (اُسوۂ حسنہ) موجود ہے۔
اسلامی تعلیمات جس تہذیب و ثقافت یعنی طرزِ معاشرت کی آئینہ دار ہیں اُس کے ذیل میں صرف معاشرتی زندگی کے چند مخصوص پہلو ہی زیرِ بحث نہیں آتے، بلکہ اسلام تہذیب و تمدن یا ثقافت کا ایک مکمل اور جامع تصور پیش کرتا ہے جس میں انسانی فکر و عمل کے ہر زاویے کی اصلاح و تہذیب کا بھرپور اہتمام پایا جاتا ہے۔
جہاں تک اس بات کا تعلق ہے کہ ثقافت سے صرف کسی قوم کی مخصوص سرگرمیاں اور فنونِ لطیفہ مراد لیے جاتے ہیں تو اس کے پیچھے خاص سبب کارفرما ہے۔ اس کا اطلاق اسلامی ثقافت پر کرنا درست نہیں ہے۔ ڈاکٹر نصیر احمد ناصر لکھتے ہیں:
’’اردو میں مخصوص ثقافت کی اصلاح کے ساتھ ایک عبرتناک حادثہ پیش آیا ہے کہ وہ اپنے معانی کی رفعت و وسعت سے محروم ہو کر محدود و متبذل مفہوم میں استعمال ہونے لگی، مدرسے سے نکل کر نگار خانے میں چلی گئی ہے اور اس سے عموماً رقص و سرود، تمثیل نگاری،فنکاری وغیرہ مراد لی جاتی ہے۔ اس طرح اس کی معنوی جولان گاہ سمٹ کر فنونِ لطیفہ تک محدود ہو گئی ہے۔ ایسا کیوں ہوا ہے؟ اس کا سیدھا سادا اور مختصر جواب یہ ہے کہ اسلام دشمن ابلیسی قوتوں نے مسلمانوں کو فکری اور عملی طور پر گمراہ کرنے کے لیے ایک سوچے سمجھے عالمگیر منصوبے کے تحت ثقافت کے مفہوم کو محدود و سوقیانہ بنا دیا ہے‘‘۔
یہ ایک حقیقت ہے کہ اسلام نے ایسی تہذیب کی تخلیق کی ہے جو ہمہ گیر اور پوری حیاتِ انسانی پر محیط ہے اور اس میں مقصدِ زندگی کا ایک پورا فلسفہ پایا جاتا ہے۔
کاروانِ تہذیب کی راہ نمائی
اسلامی تہذیب میں اقوامِ عالم کی تہذیبوں کی قیادت اور اصلاح کی بھرپور صلاحیت پائی جاتی ہے۔ کسی بھی قوم کی تہذیب میں پائی جانے والی کوئی بھی خوبی درحقیقت اسلامی تہذیب سے ماخوذ ہے۔
ڈاکٹر بی۔کے۔نریان لکھتے ہیں:
’’اسلام دنیا میں اُس وقت ظہور پذیر ہوا جب قدیم تہذیبیں مثلاً بازنطینی، ایرانی اور ہندوستانی تہذیبیں خشک ہو چکی تھیں اور ہر جگہ لوگ جابر طبقے اور ظالمانہ نظاموں سے نجات کے منتظر تھے، جو کہ قدیم تہذیبوں کی مشترک خصوصی تھی‘‘۔
ڈاکٹر آغا افتخار حسین تاریخی جائزہ لیتے ہوئے اسلامی تہذیب کی زرخیزی، انقلاب آفرینی اور دنیا کی تہذیبوں کی راہنمائی کی خوبیوں پر یوں روشنی ڈالتے ہیں:
’’انسان کی تہذیبی تاریخ میں اسلام کی حیثیت ایک دینِ فطرت ہی کی نہیں بلکہ ایک عظیم ذہنی اور معاشرتی انقلاب کی بھی ہے۔ اسلام کے ظہور کے وقت دنیا شدید تہذیبی انحطاط سے دوچار تھی۔ آج کا تہذیب یافتہ یورپ قرونِ وسطیٰ کی تاریکیوں میں ڈوبا ہوا تھا۔ وادی نیل، وادی دجلہ و فرات اور وادی سندھ کی قدیم تہذیبیں عروج پر پہنچ کر زوال کا شکار ہو چکی تھیں۔ یونانی افکار کا یہ سنہری دَور بھی ختم ہو چکا تھا۔ اس عرصے میں یورپ میں مملکتِ روما تہذیب کی ایک نئی نوید لے کر ابھری تھی لیکن… یہ عظیم مملکت (تہذیب) بھی زوال پذیر ہو گئی۔ اس طرح مشرق اور مغرب میں تہذیب کا ایک خلاء پیدا ہو گیا۔ اس خلاء کو اسلام نے نہایت کامیابی سے پُر کیا‘‘۔
