امریکی دارالحکومت واشنگٹن میں آجکل قرضوں کے بارے میں طرح طرح کے خدشات کااظہار کیا جا رہا ہے۔ مگر سچ تو یہ ہے کہ قرضوں کا معاملہ بہت حد تک قومی افتخار کا معاملہ بن گیا ہے۔ اور اس کا بنیادی سبب یہ ہے کہ قرضوں کے بارے میں قومی سطح پر اضطراب میں اضافہ ہو رہا ہے۔ صدر بارک اوباما نے ایسا غیر جانبدار کمیشن مقرر کرنے کی ضرورت پر زور دیا ہے جو سرکاری اخراجات میں کمی کے اقدامات کی نشاندہی کرے۔ میڈیا میں یہ نکتہ پوری قوت سے پیش کیا جا رہا ہے کہ قرضوں کے نتیجے میں معیشت بیٹھ جائے گی۔ یونان کے مالیاتی بحران کی مثال دے کر سمجھایا جا رہا ہے کہ قرضوں سے نجات پانا لازم ہے۔ امریکا میں صرف قرضے ہی نہیں بڑھ رہے، خسارے میں بھی اضافہ ہو رہا ہے۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ امریکی قرضوں کی مالیت غیر معمولی ہے جو کھربوں ڈالر میں ہے۔ یہ بھی کہا جا رہا ہے کہ اس سال مجموعی قرضے امریکی قومی پیداوار کے مساوی ہو جائیں گے۔ اس نکتے پر بھی اتفاق پایا جاتا ہے کہ قرضوں اور خسارے کو کسی ایک سطح پر روکنا ممکن نہیں۔ کانگریسنل بجٹ آفس کے سابق ڈائریکٹر ڈگلس ہالٹز ایکن نے پالیسی سازوں پرزور دیا ہے کہ وہ عوام کو قرضوں کے بارے میں صرف آگاہ نہ کریں بلکہ انہیں یہ بھی بتائیں کہ ان میں مستقل اضافہ ہماری اجتماعی معاشی خودکشی کے مترادف ہے۔
ہر شخص یہی سوچ رہا ہے کہ قرضوں کی بڑھتی ہوئی مالیت امریکی قوم کی مثالی خوشحالی کے لیے خطرہ ہے۔ لیکن ذرا سوچیے کہ قرضے پریشانی کا باعث ہیں یا ان کے بارے میں اضطراب زیادہ پریشانی پیدا کررہا ہے؟
آیئے، اعداد و شمار پرایک نظر ڈالتے ہیں:
امریکا قرضوں پر سود کی مد میں جو ادائیگی کرتا ہے وہ کچھ زیادہ نہیں۔ ۲۰۱۰ء میں امریکا سود کی مد میں ۵۰۰ ارب ڈالر ادا کرے گا جو افراطِ زر کی شرح کو ذہن میں رکھیے تو ۲۰ سال قبل ادا کی جانے والی رقم سے زیادہ نہیں۔ اور بالخصوص خام قومی پیداوار سے تقابل میں۔ اندرونی قرضوں کا بھی یہی حال ہے۔ یہ قرضے بہت تیزی سے بڑھے ہیں تاہم ان کے سود کی مالیت بھی وہی ہے جو ۱۹۹۹ء میں ہوا کرتی تھی۔
امریکا اگر غیر معمولی قرضوں کا متحمل نہیں ہو سکا ہے تو اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ سود کی شرح خاصی کم ہے۔ ۲۰۰۰ء کے اوائل میں امریکا ۵ء۶ فیصد کی شرح سے سود لیتا تھا۔ اب یہ شرح گھٹ کر صرف ڈھائی فیصد رہ گئی ہے۔ اس کا واضح مطلب یہ ہے کہ اب امریکا ڈھائی گنا زائد قرضے حاصل کر سکتا ہے۔ امریکی معیشت کا حجم بھی ڈرامائی طور پر بڑھا ہے۔ عالمی معیارات کو ذہن نشین رکھیے تو بھی قرضوں کی سطح خطرناک نہیں۔
