ــــہندوستانی مسلمانوں کی مظلومیت۔۔۔ بے سبب نہیں!

مسٹر این سی استھانا (NC Asthana) سینٹرل ریزرو پولیس فورس، کوبرا (ایک ایلیٹ کمانڈوفورس) کے انسپکٹر جنرل ہیں ۔ ان کی اہلیہ مسز انجلی نرمل پولیس انتظام کاری (Police Administration) میں پی -ایچ -ڈی ڈگری کی حامل ہیں ۔ مسٹر این سی استھانا ا ور مسز انجلی نرمل نے اگست ۲۰۱۲ء کے آخر میں شائع شدہ اپنی مشترکہ تصنیف “India’s Internal Security: The Actual Concerns” میں مختلف بھارتی پالیسیوں ،بشمول انٹیلی جنس ناکامی، دہشت گردانہ حملوں میں ذرائع ابلاغ کا کردار، داخلی سلامتی اور مسلمانوں پر ظلم و ستم اور انتقامی کارروائیوں کا محاکمہ و تجزیہ کیا ہے۔ کنل مجمدار نے مصنفین سے ان میں سے کچھ امور پر بات چیت کی، جو حسبِ ذیل ہے:


o کیا ہندوستانی سلامتی ادارے حقیقی خطرات سے صرفِ نظر کر رہے ہیں ؟

m ہمیں حکومتی اخلاص پر کوئی شک نہیں لیکن مسئلہ یہ ہے کہ نظام بحیثیت ِ مجموعی ، نتائج تسلیم نہیں کر رہا ۔ حکومتی پالیسیاں چاہے کشمیر میں ہوں ، مائو متاثرہ علاقوں میں ہوں یا پھر شمال مشرقی ریاستوں (آسام، میگھالیا، تری پورہ، ارونا چل پردیش، میزو رام، منی پور، ناگا لینڈ) میں نتائج مایوس کن ہیں۔ کشمیر میں CRPF اور BSF کی سترّ سترّ بٹالین اور فوج کی تین کور ہونے کے باوجود گزشتہ ۲۳ برسوں سے شورش جاری ہے۔ شمال مشرقی ریاستوں میں بغاوت کا عمل گزشتہ اٹھاون برسوں سے ہے۔ نکسل باڑیوں کی علیحدگی پسند جدوجہد گزشتہ ۴۵ برسوں سے ہنوز جاری ہے۔ ہمارا مقصد ایک سنجیدہ مسئلے کی نشاندہی کرنا ہے کہ کشمیر اور شمال مشرقی ریاستیں ایک کنارے پر ہیں اور ملک کا ایک بڑا حصہ(۹ ریاستوں کے۸۴؍ اضلاع) نکسل باغیوں سے متاثرہ ہیں، لیکن باقی ماندہ ہندوستان کے عظیم متوسط طبقے کو اس شورش سے کوئی لینا دینا نہیں۔

o آپ کی کتاب نے تقریبا ً تمام بڑے داخلی سلامتی مسائل و بحران کو اٹھایا ہے ۔ آپ کا کہنا ہے کہ کشمیر میں شدید بھارت مخالف جذبات پائے جاتے ہیں ۔۔۔۔؟

m اس میں کوئی شک و شبہے کی گنجائش نہیں ۔ ہم ۱۹۹۰ء کے وسط اور۲۰۱۰ ء میں وہیں تھے، جب وہاں حالات بہت خراب تھے ۔ ہمارے پاس حقیقی مثالیں موجود ہیں کہ محض نعروں سے ان جذبات کی عکاسی نہیں کی جاتی تھی ۔ مثال کے طور ہم نے ایک گائوں میں دہشت گردوں کے خلاف کارروائی کی، جس میں ایک دہشت گرد مار اگیا ۔ ہو سکتا ہے کہ وہ کشمیری نہ ہو کوئی در انداز ہو ۔ بالفرض اگروہ کوئی مقامی لڑکا تھا ، تو ظاہر ہے کہ اس کے خلاف غم و غصہ ایک فطری عمل ہے ۔ لیکن حیرت انگیز امر یہ ہے کہ اس بات کے یقینی اور واضح ہونے کے باوجود بھی کہ مارا جانے والا کشمیری نہیں بلکہ درانداز ہے، شدید ردعمل اور احتجاج ہوتا ہے۔

