سوال: آپ نے اپنے آخری ناول‘‘انتہائی خوشی کی وزارت‘‘ میں سابق وزیراعظم من موہن سنگھ کا مذاق اڑاتے ہوئے انہیں پگڑی پہنے خرگوش سے تشبیہ دی،آپ نے مودی کی چھپن انچ کی چھاتی کا تذکرہ بھی کیا،مودی نے انتخابی مہم کے دوران ہر تقریر میں اپنی طاقت کے اظہار کے لیے اس چھپن انچ کی چھاتی کا ذکر کیا۔ کیا آپ اب بھی خود کواس ملک کی سیاستی قیادت کا مذاق اڑانے کے لیے آزاد تصور کرتی ہیں۔
ارون دھتی رائے:ناو ل کے کردار ناول کے کردار ہی ہوتے ہیں، یہاں مختلف قسم کے لوگ موجود ہیں، جو زندگی کے واقعات اور کہانیوں پر ہنستے ہیں،اس وقت جو سب سے اچھی بات ہورہی ہے، وہ یہ ہے کہ فاشسٹ مودی اور بھارت میں ہونے والی ہر خوفناک چیز کا مذاق اڑایاجارہاہے، یہ پہلا اشارہ ہے کہ عوام نے مودی کی آمریت قبول کرنے سے انکار کرناشروع کردیا ہے،مذاق اڑانے کا مطلب یہ نہیں کہ چیزوں کو سنجیدگی سے نہیں لیاجارہا ہے،مذاق اڑانا انتہائی سیاسی بھی ہوسکتا ہے۔
سوال: بہت سے بھارتی لکھاری امریکا اور برطانیہ میں مقیم ہیں، جب کہ آپ کئی دہائیوں سے دہلی میں مقیم ہیں،آپ نے اپنا آخری ناول ختم کرنے سے قبل کا کچھ عرصہ لندن میں گزارا، ایسا کیوں کیا؟
ارون دھتی رائے: ہاں یہ درست ہے،مجھے بہت پریشان کن لمحات کا سامناتھا، لیکن میں پھر بھی دس دن بعد واپس آگئی، کیوں کہ میں بھاگ جانے والوں میں سے نہیں ہوں۔ یہاں پر جامعات میں طلبہ، اساتذہ، پروفیسر اور مجموعی طورپرسب کو بڑے پیمانے پر حملوں کا سامنا تھا، ایک کے بعد ایک یونیورسٹی پر حملے ہو رہے تھے، طلبہ رہنماؤں کو جیل میں ڈالا جارہا تھا، عدالت میں پیشی پر بھی ان پر تشدد کیا جارہا تھا۔ نام نہاد مقبول ٹی وی چینلز پر بیٹھے لوگ کہہ رہے تھے کہ سب کچھ ٹھیک تو ہورہا ہے اور ساری گڑبڑ کے ذمہ دار طلبہ ہیں۔ ان حالات میں حوصلہ کون دے رہا ہے؟ ان بے وقوفیوں اور پارلیمان پر حملے کے بارے میں کون لکھ رہا ہے؟ ایٹمی تجربات اور کشمیر کے معاملے پر کون تنقید کررہا ہے؟ سب کچھ یہ عورت ہی کررہی ہے، اس عورت کو اب تک جیل میں کیوں نہیں ڈالا جاسکا۔ مجھے محسوس ہوا کہ یہ لوگ مجھ کو دریا میں ڈبو رہے ہیں، ایسا تو ہمیشہ سے ہوتا آیا ہے، لیکن اب یہ ایسے وقت میں ہو رہا تھا، جب میری کتاب مکمل ہونے میں چند ہفتے رہ گئے تھے اور میں اس کتاب پر دس برس سے کام کررہی تھی۔ ان حالات میں میں خود کو غیر محفو ظ محسوس کررہی تھی، میں ایسی جگہ کتاب مکمل کرنا نہیں چاہتی تھی جہاں میں کام بھی نہ کرسکوں، ایسے میں میری برداشت جواب دے گئی اور میں برطانیہ چلی گئی۔ لیکن ملک چھوڑنے کے بعد مجھے بہت برا محسوس ہوا اور میں واپس آگئی۔
