آزادی کی ۵۸ویں سالگرہ منائی جارہی ہے‘ ملک بھر میں آزادیٔ ہند کے جیالوں‘ جانبازوں کی قربانیوں کے گیت گائے جارہے ہیں‘ اگرچہ ۱۵ اگست ایک قومی تہوار ہے‘ مگر یومِ احتساب بھی ہے‘ ہمارے سامنے ایک قوم کا المیہ ہے‘ جسے ہم اسی ایک قوم کا احتساب کہہ سکتے ہیں۔ ملک کی ۲۲ کروڑ آبادی والی ایک قوم آج جس شکست و ریخت‘ آزمائش و ابتلاء‘ امید و بیم میں گھری ہوئی ہے‘ آج کی سروے کمیٹیاں بھی اس کو تسلیم کر چکی ہیں۔ کہنے کو تو لوگ کہہ رہے ہیں کہ یہاں مسلمان دنیا بھر کے مسلمانوں سے بہتر ہیں مگر اس جملے کو صرف یہاں کے مسلمانوں کی شرافت صفت اور عالی ظرفی ہی تک محدود رکھا جاسکتا ہے۔ اقتصادی و معاشی ترقی میں ان کو زیرو ہی قرار دیا جا سکتا ہے‘ ان کو مکمل تعلیم یافتہ بھی نہیں مانا جاسکتا اور نہ ہی مسلمانوں سے کوئی سیاسی مشکلات پیدا ہوتی ہیں۔ اب اگر کوئی اس شان میں رطب اللسان ہے تو بجا ہے بیجا نہیں۔
مگر زمینی حقائق سے کون انکار کر سکتا ہے‘ یہاں کے زمینی حقائق جو سچائیاں بیان کرتے ہیں وہ انتہائی مایوس کن ہیں‘ آج کسی بھی میدان میں دیکھیے تو مسلمان پیچھے بلکہ بہت پیچھے ہے‘ ناخواندگی اور جہالت قوموں کی تباہی و بربادی اور زوال کا سبب بنتی ہے‘ آزادی کے بعد سے بدقسمتی سے ہندوستانی مسلمانوں کے حصہ میں محرومی زیادہ آئی‘ آج تک جتنی حکومتیں آئیں اپنے بلند و بانگ دعوے اور اپنے اپنے راگ الاپ کر مسلمانوں کو صرف تسلی دے کر صرف ووٹ بینک کے طور پر استعمال کرتی گئیں‘ سائنس اور ٹیکنالوجی کے اس ترقی یافتہ دور میں ملک کی پچاس فیصد آبادی تعلیم جیسی بنیادی ضرورت سے محروم ہے‘ مسلمانوں کی دردناک تعلیمی صورت حال چونکا دینے والی ہے۔ ماہرین تعلیم کے سروے کے مطابق علمی تناسب ۳۰ فیصد سے بھی کم ہے اور مسلم خواتین کی شرح خواندگی انتہائی مایوس کن یعنی ۱۰ فیصد سے بھی کم ہے۔ ۱۹۹۱ء کی مردم شماری رپورٹ کے مطابق ہندوستان کی قومی شرح خواندگی ۱۲ء۵۲ فیصد تھی‘ جس میں مردوں کی ۱۳ء۶۴ اور خواتین کی ۲۹ء۳۹ فیصد خواندگی تھی۔ اس سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ تب اور اب مسلمان مرد اور خواتین کی شرح خواندگی میں اضافہ ہوا یا نہیں۔
حالانکہ گذشتہ حکومتوں کی جانب سے یہ الزام بارہا لگایا گیا کہ مسلمان اپنی مذہبی تعلیم کی جانب زیادہ راغب ہیں۔ حقیقت تو یہ ہے کہ مسلمانوں میں مذہبی تعلیم کا جذبہ اور رجحان بھی خوشگوار نہیں ہے‘ مسلمانوں میں جن کی معاشی حالت بہت بہتر سمجھی جاتی ہے ان کے خواب و خیال میں بھی اپنے بچوں کو دینی تعلیم سے آراستہ کرنے کی خواہش نہیں ہوتی‘ ان کو تو دنیا داری اور دین بیزاری سے ہی فرصت نہیں ملتی۔ وہ مذہبی تعلیم گاہوں کی جانب اپنے بچوں کو کیا لائیں گے۔ مسلمانوں کا درمیانی طبقہ اس سلسلے میں سنجیدہ نظر آتا ہے‘ مگر ان میں بھی وہ لوگ زیادہ سنجیدہ ہیں جو مسلمان ہونے کے ناطے اپنے اسلامی تشخص کو برقرار رکھنا چاہتے ہیں‘ آخری طبقہ جو غریب طبقہ سمجھا جاتا ہے ان کو بھی اس امر میں زیادہ دلچسپی نہیں ہوتی‘ ان کا خیال ہوتا ہے کہ دینی تعلیم سے ہمارا کوئی مسئلہ حل ہوتا نظر نہیں آتا ہے وہ اس لیے کہ حصولِ اقتصاد اور معاش انہیں اس درجہ فرصت ہی نہیں دیتی کہ فارغ البال ہو کر اپنے بچوں کو دینی یا عصری تعلیم دلاسکیں‘ دوسری بات یہ کہ عصری تعلیم اب اتنی مہنگی ہو گئی ہے کہ آخری طبقہ کی جیب اجازت ہی نہیں دیتی کہ اپنے بچوں کو تعلیم دلانے کے بارے میں سوچ بھی سکیں‘ جہاں تک گنجائش ہوتی ہے اپنی آخری قوت بھی صرف کر کے ہائی اسکول پاس کرا دیتے ہیں انٹر تک پہنچا دیتے ہیں مگر ڈاکٹر‘ انجینئر‘ سائنس داں اور وکیل بنانے کے لیے ان کی بھی ہمت جواب دے جاتی ہے‘ کیونکہ ان شعبہ جات میں ایڈمیشن فیس ڈونیشن اور دیگر تعلیمی اخراجات کے لاکھوں روپے جمع کرنے کی صلاحیت اور قوت ان کے اندر نہیں ہوتی۔ معیشت و تعلیم سمیت دیگر مسائل کے حل کے لیے سیاسی نمائندگی ضروری تھی‘ لیکن مسلمانوں کی نمائندگی کا مسئلہ ہندوستانی جمہوریت کا سب سے کمزور اور تکلیف دہ پہلو ہے‘ آزادی سے لے کر اب تک کسی بھی انتخاب کے بعد پارلیمنٹ میں مسلمانوں کی نمائندگی ان کی آبادی کے اعتبار سے نہیں ہو سکی‘ ایک ارب سے زائد آبادی والے ملک میں مسلمانوں کی آبادی ۲۰ فیصد سے زیادہ ہے لیکن پارلیمنٹ یا اسمبلی میں مسلمانوں کی نمائندگی سوائے ۱۹۴۷ء کے دس فیصد سے ہمیشہ کم رہی ۱۹۴۷ء سے ۱۹۹۶ء تک کے حالات و نتائج جدول کی شکل میں پیش ہیں:
[urdu]
سال | مسلم ممبران پارلیمنٹ | تناسب (فیصد میں) |
---|---|---|
۱۹۴۷ | ۳۱ | ۱۰ء۱۳ |
۱۹۵۲ | ۳۶ | ۲۱ء۰۷ |
۱۹۵۷ | ۳۴ | ۷۴ء۰۴ |
۱۹۶۲ | ۳۲ | ۲۷ء۰۶ |
۱۹۶۷ | ۲۹ | ۶۸ء۰۵ |
۱۹۷۱ | ۲۷ | ۱۸ء۰۵ |
۱۹۷۷ | ۳۲ | ۳۰ء۶ |
۱۹۸۰ | ۴۶ | ۵۰ء۰۸ |
۱۹۸۴ | ۴۱ | ۶۰ء۰۷ |
۱۹۸۹ | ۳۳ | ۳۱ء۰۶ |
۱۹۹۱ | ۲۸ | ۳۰ء۰۵ |
۱۹۹۶ | ۲۷ | ۹۰ء۰۵ |
[/urdu]
حالانکہ ملک کے ۱۶ اضلاع ایسے ہیں جہاں مسلم اکثریت میں ہیں اور پارلیمنٹ کی ۱۲۰ اور ریاستی اسمبلیوں کے ۷۰۰ حلقۂ انتخاب ایسے ہیں جہاں مسلمانوں کا ووٹ فیصلہ کن حیثیت رکھتا ہے‘ لیکن اتنا کچھ ہونے کے باوجود مسلم قیادت آج تک اپنا ایک مضبوط سیاسی محاذ بنا کر اپنے مسائل کو حل کرنے میں ناکام رہی ہے۔
