سب سے پہلے ’فیس بک‘ نے اپنا بٹوا کھولا۔ اپریل میں اس سوشل نیٹ ورک نے اعلان کیا کہ ریلائنس گروپ کے ڈیجیٹل آرم جیو پلیٹ فارمز میں ۹ء۹ فیصد حصے کے لیے کم و بیش ۵؍ارب ۷ کروڑ ڈالر کی سرمایہ کاری کرے گا۔ اس کے بعد ۹ دیگر کاروباری اداروں نے بھی بھارت میں سرمایہ کاری کا اعلان کیا۔ ان میں گلوبل پرائیویٹ ایکویٹی جائنٹس مثلاً کے کے آر اور سعودی و اماراتی ساورن فنڈ بھی شامل تھے۔ اس سال جیو پلیٹ فارمز میں بیرونی اداروں نے ۱۵؍ارب ۲۰ کروڑ ڈالر سے زائد کی سر مایہ کاری کی ہے یا سرمایہ کاری کا وعدہ کیا ہے۔ اس سرمایہ کاری کی بدولت اُنہیں جیو پلیٹ فارمز میں ۲۵ فیصد تک کی شراکت حاصل ہوگی۔ انڈسٹری کے ذرائع بتاتے ہیں کہ بہت جلد مائکروسوفٹ بھی سرمایہ کاری کرے گا۔
ریلائنس گروپ کے لیے اتنی بڑی سرمایہ کاری ان بڑے قرضوں سے نمٹنے کا ایک اہم ذریعہ ثابت ہوگی، جو اس نے بینکوں سے لے رکھے ہیں۔ بیرونی سرمایہ کار اِسے بھارت کے ڈجیٹل صارفین سے مستفید ہونے کا ایک اہم ذریعہ سمجھ رہے ہیں۔ جیو پلیٹ فارمز ۲۰۱۶ء میں لانچ کیا گیا تھا۔ تب سے اب تک یہ ملک کا سب سے بڑا ڈجیٹل پلیٹ فارم بن چکا ہے۔ اس کے ۴۰کروڑ سے زائد موبائل سبسکرائبرز ہیں۔ ایک بڑا براڈ بینڈ (انٹر نیٹ) نیٹ ورک ہے۔ علاوہ ازیں تفریح، خوردہ فروشی اور مالیات سے متعلق کاروبار بھی اس گروپ کا حصہ ہے۔
مقامی پریس اور سیکیورٹی تجزیہ کاروں نے اس سرمایہ کاری کو نہایت خوش آئند قرار دیا ہے، بالخصوص اس حقیقت کے پیش نظر کہ یہ نیٹ ورک خالصاً بھارتی ہے۔ حال ہی میں چند ایسی ڈیلز ہوئی ہیں، جن سے یہ سب کچھ گہناتا ہوا دکھائی دیتا ہے۔ ایڈانی گروپ نے حال ہی میں اپنے ممبئی پاور آپریشنز کا ۲۵ فیصد حصہ ۴۵ کروڑ ڈالر کے عوض قطری حکومت کو فروخت کردیا۔ دوسری طرف اسے فرانس کے مشہور آئل جائنٹ ٹوٹل کی طرف سے گیس سیکٹر میں ۳۷ فیصد کے حصے کے لیے ۹۰ کروڑ ڈالر کی سرمایہ کاری حاصل ہوئی ہے۔ چند اور ڈیلز بھی ہیں جو منظر نامے کو بہتر بنا رہی ہیں۔ امریکی طیارہ ساز ادارے لاک ہیڈ مارٹن نے جیٹ طیاروں کی بھارت میں تیاری کے حوالے سے تعاون کا عندیہ دیا ہے۔ چین سے بڑھتی ہوئی کشیدگی کے تناظر میں یہ خاصی خوش آئند بات ہے۔
یہ سب کچھ بہت اچھا دکھائی دے رہا ہے مگر ذرا باریک بینی سے کام لیجیے تو معاملات کچھ اور بھی دکھائی دے سکتے ہیں۔ اب یہ بات صاف محسوس ہو رہی ہے کہ غیر ملکی سرمایہ کاروں نے محسوس کرلیا ہے کہ بھارت کی مارکیٹ سے اپنا حصہ پانا ہے تو مقامی شراکت دار تلاش کرنا ہوں گے۔ مقامی شراکت کے بغیر انہیں اپنے خواب شرمندۂ تعبیر ہوتے دکھائی نہیں دے رہے۔ اس معاملے میں ریلائنس گروپ کے سربراہ اور ملک کے امیر ترین شخص مکیش امبانی اور ایڈانی گروپ کے سربراہ گوتم ایڈانی خاصے نمایاں ہیں۔
