اقبال کے کلام میں ’’جبرئیل‘‘ اور جبریل‘‘ سے ترتیب دیے گئے اشعار کی معنویت

جبرئیل: قرآن میں حضرت جبرئیل علیہ السلام کا نام صرف جبریل واردہوا ہے۔ لغات کشور ی میں جبرئیل اور جبریل کے علاوہ جبرائیل بھی ہے معنی مقرب و مشہور فرشتے۔ اور ڈاکٹر مولوی عبدالحق کی اردو انگلش ڈکشنری میں صرف جبریل اور جبرائیل ہے۔ مگر سبھوں سے مراد ان لغات میں صرف جبرئیل ؑہیں۔

حضرت جبرئیل ؑ کی ملائکہ میں عظمت کا اندازہ اس سے لگایا جا سکتا ہے کہ جہاں بھی آپؑ کا ذکر قرآن میں وارد ہواہے وہ زیادہ تر ملائکہ سے الگ وارد ہواہے۔

قرآن کی سورۃ النحل کی آیت ۱۰۲ میں حضرت جبرئیل کو ’’روح القدس‘‘ کے لقب سے نوازتے ہوئے رسولr کو مخاطت کر کے فرمایا گیا ہے کہ ان منکروں سے کہو کہ:

’’اسے (قرآن کو ) روح القدس نے ٹھیک ٹھیک میرے رب کی طرف سے بتدریج نازل کیا ہے۔ (نزلہ روح القدس من ربک بالحق) تاکہ ایمان لانے والوں کے ایمان کو پختہ کرے اور فرماں برداروں کو زندگی کے معاملات میں سیدھی راہ بتائے اور انہیں فلاح و سعادت کی خوشخبری دے‘‘۔

’’روح القدس‘‘ کا لفظی ترجمہ ہے ’’پاک روح‘‘ یا پاکیزگی کی روح اور اصطلاحاً یہ لقب حضرت جبریل ؑکا ہے۔ اس آیت میں وحی لانے والے فرشتے کا نام نہ لے کر ’روح القدس ‘کا لقب دیا گیا ہے۔

حضرت جبرئیل ؑکو سورۃ المعارج کی آیت ۴، سورۃ النساء کی آیت ۳۸ اور سورۃ القدر کی آیت ۴ میں صرف ’’روح‘‘ بھی کہا گیا ہے۔

سورۃ النجم کی درج ذیل آیت ۴ تا ۶ میں حضرت جبرئیل کو ’’زبردست قوت والا‘‘ بھی کہا گیا ہے۔ فرمایا گیا ہے :

’’یہ تو ایک وحی ہے جو اُس (رسولr) پر نازل کی جاتی ہے۔ اسے زبردست قوت والے نے تعلیم دی ہے‘‘۔ (علمہ شدید القویٰ) جو بڑا صاحب حکمت ہے۔

سورۃ التکویر کی آیت ۱۹ میں حضرت جبرئیلؑ کو ’’رسول کریم‘‘ اور بڑی توانائی رکھنے والا بھی کہا گیا ہے۔ ارشاد ہے:

’’یہ (قرآن)فی الواقع ایک بزرگ پیغامبر کا قول ہے انہ لقول رسول کریم) جو بڑی توانائی رکھتا ہے۔‘‘

سورۃ النجم کی متذکرہ آیات میں ’’زبردست قوت والے‘‘ سے مراد بعض مفسرین کے نزدیک اللہ کی ذات ہے لیکن مفسرین کی عظیم اکثریت اس پر متفق ہے کہ اس سے مراد حضرت جبرئیلؑ ہیں۔ حضرت عبداللہ ابن مسعود،ؓ حضرت عائشہؓ ،حضرت ابوہریرہؓ، قتادہ، مجاہد اور ربیع بن انس سے یہی منقول ہے۔ ابن جریر، ابن کثیر، رازی اور آلوسی وغیرہ حضرات نے بھی اسی قول کو اختیار کیا ہے۔ شاہ والی اللہ اور مولانا اشرف علی تھانوی نے بھی اپنے ترجموں میں اسی کی پیروی کی ہے۔ خود قرآن کی تصریحات سے بھی یہی ثابت ہے۔ سورۃ التکویر کی متذکرہ بالا آیات اور سورۃ البقرہ کی آیت ۹۷ کے ساتھ اگر سورۃ النجم کی متذکرہ بالا آیات کو پڑھا جائے تو اس امر میں کوئی شک کی گنجائش نہیں رہتی کہ زبردست قوت والے معلم سے مراد حضرت جبرئیل ہی ہیں۔

ایک موقعہ پر نبیr کی بیویوں کو مخاطب کر کے سورۃ التحریم کی درج ذیل آیت ۴ میں فرمایا گیا ہے۔