o یعنی اگر وہ کشمیری نہ ہو تو بھی ۔۔۔ ؟

m جی ہاں ! اگر وہ کوئی درانداز ہی کیوں نہ ہو، قابل ِ تحسین ہے۔ ممبران اسمبلی اس احتجاج کی سربراہی کرتے ہیں۔ ۲۰۱۰ء میں سوپور میں جاری ایک کارروائی کے دوران ہجوم نے ایک پولیس پارٹی پر حملہ کر دیا۔ لوگوں میں سے کسی کی فائرنگ سے ایک پولیس انسپکٹر کی ٹانگ زخمی ہو گئی ۔ ایک بھٹکے ہوئے پولیس والے کو جلا دیا گیا۔ وہاں بھارت کے خلاف بہت شدید جذبات پائے جاتے ہیں۔ آپ ذرا اندازہ کیجیے کہ اگر سڑک پر کوئی حادثہ ہو جائے جس کا شکار کشمیر سے باہر کی گاڑیاں ہوں توجائے حادثہ پر جمع لوگ نعر ٔہ تکبیر لگانے لگتے ہیں۔ چلیں یہاں تک تو ٹھیک ہے کہ وہ ایک مذہبی شناخت کا اظہار کرتے ہیں لیکن جب یہ’ ’ ہم کیا چاہتے ہیں ۔۔۔؟ آزادی ‘‘کے نعرے میں تبدیل ہو جاتا ہے تو آپ اس سے کیا سمجھیں گے ۔ ؟ ہم نے اپنی کتاب میں یہ لکھا ہے کہ کیا ہم ا ن سے بدمعاش لڑکوں کی طرح نہیں پیش آرہے ۔۔۔؟ نکسل علیحدگی پسند بھی ’’گو انڈیا‘‘ کے نعرے نہیں لگاتے۔ ہر کسی کی زبان پر مسئلہ کشمیر ہے جس نے ہمیں اس معاملے میں دفاعی صورت اختیار کرنے پر مجبور کر دیا ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ ہم کوئی غلط کا م کر رہے ہیں جس کی وجہ سے ہمیں وہاں اپنی موجودگی اور اعمال کی صفائی پیش کرنی پڑ رہی ہے ۔

o آپ کا کہنا ہے کہ کشمیر میں سیاحوں کی آمد میں اضافے اور پر امن انتخابات کوـ ’’سب ٹھیک ہے ـــ‘‘پر محمول نہ کیا جائے؟

m ہماری بحث یہ ہے کہ انتخابات اس بات کا ثبوت نہیں ہیں کہ لوگ ہندوستانی نظام پر اعتماد کرتے ہیں ۔ لوگ تو محض کچھ نمائندے چاہتے ہیں جو ان کے روزمرہ کے مسائل حل کریں، یعنی مقامی پٹواری یا پولیس سب انسپکٹر کے معاملے۔ ۲۰۰۹ء کے انتخابات میں ہم نے دیکھا کہ رائے دہندگان کا تناسب اچھا تھا۔ لیکن انتخابات کے ٹھیک چودہ دنوں بعد سانحہ شوپیاں رونما ہوا۔ دو نوجوان خواتین کی لاشیں رمبیارا دریا (Rambiara River) سے برآمد ہوئیں، حالانکہ اس بات کا کوئی قطعی طبی یا واقعاتی ثبوت نہیں تھا کہ ان سے زیادتی ہوئی ہے لیکن اس کے باوجود ۴۷ دنوں تک کشمیر جلتا رہا۔

o آپ نے یہ بھی لکھا ہے کہ کیسے دہشت گردی کو اسلام سے نتھّی کیا گیا ۔۔۔؟

m جی ! ہم نے شہری دہشت گردی پر اپنی ایک کتاب میں اس کا ذکر کیا ہے ۔ ہمارے ملک میں فرقہ وارانہ فسادات کی ایک تاریخ ہے لیکن ہم نے دہشت گردی کو کبھی بھی مسلمانوں سے منسوب نہیں کیا ۔یہ ایک مغربی طرز ِ فکر ہے۔ امریکا کو ہمیشہ سے ایک علامتِ نفرت کی ضرورت رہی ہے۔ پہلے یہ جرمن تھے۔ پھر جاپانی اس کا نشانہ بنے اور پھر کمیونسٹ ٹھہرے۔

o تو کیا آپ سمجھتے ہیں کہ ’’اسلامی دہشت گردی‘‘ مغرب کا کھڑا کیا ہوا ، ایک ہوَّا ہے۔۔۔؟