تہذیبی ترقی کے لیے ذہنی ارتقاء ضروری ہے، اس لیے کہ فکر و نظر کا تعلق انسانی ذہن سے ہے۔ انسان کا ذہن جس قدر صاف اور حقیقت پسند ہو گا اتنا ہی وہ فطرت سے قریب تر اور فکری ارتقاء کا حامل ہو گا۔ نتیجتاً جب یہ رویہ مضبوط اور پائیدار تہذیب و ثقافت کی ترقی میں کارفرما ہو گا تو وہ تہذیب یقینا دوسروں کے لیے امتیازی طور پر قابلِ قبول ہو گی۔ اسلام نے ایسی ہی تہذیب کو پروان چڑھایا ہے۔ اس حقیقت کا اعتراف مغربی مفکرین کو بھی ہے۔ چنانچہ عصرِ حاضر کے ایک مغربی دانشور ایس۔ پی۔ ہنٹنگٹن کا کہنا ہے:
’’یورپی ثقافت نے مغرب کے مخصوص حالات اور مفادات کے تحت گیارہویں اور تیرہویں عیسوی صدیوں کے دوران اعلیٰ اسلامی اور بازنطینی تہذیبوں سے قابلِ لحاظ تناسب میں موزوں عناصر اخذ کرتے ہوئے ترقی کا آغاز کیا‘‘۔
اسی طرح ایک اور مغربی مفکر Ingmarcarlson نے تہران میں ’اسلام اور مغرب‘ کے موضوع پر اپنے خطاب کے دوران یہ اعتراف کیا:
’’ہماری تہذیب اور تمدن، اسلام کے کس قدر ممنونِ احسان ہیں اور مسلمان علماء نے ان یونانی علوم و فنون کی ترقی و تحفظ میں جنہیں ہم مغربی تہذیب کی بنیاد قرار دیتے ہیں، کیا کردار ادا کیا، اس بارے میں لوگ بہت زیادہ واقف نہیں۔ مسلمانوں نے نہ صرف قدیم یونان اور روم کا فکری سرمایہ محفوظ رکھا، بلکہ انہوں نے تشریح و تعبیر کے ذریعے اس میں اضافے کیے۔ انسانی تلاش و جستجو کے متعدد میدانوں میں اُن کے کارنامے بنیادی اہمیت کے حامل ہیں‘‘۔
مغربی مفکرین کے یہ اعترافات مظہر ہیں کہ اسلام علوم اور تہذیب کا سرچشمہ ہے اور دیگر اقوام نے علمی و تہذیبی طور پر اسلام ہی سے استفادہ کیا ہے۔ خواجہ کمال الدین لکھتے ہیں:
’’اسلام سے پہلے اگرچہ مختلف قومیں کارگاہِ ہستی میں برسرِ اقتدار رہیں جنہوں نے تہذیب و تمدن کو اپنا نصب العین قرار دیا، لیکن تہذیب کا وہ نظریہ اور اس کے حصول کا وہ طریقہ جو آج عام طور سے مسلّم اور مقبول ہے، اسی دن دنیا کو نصیب ہوا جس دن قرآن کریم نے اس حقیقت کا درس دنیا کو دیا اور قرونِ اُولیٰ کے مسلمانوں نے اس ہدایت کو اپنا دستور العمل بنایا‘‘۔
اسلامی تہذیب و معاشرت کے حوالے سے شیخ الاسلام علامہ ابن تیمیہؒ نے اپنی مشہور تصنیف ’اقتضاء الصراط المستقیم‘ میں بھرپور بحث کی ہے۔ انہو ںنے اسلامی اور غیر اسلامی تہذیب و ثقافت کے درمیان فرق کی وضاحت دلائل کی روشنی میں کی ہے اور اسلامی طرزِ زندگی کو جامع اور ہمہ گیر تہذیب ثابت کیا ہے۔ ایک جگہ فرماتے ہیں:
