جب نصف درجن ٹرک تعمیراتی سامان کے ساتھ کھیتوں میں آکر رکے تو بریان سنگھ اور بوبیا گاؤں کے دیگر مکینوں کو اندازہ ہوگیا کہ بہت جلد ان کی مزید زرعی اراضی قومی سلامتی اور دفاع کے نام پر فوج کے کھاتے میں چلی جائے گی۔ بپھرے ہوئے کسانوں نے ٹھیکیداروں اور مزدوروں کو مار بھگایا اور احتجاج کے دوران ٹرکوں کے پہیوں سے ہوا بھی نکال دی۔ ویسے وہ اچھی طرح جانتے تھے کہ اس سے کچھ نہیں ہوگا، پرنالہ وہیں گرتا رہے گا۔
بریان سنگھ نے رائٹرز کو بتایا کہ ہمارے دیہات میں فوج کا بنیادی ڈھانچا پنپ رہا ہے اور ہمارے زیر تصرف زرعی اراضی کا رقبہ گھٹتا جارہا ہے۔ بھارتی فوج پاکستانی سرحد سے متصل بوبیا گاؤں میں نصف سے زائد زرعی اراضی اپنے تصرف میں لے چکی ہے۔ سرحد پر رہنے والوں کے حقوق کی پاس داری کے لیے قائم کی جانے والی مقامی تنظیم بارڈر ویلفیئر کمیٹی نے بتایا کہ ۱۵ برس کے دوران فوج اور بارڈر سیکورٹی فورس نے دفاعی مقاصد کی تکمیل کے نام پر سرحدی دیہات سے اچھی خاصی زمین ہتھیالی ہے۔
جموں و کشمیر جہاں پاکستان سے ملتا ہے وہاں کی زرخیز زمین پر اب خار دار تاروں کی باڑ ہے اور بارودی سرنگیں بچھائی جاچکی ہیں۔ بوبیا کے مکینوں کا کہنا ہے کہ سیکڑوں کسان اپنے کھیتوں سے دور کر دیے گئے ہیں۔ بیشتر معاملات میں کسانوں کو پہلے آگاہ کیا گیا نہ معاوضہ ہی دیا گیا۔ بریان سنگھ کاکہنا ہے کہ کسانوں کے پاس آمدن کے متبادل ذرائع نہیں۔ زرعی زمین فوج کے تصرف میں چلے جانے سے معاشی مشکلات میں غیر معمولی اضافہ ہوگیا ہے۔
جموں اینڈ کشمیر فورم فار پیس اینڈ ٹیریٹوریل انٹیگریٹی کے سربراہ آئی ڈی کھجوریا کہتے ہیں کہ اگست میں مودی سرکار نے جموں و کشمیر کو خصوصی آئینی حیثیت دینے والی دفعہ ۳۷۰ ختم کی۔ تب سے اب تک کسانوں کو یہ خوف لاحق ہے کہ ان کی مزید زمین دفاع کے نام پر فوج کے تصرف میں چلی جائے گی۔ آئی ڈی کھجوریا نے خبردار کیا کہ جموں و کشمیر کو مرکز کے زیر انتظام لانے کے بعد مرکزی حکومت کو سرحد سے متصل علاقوں میں قومی سلامتی کے نام پر زرعی زمین ہتھیانے کا مزید اختیار مل جائے گا۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ جموں و کشمیر کے معاملات میں مقامی منتخب نمائندوں کی رائے مزید کمزور پڑ جائے گی۔
جموں کے ڈویژنل کمشنر سنجیو ورما نے کہا ہے کہ جن کسانوں سے زرعی زمین لی جائے گی انہیں معاوضہ دیا جائے گا۔ ٹیلی فونک انٹرویو میں سنجیو ورما نے کہا کہ کچھ لوگوں کو تو معاوضہ دیا بھی جاچکا ہے۔ انہوں نے اس حوالے سے تفصیل بتانے سے گریز کیا۔
ڈیفنس سسٹم میں ۹۰۰ کلو میٹر طویل خاردار باڑ بھی شامل ہے، جو سرحد سے کئی کلو میٹر اندر بھارتی علاقے میں ہے۔ یہ باڑ کئی دیہات سے گزرتی ہے۔ اس کے نتیجے میں زرعی زمین کا بڑا حصہ پاکستان کی طرف رہ گیا ہے۔ بارڈر سیکورٹی فورس نے بتایا ہے کہ بھارتی حکومت سرحد پر دفاعی دیوار بھی تعمیر کرنا چاہتی ہے۔ ۱۰ میٹر بلند دیوار کی تعمیر کا بنیادی مقصد سرحدی دیہات میں رہنے والوں کو جنگ بندی کی خلاف ورزی کے شدید اثرات سے بچانا ہے۔
گزشتہ برس بھارت کی وزارت داخلہ نے بتایا تھا کہ جہاں فزیکل نگرانی ممکن نہ ہوگی، وہاں ہائی ٹیک سرویلنس سسٹمز نصب کرنے کا منصوبہ تیار کیا گیا ہے۔ کٹھوا میں قائم بارڈر ویلفیئر کمیٹی کے ارکان نے بتایا کہ بھارت کی ہزاروں ایکڑ زرعی زمین باڑ کے دوسری طرف بے مصرف پڑی ہے۔ کمیٹی کے نائب صدر اور بوبیا گاؤں کے مکھیا بھارت بھوشن شرما کا کہنا ہے کہ تکنیکی طور پر کسان اپنی زمینوں پر جاسکتے ہیں۔ چیک پوائنٹس دن کے مخصوص اوقات میں کھلتی ہیں اور کسانوں کو اپنی زمینوں تک پہنچنے کے لیے گھنٹوں چلنا پڑتا ہے۔ اگر کسان اپنی زمینوں پر فصل بونے میں کامیاب ہو بھی جائیں تو کٹائی میں الجھن پیش آتی ہے کیونکہ سرحد پار سے فائرنگ کا خدشہ برقرار رہتا ہے۔ کسان اپنی فصلوں کو جنگلی جانوروں سے بچانے سے بھی قاصر ہیں۔ کمیٹی کے صدر ۸۷ سالہ نانک چند نے بتایا کہ ۲۰۰۴ء میں جب پہلی بار باڑ لگی تھی تب انہیں اپنی آٹھ ہیکٹر اراضی سے محروم ہونا پڑا تھا۔ تین ماہ قبل فوج نے باقی دو ہیکٹر زمین بھی ہتھیالی۔ اب نانک چند کے پاس زمین بالکل نہیں۔
نانک چند کو ۳۰ لاکھ روپے دیے گئے، جو ان کے خیال میں ملک کے کسی پرسکون کونے میں اتنی ہی زمین خریدنے کے لیے انتہائی ناکافی ہیں۔ آئی ڈی کھجوریا اس بات سے اتفاق کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ بھارتی ریاستوں سے ڈیویلپرز اور بزنس مین بڑی تعداد میں جموں و کشمیر کا رخ کر رہے ہیں۔ ایسے میں یہاں کی زمین کا مہنگا ہوجانا طے ہے۔ سرحدی علاقوں میں بسے ہوئے کسانوں کے لیے کسی پرسکون علاقے میں زمین خریدنا انتہائی دشوار ہوگیا ہے۔
نانک چند نے دسمبر ۲۰۱۸ء میں متاثرہ اضلاع کے سرحدی علاقوں میں بسے ہوئے لوگوں کی طرف سے جموں اینڈ کشمیر ہائی کورٹ میں پٹیشن دائر کی، جس میں استدعا کی گئی تھی کہ کشیدگی کے باعث کوئی فصل نہ لگا پانے کی صورت میں کسانوں کو معاوضہ دیا جائے۔ کسانوں کے وکلا نے بتایا کہ وزارت داخلہ، بی ایس ایف اور مقامی انتطامیہ نے اب تک اس پٹیشن کا کوئی جواب عدالت میں داخل نہیں کیا۔
بھارتیہ جنتا پارٹی کے رہنما اور جموں پونچھ سیکٹر کے پارلیمانی حلقے کے نمائندے جگل کشور شرما کو اس بات کا اندازہ نہیں کہ سرحد پر فوج کے زیر تصرف زمین میں سے کتنی زرعی نوعیت کی ہے۔ انہوں نے بتایا کہ سرحدی اضلاع کی انتظامیہ زر تلافی کا تعین کر رہی ہے۔ ٹیلی فونک انٹرویو میں جگل کشور شرما نے کہا کہ قیمت کا تعین ہو جانے کے بعد حکومت کسانوں کو زر تلافی دے گی۔
پونچھ سیکٹر میں واقع بہروٹی گاؤں کے مکھیا ۶۷ سالہ محمد عارف خان کا کہنا ہے کہ جب سرحدی باڑ کسی کھیت سے گزرتی ہے تو اس گاؤں کو بھی الگ تھلگ کردیتی ہے، جس میں یہ کھیت واقع ہو۔ اس کے نتیجے میں متعلقہ دیہات کے لوگ بنیادی سہولتوں اور بنیادی ڈھانچے سے بھی محروم ہو جاتے ہیں۔ مکینوں کا کہنا ہے کہ خار دار باڑ نے بہروٹی گاؤں کو ایک بڑی جیل میں تبدیل کردیا ہے۔ اس گاؤں کے ایک مکین ۳۰ سالہ محمد نثار خان کا کہنا ہے کہ ’’ہمارے گاؤں میں سڑک ہے نہ صحت عامہ کی سہولتیں۔ انٹرنیٹ اور موبائل فون کی سہولت بھی میسر نہیں۔ باہر سے کسی کو آنے کی اجازت بھی نہیں۔ ہم بالکل الگ تھلگ ہوکر رہ گئے ہیں‘‘۔
محمد نثار خان کا کہنا ہے کہ ہائی ٹیک سرویلنس آلات نصب کرنے کے فوجی منصوبے کی خبر خاصی حوصلہ شکن ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ اگر باڑ کو موجودہ جگہ پر اپ گریڈ کیا گیا تو ہم مستقل قیدی کی سی حیثیت حاصل کرلیں گے۔ بہروٹی کے باشندوں کو تو قیدی بن جانے کا خوف ہے جبکہ دوسروں کو اپنے گھروں سے ہمیشہ کے لیے نکال دیے جانے کا خدشہ لاحق ہے۔ بوبیا گاؤں سے۳۰ کلو میٹر دور واقع نانگا گاؤں میں چاول کے کاشت کار میر چاند کہتے ہیں کہ اس بات کا امکان نہ ہونے کے برابر ہے کہ ہماری اگلی نسل اپنے گاؤں میں رہ پائے گی۔ ان کا کہنا ہے کہ ہمیں اب کوئی امید نہیں کہ بھارت اور پاکستان کے درمیان کبھی امن قائم ہوسکے گا۔ ہمارے لیے سلامتی ہے نہ روزگار۔
(ترجمہ: محمد ابراہیم خان)
“India’s increasing defenses eat away at farmland along border with Pakistan”. (“Reuters”. Oct. 30, 2019)
Leave a Reply