چند ماہ کے دوران بھارت ایک ایسی سرزمین کے طور پر ابھرنے کی کوشش کرتا دکھائی دیا ہے جہاں غیر ملکی سرمایہ کاری کا تو خیر مقدم کیا جاتا ہے مگر بیرونی اداروں سے مسابقت کو قبول نہیں کیا جاتا۔ بھارت کے وزیر اعظم نریندر مودی نے حال ہی میں کورونا وائرس کی وبا سے نمٹنے کے بارے میں کی جانے والی ایک تقریر میں ۱۷ مرتبہ خود انحصاری کی بات کی۔ ان کا کہنا تھا کہ اگر ہمیں معاشی معاملات میں خود کفالت کی منزل تک پہنچنا ہے تو لازم ہے کہ اپنے زور بازو پر بھروسا کرنا ہوگا۔
نریندر مودی ۲۰۱۴ء میں پہلی بار اقتدار میں آئے تھے۔ تب انہوں نے کاروبار کے حوالے سے بیرونی سرمایہ کاری کا خیر مقدم کرتے ہوئے مسابقت سے بھی گریز نہ کرنے کا عندیہ دیا تھا۔ اب وہ حفظِ ماتقدم کی راہ پر گامزن ہیں۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ جو کچھ مودی سرکار اس وقت کر رہی ہے وہ کسی بھی اعتبار سے حیرت انگیز نہیں کیونکہ آزادی کے بعد سے بھارت یہی تو کرتا آیا ہے۔ امریکا، یورپ اور جاپان کے کاروباری اداروں کو بھارت میں ڈھنگ سے کاروبار کرنے کے لیے مشترکہ منصوبوں کا سہارا لینا پڑا ہے۔ پانچ عشروں تک یہی طریق رہا۔ ۱۹۸۲ء میں قائم ہونے والا ماروتی سوزوکی بزنس سنجے گاندھی کے ذہن کی پیداوار تھا۔ کاریں بنانے والا یہ ادارہ بھارت اور جاپان کا مشترکہ منصوبہ تھا۔ تب سنجے گاندھی کی والدہ اندرا گاندھی وزیر اعظم تھیں۔ نہرو خاندان سیاسی امور کا نگران تھا۔ جاپان کی سوزوکی کارپوریشن نے بھارت میں سرمایہ کاری بھی کی اور کاریں بھی تیار کیں۔
۱۹۹۰ء کی دہائی میں کانگریس نے معیشت کے ایک نئے دور کا آغاز کیا۔ غیر ملکی اداروں کو بھارت میں سرمایہ کاری کی دعوت دی گئی اور ساتھ ہی ساتھ مشترکہ منصوبے بھی شروع کیے گئے۔ بیورو کریسی چاہتی تھی کہ معیشت پر کنٹرول کمزور نہ پڑے اور بیرونی سرمایہ کار معاملات کو اپنے ہاتھ میں نہ لیں۔ کانگریس کی حکومت نے چند ایک معاملات میں درستی کی خاطر نئے قوانین متعارف کرائے مگر مجموعی طور پر معاملات زیادہ خوش آئند نہیں تھے۔ دکانوں کے حجم کا معاملہ وہی کا وہی رہا۔ سرمایہ کاری سے متعلق قوائد و ضوابط بھی زیادہ نہیں بدلے۔ سرخ فیتے کی ستم ظریفی اگرچہ برقرار تھی تاہم معاملات کچھ بہتر دکھائی دینے لگے۔ ’’لائسنس راج‘‘ ختم کرکے معیشت کو غیر ملکیوں کے لیے کھولنے کی راہ ہموار کی گئی۔ بیورو کریسی اب بھی بہت سے معاملات کو اپنے ہاتھ میں رکھنا چاہتی تھی۔ پٹرولیم اور فارماسیوٹیکلز کے شعبوں میں معاملات زیادہ بہتر نہ ہوسکے۔ تب ٹائمز آف انڈیا نے ایک مرحلے پر معاملات کو ’’دوسری بھارت چھوڑو تحریک‘‘ بھی قرار دیا!