’’دینِ کامل کے آنے کا مطلب ہی یہ ہے کہ اگلی (پہلی) شریعتیں اور تہذیبیں ناقص تھیں، یا بعد میں ان میں نقص پیدا ہو گیا اس لیے کہ اگر وہ آخری سچائی ہوتیں تو پھر نئے دین، نئی کتاب اور نئے رسولؐ کے بھیجنے کی ضرورت ہی کیا تھی؟ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ اسلام اس لیے آیا تھا کہ تہذیبوں کو سہارا دے اور ان کے صالح نقوش کو ابھارے۔ مذاہب کی تجدید و اصلاح کرے، وقت کی مانگ اور زمانے کے تقاضے کو پورا کرے، تاریخِ انسانیت کے خلاء کو بھر دے اور فکر و نظر کی خلیج کو پاٹ دے‘‘۔
دیگر تہذیبوں پر اثرات
یورپ کی جہالت اور تہذیب سے ناآشنائی ایک تاریخی ریکارڈ ہے اور یہ بھی کہ یورپ کی تاریک راہیں اسلامی علم و دانش اور تہذیب و تمدن کے چراغوں سے روشن ہوئیں۔ امجد حیات ملک لکھتے ہیں:
’’یورپ کی صدیوں پرانی اخلاقی اور علمی ویرانی کے دَور میں اسلام نے ترقی کے ہراول دستے کی قیادت کی۔ عیسائیت نے اپنے آپ کو قیصر روم کے تخت پر تو متمکن کر لیا لیکن اقوامِ عالم کی ہدایت اور راہنمائی میں ناکام رہی۔ چوتھی صدی سے بارہویں صدی عیسوی تک یورپ پر چھائی ہوئی ظلمتوں کے پردے دبیز سے دبیز تر ہوتے چلے گئے۔ کلیسا نے وہ تمام راہیں جن سے علم، انسانیت اور تہذیب کا دَور شروع ہو سکے مسدود کر دیں… لیکن پھربھی وقت کے ساتھ اسلام کے بابرکت اثرات عیسائی دنیا میں پہنچ کر محسوس ہونے لگے‘‘۔
غیر جانبدار مغربی مؤرخین نے بھی اس حقیقت کا اعتراف کیا ہے اور اسے یورپ پر مسلمانوں کا احسان تسلیم کیا ہے کہ اسلامی تہذیب و ثقافت نے اُس دَور کی غیر مہذب اقوام میں علمی بیداری اور تہذیبی انقلاب کی روح پھونکی۔ عرب دنیا کی مصنفہ ڈاکٹر نجلاء عزیز الدین نے لکھا ہے:
’’تیرہویں صدی (عیسوی) کے دوران جو لوگ یورپ کے ذہنی راہنما تھے، انہوں نے مسلم تہذیب کی برتری کا اعتراف کیا ہے۔راجر بیکن کی نظر میں عیسائیو ںکی مسلمانوں سے شکست کھانے کا سبب یہ ہے کہ عیسائی سامی زبانوں اور اطلاقی سائنس (Applied science) سے ناواقف تھے اور مسلمان ان میں بڑے ماہر تھے۔ مسیحیت کے بڑے بڑے اساتذہ پر مسلم تخیل کا رنگ بہت گہرا چڑھا ہوا تھا‘‘۔
برطانیہ میں مارک فیلڈ انسٹی ٹیوٹ آف ہائر ایجوکیشن کی نئی عمارت کے افتتاح کے موقع پر برطانوی شہزادہ چارلس نے اپنے تاثرات بیان کرتے ہوئے دین اسلام اور اسلامی طرزِ معاشرت کی حقانیت اور جاذبیت کا اعتراف کیا۔ انہوں نے تاریخی حوالوں سے بتایا کہ:
’’عالمی تہذیب کی حُسن کاری میں اسلام کا بہت بڑا کنٹری بیوشن (ہاتھ) ہے۔ مسلمانوں نے انسانی فلاح کے ایسے ایسے کارہائے نمایاں انجام دیے ہیں کہ ہم اُن کے احسانوں کا بدلہ نہیں چکا سکتے‘‘۔
جس طرح اسلام دین فطرت ہے اسی طرح اس کی پیش کردہ تہذیب بھی فطری تہذیب ہے۔ جس میں فطری جاذبیت ہے۔ ایک غیر جانبدار انسان خواہ اُس کا کوئی بھی مذہب ہو اس سے متاثر ہوئے بغیر نہیں رہ سکتا۔ یہ حقیقت ہے کہ دنیا بھر کی تہذیبوں پر اسلامی تہذیب فائق ہے اور سب پر اس کے گہرے اثرات مرتب ہوئے ہیں۔
