چاہ بہار میں بندرگاہ کے منصوبے پر بھارت نے ایران کے ساتھ مل کرکام کا آغاز کر دیا ہے، نئی دہلی نے درحقیقت وسطی ایشیا میں ایک اقتصادی اور تزویراتی سنگ میل عبور کیا ہے۔ چاہ بہار میں پہنچ کر بھارت اقتصادی لحاظ سے اہم آبنائے ہرمز تک پہنچ جائے گااور یہ دنیا بھرمیں تیل کی ترسیل کی ایک بڑی گزر گاہ ہے۔ چین اس علاقے میں پہلے سے موجود ہے اور آنے والے برسوں میں چین پاکستان کی بندرگاہ گوادر میں اپنااثر و رسوخ بڑھا رہا ہے۔گوادر چین پاک اقتصادی راہداری کا مرکز ہے جہاں ۴۰ سال تک چین کی موجودگی یقینی ہے۔ چاہ بہار میں موجود بھارت صرف۷۲ کلو میٹر کے فاصلے پرگوادر میں چین کی ہر سرگرمی پر گہری نظر رکھ سکتا ہے۔
چاہ بہار کی بندرگاہ پر سرمایہ کاری اورترقیاتی کام ایران اور بھارت کے درمیان تعلقات کو مضبوط کرے گا۔ یہ بندرگاہ دنیا کی تیسری بڑی تیل مہیا کرنے والی بندرگاہ کے ساتھ ساتھ افغانستان کااہم تجارتی اقتصادی راستہ بھی ہے۔ چاہ بہار کے ذریعے بھارت افغانستان میں تعمیری منصوبوں میں اہم کردار اداکرسکتا ہے، جو چاہ بہار کے بغیر ناممکن ہے۔کیوں کہ پاکستان بھارت کو افغانستان تک پہنچنے کے لیے کبھی بھی اپنی سر زمین استعمال کرنے کی اجازت نہیں دے گا۔
چا ہ بہار کی بندرگاہ وسط ایشیائی ریاستوں اور بھارت کے درمیان تجارتی تعلقات کو مضبوط بنائے گی۔ اس وقت بھارت کی ان ریاستوں کے ساتھ کل تجارت محض ایک اعشاریہ پانچ ارب ڈالر ہے۔ چاہ بہارکا بین الاقوامی شمالی جنوبی ترسیلی راہداری کے ساتھ رابطہ ہونے کے بعد یہی بندرگاہ یوریشیا کی طرف سے بھارت کے لیے ایک گیٹ وے کا کام دے گی۔ ایک اندازے کے مطابق بھارت کی بین الاقوامی شمالی جنوبی ترسیلی راہداری کے ذریعے تجارت کا حجم ۱۷۰؍ارب ڈالر تک پہنچ جائے گا۔
بھارت چاہ بہار پر ’’شاہد بہشتی ٹرمینل‘‘کی تعمیر کر رہا ہے،جو کہ پانچ مرحلوں میں مکمل ہو گی۔اس ٹرمینل کی تعمیر مکمل ہونے کے بعد بندرگاہ کا سالانہ حجم ۸۲ میڑک ٹن تک پہنچ جائے گا۔چاہ بہار کی بندرگا ہ کا انتظامی کنٹرول فی الحال تو۱۸ ماہ تک بھارت کی سرکاری کمپنی ’’انڈین پورٹ گلوبل لمیٹڈ‘‘ کے پاس ہوگا۔ لیکن دونوں ممالک کی رضامندی سے یہ مدت ۱۰ سال کی لیزمیں تبدیل ہوسکتی ہے۔
بھارت چاہ بہار میں برتھوں کی تعمیر کے لیے ۲۱ء۸۵ ملین کی سرمایہ کاری کر رہا ہے اور اپنی سالانہ آمدنی کا ۹۵ء۲۲ ڈالر چاہ بہار کے فیز ون میں آلات کی مد میں بھی خرچ کررہا ہے۔ اس کے علاوہ بھارت، ایران افغانستان سرحد کے قریب چاہ بہار سے زاہدان تک۶ء۱ ؍ارب ڈالر سے ریلوے لائن بچھا رہا ہے۔ دوسری طرف بھارت کی سرکاری اور غیر سرکاری کمپنیاں’’چاہ بہار فری ٹریڈ زون‘‘ میں ۲۰ بلین ڈالر کی سرمایہ کاری کی منصوبہ بندی کر رہی ہیں۔
چاہ بہار کا علاقہ اقتصادی اور تزویراتی اہمیت رکھتا ہے۔خلیج عمان اور ایران کی مکران ساحلی پٹی پر واقع یہ بندرگاہ اقتصادی اور دفاعی لحاظ سے بہت اہمیت کی حامل ہے۔ یہ بحرہند تک ایران کوبراہ راست راستہ فراہم کرتا ہے، اگر ایران کے دشمن آبنائے ہرمز کو ایران کے لیے بند بھی کرتے ہیں تو چاہ بہار آبنائے ہرمز سے تقریباً ۳۰۰ کلومیٹر دور ہونے کی وجہ سے ایران کے لیے مشرقی سمندری راستے کو کھلا رکھنے کا باعث بنے گا،اور اس طرح ایران بین الاقوامی دباؤ کا مقابلہ کر سکے گا۔
