افغانستان کے بارے میں عمومی سچ بولنے کی ابتدا کب ہو گی؟ انتخابات میں مہاجرین کا مسئلہ عام سطح پر جس طرح اچھالا گیا قیادت کی سطح پر بھی اس سے ہٹ کر کوئی دوسرا موضوع زیرِ بحث نہیں آیا۔ یہی چیز عسکری و سیاسی مقتدر اور برطانوی عوام کے درمیان خلیج پیدا کرنے کا سبب بنی۔ لوگ یہ سمجھنے سے قاصر ہیں کہ ان کے اپنے لوگ کیوں مروائے جارہے ہیں؟ اور گھروں کو لوٹنے والے اس قدر بُری طرح اپاہج اور معذور کیوں بنائے گئے؟ یہ فاک لینڈ نہیں ہے نہ ہی کوئی ایسا انتہا پسندانہ تنازعہ جو برطانیہ کو آگ میں جھونک دے یا آئرش دہشت گردوں کے بموں کا نشانہ بنا دے۔ کیمرون کو ’’جنگ‘‘ سے ہٹ کر کوئی دوسرا مناسب لفظ تلاش کرنا ہو گا۔ ہم لڑائی کے بعد لڑائی جیت رہے ہیں، مگر جب برطانوی فوج طالبان کے آمنے سامنے ہوتی ہے تو پھر فاتح ایک ہی ہوتا ہے باوجودیکہ وہ افسوسناک قربانیاں جو دی جاتی ہیں، مگر یہ تصور کہ ہم افغانستان میں جنگ جیت جائیں گے کسی جگہ بھی سنجیدگی سے قابلِ پذیرائی نہیں سمجھا جاتا، یہاں تک کہ ان لوگوں کے نزدیک بھی نہیں جو ہماری وہاں موجودگی کو سراہتے ہیں۔ جنگ کی باتیں ہی محض فتح کی نوید نہیں بنتیں۔ یہ جرنیلوں کا خواب ہے جس کی تعبیر کے واہمہ میں مبتلا ہو کر جوانوں اور عوام کو ایک ناممکن کو ممکن بنانے کی آرزو میں جنگ کی بھٹی میں جھونکا جا رہا ہے۔ جنگ جیتنے کا بالکل وہی تباہ کن جنون جس کا مظاہرہ ۱۹۴۵ء میں نازی فوجوں نے کیا تھا۔ کیا جوابی کارروائی جنگ کے متبادل حکمتِ عملی کے طور پر اپنائی جا سکتی ہے؟
۱۹۴۵ء کے بعد جمہوریت نے متبادل فلسفہ کے طور پر جگہ بنائی، بجائے اس کے کہ نظریاتی تصادم کا جواب فوجی تباہی سے دیا جاتا۔ ایسا ہی افغانستان میں بھی ہو… ہم مزید برطانوی سپاہیوں کو موت کے اندھے کنویں میں مرنے کے لیے نہیں دھکیل سکتے۔ ایک خوابیدہ حتمی عسکری فتح کے حصول تک حربی گُر آزمانے کی جگہ ہمیں تدبر سے کام لیتے ہوئے پاکستان کے ساتھ تعلقات مضبوط بنانا ہوں گے۔ کیونکہ اس کے ساتھ وسیع مشاورت سے ہی افغانستان کے مسئلہ کا حل تلاش کیا جا سکتا ہے، مگر پاکستان اس مسئلے میں اُس وقت تک مددگار ثابت نہیں ہو سکتا، جب تک بھارت خطے میں اپنی حکمتِ عملی میں واضح تبدیلی نہیں لاتا۔