۱۹۶۸ء میں بھارت میں گرجا گھروں کی کارکردگی کے حوالے سے لندن سے ایک کتاب شائع ہوئی تھی جس میں اگرچہ مسلمانوں اور اسلام کو ہدف تنقید بنایا گیا تھا، تاہم اس میں اس امر کا اعتراف بھی تھا کہ:
’’بھارت میں اسلام کئی صدیوں سے موجود ہے۔ اس نے اپنے اردگرد کے لوگوں کو متاثر بھی کیا ہے اور ماحول کا اثر بھی لیا ہے‘‘۔
اسلام اور اسلامی تہذیب نے ہمیشہ دوسرے مذاہب اور تہذیبوں کو متاثر کیا ہے۔ جہاں تک ماحول کا اثر قبول کرنے کا تعلق ہے تو ایسی بات اسلام کی حقانیت اور اسلامی تہذیب کی آفاقیت کے منافی ہے۔ البتہ اسلام میں ہر اس چیز کے لیے گنجائش ہے جو ظاہری و باطنی کسی بھی طرح سے اسلامی اصول سے متصادم نہ ہو۔
احمد عبداللہ لکھتے ہیں:
’’جب مسلمان اسپین، پرتگال اور جنوبی یورپ میں داخل ہوئے ان علاقوں میں اسلام پھیلنا شروع ہو گیا، لیکن یہ پھیلائو کسی بھی اور علاقے کی نسبت سست تھا۔ ہسپانوی لوگوں کی ایک بڑی تعداد نے نہ صرف اسلام قبول کیا بلکہ عربی زبان اور اسلامی تمدن کو بھی جوش و خروش سے اپنایا‘‘۔
Murray T.Titus نے بھارت میں اسلام کی اشاعت اور اسلامی تہذیب کی اثر پذیری کے تعلق سے لکھا ہے:
’’مالابار کے ساحل پر اشاعتِ اسلام کی ایک دلچسپ وجہ وہاں کے لوگوں کو مسلمان بنانے میں کالی کٹ کے Zamorin کا کردار تھا۔ کہا جاتا ہے کہ اُس نے نچلی ذات کے لوگوں کی آزادانہ طور پر مسلمان ہونے کی حوصلہ افزائی کی… اُس نے اس حد تک حکم دیا تھا کہ اُس کی حکومت میں ماہی گیروں کے ہر خاندان میں ایک یا ایک سے زیادہ مردوں کی پرورش مسلمان کے طور پر ہونی چاہیے۔ اس طرح ہندو معاشرے کی ایک سیاسی ضرورت نے جنوبی ہندوستان میں اشاعت اسلام میں ہاتھ بٹایا… ہندوستان کی نچلی ذاتوں میں سے برگشتہ ہونے والوں نے بھی معاشرتی آزادی کا درجہ حاصل کرنے کا موقع پاتے ہوئے جو کہ ہندومت کے ظالمانہ اور غیر لچکدار ذات پات کے نظام نے انہیں دینے سے انکار کر رکھا تھا اسلام کو خوش آمدید کہا‘‘۔
مساوات، عدل و انصاف اور احسان و مروت جو اسلامی تہذیب کی نمایاں خصوصیات میں سے ہیں اور جن کی بدولت معاشرے کے دَبے کُچلے اور مظلوم طبقات کو ہمیشہ اعتماد اور اطمینان نصیب ہوا ہے دیگر اقوام اور اُن کے رہن سہن پر گہرے اثرات مرتب کرتی ہیں۔ ہندو معاشرہ، جو شروع سے ذات پات اور دیگر ظالمانہ رسوم کی تصویر پیش کرتا رہا ہے اس کے مظلوم و محکوم طبقے نے اسلامی طرزِ معاشرت کو اپنے لیے باعث کشش محسوس کیا، چنانچہ اُن میں سے بڑی تعداد نے دائرہ اسلام میں داخل ہو کر اسلامی تہذیب کے ثمرات سے عملی طور پر استفادہ کیا۔ عبدالمجید سالک رقم طراز ہیں:
’’اس میں شک نہیں کہ بعض مسلمان سلاطین و امراء اس مقدس مذہب کے دعوے دار ہونے کے باوجود اس کے معیاروں پر پورے نہ اترے اور اسلام کے لیے ننگ و رسوائی کے موجب ہوئے، لیکن مسلمانوں کی بہت بڑی تعداد اپنے دین کے احکام پر کاربند رہ کر اہلِ ہند کے سامنے اسلام اور قرآن کی صحیح تعلیم کا نمونہ پیش کرتی رہی، جس سے ہندو قوم نے کافی فائدہ اٹھایا، گو اس فائدے سے پوری طرح بہرہ یاب نہ ہو سکی‘‘۔
ڈاکٹر قاری محمد یونس نے مالدیپ کے بارے میں لکھا:
’’مالدیپ میں اسلام ایک انقلاب کی طرح آیا اور آن کی آن میں اس نے یہاں کے تمام باشندوں کی کایا پلٹ کر رکھ دی… ان کے ذہن بدل گئے، اُن کے نظریات و افکار بدل گئے ان کے عقائد بدل گئے، اُن کے تہوار بدل گئے‘‘۔
احمد عبداللہ، زرتشت اور ہندو مت کے پیروکاروں، نیز تاتاریوں اور منگولوں پر اسلامی تہذیب کے اثرات بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
’’زرتشتوں نے حلقۂ اسلام میں اس لیے شمولیت اختیار کی، کیونکہ پادری اپنی طاقتور حیثیت سے بلاجواز فائدے اٹھا رہے تھے اس کے نتیجے میں ان کے اقتدار کی تباہی کے ساتھ ابتری پیدا ہوئی۔ ہندو مت سے اسلام کے سایۂ عاطفت میں آنے کی عمومی وجہ ذات پات کے امتیازات تھے، جو معاشرے کے ایک طبقے کے ساتھ انتہائی بے انصافی کے ذمہ دار تھے۔ منگولوں اور تاتاریوں نے اپنے عہد کے مسلمانوں کے ترقی یافتہ تمدن اور تعلیمی و سائنسی کارناموں سے متاثر ہو کر اسلام قبول کیا‘‘۔
آگے وہ افریقی باشندوں اور ہندوستان کے اچھوتوں کے اسلام سے متاثر ہونے کی وجہ بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
’’مغرب کے ہاتھوں رنگ اور دیگر خود ساختہ معیاروں کی بنیاد پر ظلم اور استیصال کا نشانہ بننے کی وجہ سے افریقا کے لوگوں کی بڑی تعداد پہلے ہی دائرۂ اسلام میں داخل ہو رہی ہے۔ یہ ان کی ضرورت ہے، جو انہیں اسلام کی طرف لارہی ہے۔ اسی طرح ہندوستان میں اچھوتوں کا معاملہ ہے… یہ پسے ہوئے لوگ محسوس کرتے ہیں کہ صرف اسلامی معاشرہ ہی انہیں مساوات اور بھائی چارہ کی لازمی اور یقینی ضمانت دیتا ہے جو کہ شریعت کے ذریعے مستقل قدروں اور اصولوں کی روشنی میںقائم ہوتا ہے۔ اسلام کو ان کی کوئی ضرورت نہیں بلکہ انہیں اسلام کی ضرورت ہے‘‘۔
ڈاکٹر غلام جیلانی برق تحریر کرتے ہیں:
’’کسی وقت میں اسلام نے بھی نوآبادیات قائم کی تھیں۔ ہم عرب سے نکل کر جنوب میں ملتان، شمال میں بحیرۂ اسود، مشرق میں چینی ترکستان اور مغرب میں مراکش اور اسپین تک جاپہنچے تھے۔ ہم اسپین میں آٹھ سو برس رہے۔ ہند پر ہزار سال حکومت کی… ان ممالک کے باشندوں نے ہماری حکومت کو جس کی بنیاد عدل و احسان اور علم و عشق پر رکھی گئی تھی اور جس کا مقصد انسان کا رابطہ اللہ سے قائم کرنا تھا اس قدر پسند کیا کہ انہوں نے ہماری تہذیب و مذہب تک کو اپنالیا‘‘۔