جب تک ملک میں کانگریس کی حکومت تنہا بنتی رہی تب تک مسلمان کانگریس سے جڑے رہے اور اپنی ساری امیدیں اس سے وابستہ کیے رہے لیکن اس دوران بھی ہمیشہ ان کا استحصال ہوتا رہا اور سیاسی‘ سماجی‘ اقتصادی اور تعلیمی ہر محاذ پر استحصال ہوتا رہا۔ ۷۰ کی دہائی کے بعد علاقائی پارٹیاں ابھر کر سامنے آنے لگیں مگر ان پارٹیوں نے بھی صرف مسلمانوں کا دکھ درد کا راگ الاپ کر انہیں ووٹ بینک کے طور پر استعمال کیا۔ اب تک یہ سلسلہ حسبِ روایت جاری ہے اب تو صورتحال یہ ہے کہ ہر چھوٹی بڑی پارٹیاں یہی حربہ استعمال کر کے مسلمانوں سے خوب فائدہ اٹھا رہی ہیں۔ ساری دنیا ترقی کر رہی ہے مگر ہندوستانی مسلمان ابھی وہیں کا وہیں ہے۔
مسلمانوں کے آئے دن کی بدحالی آزاد ہندوستان کی بھیانک داستان بن کر ایک معمہ بنی ہوئی ہے۔ عالمی برادری تک یہ سوچنے پر مجبور ہو گئی کہ آخر اس میں قصور کس کا ہے؟ آخر کیسے ہوتی ترقی! آزاد ہندوستان کی ۵۷ سالہ تاریخ اس کی جو گواہی پیش کرتی ہے مسلمانوں کی بدحالی کی کھل کر عکاسی کر رہی ہے۔
آزاد ہندوستان کے مسلمانوں کی بدحالی اور زوال کی تصویر کا دوسرا رخ مذکورہ صورت حال سے زیادہ افسوسناک اور دکھ دینے والا ہے‘ جس میں مذہبی مقامات کے تقدس کی پامالی‘ عائلی اور نجی مسائل میں مداخلت‘ یکساں سول کوڈ کا نعرہ‘ مذہبی اداروں پر شک کی نگاہیں‘ ملک کی جارح اور شدت پسند تنظیموں کی مسلمانوں کے خلاف نفرت انگیزی‘ نصاب تعلیم کی زہر ناکی اسلام اور مسلمانوں کو بدنام کرنے کی ان کی ہر ممکنہ کوشش اور سازش‘ ایسے ہزاروں فتنے ہیں جو مسلمانوں کو بدنام کرنے اور ان کا عرصۂ حیات تنگ کرنے کی غرض سے آئے دن وجود میں آتے رہے‘ جن کو فرو کرنے والا بھی کوئی نہیں ہے۔ اقتصادی اور تعلیمی اعتبار سے جہاں بھی مسلمانوں نے تھوڑی سی ترقی کی‘ ایک منظم سازش کے تحت فرقہ ورانہ فساد برپا کر کے مسلمانوں کو کمزور کیا جاتا رہا۔ گذشتہ ۵۸ برسوں کا اگر جائزہ لیا جائے تو تقریباً ہر برس کا چہرہ فرقہ ورانہ فسادات‘ مذہبی عصبیت اور غیر جمہوری واردات سے ملک کی آزادی اور جمہوریت داغدار نظر آتی ہے۔ میرٹھ‘ ملیانہ‘ علی گڑھ‘ مراد آباد‘ رانچی‘ بھاگلپور‘ احمد آباد‘ فیروز آباد‘ جل گائوں بھیونڈی‘ کانپور اور گجرات میں مسلم کش فسادات کروا کر توڑ دیا گیا۔ آج تک پنپنے نہیں دیا گیا‘ جن کو فرو کرنے والا اور پرسانِ حال کوئی نہیں ہے۔ ایسے ۱۵ اگست کا دن قومی آزادی کے جشن سے زیادہ قومی احتساب کا بھی دن ہے بالخصوص مسلمانوں کے لیے کہ کیا کھویا کیا پایا؟ اور آئندہ کے لیے کیا لائحہ عمل تیار کرنا چاہیے‘ جس سے آزادی کا مفہوم واضح ہو سکے۔
(بشکریہ: ماہنامہ ’’فیصل‘‘۔ نئی دہلی)
Leave a Reply