بھارت کی بڑھتی آبادی

دنیا بھر میں آبادی بڑھ رہی ہے مگر بھارت میں اس عمل کو نمایاں طور پر محسوس کیا جاسکتا ہے۔ ایک عشرے کے دوران بھارت کی آبادی میں کم و بیش دس سے بارہ کروڑ نفوس کا اضافہ ہوا ہے۔ شہری علاقوں کی آبادی تیزی سے بڑھ رہی ہے کیونکہ شرح پیدائش میں اضافے کے ساتھ ساتھ نقل مکانی کا سلسلہ بھی تیز ہوگیا ہے۔ ممبئی، کولکتہ، چنئی (مدراس)، بنگلور، دہلی، حیدر آباد (دکن)، احمد آباد اور دیگر شہروں میں حالت خاصی پریشان کن ہے کیونکہ بنیادی سہولتوں کے ڈھانچے پر دباؤ میں اضافہ ہو رہا ہے۔

بھارت کی آبادی میں نوجوانوں کا تناسب بڑھتا جارہا ہے۔ چین سمیت بیشتر ترقی یافتہ اور ترقی پذیر ممالک کی آبادی میں نوجوانوں کا تناسب گھٹ رہا ہے۔ ایسے میں بھارت کے لیے نوجوانوں کی بڑھتی ہوئی تعداد ایک بڑے ایڈوانٹیج کا درجہ رکھتی ہے۔ مگر کیا بھارت اس صورت حال سے بھرپور استفادہ کرسکے گا؟ انسانی وسائل کی ترقی سے متعلق امور کے بھارتی وزیر کپل سبل کا کہنا ہے کہ نوجوانوں کی تعداد میں اضافہ بھارت کے لیے ایک بڑی نعمت سے کم نہیں۔ مگر سوال صرف نوجوانوں کی تعداد میں اضافے کا نہیں بلکہ ان کی صلاحیت اور سکت سے مستفید ہونے کا بھی ہے۔ کیا بھارت اپنے نوجوانوں کو بہتر زندگی اور پرکشش مستقبل کے لیے تیار کرسکے گا؟ کپل سبل کہتے ہیں کہ اس معاملے میں بہت محنت کرنا ہوگی۔ نوجوانوں کی بروقت رہنمائی نہ کی جائے تو ان میں مایوسی بھی تیزی سے پنپتی ہے۔ اگر بہتر تعلیم و تربیت کے ساتھ ساتھ روزگار کے پرکشش مواقع فراہم نہ کیے جائیں تو نوجوانوں میں مجرمانہ سوچ تیزی سے پروان چڑھتی ہے۔

بھارت کی آبادی میں اضافے کا رجحان ۲۰۵۰ء تک جاری رہے گا۔ اس دوران تعلیم، صحت، ہاؤسنگ اور دیگر بنیادی سہولتوں کی فراہمی حکومت کے لیے ایک بڑا چیلینج ثابت ہوگی۔ بھارت میں سرکاری شعبے کے پرائمری اور مڈل اسکول خاصی کم تعداد میں ہیں اور ان میں تعلیم کا معیار قابل رشک نہیں۔ ملک بھر میں نجی تعلیمی ادارے قائم ہوچکے ہیں مگر عام آدمی ان تعلیمی اداروں میں اپنے بچوں کا اندراج کرانے سے قاصر ہے کیونکہ فیس بہت زیادہ ہے۔ کپل سبل بھی تسلیم کرتے ہیں کہ نوجوانوں کو اعلیٰ تعلیم کے بہتر مواقع فراہم کرنا حکومت کے بس کی بات نہیں۔ اس کے لیے نجی شعبے کو بھی اپنا کردار دل جمعی سے ادا کرنا ہوگا۔

ملک کے بیشتر حصوں میں سرکاری اسکولوں کا حال بہت برا ہے۔ اچھے اساتذہ کی شدید کمی ہے۔ اساتذہ کی تربیت سے متعلق اداروں کی کارکردگی بہتر نہیں۔ ذہین افراد نجی شعبے کے اداروں میں تعلیم پاکر بڑے اداروں میں ملازمتیں حاصل کرلیتے ہیں۔ جو زیادہ ذہین اور محنتی ہوتے ہیں وہ کوشش کرکے ملک سے باہر چلے جاتے ہیں اور یوں انسانی وسائل کا ایک بڑا حصہ ملک کی خدمت سے قاصر رہتا ہے۔ یا یوں کہیے کہ حکومت ان سے مستفید ہونے میں ناکام رہتی ہے۔ زیادہ پڑھے لکھے لوگ سرکاری اسکولوں اور کالجوں میں خدمات انجام دینے کو کسی بھی حال میں ترجیح نہیں دیتے۔ سرکاری اسکولوں میں حال اس قدر برا ہے کہ اساتذہ دو دو تین تین گھنٹے کی تاخیر سے آتے ہیں اور کسی تیاری کے بغیر پڑھاکر طلبہ کا وقت برباد کرتے ہیں۔ سرکاری اسکولوں میں پڑھنے والے بچوں کی قابلیت بھی برائے نام ہوتی ہے۔ زیادہ قابل اساتذہ سرکاری اسکولوں کا رخ کرنے سے کتراتے ہیں۔ ایسے میں طلبہ کا معیار گراوٹ کا شکار ہوگیا۔