اسلامی تہذیب کا ماخذ دینِ فطرت ہے۔ فطرت کے اصول سچائی کے آئینہ دار، ہمہ گیر اور قطعی ہوتے ہیں اور ہر زمانہ کے فطری تقاضوں کو پورا کرتے ہیں۔ انہی اصولوں کی بدولت اسلامی تہذیب میں فطری کشش اور جاذبیت پائی جاتی ہے۔ یہ بات دنیا کے کسی اور نظام اور تہذیب میں نہیں پائی جاتی۔ یہی وجہ ہے کہ اسلامی تہذیب تاریخ کے ہر دَور میں ممتاز رہی ہے اور دوسری اقوام نے بہ رضا ورغبت اس کے گہرے اثرات قبول کیے ہیں۔ اسلامی تہذیب کا ایک وصف سادگی بھی ہے اور آج اقوامِ عالم تکلّفات سے بیزار ہو کر سادہ زندگی کی طرف لوٹ رہی ہیں۔
ڈاکٹر فخر الدین فواد نے دینِ اسلام کے تحت معرض ظہور میں آنے والی تہذیب کی انفرادیت پر تبصرہ کرتے ہوئے لکھا ہے:
’’اسلام کے ظہور نے دنیا کے تختہ پر ایک نئے تمدن اور ایک نئی تہذیب کو جنم دیا۔ دنیا کا فرسودہ نظام بدل کے رکھ دیا۔ دنیا کے اندر بہ انداز نو نظم و نسق قائم کیا، دستورِ زندگی کی طرح ڈالی‘‘۔
بھارت کی مشہور شاعرہ اور سیاست دان مسز سروجنی نائیڈو (Sarojini Naidu) نے اسلام، پیغمبراسلامﷺ اور اسلامی تہذیب کی آفاقی صداقت کا اعتراف کیا ہے۔ وہ لکھتی ہیں:
’’تاہم میں اپنے آپ کو اس قابل پاتی ہوں کہ اُس عالمگیر اخوت کا آپ کے سامنے اعتراف کروں جس کے نقش میرے دل پر موجود ہیں اور وہ حضرت محمدﷺ کی پاکیزہ اور شاندار کوششوں کا نتیجہ ہیں… وہ پاک انسان ایک نفرت سے بھرپور، بغض و تعصب سے مخمور دنیا کی طرف آیا اور اس صحرا کے اندر جو اس کی پیدائش کا گہوارہ تھا، ایک نہ مٹنے والی صداقت کا اُس پر انکشاف ہوا‘‘۔
ڈاکٹر برنارڈلیوس، پروفیسر پرنسٹن یونیورسٹی لکھتے ہیں:
’’ایک ہزار سال سے زائد عرصے تک اسلام نے پبلک اور سماجی زندگی کے انتظام کے لیے عالمی طور پر قابل قبول واحد مجموعۂ اصول و ضوابط مہیا کیا ہے۔ یہاں تک کہ جن ملکوں میں زیادہ سے زیادہ یورپی اثر و رسوخ رہا، جن پر یورپ کی حکومت رہی یا جو ویسے یورپ کی شہنشاہی طاقتوں کے زیر تسلط رہے اور وہ بھی جو یورپی تسلط سے بالکل آزاد تھے، وہاں اسلام کے سیاسی تصورات اور رجحانات کا گہرا اور نفوذ پذیر اثر رہا۔ حالیہ برسوں میں وہ تصورات اور رجحانات اپنے گزشتہ غلبے کی نسبت ترمیم شدہ شکلوں میں ظہور پذیر ہو سکتے ہیں‘‘۔
پروفیسر عبدالصمد نے اپنے ایک مضمون میں پیغمبر اسلامﷺ کے پیغام کے بارے میں ڈاکٹر ڈی رائٹ، کونٹ ٹالسٹائے، ڈاکٹر لین پول، سرولیم میور، بابو جگل کشور کھنہ، سوشیلا بھائی، گاندھی جی، سوامی دیانند، ڈاکٹر لیبان، مسٹر ایچ جی ویلز، ڈاکٹر موریس فرانسس، گرونانک سمیت ایک سو سے زائد غیر مسلم دانشوروں، سیاستدانوں اور لیڈروں کے تحسینی تاثرات جمع کر دیے ہیں۔
(بحوالہ: سہ ماہی ’’تحقیقات اسلامی‘‘ علی گڑھ۔ جولائی تا ستمبر۲۰۱۰ء)
Leave a Reply