سالِ رواں کے آغاز میں ایک فرانسیسی اخبار “LEMONDE” کی ایک رپورٹ کے حوالے سے ’’دی ٹائمز آف انڈیا‘‘ نے خبر دی کہ گزشتہ دسمبر میں شملہ میں بھارتی فوجی ہائی کمان کا ایک خفیہ اجلاس ہوا، جس میں دو محاذوں پر جنگ لڑنے کی حکمتِ عملی وضع کرنے پر غور کیا گیا، جن میں پاکستان اور چین پر بیک وقت حملہ آور ہونے کے منصوبے کی تجویز بھی تھی۔ بھارتی چیف آف اسٹاف جنرل کپور پاکستان پرایک محدود جنگی حملے کے محرک تھے۔ اس ڈھلمل یقین کے ساتھ کہ کامن ویلتھ میں شامل دیگر ممالک خاص طور پر ایٹمی طاقتیں اور جمہوریت کے بدخواہ پاکستان کی جانب سے فوج کشی کی باتیں کر سکتے ہیں، تب ہمیں پاک بھارت تعلقات کے درمیان مکمل بحالی کے لیے کس چیز کی ضرورت پڑے گی؟
جیسا کہ سب جانتے ہیں کہ ۱۹۸۹ء میں کشمیر میں جمہوریت تعطل کا شکار ہوئی جب ۵ لاکھ بھارتی فوجی وہاں داخل ہوئے، تب سے اب تک ۵۰ ہزار سے سات لاکھ کے درمیان لوگ مارے گئے اور بھارتی قابض فوج نے مسلمانوں کے خون سے حالیہ تاریخ کی سب سے بڑی خوفناک ہولی کھیلی۔ برطانیہ ابھی تک بھارت سے اپنے ۲۵۰ سالہ رومانس میں مبتلا ہے۔ آج کے بھارت پر اولیور گولڈ اسمتھ کی نظم کی یہ چند سطریں بالکل درست معنوں میں منطبق ہوتی ہیں۔
’’سلطنت کو وسیع کرنے کی خواہش سے مغلوب شخص دولت کی ہوس میں مبتلا ہو جاتا ہے تو پھر انسانوں کو کیڑوں مکوڑوں سے زیادہ اہمیت نہیں دیتا‘‘۔
بھارت میں ارب پتیوں اور کھرب پتیوں کی تعداد پاکستان کے مقابلہ میں کہیں زیادہ ہے لیکن حیرت انگیز حد تک امیروں کے ساتھ غربت کی چکی میں پسنے والوں کی تعداد افریقا کے پسماندہ ممالک کے غربا سے کہیں زیادہ ہے۔ ۶۰ سال سے زیادہ طویل جمہوریت کے باوجود بھارت میں آج بھی لاکھوں ایسے افراد ہیں جنہیں لکھنا پڑھنا نہیں آتا یا جنہیں پینے کے صاف پانی تک رسائی تو کیا، غلیظ پانی کے نکاس کی سہولت تک میسر نہیں۔ جبکہ پاکستان آج بھی لندن کی بھارت نواز مقتدرہ کی زہرناکیاں، خندہ پیشانی سے ہنس کر برداشت کرتا چلا آ رہا ہے۔ کشمیر میں بھارت کی امن قائم کرنے میں ناکامی کا برطانیہ نے کبھی بھولے سے بھی نوٹس نہیں لیا۔ میں نے ہائوس آف کامنز کے متعدد اجلاسوں میں محض یہ دیکھنے کے لیے شرکت کی کہ اس وقت کی شیڈو کابینہ کے وزیر خارجہ ولیم ہیگ کیا اس بات کو تسلیم کرتے ہیں کہ بھارت خطے میں استحکام امن کے لیے مزید اقدامات کر کے مسئلہ کشمیر کے حل میں اپنا کردار ادا کرے۔ بجائے اس کے کہ خود اس مسئلہ کا حصہ بنے، مگر افسوس کہ قدامت پرست قیادت پوری طرح بھارت کے زیر اثر رہی۔ کوئی بھی پاکستان جانے والا دیکھ سکتا ہے کہ یہاں کا معاشرہ کس قدر کشادہ اور دلکش ہے، لوگ کتنے اچھے ہیں، میڈیا کتنا آزاد اور طاقتور ہے، قانون و انصاف کا نظام کتنا مؤثر ہے۔ یہاں حقوقِ نسواں اور انسانی حقوق کی تنظیمیں کس قدر مضبوط، متحرک اور فعال ہیں۔