پریشانی کی بات یہ ہے کہ ایک نہ ایک دن شرح بلند ہو گی اور ظاہر ہے کہ اس کے نتیجے میں سود کی شرح بھی بلند ہو گی۔ اس مکتب فکر کے مطابق قرض دینے والے صرف اس صورت میں قرضے دیتے ہیں کہ انہیں زیادہ رقم واپس ملے۔ اور اس حقیقت کو بھی ذہن نشین رکھنا ضروری ہے کہ چین، بھارت اور برازیل کی غیر معمولی ترقی کے پیشِ نظر اب سرمایہ کار محفوظ منصوبوں کی تلاش میں ہیں۔ امریکی ڈالر اپنی تمام کمزوریوں کے باوجود سرمائے کو محفوظ رکھنے کا ایک اہم ذریعہ ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ سود کی شرح میں فوری اضافے کا امکان نہیں۔ یعنی امریکی قرضے خواہ کتنے ہوں، انہیں عمدگی سے برقرار رکھا جا سکتا ہے۔
خسارے کو ختم کرنا بہتوں کی نظر میں دانش مندانہ اقدام ہو گا۔ تاہم مستقبل میں امریکیوں کی خوشحالی کے لیے یہ شدید مضر بھی ثابت ہو سکتا ہے۔ چین انفرااسٹرکچر پر سیکڑوں ارب ڈالر خرچ کر رہا ہے جبکہ امریکا اپنے پلوں کی مرمت بھی ڈھنگ سے نہیں کرا پا رہا۔ امریکا کو مستقبل کے لیے انفرااسٹرکچر تیار کرنا ہے۔ اسے افرادی قوت تیار کرنے پر غیر معمولی سرمایہ کاری کرنی ہے۔ اس سلسلے میں قرضوں کا بہت اہم کردار ہے۔ اب یہ واشنگٹن کی صلاحیتوں پر منحصر ہے کہ وہ قرضوں کا حصول کس طور ممکن بناتا ہے۔
مکانات کے رہن کی طرح بیشتر اندرونی قرضوں کی ادائیگی بھی کبھی نہیں ہوتی۔ نصف اندرونی قرضے وفاقی حکومت کے ہیں۔ ایک چوتھائی امریکی عوام کے ہیں۔ ڈالر عالمی سطح پر ریزرو کرنسی کا کردار عمدگی سے ادا کر رہا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ قرضوں کو لامتناہی مدت تک جاری یا برقرار رکھا جا سکتا ہے۔ سود کی ادائیگی البتہ لازم ہے، آئندہ عشرے میں بھی یہ صورتحال تبدیل ہوتی نظر نہیں آتی۔ امریکا بہت سے ممالک سے زائد قرضے حاصل کرنے کی پوزیشن میں ہو گا۔
قرضوں کے بارے میں سوچنا ایسا ہی ہے جیسے آپ کا وزن تو خوب بڑھ رہا ہو مگر آپ کو صرف لباس کے سائز کی فکر لاحق رہے۔ امریکی قرضے ختم نہ بھی ہوں تو غیر صحت مند نہیں کہلائیں گے۔ اس کے لیے بنیادی شرط یہ ہے کہ معیشت متحرک رہے۔ مقروضیت امریکا کے لیے مشکلات پیدا نہیں کرے گی اگر وفاقی اور ریاستی حکومتیں قرضوں کو پیداواری سرگرمیوں پر صَرف کریں اور معاشی سطح پر جدت کا بازار گرم رکھا جائے۔
سوال یہ نہیں ہے کہ اس وقت امریکا کے قرضے کتنے ہیں۔ بلکہ یہ ہے کہ مستقبل کی معیشت ان قرضوں کو نبھانے میں کامیاب ہو سکے گی یا نہیں۔
اصل مسئلہ یہ ہے کہ امریکا مستقبل میں سرمایہ کاری نہیں کر رہا۔ امریکی حکومت صحتِ عامہ اور انفرااسٹرکچر پر خاطر خواہ رقوم خرچ نہیں کر پا رہی۔ عالمی معیشت میں مسابقت کے قابل رہنے پر بھی خاطر خواہ فنڈ صَرف نہیں ہو رہے۔ عالمی معیشت کل کے مقابلے میں بہت الجھی ہوئی ہے۔ امریکا پر واجب الادا قرضے اتنی خطرناک بات نہیں جس قدر خطرناک رجحان معاشی عادات کا ہے۔ قرضوں کے بارے میں سوچنے سے زیادہ ضرورت انہیں کارآمد اور پیداواری بنانے کی ہے۔
(بشکریہ: ہفت روزہ ’’ٹائم میگزین‘‘۔ ۱۵ مارچ ۲۰۱۰ء)
Leave a Reply