سوال: آپ طویل عرصے سے ملک میں نئے لبرلز اور دائیں بازو کے انتہا پسندوں کی ایک جیسی سیاست پر بات کرتی رہی ہیں، بدقسمتی سے یہ رجحان صرف بھارت تک محدود نہیں ہے، اس رجحان کے بڑھنے کی کیا وجوہات کیا ہیں؟
ارون دھتی رائے: میں اس بارے میں گزشتہ بیس برس سے لکھ رہی ہوں، اصل میں ۸۰؍ اور ۹۰کے دہائی میں کانگریس سرکارنے دو تالے کھول دیے۔ ایک تالا ’’بابری مسجد‘‘ کا معاملہ ہے، کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ بابری مسجد ہندو دیوتا رام کی جنم بھومی ہے، جب کہ دوسرا تالا ’’فری مارکیٹ اکانومی‘‘ کو متعارف کرانا ہے۔ بابری مسجد اور فری مارکیٹ اکانومی نے دو طرح کے جبر کو جنم دیا۔ ایک طرف نیو لبرل مارکیٹ کا بنیاد پرست معیشت دان ہے اور دوسری طرف ہندو توا کو ماننے والا قوم پرست شاؤنسٹ ہے اور یہ دونوں بنیاد پرست ہاتھ میں ہاتھ ڈالے محو رقص ہیں،کبھی کبھی دونوں میں تنازع بھی پیدا ہوجاتا ہے، کیوں کہ ایک جدت پسند ہے اور دوسرا پرانے خیالات کا مالک، لیکن اصل میں دونوں ایک دوسرے سے محبت کرتے ہیں۔
سوال: گجرات میں ۲۰۰۲ء کے قتلِ عام کے دوران موجودہ وزیراعظم نریندر مودی ریاست کے وزیراعلیٰ تھے، فسادات میں ایک ہزار افراد مارے گئے تھے، جن میں اکثریت مسلمانوں کی تھی۔ اس موقع پر انسانی حقوق کے کارکنوں، وکلا اور صحافیوں نے مودی کو خون بہانے کی اجازت دینے اور اس عمل کو درست کہنے کا ذمہ دار قرار دیا۔ ایسے میں بھارت کی امبانی، ٹاٹا، متل، اڈانی اوریہاں تک کہ گولڈ مین جیسی بڑی بین الاقوامی کارپویشنز مودی کی وزیراعظم بننے کی مہم کی حمایت کس طرح کرسکتی ہیں؟
ارون دھتی رائے: نئی اقتصادی پالیسیوں کو ایک مضبوط آدمی کی ضرورت ہے، انہیں لوگوں کو بے گھر کرنے، زمینوں پر قبضہ کرنے، لیبر قوانین کو تبدیل کرنے اور دیگر کاموں کے لیے ایک بے رحم آدمی کی تلاش تھی۔ مودی نے ۲۰۱۴ء میں وزیراعظم بننے کے لیے مہم کے دوران اپنے زعفرانی رنگ (ہندو تواکی علامت) کو چھپایا اور کاروباری لباس پہن لیا، افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ بہت سارے لبرل دانشوروں نے بھی مودی کے وزیراعظم بننے کا خیرمقدم کیا، جو انتہائی شرمناک ہے، انہوں نے گجرات کے قتلِ عام کو بھلانے کی کوشش کی، ان سب باتوں کے لیے ہندوتوا کا بہانہ بنایا جارہا ہے۔
سوال: بی جے پی بہت بڑی جماعت کا سیاسی ونگ ہے، ان کا نظریاتی پس منظر کیا ہے؟
ارون دھتی رائے: بھارت میں بی جے پی کو اقتدار حاصل نہیں، اصل تنظیم کا نام ہے آر ایس ایس (راشٹرسیوک سنگھ) جو ۱۹۲۵ء میں مسولینی کے نظریات پر قائم کی گئی، یہ لوگ آئین تبدیل کرنے اور بھارت کو ہندو ریاست قرار دینے کی بات کھلے عام کرتے ہیں۔ مودی، بی جے پی کے وزرا اور تمام اہم حکومتی افراد آر ایس ایس کے ممبر ہیں۔ اصل اقتدار ہی آر ایس ایس کے پاس ہے، آر ایس ایس فوج، یونیورسٹیز، عدالتوں اور انٹیلی جنس سروسز سمیت ہر ادارے میں سرایت کرچکی ہے۔