نئے ہزاریے کی ابتدا بھارت میں نئی بیرونی سرمایہ کاری کی بھی ابتدا ثابت ہوئی۔ براہ راست غیر ملکی سرمایہ کاری آنے لگی۔ برطانیہ کے معروف ریٹیلر گروپ مارکس اینڈ اسپنسر نے بھی انٹری دی۔ یہ انٹری مقامی پارٹنرز کے ساتھ تھی۔ ریلائنس اور ٹاٹا گروپ نے بھی نمایاں مقام حاصل کیا۔
معاملات نشیب و فراز کا شکار رہے ہیں۔ گزشتہ برس گاڑیاں تیار کرنے والے معروف امریکی ادارے فورڈ نے بھارت کے صنعتی گروپ مہندرا کے ساتھ مل کر گاڑیاں تیار کرنے کا کاروبار شروع کرنے کا اعلان کیا۔ دوسری طرف جنرل موٹرز نے امریکا اور یورپ میں اپنے کاروبار پر زیادہ توجہ مرکوز رکھنے کے لیے بھارت پر توجہ دینا چھوڑ دیا۔
امریکی کاروباری ادارے امیزون نے بھارت میں ۶؍ارب ۵۰ کروڑ ڈالر تک کی سرمایہ کاری کی ہے، تاہم اب تک وہ کچھ خاص کمانے میں کامیاب نہیں ہوسکا ہے۔ دوسری طرف امریکی جائنٹ وال مارٹ نے بھارت کے مشہور ادارے فلک اپارٹ میں ایک بڑا شیئر خریدنے کے لیے ۱۶؍ارب ڈالر سے زیادہ کی سرمایہ کاری کی ہے مگر یہ بھی خاصا مشکل معاملہ ثابت ہوا ہے کیونکہ وال مارٹ کو اب تک کچھ زیادہ کامیابی حاصل نہیں ہوئی۔ ایک طرف تو ٹیکس کا معاملہ ہے اور دوسری طرف انوینٹری کے حجم اور اپنے برانڈز کی فروخت کا قضیہ بھی ہے۔ حکام کے دورے بھی کم نہیں۔ معاملات پر گہری نظر رکھنے کی روش نے بیرونی اداروں کو شدید الجھن سے دوچار کیا ہے۔
غیر ملکی کاروباری اداروں کے لیے بھارت میں کام کرنے کا ایک اچھا طریقہ یہ ہے کہ مقامی اداروں کے ساتھ مل کر کام کیا جائے۔ سوزوکی، ہونڈا، سیمینس اور دوسرے بہت سے تجارتی و صنعتی اداروں نے یہی کیا ہے اور کامیابی سے ہم کنار ہوئے ہیں۔ نیسلے، کولگیٹ پامولیو اور یونی لیور کی بھی یہی روش رہی ہے۔ مگر خیر اس صورت میں مکمل ذہنی سکون کی ضمانت نہیں دی جاسکتی۔ ووڈا فون کی مثال ہمارے سامنے ہے، جو بھارت میں تیسرا بڑا ٹیلی کام آپریٹر ہے۔ طویل قانونی جنگ کے بعد اسے عدالت نے ٹیکسز اور فیس کی مد میں کم و بیش ۶؍ارب ۸۰ کروڑ ڈالر قومی خزانے میں جمع کرانے کا حکم دیا ہے۔ ووڈا فون گروپ اصلاً برطانیہ کا ہے۔ بھارت میں اس کا ذیلی ادارہ دیوالیہ ہونے کو ہے۔
