مسلمانوں کی آبادیاں نشانے پر

بھارت کے وزیر داخلہ امیت شاہ نے کہا ہے کہ بھارت کے وجود کے لیے غیرقانونی شہریوں کی حیثیت دیمک اور گُھس بیٹھیوں (infiltrator) کی ہے۔ حکومتِ ہند اِن کو تلاش کرکے سمندر میں پھینکے گی۔ مقامی سیاست دان کی جانب سے غیر قانونی شہریوں کے معاملے پر بدقسمتی سے یہ روایتی اُبال نہیں۔ گزشتہ سال بھارت کی سرکار نے ۳ کروڑ ۳۰ لاکھ کی آبادی پر مشتمل آسام کے بارے میں غیر قانونی شہریوں کی ایک فہرست جاری کی تھی، جس میں چالیس لاکھ غیر قانونی شہریوں کی تعداد بتائی گئی تھی جن کے بارے میں بتایا گیا ہے کہ وہ غیر ملکی ہیں اور ان کے پاس یہاں رہنے کا کوئی اختیار نہیں۔ اس کے بعد ماہ ِ جون میں مزید ایک لاکھ افراد کی تعداد بتائی گئی۔

امیت شاہ کا اصرار ہے کہ ان تمام غیرملکیوں کو ملک بدر کیا جائے گا۔ بنگلا دیش سے جو لوگ یہاں ہجر ت کرکے آئے ہیں انھیں بھی برداشت نہیں کیا جائے گا۔ان میں اکثریت مفلوک الحال اور غیر تعلیم یافتہ ہونے کے باعث ہندوستانی شہریت حاصل کرنے کے پیچیدہ قوانین پر پورا نہیں اُتر سکتے۔اگر بڑے پیمانے پر ملک بدری عمل میں نہ آئی تو انھیں پردیسی قرار دینا یا انھیں حراستی کیمپ میں رکھنا نہ تو انصاف پر مبنی ہوگا بلکہ ملکی استحکام کے لیے بھی یہ سب کچھ خطرہ ہوگا۔غیرقانونی شہریوں کی بڑی تعداد وہ ہے جو مسلمان ہے۔ ہندوستانی ریاست سے ایسے افراد کو نکالنے کا فیصلہ ہندو مسلم فسادات کی صورت میں بھی سامنے آسکتا ہے جیسا کہ ۲۰۱۲ء میں ہوا، جب چار لاکھ افراد کو بے دخل کیا گیا تھا۔آسام میں غیر قانونی شہریوں کے تعلق سے چلائی جانے والی تحریک کو امیت شاہ ایک کامیابی کے طور پر دیکھتا ہے اور یہی انداز وہ پورے ملک میں بھی دہرانا چاہتا ہے۔

ہندوستان کے جنوب میں بسنے والی آسامی آبادی کی بہت عرصے سے یہ شکایت ہے کہ وہ اپنے ہی وطن میں بنگالی مہاجرین کی وجہ سے دھنس چکے ہیں۔ نوآبادیاتی وقتوں میں ان غریب بنگالیوں پر مشتمل آبادی کا یہ بہاؤ بہتر زندگی کی تلاش میں یہاں آیا تھا کیوں کہ اس وقت ملکی سرحدوں کا کوئی تصور موجود نہ تھا۔آسام کے شہری ماضی سے آج تک بنگلادیشی آبادی کے بڑھتے رجحان پرمعترض رہے ہیں کیوں کہ بنگالی مسلمانوں کے لیے علاحدہ وطن بن چکا ہے جسے بنگلادیش کہتے ہیں۔

آسام کی تہائی آبادی مسلمانوں پر مشتمل ہے۔یہاں کی بود وباش میں تبدیلی کی بڑی وجہ اُس بنگالی آبادی کے یہاں بچوں کے پید ائش کی بڑھتی شرح ہے جو آسام میں پہلے سے موجود ہیں۔ بھارتیہ جنتا پارٹی جس کی حکومت آسام اور مرکز دونوں جگہ ہے وہ بھی اپنے اس وعدے کو پورا نہ کرسکی جس میں اس نے کہا تھا کہ وہ غیر قانونی شہریوں کو گرفتا ر کریں گے۔

حکومت جس قانون کا سختی سے اطلاق چاہتی ہے، اس میں ہر شہری کو یا اس کے آباو اجداد کو ۲۴ مارچ ۱۹۷۱ء سے پہلے یہاں موجودگی کا ثبوت دینا ہوگا۔ کسانوں اور پھیری پر مامور مزدور خواتین کے لیے یہ ایک بڑ ا مسئلہ ہوگا۔ ان میں اکثر غیر تعلیم یافتہ ہیں۔ اس بارے میں حکومت کی جانب سے متعدد غلطیاں ہوتی رہی ہیں۔ مثال کے طور پرایک اعزاز یافتہ جنگی ہیرو کو غیر ہندوستانی قراردیا گیا ہے۔بھارتی حکومت ۱۰۰؍غیر ملکی ٹریبونلز کرنے کا ارادہ رکھتی ہے جو اُس ۶۰ فیصد آبادی کے لیے موجود ہی نہیں، جسے غیر ہندوستانی قراردیا جاچکا ہے۔ ۴۰ لاکھ میں سے ۳۷ لاکھ کو غیر قانونی شہری قرار دیا گیا ہے۔ اس میں فرد کُشی کی ایسی بھرمار ہوگی جو سیاہ قوانین سے نتھی ہے۔

بی جے پی کے دیگر منصوبوں کی طرح یہ بھی ایک مسلمان مخالف پالیسی ہے۔غیر قانونی شہریوں کے نام پر بچھائے جانے والے جال میں کچھ ہندوؤں کو بھی گرفتار کیا گیا ہے۔ اُن کے لیے امیت شاہ نے کہا ہے کہ انھیں فکرمند ہونے کی ضرورت نہیں کیوں کہ اُن کے لیے شہریت کا حصول آسان بنانے کی غرض سے حکومت ایک بل پارلیمان سے منظور کرانے کے لیے تیار کرچکی ہے۔ سوائے مسلمانوں کے، عیسائی، بدھ مت، جین، پارسی اور سکھوں کے لیے بھی آسانیاں فراہم کی جائیں گی۔

مذہب کے نام پر ووٹروں کی تقسیم سے بی جے پی کو فائدہ ہوتا ہے۔ خاص طور پر جنوبی بنگال میں جہاں مسلمانوں کی آبادی ایک تہائی سے زائد ہے۔یہاں بی جے پی مقامی پارٹی سے سیاسی جنگ کررہی ہے۔جنوبی بنگال کا شمار اُن علاقوں میں ہوتا ہے جہاں امیت شاہ نے ان دیمکوں پر تنقید کی ہے۔ یہاں کی مسلمان آبادی مسئلہ نہیں بلکہ اصل بھوت بی جے پی ہے جو مذ ہبی بنیادوں پر تناؤ پید ا کیے ہوئے ہے جس کی وجہ سے ہندوستانی جمہوریت کی بنیادیں کمزور ہورہی ہے۔

(ترجمہ: جاوید احمد خورشید)

“India’s hunt for ‘illegal immigrants’ is aimed at Muslims”. (“economist.com”.July 11, 2019)

Be the first to comment

Leave a Reply

Your email address will not be published.


*