سوال:اسلاموفوبیا ہندوتوا نظریات کا بنیادی عنصر ہے، اقلیتوں کے خلاف تشدد بھارت میں موجود۱۵۰ ملین مسلمانوں پر کس طرح اثرانداز ہوگا؟کیا مسلم تنظیمیں امتیازی سلوک اور حکومتی پالیسیوں کے خلاف عام مسلمانوں کی آواز بن سکتی ہیں؟
ارون دھتی رائے:مسلم تنظیمیں کافی منظم لیکن خوفزدہ ہیں، جیسے جیسے یہ تنظیمیں عوام میں امتیازی سلوک کے خلاف تنقید کرتی ہیں، وہ مزید اکیلی ہوتی جاتی ہیں، کیوں کہ لوگ کہتے ہیں کہ دیکھو مسلمان منظم ہیں، یہ لوگ خطرناک ہیں، مسلمان تنظیمیں خوف اور تنہائی کا شکار ہوتی جارہی ہیں۔ یہ وہی صورتحال ہے جو نازیوں کی آمد سے قبل جرمنی کی تھی، اس وقت بھی یہودیوں کی جانب سے سڑکوں پر مارچ کرنا ناقابل قبول تھا اور وہ اپنے حق کے لیے کچھ نہیں کرسکتے تھے۔ حالیہ بھارتی انتخابات میں اسی طرح کی تنگ نظری کا مظاہرہ کیا گیا، کانگریس نے بھی مسلمانوں کے بارے میں کوئی بات نہیں کی، کیوں کہ وہ جانتے تھے کہ کانگریس کو فوری طور پر مسلم پارٹی قرار دیاجانے لگے گا، اس لیے اب کانگریس کے لیے بھی یہ دکھانا ضروری ہے کہ وہ کتنی ہندو ہے۔
سوال:آپ اس حوالے سے عالمی برادری کا کردار کس طریقے سے دیکھتی ہیں؟
ارون دھتی رائے: گجرات کے قتل عام کے بعد امریکا نے مودی کو ویزا دینے سے انکار کردیا تھا، لیکن وزیراعظم بننے کے بعد مودی کئی مرتبہ امریکا جاکر وہاں کے تمام صدور سے براہ راست ملاقاتیں کرچکے ہیں۔ مغرب اصل میں موقع پرست ہے، بھارت بہت بڑی مارکیٹ ہے اور سرمایہ کاری کے شاندار مواقع کی وجہ سے مغرب یہاں اپنی موجودگی ضروری سمجھتا ہے۔ مغرب کی جانب سے مودی کے گناہوں کو نظرانداز کرنے کے بعد اخلاقیات کی حیثیت ایک کھانا پکانے کی کتاب کی طرح ہوگئی ہے، یعنی سارا انحصار اس بات پر ہے کہ کھانا پکانے کے کون سے اجزا مارکیٹ میں دستیاب ہیں۔
سوال: ہماری آخری ملاقات۲۰۰۹ء کے عام انتخابات سے کچھ عرصہ قبل ہوئی تھی، حالیہ لوک سبھا انتخابات کے بارے میں آپ کو کیا توقعات ہیں؟
ارون دھتی رائے: آج کا بھارت بہت بدل چکاہے، یہ جگہ اب دس سال پہلے کے مقابلے میں کہیں زیادہ خطرناک بن چکی ہے، یہاں نفرت، جھوٹ، جعلی پیغامات اور نصاب کی تبدیلی جیسے اقدامات بہت زیادہ بڑھ چکے ہیں اور آپ ان چیزوں کو ختم نہیں کرسکتے، نفرت اور جھوٹ کا لاوا دھماکے سے پھٹنے کے انتظار میں ہے، پھر اس بات سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ موجوہ انتخابات کے نتائج کیا رہتے ہیں۔
(انٹرویو:ڈومینک ملر)
(ترجمہ: سید طالوت اختر)
“India is much more dangerous than it was ten years ago”. (“en.qantara.de”. May 23, 2019)
Leave a Reply