ریلائنس کی چھتری تلے جیو پلیٹ فارمز کی کارکردگی حیرت انگیز طور پر بہت اچھی رہی ہے۔ نیٹ ورک اچھا ہے۔ سروس خاصے کم چارجز کے ساتھ پیش کی جارہی ہے۔ ایسے میں فیس بک نے بہتر یہی جانا کہ جیو پلیٹ فارمز کے ساتھ مل کر کام کیا جائے۔ فیس بک کے پاس واٹس ایپ سروس بھی ہے اور اس مد میں اسے غیر معمولی آمدن ہوتی ہے مگر پھر بھی اس نے کوئی خطرہ مول لینا گوارا نہیں کیا۔
مغربی ممالک کو بھارت میں بہتر کاروباری ماحول اس لیے بھی مل رہا ہے کہ چین سے کشیدہ تعلقات نے کاروباری شراکت کی گنجائش کم سے کم کردی ہے۔ مودی سرکار واضح کرچکی ہے کہ بھارتی سرحد سے جڑے کسی بھی ملک کو بھارتی حدود میں کسی کمزور ادارے کو ہڑپ کرنے اور کاروباری مواقع سے غیر معمولی فائدہ بٹورنے کی اجازت نہیں دی جائے گی۔ نریندر مودی نے نام لیے بغیر کہا ہے کہ چین کو بھارت میں کام کرنے کی پوری آزادی نہیں دی جاسکتی۔ حالیہ سرحدی جھڑپوں کے نتیجے میں بھارتی فوجیوں کی ہلاکت نے جلتی پر خوب تیل چھڑکا ہے۔ ۲۹ جون کو نئی دہلی نے چین کی ۵۹ موبائل ایپس پر پابندی عائد کردی۔ ان میں ٹِک ٹاک بھی شامل ہیں جس کی مقبولیت غیر معمولی ہے۔ میڈیا رپورٹس سے اندازہ ہوتا ہے کہ مودی سرکار چین میں مکمل یا جزوی طور پر تیار ہونے والے کم و بیش ۱۱۷۲ آئٹمز پر پابندی لگانے کی تیاری کر رہی ہے۔ ان میں ٹوسٹرز سے لفٹرز تک مختلف نوعیت کی اشیا شامل ہیں۔
بھارت میں غیر ملکی اداروں کے لیے معاملات کبھی کچھ زیادہ اچھے نہیں رہے۔ ریلائنس گروپ کو عدالتی کارروائی کا سامنا رہا ہے۔ حال ہی میں ایک عدالت نے ریلائنس گروپ کو حکم دیا ہے کہ ریلائنس پٹرولیم کے اقلیتی شیئر ہولڈرز کو پہنچنے والے نقصان کا بھگتان کرے۔ ریلائنس گروپ کا کہنا ہے کہ اُس نے کچھ بھی غلط نہیں کیا۔
جیو پلیٹ فارمز اب تک پرکشش دکھائی دے رہا ہے۔ جیو مارٹ (ای کامرس) اور جیو منی (فائنانس) کی کارکردگی دیکھنا ابھی باقی ہے۔ جب تک یہ پلیٹ فارم کھل کر اپنی کارکردگی کا مظاہرہ نہیں کرتا تب تک اسے پرکشش بنانے والی بات صرف ایک ہے … یہ کہ یہ بھارتی ہے۔
(ترجمہ: محمد ابراہیم خان)
“India Inc’s inward turn”.(“The economist”. July 4, 2020)
Leave a Reply