یہ ملک غریب ہے؟ اس کا جواب ہاں میں ہے۔ بس اس کی معاشی بہتری اور اقتصادی ترقی کے لیے کچھ کرنے کی ضرورت ہے۔ ڈیوڈ ملی بینڈ نے پیش قدمی کرتے ہوئے یورپی یونین کو بمشکل پاکستان سے مذاکرات کرنے پر آمادہ کرتے ہوئے یورپ کے دوردراز ملکوں کو پاکستان کے ساتھ تجارت بڑھانے پر آمادہ کیا۔ یہی وہ مرکزی نکتہ ہے جس کے لیے ہم برطانیہ میں پھیلے ہوئے پاکستانیوں اور کشمیریوں کے ساتھ مل کر اپنی کوششوں کو آگے بڑھا سکتے ہیں۔ ہمیں اس نظریے کا ازسرنو جائزہ لینا ہو گا جو طالبان اور دیگر انتہا پسندوں کو مہمیز دیے ہوئے ہے۔ یہ نظریہ اسلام کا مذہبی تصور نہیں ہے جس کی اُسی طرح تعظیم ضروری ہے جیسے دیگر ادیانِ ابراہیمی کی… لیکن کیا اسلامی دنیا اُس اسلامی نظریے کے تحت مسلم اخوت کی لڑی میں رہنے پر متفق ہے جس کے ڈانڈے ۱۹۲۰ء کی حسن البنا کی تحریک اخوان المسلمین سے ملتے ہیں، جو ہنوز کسی نہ کسی صورت اثر پذیر ملتی ہے۔
لندن مسلم اخوت کی علمبردار تنظیموں کی کارکردگی پر بہت توجہ مرکوز رکھتا ہے، جبکہ برطانیہ میں مقیم مسلمانوں کے اصل نمائندہ، منتخب کونسلرز، کمیونٹی لیڈرز اور مساجد کونسلز میں بیٹھے ہیں۔ ہماری نئی حکومت کو پاکستانی نژاد برطانوی شہریوں سے مل کر دونوں ممالک کے درمیان معاشی تعلقات کے فروغ کے لیے کام کرنے کی ضرورت ہے۔ ہمیں اپنی وزارت خارجہ کے ذریعے عالمی ترقی کا ایسا مضبوط ڈھانچہ تشکیل دینے کی اشد ضرورت ہے جس کے ذریعہ ہم اپنے تعلیمی نظام کو وسعت دے کر اور دیگر ذرائع کو موثر بنا کر دنیا کو یہ باور کرائیں کہ افغانستان میں جو کچھ ہو رہا ہے یہ صرف اسی خطے کے لیے ایک خطرہ نہیں یا وہ ہمارے ہاں دہشت گردی کی وارداتیں کرنے کے لیے دہشت گرد تیار کرنے کی نرسری نہیں بلکہ یہ اُن سب کے لیے ایک خطرہ ہے جو ہمارے لیے اہم ہے اور جو ہم پرامن اور خوشحال دنیا بنانے کے لیے کر رہے ہیں۔ برطانیہ کو پاکستان کے ساتھ تعلقات کو مضبوط بنا کر معاشی ترقی میں اضافے، خوشحالی میں حصہ داری، جمہوریت کے فروغ اور انسانی حقوق کی پاسداری اور اُس نظریاتی کشمکش میں کمی لانے کے اقدامات کرنے چاہئیں جو دہشت گردی کا جواز گردانے جاتے ہیں۔ اس کا مطلب یہ بھی ہے کہ بھارت کو بھی کشمیر میں امن قائم کرنے کے لیے اپنا کردار ادا کرنے پر زور دیا جائے۔ یہ پُرعزیمت اہداف ہیں لیکن ۲۱ ویں صدی کو پاکستانی اور برطانوی شہریوں کے لیے خوشیوں سے بھرپور بنانے اور دونوں قوموں کو قریب لانے کے لیے اس سے کم پر سمجھوتہ ناممکن نہیں۔
(ترجمہ: علی اصغر عباس)
Leave a Reply