m اس سے بھی زیادہ۔ ہم ہندوستانی سمجھتے ہیں کہ عقل و دانش کا محور مغرب ہے۔ لہٰذا اسلام سے متعلق ان کے مسخ خیالات و تصور کو ہو بہو اپنا لیتے ہیں۔تصور ِجہاد کا دہشت گردی سے کوئی واسطہ نہیں۔ دہشت گردی ایک جدید مظہر ہے جبکہ جہاد سیکڑوں برسو ں سے موجود ہے۔ اہل ِمغرب نے مسلمان کی دنیا میں یہ تصویر بنا دی ہے کہ وہ داڑھی و کُرتے میں، کلاشنکوف سے مسلح ایک دہشت گرد ہے جو زبردستی لوگوں کو مسلمان بناتاہے یا پھر انھیں قتل کر دیتا ہے۔

o آپ کی کتاب میں دو ابواب،ہندوستانی مسلمانوں سے متعلق ہیں جنھیں آپ نے ’’دہشت گرد بنانا‘‘ سے معنون کیا ہے ؟

m ہندوستانی مسلمانوں کا خود کو مظلوم و معتوب کہنا، بے سبب نہیں۔ ۲۰۰۷ء میں مکہ مسجد حیدرآباد بم دھماکے کے بعد پولیس نے چوہترّ(۷۴)تعلیم یافتہ مسلم نوجوانوں کو گرفتار کیا۔ ان میں اکیس(۲۱) کو جن پر مقدمہ قائم کیا گیا تھا، عدالت نے بَری قرار دے دیا ۔ ریاستی حکومت نے بھی بطور دل جوئی، ایک عوامی جلسے میں ان کے لیے تین ، تین لاکھ روپے کا اعلان کیا۔ ۲۰۰۸ء کے جے پور دھماکے میں چودہ (۱۴) لوگوں کو گرفتار کیا گیا جو کہ سب کے سب نوجوان مسلم ڈاکٹر اور انجینئر تھے، جنہیں بعد میں عدا لت نے بَر ی کر دیا۔ لیکن ان کی زندگیاں تباہ ہو گئیں۔ مالیگائوں واقعے میں بھی ۱۹۴؍مقدمے Students Islamic Movement of India کے خلاف قائم کیے گئے جن میں سے صرف چھ مجرم قرار پائے۔

o کیا میڈیا مسلمانوں کے خلاف جانب دار ہے؟

m جی! ہم نے میڈیا کی مسلم دشمنی پر با قا عدہ ایک باب باندھا ہے ۔ جب کبھی کہیں بھی بم دھماکا ہوتا ہے تو میڈیا اسے فوراً لشکر طیبہ یا حرکت الجہا د ا لا سلامی کے سر منڈھ دیتا ہے۔ کیا کبھی کسی ملزم کو سزا ملی ؟ اگر عدا لت کسی کو بری قرار دیتی ہے، تو ہمیں اسے بے گناہ ماننا چاہیے ۔ یہ بہت سادہ سی بات ہے۔

o آپ کہتے ہیں کہ جدید سائنسی خطوط پر تفتیشی عمل کا فقدان ہے ۔۔۔؟

m لوگ مس سالوی اور ریا ست کرناٹک کے مابین مقدمے کے متعلق نہیں جانتے۔ سپریم کورٹ نے اس معاملے میں یہ کہا کہ جھوٹ پکڑنے کا آلہ ، منشیات کا تجزیہ اور ذہنی کیفیت جانچنے کا عمل، غیر اخلاقی و غیر سا ئنسی ہے۔ جب کہ اعلیٰ عدالت نے اس سے متعلق خود حکم جا ری کر دیا تو میڈیا کو ان پر اتنا اصرار کیوں ہے؟

o آپ نے قو می کمیشن برائے انسانی حقوق (NHRC) کی بٹلہ ہاؤس قتل رپورٹ پر شکوک و شبہات کا اظہار کیا ہے۔کیوں۔۔۔؟

m NHRC کوئی عدا لت نہیں ہے۔ اس کی رپورٹ “Dermal Nitrate Test” پر مرتب کی گئی ہے جسے ماہرین نصف صدی قبل مسترد کر چکے ہیں۔ ویسے یہ NHRC سائنسی طریقۂ جانچ پر کب سے باا ختیار ہو گئی ہے؟

