بھارتی اراکینِ پارلیمنٹ گزشتہ ہفتہ تضحیک آمیز شور و ہنگامہ کے درمیان گھر گئے۔ جس انداز میں ان کا مذاق اُڑایا گیا وہ انتہائی افسوسناک تھا اس پہلو سے کہ دنیا کی عظیم ترین جمہوریت کے ایوان کی توہین ہو رہی تھی۔ ۱۴ ویں لوک سبھا گزشتہ سال صرف چھیالیس دن اپنے اجلاس کر سکی۔ جو اجلاس کی کم ترین تعداد ہے اور اس کی وجہ وہ ہنگامہ آرائی ہے جو اس کے مشکوک اراکین نے برپا کی۔ ہر ایک بحث میں دس اراکین میں سے ایک نے حصہ نہیں لیا۔ گیارہ اراکینِ پارلیمان کو رشوت لینے کے جرم میں معزول کر دیا گیا۔ وزیر کوئلہ مستعفی ہونے پر مجبور ہو گئے جب انہیں ایک قتل میں سزا سنائی گئی (اگرچہ بعد میں اپیل پر وہ چھوٹ گئے) جب اپوزیشن نے اعتماد کا ووٹ حاصل کرنے کا مطالبہ کیا تو بہت سارے اراکین کو ایک بڑے گھر سے جہاں دو اراکین تو قتل کے مقدمہ میں عمر قید کی سزا کاٹ رہے ہیں شرکت کے لیے لوک سبھا لے جایا گیا۔ گزشتہ ہفتہ جیسے ہی اراکین فرصت پر گئے پارلیمنٹ اسپیکر سومناتھ چٹرجی نے ان سے جان چھوٹنے پر اطمینان کا سانس لیتے ہوئے کہا کہ ’’تم پبلک فنڈ سے ایک پیسے کے بھی حقدار نہیں ہو‘‘ انہوں نے ان کی تحقیر کرتے ہوئے کہا کہ ’’مجھے امید ہے کہ تم سب آئندہ انتخابات میں شکست فاش سے دوچار ہو گے‘‘۔اس کا امکان نہیں ہے بھارتی سیاسی پارٹیوں کے پاس پرانے استعمال شدہ اتحادی ہیں جو اپنے داغدار ماضی کے ساتھ بھی ووٹروں پر اثرانداز ہونے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ لیکن چونکہ قومی پارٹیوں کی قوت کمزور ہو چکی ہے اور اس کی وجہ ذات پات اور نسلی بنیادوں پر سیاست چمکانے والے علاقائی طالع آزما ہیں، اس لیے مبینہ اور سزا یافتہ جرائم پیشہ لوگوں نے وسیع کردار ادا کرنا شروع کر دیا ہے۔ کسی ایک پارٹی نے بھی پارلیمنٹ کی اتنی نشستیں حاصل نہیں کی ہیں کہ وہ تنہا حکومت کر سکیں جبکہ کانگریس پارٹی ۱۹۸۴ء میں یہ کارنامہ انجام دے چکی ہے۔ بھارت کی چھ قومی جماعتوں جن میں کانگریس، بی جے پی اور بھارتی کمیونسٹ پارٹی شامل ہیں نے ۱۹۹۱ء میں کل ۴۷۷ نشستیں حاصل کی تھیں جبکہ یہی جماعتیں ۲۰۰۴ء میں صرف ۳۸۸ نشستیں حاصل کر پائیں۔ اس وقت بیشتر انتخابی حلقوں میں ۴ یا ۵ نمایاں پارٹیاں موجود ہیں اور ایک نشست جیتنے کے لیے درکار ووٹوں کا تناسب ۱۵ فیصد کی کم تر سطح تک گر گیا ہے۔ چنانچہ جو جرائم پیشہ طاقتور افراد ہیں انہیں اب کسی اہم سیاست دان کی حمایت کرنے کی ضرورت نہیں کیونکہ انہیں جیتنے کے لیے جتنے ووٹوں کی ضرورت ہے وہ اتنے کم ہیں کہ وہ خود اپنے آپ کو منتخب کروا سکتے ہیں۔