چاہ بہار بندرگاہ ایران کی گہرے سمندر میں پہلی بندرگاہ ہے۔گہرے پانی کی بندرگاہ نہ ہونے کی وجہ سے اب تک ایرانی کمپنیوں پر اس حوالے سے پابندیوں کا سامنا تھا۔ بندر عباس بندر گاہ پرایک لاکھ ٹن وزن اٹھانے والے جہازوں کی گنجائش ہے، یہاں پانی کی سطح بھی کم ہے۔ ایک لاکھ ٹن سے زیادہ کے لیے ایران دبئی کی بندرگاہ پر انحصار کرتا تھا۔ وہاں وہ جہاز اپنا سامان چھوٹے جہازوں پر منتقل کرتے تھے تو اس سامان کی ترسیل بندر عباس کی بندرگاہ پر ہوتی تھی۔ چاہ بہار کی بندرگاہ کھلنے کے بعد ایران کا دبئی پر انحصار بھی ختم ہو جائے گا اور لاکھوں ڈالر فیس کی مد میں بھی بچا سکے گا۔
چاہ بہارکی بندرگاہ افغانستان کا سمندر تک پہنچنے کے لیے پاکستان پر سے انحصار بھی ختم کردے گی۔ یہاں سے افغانستان ترکی، روس، بالٹک ریاستوں سمیت چین اور ایران تک بھی آسانی سے پہنچ سکے گا۔ چاہ بہار کے ذریعے بحری راستے کی تجارت کے لیے مختصر راستے کھل جائیں گے۔
بھارت کا تجارتی سامان چاہ بہار پر اترے گا، وہاں سے یہ ٹرین اور ٹرک کے ذریعے افغانستان کے مختلف شہروں میں پہنچے گا، رنگ روڈ کے ذریعے سامان تجارت افغانستان کے ہر شہر میں پہنچ سکے گا۔تجارتی سامان افغانستان سے وسط ایشیائی ریاستوں میں اور پھر وہاں سے افغانستان باآسانی منتقل ہوسکے گا۔ وسط ایشیائی ریاستوں سے آنے والا سامان ایران کے ریلوے ٹریک کے ذریعے زاہدان سے ہوتا ہوا چاہ بہار پہنچے گا اور وہاں سے کشتیوں کے ذریعے بھارت اور دوسرے ممالک روانہ کیا جائے گا۔
۲۰۱۳ء میں پہلی بار ایران نے بھارت کو اپنے چاہ بہار بندرگاہ کے منصوبے میں شامل کیا ہے، اس منصوبے کو شروع کرنے میں کافی وقت لگا ہے۔مغرب نے ایران پر جو پابندیاں عائد کی ہیں ان کی وجہ سے بھارت شکوک وشبہات کاشکار تھا اس کے علاوہ وہ منصو بے کی سست روی پر بھی اپنے تحفظات کا اظہار کر رہا تھا یہاں تک کہ کچھ مہینے پہلے ایران پر امریکا کی سخت ترین پابندیوں کے باعث یہ منصوبہ مکمل طور پر رک چکا تھا۔ لیکن نومبر میں ٹرمپ نے چاہ بہار اور افغان ریلوے لائن منصوبے پر سے پابندی کو ختم کیا، اس کے بعد دوبارہ ایران نے اس منصوبے پر کام شروع کیا۔
جواہر لال نہرو یونیورسٹی کے پروفیسر گلشن شادیو نے سفارت کاروں سے بات چیت کرتے ہوئے کہا کہ اس منصوبے کو مکمل کرنے کے لیے اس سال بھی کافی مشکلات کا سامنا کرنا پڑے گا،اس میں ایران اور امریکا کے درمیان اختلافات اور افغانستان میں سیکورٹی جیسے اہم مسئلے شامل ہیں۔
دوسری طرف طویل زمینی فاصلے پر تجارت اورمعاشی استحکام پر ابھی بھی سوالات اٹھ رہے ہیں۔ ٹرین کے ذریعے جانے والا سامان کشتی کی بہ نسبت جانے والے سامان سے کم وقت میں منزل تک پہنچتا ہے بلکہ کبھی کبھی سمندری راستہ ٹرین کی نسبت دوگنا وقت لیتا ہے، اس منصوبے کااصل مقصد طویل فاصلہ کم وقت میں طے کرنا ہے اور اسی مقصدکا حصول چاہ بہار منصوبے کو کارآمد بنائے گا۔
ابھی یہ بحث باقی ہے کہ اقتصادی راہداری افغانستان کے لیے چاہ بہار سے زاہدان کا راستہ زیادہ مناسب ہے یا ایشیا کے لیے بھارت براستہ وسط ایشیائی ریاستیں زیادہ مناسب ہے۔ پروفیسرشادیو کے مطابق اس منصوبے کی کامیابی کا انحصار معاشی استحکام پر ہے۔