’’اور اگر نبی کے مقابلے میں تم نے جتھہ بندی کی تو جان رکھو کہ اللہ اس کا مولیٰ ہے اور اس کے بعد جبریل اور تمام صالح اہل ایمان اور سب ملائکہ اسی کے ساتھی ہیں۔‘‘

یہی بات دوسرے موقع پر سورۃ البقرہ آیت ۹۷ میں فرمائی گئی ہے:

’’جبرئیل‘‘ کی اصطلاح سے اقبال کے کلام میں قریب انیس اشعار ہیں۔ چند اشعار ذیل میں نقل کیے جا رہے ہیں جنہیں متذکرہ بالا آیات کی روشنی میں پڑھاجا سکتاہے۔

وہ نمودِ اختر سیماب یا ہنگامِ صبح
یا نمایاں باہم گردوں سے جبینِ جبرئیل

(خضرہ راہ۔ صحرا نوردی)

وہ حرف ِراز کہ مجھ کو سکھایا گیا ہے جنوں
خدا مجھے نفسِ جبرئیل دے تو کہوں

(بال جبرئیل، غزل ۳ دوم)

امین راز ہے مردانِ حُر کی درویشی
کہ جبرئیل سے ہے اس کو نسبتِ خویشی

(بال جبریل، غزل ۶دوم)

یہیں بہشت بھی ہے حور و جبرئیل بھی ہے
تری نگہ میں ابھی شوخیٔ نظارہ نہیں

(بال جبریل، غزل ۲۱)

جبریل: ’’جبریل‘‘کی اصطلاح سے چند اشعار یہ ہیں:

محمد بھی ترا، جبریل بھی، قرآن بھی تیرا
مگر یہ حرفِ شیریں ترجماں تیرا ہے یا میرا

(بال جبریل، غزل ۲۔ اول)

نہ کر تقلید اے جبریل میرے جذب و مستی کی
تن آساں عریشوں کو ذکر و تسبیح و طوف اولیٰ

(بال جبریل۔ غزل ۱۔ دوم)

جبریل امین: اقبال نے ’امین‘ کی اضافت سورۂ التکویر کی درجِ ذیل آیت ۲۱ سے اخذ کی ہے :

’’مطاع ثم امین (وہ حضرت جبریل با اعتماد ہے )۔

گرچہ خدا نے حضرت جبریلؑ کو’’امین‘‘ کے لقب سے سورۃ الشعر آء کی آیت ۱۹۳ میں بھی نوازا ہے جس کا ذکر ’روح الامین‘کی اصطلاح کے تحت آگے آرہا ہے۔

’’جبریل امین‘‘کی اصطلاح سے اقبال کے کلام میں صرف درج ذیل دو اشعار ہیں:

ہر سینہ نشیمن نہیں جبریل امیں کا
ہر فکر نہیں طائر فردوس کا صیاد

(بال جبریل، آزادی افکار)

ہم سایہ جبریل امیں بندۂ خاکی
ہے اس کا نشیمن نہ بخارا نہ بدخشاں

(ضرب کلیم۔ مردِ مسلماں)

روح الامیں : ’روح الا میں‘کی اصطلاح اقبال نے سورۃ الشعرآء کی آیت ۱۹۳ سے اخذ کی ہے۔

جس سورۃ کی آیات ۱۹۲ تا ۱۹۶ میں حضرت جبریلؑ کو اس لقب سے نوازے جانے پر فرمایا گیا ہے :

’’یہ (قرآن) رب العالمین کی نازل کردہ چیز ہے۔ اسے لے کر (اے نبیr) ترے دل پر امانت دار روح اتری ہے۔ (نزل بہ الروح الامین ) تاکہ تو ان لوگوں میں شامل ہو جو خدا کی طرف سے خلق خدا کو متنبہ کرنے والے ہیں۔ صاف صاف عربی زبان میں اور اگلے لوگوں کی کتابوں میں یہ موجود ہے‘‘۔

’روح الامین‘کی اصطلاح سے اقبال کے کلام میں صرف ایک ہی درجِ ذیل شعر ’بانگ درا‘ کی نظم’ طلوع ِاسلام‘ کے چوتھے بند میں ہے:

جب اِس انگارۂ خاکی میں ہوتا ہے یقیں پیدا
تو کر لیتا ہے یہ بال و پر روح الامیں پیدا

(بشکریہ: ماہنامہ ’’دارالسلام‘‘ مالیہ کوٹلہ، پنجاب انڈیا۔ شمارہ:اگست ۲۰۰۷ء)

Be the first to comment

Leave a Reply

Your email address will not be published.


*