o آپ یہ بھی کہتے ہیں کہ ہندو تو ا دہشت گردی کا نظریہ محض ایک افسانہ ہے۔۔۔؟

m دہشت گردی اور فرقہ واریت کے مابین فرق کو واضح طور پر ابھی تک نہیں سمجھا گیا ۔سوامی اسیمانندنے ہر مقدمے میںاقبالِ جرم سے انکار کیا ہے۔کرنل پروہت کے مقدمے میں بھی ایک اہم نکتہ میڈیا میں ہر کسی نے نظر انداز کیا کہ کر نل پروہت کا دفاعی موقف یہ ہے کہ اسے فو جی انٹیلی جنس (MI) نے ’’ابھنیو بھا رت‘‘ تنظیم میں نفوذ کا کہا تھا۔ عدالتی تحقیق میں بھی اسے تسلیم کیا گیا ہے۔کرنل پروہِت کے خلاف اصل میں الزام یہ ہے کہ اس نے اپنے دائرہ کار سے تجا وز کیا لیکن میڈیا نے اس اہم نکتے سے صرفِ نظر کیا ۔حقیقت یہی ہے کہ MI نے اپنی حدود سے تجا وز کیا تھا۔یہ داخلی سلامتی کا معاملہ ہے ۔فوج نے کب سے داخلی سلامتی کے معاملات میں دخل دینا شروع کر دیا۔۔۔؟

o انٹیلی جنس کے لیے سب سے بڑی پریشانی حا فظ سعید ہیں۔پاکستان کا کہنا ہے کہ اسے حا فظ سعید کے با رے میں ٹھوس ثبو ت پیش نہیں کیے گئے ۔۔۔؟

m ہو سکتا ہے کہ آپ کے پاس حا فظ سعید کے خلا ف مقدمہ قائم کرنے کے لیے ٹھوس دستا ویزات و وجوہات ہوں لیکن پاکستان کی عدالتِ عالیہ نے انھیں بری قرار دیا ہے۔ آپ کیا کر سکتے ہیںاب؟ کیا آپ پاکستان سے یہ مطالبہ کریں گے کہ وہ اپنی عدا لت ِعالیہ کے فیصلے کے بر عکس کچھ کرے ۔۔۔؟ ہو سکتا ہے پاکستان دہشت گردی کو ہوا دے رہا ہو لیکن بین الاقوامی قانون میں اس سے متعلق کچھ نہیں ہے۔
o کیا آپ سمجھتے ہیں کہ ممبئی حملے دراصل کچھ جگہوں پر انٹیلی جنس نا کامی کا شا خسا نہ تھے ۔۔۔؟

m ہما ری انٹیلی جنس کچھ جگہ نہیں بلکہ ہر جگہ ناکام ہوئی۔ بحیثیت پیشہ ور افسر، ہم جانتے ہیں کہ ہمیں کیسی مبہم اطلاعات دی گئیں۔حال ہی میں بنگلور واقعے میں اطلاعات ایک دن بعد موصول ہوئیں۔ انٹیلی جنس کی طرف سے ہر آنے والے ۱۵؍اگست اور۲۶ جنوری کو ملک کے تمام حصوں میں ایسی اطلاعات پہنچائی جا تی ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ عبا دت گاہیں نشانہ بن سکتی ہیں ۔ہندوستان ہیں دس لاکھ عبا دت گاہیں ہیں اور کسی حملے کی صورت میں صرف اتنا کہہ کر وہ خو د کو بری الذ مہ کر لیتے ہیں کہ ہم نے پیشگی اطلاع کر دی تھی۔بعینہٖ یہی صورتِ حال ہمیں نکسل باڑیوں کے خلاف کارروائیوں میں درپیش ہے۔ نکسل باڑیوں سے نمٹنے کے معاملے میں فوج کو کچھ کہنا غلط ہے۔لو گ وطن کے لیے جا ن قر با ن کرنے کو تیا ر ہیں۔لیکن حقیقت یہ ہے کہ نکسل با ڑی علا قے میں موجود ہمارے جوان آنکھوں پر پٹی باندھے میدا ن میں موجود ،ایک گھونسے باز کی مانند ہیں۔وہ نہیں جانتے انہیں کہاں جانا ہے،کیا کرنا ہے اور کسے پکڑنا ہے۔ہزاروں ایکڑ رقبے پر محیط جنگل میں آپ کیسے جان سکتے ہیں کہ دشمن کہا ں ہے؟ نکسل باڑیوں کے خلاف تین ہزار سے زائد کارروائیاں ہو چکی ہیں لیکن میں کہہ سکتا ہوں کہ ان میں سے کسی ایک میں بھی انٹیلی جنس اطلاعات درست ثابت نہیں ہوئیں۔ ہمارے ہاں انٹیلی جنس اطلاعات دو طرح کی ہیں۔پہلی قسم ، مبہم اطلاعات پر مشتمل ہے، جس میں آپ کو بتا یا جا تا ہے کہ نکسل باڑی فلاں جگہ موجو د ہیں۔ یہ بہت بڑا علا قہ ہے جہا ں آپ کو معلوم نہیں ہو تا کہ آپ انہیں کہا ں تلاش کریں ۔

