دس بجے شب کافی اندھیرا تھا۔ اوکاڑہ شہر کے باہر موجودہ بس اسٹاپ اور دیگر آبادی کا اس زمانے میں کوئی نشان نہ تھا۔ لاہور ملتان کے درمیان بسیں بھی کم تھیں۔ دن کے اوقات میں مقامی اور لمبے سفر کی بسیں شہر کے اندر سے گزرتی تھیں اور رات کو سیدھی باہر سے ہی منٹگمری (موجودہ ساہیوال) اور ملتان کا راستہ لیتی تھیں۔ اس دن بھی رات ہو چکی تھی۔ اوکاڑہ کے باہر دیپال پور چوک پر ہر یکے بس کمپنی کی ایک گاڑی رُکی۔ پانچ مسافر نیچے اُترے۔ بس آگے نکل گئی جو لوگ اس جگہ کے پرانے ساکنان تھے، وہ جلدی سے دو سیٹوں والے ایک تانگے میں بیٹھ گئے۔ پانچواں مسافر اجنبی تھا۔ وہ ذرا جھجکا، جھینپا لیکن اس نے تانگے والے سے کہا:
’’بابا! مجھے بھی بٹھا لو‘‘۔
تانگے والا کہنے لگا: ’’ایک دونی (موجودہ بارہ تیرہ پیسے) آمدنی کے لالچ میں پانچ روپے جرمانہ کون ادا کرے گا‘‘۔ مزید کہا: ’’پولیس والا تو چالان کیے بغیر چھوڑتا نہیں‘‘۔
آس پاس کوئی دوسری سواری یا تانگہ نہ تھا۔ نووارد مسافر نے تانگے والے سے درخواست کی کہ اُسے بٹھالے۔ اگر جرمانہ ہوا تو وہ خود ادا کر دے گا۔ دوسرے مسافروں نے بھی اجنبی کی حمایت کی اور تانگے والے کو مائل کر لیا۔ اگلی سیٹ والے مسافروں نے سمٹ سمٹا کر تیسری سواری کو بھی اپنے ساتھ بٹھا لیا۔
ریلوے پھاٹک پر پہنچے تو وہاں واقعی ایک پولیس والا کھڑا تھا۔ گھوڑے کی ٹاپ سن کر اس نے سیٹی بجائی۔ تانگے والا خوف کھانے لگا کہ اب تو پھنس گیا۔ پولیس والے نے تانگہ رکوایا اور ذرا آگے بڑھ کر کوچوان سے توانا لہجے میں قانون کی خلاف ورزی پر باز پُرس کی۔ اس زمانے میں تانگے والا پانچویں سواری نہیں بٹھا سکتا تھا۔ تانگے والے نے منت سماجت کی۔ دوسرے مسافروں نے بھی پولیس والے کو سمجھایا۔ ’’سنتری جی! یہ اجنبی مسافر۔۔۔ اندھیری شب۔۔۔ کوئی دوسرا تانگہ ندارد۔۔۔ اُس کے مجبور کرنے پر تانگے والے نے مجبوری کے تحت یا مسافر نوازی اور مروت میں آکر یہ حرکت کی ہے، آپ اسے جانے دیں‘‘۔ پولیس والا نہیں مانا۔
اب اجنبی مسافر نے پانچ روپے نکال کر تانگے والے کی مٹھی میں دیے۔۔۔ ’’بابا یہ پولیس والے کو دو اور خلاصی حاصل کرو‘‘۔
تانگے والے نے سہمے سہمے وہ پانچ روپے پولیس والے کو پیش کیے اور کہا۔۔۔ ’’یہ جرمانہ ادا کر رہا ہوں، اسے قبول کر لیں اور چالان نہ کریں‘‘۔
پولیس والے نے کہا ’’مجھے جرمانہ نقد وصول کرنے کی اجازت نہیں۔ یہ تو عدالت کا کام ہے کہ جرمانہ کتنا ہونا چاہیے‘‘۔ ویسے لگتا ہے تم مجھے رشوت دے رہے ہو۔ میں اسے بھی تمہارا جرم سمجھ کر رپورٹ میں اضافی دفعہ لگائوں گا‘‘۔ تانگے والا خوف زدہ ہو کر واپس آیا تو اجنبی نے مزید پانچ روپے دیے اور کہا ’’بابا لو یہ دس روپے پولیس والے کو دو۔ شاید پانچ روپے کی رقم اسے تھوڑی لگی ہو‘‘۔ تانگے والے نے حوصلہ کر کے سنتری جی کو دس روپے پیش کیے تو وہ اور بھی غصے میں آیا اور کہا ’’خدا کے بندے! پاکستان بن چکا ہے۔ اس ملک کو ہم نے شریعتِ اسلام پر چلانے کے لیے حاصل کیا ہے۔ سب لوگ قانون اور ضابطے کی پابندی کریں گے تو یہ ملک دینِ اسلام کا روشن پیغام ساری دنیا میں پھیلانے کا سبب بنے گا۔ ہماری انفرادی کوتاہیاں جمع ہو کر پورے ملک کو برباد کر دیں گی۔ تجھے سزا ملنی ہی چاہیے کہ تو قانون کی خلاف ورزی کرتا ہے اور گناہ کے کام کو بھی ترقی دینے کے لیے رشوت جیسا مکروہ فعل انجام دے رہا ہے۔ نام لکھوائو اور صبح کچہری جا کر چالان بھگتو‘‘۔ اور اس طرح پولیس والے نے تانگے والے کا چالان درج کیا۔ اجنبی نے تانگے والے کو مخاطب کیا: ’’گھبرائو نہیں۔ میں اِدھر ہی ہوں۔ تم ذرا مجھے ریسٹ ہائوس اتارو، میں تمہیں ڈبل کرایہ دوں گا۔ صبح نو بجے مجھے اسی ریسٹ ہائوس میں آکر ملنا‘‘۔ ڈبل کرایہ کی وجہ سے تانگے والا ریلوے پھاٹک سے سیدھا اس ریسٹ ہائوس کی طرف چلا گیا جو صدر تھانہ اوکاڑہ کے ساتھ واقع تھا۔ قارئین حیران نہ ہوں کہ اس زمانے میں صرف تین روزنامے لوگوں تک پہنچتے تھے۔ ’’نوائے وقت‘‘، ’’زمیندار‘‘ اور ’’سول اینڈ ملٹری گزٹ‘‘۔ ان میں تصویریں بھی کم کم ہوتی تھیں۔ اخبار خواں بھی نہایت محدود تھے۔ اس لیے عام لوگ نہ اخبار دیکھتے تھے نہ ہی ٹی وی تھے کہ لوگوں نے حکومتی اعلیٰ مناصب پر فائز شخصیات کو دیکھا ہوتا۔ کوئی مسافر شب میں تو اجنبی کو پہچان ہی نہ سکا۔ البتہ تانگے والا ایک طرف تو صبح کی پیشی پر متوقع جرمانے کے تصور سے پریشان تھا اور مزید یہ تشویش بھی اسے لاحق تھی کہ رشوت دینے کا جرم اسے قید ہی نہ کرا دے۔
صبح ہوئی ساڑھے آٹھ بجے ہی تانگے والا ادھر آیا۔ ریسٹ ہائوس کے باہر پولیس والے بھی تھے اور سول افسران کے علاوہ کچھ دیگر معززین بھی موجود تھے۔ تانگے والے کو دیکھتے ہی ایک پولیس والا ازخود آگے بڑھا اور کوچوان سے پوچھا: ’’گورنر صاحب کو ملنے آئے ہو۔۔۔ تانگہ یہاں روکو اور خود میرے ساتھ اندر چلو‘‘۔ تانگے والا سیدھا سادا اﷲ کا بندہ تھا۔ وہ کہاں اور صوبے کا حاکمِ اعلیٰ گورنر کہاں۔ وہ گھبرایا لیکن یہ خیال کر کے کہ یہ وہی اجنبی نہ ہو جسے میں نے گزشتہ رات یہاں اپنے تانگے سے اتارا تھا۔ معلوم ہوتا ہے کہ خان صاحب۔۔ اجنبی۔۔ نے اپنے عملے کو پہلے سے بتا دیا تھا کہ ایک تانگے والا مجھے ملنے آئے گا، اسے روکنا نہیں اور مجھے ملا دینا۔
قارئین یہ اجنبی مرکزی وزارتِ مواصلات چھوڑ کر پنجاب کا پہلا گورنر بننے والا مسلمان حکمراں سردار عبدالرب نشتر تھا۔ انھوں نے اوکاڑہ کے اس وقت کے ایس ڈی ایم (اسسٹنٹ کمشنر کے عہدے پر متمکن عہدے دار کا پہلا نام) کو رات کا سارا واقعہ سنایا اور تانگے والے کو معاف کروانے کی ہدایت کی اور پولیس کے سپاہی کو ایک بالائی عہدے پر ترقی دینے کی سفارش کی اور یہ سفارش مانی بھی گئی۔
مجھے یہ واقعہ میرے تایا مرحوم چوہدری محمد حسین نے بتایا تھا۔ وہ اُسی بس میں اُس اجنبی۔۔۔ گورنر پنجاب سردار عبدالرب نشتر کے لاہور سے اوکاڑہ تک ہم سفر تھے۔ وہ تانگے میں بھی ان کے ساتھ بیٹھے تھے۔ جب انھوں نے اگلی صبح ریسٹ ہائوس میں تانگے والے کو آنے کا کہا تو وہ بھی صبح وہاں گئے۔ یوں انھیں براہِ راست تانگے والے کے ساتھ حسنِ سلوک اور پولیس والے کی ترقی کا ذاتی طور پر علم ہوا تھا۔
دس فروری کو عطاء الرحمن صاحب نے روزنامہ ’’نوائے وقت‘‘ میں اپنے کالم میں ’’۱۹۴۸ء کا پاکستان‘‘ کے حوالے سے بانیٔ پاکستان قائداعظمؒ کا تذکرہ کیا ہے۔ ان کے ایک ساتھی سردار نشترؒ صاحب کے کردار کی ایک جھلک اس واقعہ سے ظاہر ہوتی ہے۔ دورِ حاضر کے حکمراں ان واقعات میں اپنے کردار کا جائزہ لے سکتے ہیں۔ بشرطیکہ وہ پاکستان کو اسلامی جمہوری اور فلاحی مملکت بنانے کے اعلانات میں واقعی مخلص ہوں۔
{}{}{}
Leave a Reply