چاہ بہار کا مستقبل یہ ہے کہ تجارتی سامان کی روزانہ کی بنیاد پر مسلسل ترسیل اور حجم طے کرلیا جائے۔اس وقت بھارت صرف افغانستان سے تجارت پر زور دے رہا ہے، جو کہ راہداری کے استحکام کے لیے ناکافی ہے۔ دوسرے ممالک جیسے خلیج تعاون کونسل کے ارکان ممالک اور وسط ایشیائی ممالک کی بھی اسی راستے تجارتی ترسیل اس راہداری کی ضرورت ہے۔ صرف افغانستان سے تجارت کافی نہیں، دوسری طرف ایران کے خلیج تعاون کونسل کے ارکان ممالک سے اختلافات انہیں چاہ بہار کی طرف راغب نہیں کرسکیں گے۔
خطے میں ممالک کے درمیان رابطے اور تعلقات بڑھانا اس منصوبے کی اصل کامیابی ہے، لیکن معاشی خسارے کی وجہ سے چاہ بہار اور زاہدان کے ریلوے لائن کا منصوبہ ابھی تک قابل عمل نہیں بن سکا ہے، جب کہ تاحال بین الاقوامی جنوبی شمالی راہداری بھی بند ہے۔
چین اس منصوبے پر ایک خاص اثر ڈال سکتا تھا،لیکن وہ پہلے سے ہی گوادر میں بندرگاہ کی تعمیر اور انتظام میں مصروف ہے۔ مبصر ین کے مطابق مستقبل میں یہی بندرگاہ چاہ بہار کا مقابلہ کرے گی، آنے والا وقت یہ بتائے گا کون سی بندرگاہ زیادہ منافع بخش ہے۔ گوادر نہ صرف چاہ بہار سے بڑا منصوبہ ہے بلکہ چین ا س پر بڑی تیزی سے سرمایہ کاری بھی کررہا ہے اور اسی تیزی سے ’’سی پیک‘‘میں شامل گوادر سے کاشغر کے لیے ریلوے ٹریک بھی تعمیر کر رہا ہے۔ اس حوالے سے گوادر چاہ بہار سے کہیں زیادہ منافع بخش بندرگاہ بنے گی اور دنیا بھر کے تاجروں کو اپنی طرف راغب کر سکے گی۔
پروفیسر شادیو کے مطابق چین چاہ بہار میں بھی شراکت داری کر سکتا ہے، ا یران نے اس بات کا اظہار کئی بار کیا ہے کہ وہ چاہ بہار کے منصوبے میں پاکستان اور چین سمیت کئی دوسرے ممالک کو بھی شامل کر سکتا ہے۔
پالیسی سازوں اور تجزیہ کاروں کے مطابق بھارت کو چین کی شمولیت اور ایران سے چین کے بڑھتے تعلقات پر اعتراض ہوسکتا ہے، خصوصاً جب سے چین اور ایران کے معاشی اور عسکری تعلقات مضبوط ہوئے ہیں تب سے اس طرح کے خدشات ظاہر ہوئے ہیں۔ پروفیسر شادیو کے مطابق چاہ بہار میں چین کی شمولیت اس منصوبے کو دوام بخشے گی اورچین کی شراکت سے چاہ بہار اور گوادر کے درمیان ہم آہنگی بھی پیدا ہوگی۔
ایران اس معاملے کو بھارت سے زیادہ سمجھتا ہے۔ ایران کو اس بات کا علم ہے کہ چین نہ صرف چاہ بہار بندرگاہ کے ساحلوں کو اپنے قبضے میں رکھے گا بلکہ اس پر سرمایہ کاری کرے گا اور اس کے بنیادی ڈھانچے پر بھی خرچ کرے گا، لیکن اپنی خود مختاری مقدم رکھنے والے ملک ایران کے لیے یہ سب برداشت کرنا ذرا مشکل ہو گا۔
چین کے بارے میں کہا جا رہا ہے کہ وہ چاہ بہار پر برتھوں کا کنٹرول اپنے پاس رکھنے کا خواہاں ہے، لیکن چوں کہ فی الحال گوادر کا مکمل کنٹرول چین کے پاس ہے، اس لیے اسے چاہ بہار کا کنٹرول حاصل کرنے کی کوئی جلدی نہیں ہے۔
وقتی طور پر چین کی چاہ بہار میں شمولیت کی وجہ صرف اور صرف بھارت کو منہ دکھانا ہوسکتی ہے، نہ کہ کسی تزویراتی مفاد کا حصول۔
(ترجمہ: سمیہ اختر)
“India doubles down on Chabahar gambit”. (“thediplomat.com”. January 14, 2019)
Leave a Reply