اکلوتا سپر پاور جو ساری دنیا کو عدل و انصاف اور ڈیمو کریسی کا درس دیتے ہوئے پولیس مین کا کردار ادا کر رہا ہے لیکن اس کے ملک کے اندر جیلوں میں کیا ہو رہا ہے۔ رائٹر کے مشہور کالم نگار الان ایلسنر (Alan Elsner) نے اپنی نئی کتاب “Gates of Injustice” (ناانصافی کے دروازے) میں چونکا دینے والے انکشافات کیے ہیں جس سے بہت کم لوگ واقف ہیں۔
اعداد و شمار کے مطابق صنعتی دنیا میں سب سے زیادہ ’’اوسط‘‘ جیلوں میں قیدیوں کی تعداد امریکی جیلوں میں (۲ء۲ ملین سے زیادہ) رہتی ہے۔ اس طرح ہر ایک لاکھ کی آبادی میں سے سات سو دو افراد امریکی جیلوں میں رہتے ہیں۔ دوسرے نمبر پر روس ہے جہاں پر ایک لاکھ میں سے چھ سو اٹھائیس افراد جیلوں میں رہتے ہیں اور برطانیہ و فرانس میں ۱۳۸ اور ۹۰ افراد ترتیب وار رہتے ہیں۔
حیرت انگیز طور پر تین دہائیوں میں امریکا میں جرم کی تعداد میں بہت تیزی سے اضافہ ہوا ہے۔ جیسے ۱۹۷۲ء میں امریکی جیلوں میں اوسطاً ایک لاکھ میں سے ۱۶۰ افراد ہوا کرتے تھے۔ اس طرح دنیا کے پچیس فیصد قیدی امریکی جیلوں میں رہتے ہیں جبکہ امریکا میں دنیا کی صرف پانچ فیصد آبادی رہتی ہے۔ ایک دفعہ مشہور سماجی کارکن جیسی جیکسن نے فکرمند ہو کر کہا تھا کہ کمزور انسانی حقوق کا ریکارڈ رکھنے والے ملک چین سے بھی پانچ لاکھ زائد قیدی امریکا میں رہتے ہیں جبکہ امریکا کی آبادی چین کے مقابلے میں ایک چوتھائی سے کم ہے۔ حکام کی جانب سے کہا جاتا ہے کہ امریکا میں ہم غریب و جاہل‘ غیرمتوازن اور نشہ کے عادی افراد کو بند کرتے ہیں جبکہ دوسرے ممالک میں علاج‘ نفسیاتی علاج اور دیکھ بھال کرتے ہیں۔
ایلسنر آگے لکھتے ہیں کہ افریقی امریکی نوجوانوں میں ہر (۲۰۔۳۴ سال عمر کے) آٹھواں نوجوان اور اسی طرح ہر پچیسواں نوجوان ہسپانوی سلاخوں کے پیچھے بند ہیں۔ اس طرح تقریباً ہر تیسرا افریقی امریکی اور ہر پانچواں ہسپانوی فرد اوسطاً عمر قید کی سزا کاٹ رہا ہے۔ اس طرح امریکا میں جیل نظام پر ۵۷ بلین ڈالر سے زیادہ سالانہ خرچ آتا ہے۔ جبکہ سارے مرکزی نظامِ تعلیم پر صرف ۴۲ بلین ڈالر کا خرچ آتا ہے۔
ایلسنر آگے لکھتے ہیں کہ دس سالوں میں ریاست کیلیفورنیا نے یونیورسٹی نظام سے دس ہزار ملازمین کو فارغ کر دیا ہے اور اتنی ہی تعداد یعنی دس ہزار افراد کو جیل محافظین کے طور پر تقرر کیا۔ اس طرح حکومت ایک یونیورسٹی طالب علم پر چھ ہزار اور ایک قیدی کو سلاخوں کے پیچھے رکھنے پر ۳۴۰۰۰ ڈالر خرچ کرتی ہے۔ اس طرح جیلوں کی تعمیر کے ٹھیکے حاصل کرنے کا کاروبار بھی عروج پر ہے۔
جیلوں کے اندر کے حالات بھی نہایت بھیانک اور چونکا دینے والے ہیں۔ قیدیوں کو سدھارنے اور بہتر ماحول دینے کی اور ایک نئی زندگی کی ابتدا کرنے کی تربیت پر کوئی خاص توجہ نہیں دی جاتی بلکہ جیلوں میں گینگ کی شکل میں دہشت گردی اور غنڈہ گردی اور رنگ و نسل پرستی عام چیز ہے۔ کمزور قیدیوں کا جنسی استحصال کیا جاتا ہے۔ نشہ آور ڈرگس اور جنسی کاروبار عام سی بات ہے۔ کمزور قیدیوں کو غلام بناتے ہوئے خرید و فروخت بھی ہوتی رہتی ہے اور انتظامیہ جانتے ہوئے بھی انجان دکھائی دیتی ہے۔ نتیجتاً جب کوئی قیدی جیل سے چھوڑا جاتا ہے تو وہ قدرے زیادہ دہشت گرد اور زیادہ غصہ میں رہتا ہے اور سوسائٹی میں رہنے کے قابل نہیں رہتا۔
تقریباً دو لاکھ عورتیں بھی جیلوں کے اندر بند ہیں جن میں دو تہائی مائیں ہیں اور بیشتر دہشت گردوں کے گینگ اور محافظوں کی شکار ہوتی ہیں۔
امریکا میں ۱۹۷۰ء کے نسبت جیل کے قیدیوں میں چار سو فیصد اضافہ ہوا ہے۔ ان قیدیوں میں دو تہائی افراد صرف ڈرگس کے استعمال پر قید و بند کی صعوبتیں جھیل رہے ہیں جن میں افریقی امریکی اور ہسپانوی اکثریت میں ہیں۔
’’ناانصافی کے دروازے‘‘ میں ایلسنر نے کئی ایک ناقابلِ یقین حقائق پیش کرتے ہوئے توجہ دلوانے کی کوشش کی ہے کہ امریکی انتظامیہ سماجی و رفاہی اور پسماندہ و نفسیاتی مریض اور غریبوں کے بجٹ میں کمی کرنے کے بجائے اضافہ کرے اور ساتھ ہی جیل نظام کے بجٹ میں اضافہ کے بجائے سماجی و رفاہی اور تربیتی اور باز آباد کاری امور پر زیادہ توجہ دے۔
آخر میں ہمیں اس بات کا اندازہ ہو جاتا ہے کہ ابو غریب اور گوانتا ناموبے جیلوں میں جیل انتظامیہ کی جانب سے جو ظلم و بربریت اور نازیبا انسانیت سوز حرکتیں ہوئی ہیں وہ جیل انتظامیہ اور محافظین کے لیے کوئی نئی بات نہیں ہے بلکہ امریکی جیلوں میں عام سی بات ہے جس پر ساری دنیا کانپ اٹھی اور ایک تہذیب یافتہ قوم کا بھرم کھل گیا۔
{}{}{}
Leave a Reply