۱۶ اپریل کے عام انتخابات میں اس بات کا امکان ہے کہ ایک ایسا سیاست داں جو اپنے جرائم کے لیے تفتیش سے دوچار ہے وزیراعظم بن کر ابھرے۔ چودہویں لوک سبھا اس لحاظ سے پہلی لوک سبھا ہے کہ اس میں کتنے اراکین مشتبہ اور واضح طور سے جرائم پیشہ افراد تھے۔ بھلا ہو نئے ضابطوں کا جنہیں تنگ آئے ہوئے کالج پروفیسروں کے ایک گروہ نے سیاسی پارٹیوں سے سالہا سال کی مزاحمت کے بعد اب قانون بننے پر مجبور کر دیا ہے اور جن کی رُو سے لوک سبھا کے امیدواروں کو اپنی جائیداد اور مجرمانہ ریکارڈز کو واشگاف کرنا لازمی ہو گیا ہے۔ اس طرح کی واشگافی کا ۲۰۰۴ء کے انتخابات میں کوئی خاص اثر نہیں ہوا۔ اس انتخاب کے ۵۴۳ کامیاب لوگوں میں سے ۱۲۸ کے خلاف جرائم کے مقدمے تھے جن میں ۸۴ افراد کے خلاف قتل کے مقدمات، ۱۷ کے خلاف ڈکیتی کے مقدمات اور ۲۸ لوگوں کے خلاف چوری اور چھینا جھپٹی کے مقدمات تھے بہت سے ایسے تھے جن کے خلاف متعدد قسم کے مجرمانہ مقدمات تھے۔ ان میں سے ایک رکن پارلیمنٹ پر تو قتل کے ۱۷ الگ الگ مقدمات قائم تھے اور کوئی بھی اہم سیاسی پارٹی اس لعنت سے مبرا نہیں تھی۔ چونکہ واشگافی کی ضرورت نئی ہے لہٰذا رجحان کے متعلق کوئی خط کھینچنا ناممکن ہے لیکن بیشتر ماہرین کا کہنا ہے کہ صورتحال مائل بہ ابتری ہے۔ نیشنل سوشل واچ کولیشن کے ہیمانشو جھا کا کہنا ہے کہ ’’عام خیال یہ ہے کہ سیاست میں جرائم پیشہ افراد کے اثرات مستقل بڑھتے جا رہے ہیں‘‘۔ بھارتی قانون سزا یافتہ مجرموں کو انتخاب میں حصہ لینے سے روکتا ہے نہ کہ مبینہ مجرموں کو۔ لیکن قانون کی خامی سزا یافتہ مجرموں کو بھی انتخاب میں حصہ لینے کی اجازت دیتی ہے جب تک کہ مقدمہ عدالت میں زیر ِ اپیل ہے۔ بھارت میں زیرِ اپیل عرصہ کی مدت ۲۵ سے ۳۰ سال تک ہو سکتی ہے اور اس عرصے میں ایک شخص اپنا پورا کیریئر مکمل کر سکتا ہے۔ مبینہ مجرموں کا معاملہ، جو منتخب منصب کے حامل ہوتے ہیں، تو اس سے کہیں زیادہ آگے جاتا ہے۔ منقسم ووٹز اور انتخابی مہم میں خرچ کی متعینہ حدود سے عدم تجاوز سے انکار کی وجہ سے بدمعاشوں کے گروہ ایسے بااثر مناصب بزور حاصل کرنے میں کامیاب ہو گئے جو پارلیمنٹ سے مربوط ہیں اور یہ مسئلہ بڑھتا ہی جا رہا ہے۔ متوسط طبقہ کے احتجاج کے باوجود پارٹی کارکنان جھگی جھونپڑیوں کے باسیوں کو ووٹ کی خاطر شراب اور نقد رقوم بانٹتے پھرتے ہیں۔ لاقانونیت کی حامل ریاستوں مثلاً بہار اور اترپردیش میں بدمعاش غنڈہ عناصر دھمکیاں دے کر اپنے خط کی پیروی پر مجبور کرتے ہیں۔ فساد زدہ گجرات اور مغربی بنگال میں پارٹی کارکنان مبینہ طور سے اُن لوگوں کو جو ان کی پارٹی کے ہمدرد نہیں ہیں پریشان کرتے ہیں، دھمکیاں دیتے ہیں اور بسا اوقات ووٹروں کے رجسٹریشن کارڈز اپنے قبضے میں لے لیتے ہیں۔