جتنا زیادہ وقت آپ ان کو ڈھونڈنے میں صرف کر یں گے، اتنا ہی زیا دہ آ پ کے لیے خطرات بڑھتے جا ئیںگے ۔ یاد رکھیے ،کامیا ب کارروائی کا انحصار سرعت و اختصار پر ہے۔

دوسری قسم کی اطلاعات وہ ہوتی ہیں جن میں ٹھیک نشاندہی کی گئی ہوتی ہے لیکن جب آپ وہاں پہنچتے ہیںتو نکسل باڑی تو کجا، ان کے گٹکے کی پچکاری کے نشانا ت بھی نہیں ہوتے۔ GPS سسٹم کے آ نے سے قبل انٹیلی جنس والے الٹا ہمیں مو ردِ الزام ٹھہراتے کہ ہم جھوٹ بول رہے ہیں اور ہم وہاں گئے تک نہیں ۔لیکن اب سب کچھ بدل چکا ہے۔ اب کسی بھی کارروائی کے لیے درست انٹیلی جنس اطلاعات نہایت ضروری ہیں،ورنہ اس کے بغیر کارروائی محض جنگل سے لڑنا ہے۔

o آپ کہہ رہے ہیں کہ درست انٹیلی جنس اطلاعات کے فقدان سے نکسل باڑیوں کے خلاف بیشتر کارروائیاں ناکامی کا شکار ہوئیں، لیکن کیا یہی اک وجہ ناکا می ہے۔۔۔؟

m انٹیلی جنس ہمارا نہایت کمزور پہلوہے۔ہمارے نوجوان اسلحہ و تربیت میں با غیوں سے بہت بہتر ہیں،تاہم ناقص حکمتِ عملی کے باوجود با غیو ں کی انٹیلی جنس بہتر ہے جس کی وجہ سے وہ ہماری حکمت عملی کے مطا بق نہیں لڑتے بلکہ جب وہ دیکھتے ہیں کہ فورسز کی پو زیشن مضبوط ہے تو وہ تصا دم کے بجائے راہِ فرار اختیار کرتے ہیں ۔وہ حملہ اُس وقت کرتے ہیں جب حالا ت ان کے لیے منا سب ہو ں۔لیکن اس کے بر عکس نکسل باڑیوں کے خلاف کارروائی میں ہماری یہ بدقسمتی ہے کہ ہم بجائے اپنی حکمت عملی کے مطابق لڑیں،دشمن کی چال میں آجا تے ہیں۔یہی وجہ ہے کہ ہمارے نوجوانوں کی ہلاکت کا تناسب ان کے حق میں ہوتا ہے۔

o آخری با ت!آپ نکسل صورت ِحال سے اتنے مایوس کیوں ہیں۔۔۔؟

m سوال مایوس ہونے کا نہیں بلکہ حقیقت یہ ہے کہ وہاں نہ ہار، نہ جیت والی صورتِ حال ہے ۔گزشتہ ۴۵ سالوں سے مسلسل فوجی کارروائیوں کے با وجود ہم نکسل با ڑیو ں کا خاتمہ نہیں کر سکے۔ اسی طرح وہ بھی ا پنے با نی راہنمائوںجا رو مجمدار اور کانو سنیا ل کی توقعات کے برعکس کوئی بھرپور اور پراثر نشوونما نہیں پا سکے۔ کسان، صنعتی کارکنان اور طلبہ میں سے کوئی طبقہ ان کا حا می نہیں۔ نتیجتاً یہ لوگ قبا ئل اور پسماندہ علاقوں تک محدود ہو کر رہ گئے ہیں۔

(ترجمہ: عابد شفیع احمد)

“Tehelka Newsweek” India, Sept. 1st, 2012″

Be the first to comment

Leave a Reply

Your email address will not be published.


*