بھارتی حکومت دعویٰ تو یہ کرتی ہے کہ ملک بھر میں خواندگی کی مجموعی شرح ۷۴ فیصد ہے جبکہ حقیقت یہ ہے کہ دیہی علاقوں میں دس بارہ فیصد افراد بھی ڈھنگ سے پڑھنا نہیں جانتے۔ ناخواندگی کے باعث کروڑوں کسان کھیتی باڑی کے جدید اطوار سے ناواقف ہیں جس کے باعث ان کی کارکردگی کا گراف بلند کرنے میں شدید مشکلات کا سامنا ہے۔

ناخواندگی کے باعث بھارت کے دیہی علاقوں کی خواتین بھی پست معیار کی زندگی بسر کر رہی ہیں۔ انہیں صحت سے متعلق بنیادی باتیں بھی معلوم نہیں۔ بچوں کی تربیت سے متعلق ان کی معلومات ناقص ہیں۔ بیشتر دیہی خواتین کی صحت خاصی ناگفتہ بہ ہوتی ہے جس کے باعث بچوں کی صحت بھی کمزور ہوتی ہے۔ کمزور خواتین کے بطن سے پیدا ہونے والے بچے زندگی بھر کمزوری اور مختلف عوارض کا شکار رہتے ہیں۔

کپل سبل کو سب سے زیادہ تشویش اس امر پر ہے کہ اگلے دو عشروں کے دوران ۵۰ کروڑ افراد کو روزگار کے بہتر مواقع کس طور فراہم کیے جاسکیں گے۔ بیروزگاری کے باعث بھارت کے بڑے شہروں میں مجرمانہ ذہنیت تیزی سے پنپ رہی ہے۔ حکومت روزگار فراہم کرنے کے حوالے سے اب تک کارگر پالیسی وضع نہیں کرسکی ہے۔ نجی شعبے نے اس سلسلے میں کچھ کوششیں کی ہیں تاہم اس کی بھی چند حدود ہیں۔ حکومت پر اس حوالے سے بھاری ذمہ داری عائد ہوتی ہے۔

کولمبیا یونیورسٹی کے پروفیسر اروند پنگریا کا کہنا ہے کہ بھارت میں آبادی تیزی سے غیر معمولی تقسیم کی طرف بڑھ رہی ہے۔ نوجوانوں کی بڑھتی ہوئی تعداد اس امر کی متقاضی ہے کہ حکومت کو جلد از جلد اپنی بنیادی پالیسیاں تبدیل کرنا چاہئیں تاکہ نوجوانوں کو تعلیم اور روزگار کے بہتر مواقع فراہم کیے جاسکیں۔ مگر ایسا لگتا ہے کہ حکومت اس معاملے میں گھوڑے بیچ کر سو رہی ہے۔ بھارت میں کالج جانے کی عمر کے نوجوانوں میں سے صرف ۱۳ فیصد کو اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے کا موقع مل پاتا ہے۔ چین میں یہ تناسب ۲۳ فیصد ہے۔ بھارتی حکومت کے لیے نوجوانوں کو اعلیٰ تعلیم کے بہتر، پرکشش اور سستے مواقع فراہم کرنا ایک بڑا چیلنج ہے۔ اگر بہتر تعلیم و تربیت کے بعد بہتر ذرائع معاش فراہم کرنے پر خاطر خواہ توجہ نہ دی گئی تو بھارتی قیادت کے لیے مسائل بڑھتے جائیں گے۔ کروڑوں بیروزگار نوجوان ملک کی سلامتی کے لیے خطرہ بھی ثابت ہوسکتے ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ چین اور دوسرے کثیر آبادی والے ممالک کے مقابلے میں بھارت میں لسانی، ثقافتی، نسلی اور مذہبی تنوع کہیں زیادہ ہے اس لیے مسائل بھی زیادہ ہیں جنہیں بہتر منصوبہ بندی ہی سے حل کیا جاسکتا ہے۔

(بشکریہ: ’’واشنگٹن پوسٹ‘‘۔ ۱۷؍ اکتوبر ۲۰۱۱ء)

Be the first to comment

Leave a Reply

Your email address will not be published.


*