دوسری طرف مہاراشٹرا نونرمان سینا کا راج ٹھاکرے جیسا طالع آزما جو دوسرے صوبوں سے نوکری کی غرض سے ممبئی آئے ہوئے لوگوں کو زدوکوب کرنے کے حوالے سے کافی مشہور ہے اپنی غنڈہ گردی کا اظہار سڑکوں پر احتجاج کے رُوپ میں کرتا ہے تاکہ اپنی سیاسی اہمیت میں اضافہ کر سکے۔ بقول جھا’’آیا آپ انہیں غنڈہ یا بدمعاش کہیں یا سیاسی کارکن کہیں یہ ایک گنجلک مسئلہ بن چکا ہے‘‘۔ بھارت کے جرائم پیشہ سیاست دانوں نے جو دہشت پیدا کی ہوئی ہے اس کا دائرہ بہت وسیع ہے۔ جرائم پیشہ افراد سیاسی منصب کے تعاقب میں اس لیے ہوتے ہیں کہ وہ اپنے آپ کو دولت مند بنا سکیں اور عدالتی گرفت سے اپنے آپ کو محفوظ رکھ سکیں۔ یہ لوگ با آسانی اپنے ذاتی مقاصد کے لیے پولیس اور انتظامیہ کو استعمال کر لیتے ہیں۔ جب پولیس افسران اور مجسٹریٹس قانون کو نافذ کرنے کی کوشش کرتے ہیں تو ایک طاقتور رکن پارلیمنٹ ان کے تبادلے کرا کے دَم لیتا ہے۔ ۲۰۰۵ء میں ایک رکن پارلیمنٹ اور سزا یافتہ قاتل صوبہ بہار سے تعلق رکھنے والا محمد شہاب الدین اس مجسٹریٹ کا تبادلہ کرا دیتا ہے جس نے شہاب الدین کا داخلہ نقص امن عامہ کے خطرے کے پیشِ نظر ضلع میں ممنوع قرار دے دیا تھا۔ حتیٰ کہ گزشتہ سال کے امریکا کے ساتھ جوہری معاہدے جیسے حساس مسئلے پر بھی اہم سیاستدانوں کی مجرمانہ ذہنیت سامنے آئی اس طرح کہ انہوں نے حکومتی روش سے واضح اختلاف کیا۔ من موہن سنگھ اور کانگریس پارٹی نے جب معاہدے کو حتمی شکل دینے کا فیصلہ کیا تو ان کے بائیں بازو کے اتحادی حکومت کی حمایت سے دستِ کش ہو گئے اور حکومت کو اعتماد کا ووٹ حاصل کرنے پر مجبور کر دیا۔
بے لگام ہارس ٹریڈنگ کے بعد سماج وادی پارٹی کے اراکین پارلیمنٹ، جن کے لیڈر ملائم سنگھ یادو بدعنوانی کے الزام میں سی بی آئی کے زیرِ نگہداشت تھے نے اپنے مواقف امریکا کے ساتھ جوہری معاہدے کے حق میں کر لیے اور حکومتی اتحاد میں بائیں بازو کی پارٹیوں کی جگہ لینے پر آمادہ ہو گئے۔ حکومت بچ گئی اور معاہدہ طے پا گیا۔ لیکن اس کے بعد جلد ہی رقوم سے بھرے پراسرار بریف کیسوں کی کہانیاں پارٹی دفاتر سے اراکین پارلیمنٹ کے گھروں تک گردش کرنے لگیں۔ سی بی آئی جس پر ہمیشہ یہ اعتراض رہا ہے کہ وہ حکومتی پارٹی کا سیاسی آلہ ہے نے سماج وادی پارٹی کے رہنما کے خلاف اپنا مقدمہ واپس لے لیا۔ اس کے بعد ’’نقد برائے ووٹ‘‘ نامی اسکینڈل کی تفتیش شروع ہونے سے پہلے ہی دم توڑ گئی۔ اہم پارٹیاں ان تمام باتوں سے مبرا نہیں ہیں۔
اپنی مدت ختم کرنے والی پارلیمنٹ میں ۲۶ کانگریس کے اراکین پارلیمنٹ اور ۲۹ بی جے پی کے اراکین پارلیمنٹ کو جرائم کے مقدمات کا سامنا رہا۔ دونوں اہم پارٹیوں کے نمائندوں کا ۵/۱ حصہ زیرِ تفتیش تھا۔ ان میں سے کسی بھی پارٹی نے ایسے سیاستدانوں کو جن پر سنگین جرائم کے الزامات تھے وزارتی عہدہ دینے میں کوئی عار محسوس نہیں کیا۔ مثال کے طور پر کانگریس نے شیبو سورین کو وزیر کوئلہ بنا دیا اس کے باوجود کہ وہ اس وقت اپنے سابق پرسنل سیکریٹری کے مبینہ اغوا اور قتل نیز فرقہ وارانہ فساد میں گیارہ افراد کے مبینہ قتل کے حوالے سے مقدمات کا سامنا کر رہے تھے (بعد میں وہ ان دونوں مقدمات سے بَری ہوگئے) ارون شوری جو ایک سابق صحافی ہیں اور اس وقت بی جے پی کے ایک اہم رہنما ہیں کا کہنا ہے کہ ’’ایک امیدوار کے لیے واحد معیار یہ ہے کہ وہ انتخاب جیتنے کی کتنی صلاحیت رکھتا ہے۔ اس کا کردار، اس کی کارکردگی، قومی مسائل کو حل کرنے کے حوالے سے اس کی اہلیت وغیرہ جیسے مسائل کوئی اہمیت نہیں رکھتے۔ اس طریقے سے آپ عوام کو یہ ذمہ داری نہیں سونپتے ہیں کہ وہ قانون ساز ادارے کا حصہ بنیں بلکہ درحقیقت آپ اس بات کو یقینی بناتے ہیں کہ وہ آپ کی تنظیم کے قریب بھی نہ پھٹکیں‘‘۔
اب اپریل کے انتخاب کی طرف آیئے ماہرین کا اتفاق ہے کہ وہ امیدواران جو منصب کے اہل ہیں ان کی تعداد ان کے خلاف جرائم کے مقدمات کے مقابلے میں قلیل ہے۔ حتیٰ کہ اہم سیاسی پارٹیوں نے بھی تبدیلی کی مزاحمت کی۔ جب کالج پروفیسران ۱۹۹۹ء میں ’’انجمن برائے جمہوری اصلاحات‘‘ کے پلیٹ فارم سے متحد ہوئے اور مقدمہ دائر کیا تاکہ امیدوار اپنے جرائم کے ریکارڈز واشگاف کریں۔ دہلی کی عدالتوں نے اس کے حق میں فیصلہ بھی دے دیا۔ اس کے بعد بی جے پی، کانگریس اور ۲۰ دیگر سیاسی پارٹیاں قانونی حِرفت بازیوں کے ذریعہ نئے قوانین کا گلا گھونٹنے کے لیے اکٹھا ہو گئیں اور ان کے نفاذ میں برسوں تاخیر کر دی۔ ایسوسی ایشن فار ڈیموکریٹک ریفارمس (ADR) کے رکن جگدیش چھوکر کا کہنا ہے کہ سرکاری مزاحمت سے دو چیزیں ثابت ہوتی ہیں۔ ’’یہ کہ سیاسی مقتدرہ اپنے حساس معاملے میں متحدہ ہو سکتی ہیں اور یہ کہ حکومت کم ازکم بدمعاشوں کے برسرِ منصب ہونے کے حق کی بقاء کے لیے اپنی توانائی کا اظہار کر سکتی ہے۔
معیار واقعتا اتنا گر گیا ہے کہ نہ تو بی جے پی اور نہ ہی کانگریس نے کوئی عہد کیا ہے کہ خطرناک مجرموں کو اپنی فہرست مناصب سے خارج کریںبلکہ اس کے بجائے انہیں اس بات پر مطمئن ہو جانا چاہیے کہ اس کے جرائم پیشہ افراد دوسروں کا پتہ صاف کر دینے میں نسبتاً مہارت کا ثبوت دینے والے ہیں۔ بی جے پی کے ترجمان راجیو پرتاب روڈی اخلاقی خرابی سے پیدا ہونے والے جرائم اور ’’قبیح‘‘ جرائم میں فرق بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ ’’نہ تو بی جے پی اور نہ ہی کانگریس مسلسل طور پر ایسے افراد کی حامل رہی ہے جو قابلِ سماعتِ عدالت جرائم کے مرتکب رہے ہوں۔ کانگریس پارٹی کے ترجمان ستیا ورت چتردیوی کا کہنا ہے کہ ’’میں یہ تو نہیں کہوں گا کہ کبھی ایسا نہیں ہوا ہے کہ جرائم پیشہ افراد کو ٹکٹ دیا گیا ہو لیکن پیشہ ور اور عادی مجرموں کو ٹکٹ نہیں دیا جائے گا‘‘۔ آدمی حیران ہے کہ قتل کے کتنے مقدمات درکار ہیں جن کی بناء پر بھارت کے نیک عوام کی نمائندگی کے لیے ایک شخص کو نااہل قرار دیا جائے؟
(بشکریہ: ہفتہ روزہ ’’نیوزویک‘‘۔ ۱۶ مارچ ۲۰۰۹ء)
Leave a Reply