ارضِ مقدس کی تقسیم

اسرائیلی حکومت اور فلسطینی اتھارٹی کے حکام کے درمیان بات چیت تھم گئی ہے۔ ایسے میں اسرائیل میں نئے انتخابات کی باتیں ہو رہی ہیں جو ۲۰۱۱ء میں ہونے ہیں۔ ان انتخابات کا بنیادی نکتہ فلسطینی علاقوں میں یہودی بستیوں کا قیام ہے۔ اسرائیلی وزیر اعظم بنیامین نیتن یاہو بظاہر اپنی پارٹی پر غیر معمولی گرفت کے حامل دکھائی دیتے ہیں۔ ایہود بارک ۹ برسوں میں لیبر پارٹی کے پانچویں لیڈر ہیں۔ اور ان کی پوزیشن بھی بہت نازک ہے کیونکہ ۱۲۰ رکنی ایوان میں لیبر پارٹی کی نشستیں صرف ۱۳ رہ گئی ہیں۔ ایوشے بریورمین ممکنہ طور پر لیبر پارٹی کے لیڈر بن سکتے ہیں۔ وہ ماہر معاشیات ہیں اور بنیامین نیتن یاہو کی کابینہ میں اقلیتی امور کے وزیر کی حیثیت سے خدمات انجام دے رہے ہیں۔ انہوں نے حال ہی میں ’’نیوز ویک‘‘ کے ڈین ایفرون سے مقبوضہ بیت المقدس میں بات کی:


نیوز ویک: لیبر پارٹی کے کمزور پڑنے کا بنیادی سبب کیا ہے؟

بریور مین: اس وقت لیبر پارٹی اسرائیل میں بدترین سیاسی گروہ کی حیثیت رکھتی ہے۔ اس پارٹی نے ملک کے استحکام میں اہم کردار ادا کیا ہے۔ ۱۹۷۷ء تک اس کی پوزیشن بہت مستحکم تھی۔ تب سے اب تک اس نے سب سے زیادہ توجہ امن عمل پر مرکوز رکھی ہے اور دیگر تمام امور نظر انداز کردیے ہیں۔ قیادت کا بحران بار بار سر اٹھاتا رہا ہے۔ پارٹی رفتہ رفتہ نوجوانوں، روسی تارکین وطن اور عرب باشندوں کی حمایت سے محروم ہوتی گئی ہے۔ اگر ہم لوگوں کو متحرک کرنا چاہتے ہیں تو غیر معمولی اقدامات کرنے ہوں گے۔ یہ سب کچھ ایک یا دو سال کے اندر کرنا ہے۔ اگر امن عمل آگے بڑھا تو لیبر پارٹی کو بھی کریڈٹ ملے گا۔ اور اگر ایسا نہ ہوسکا تو پارٹی کو اپنی پوزیشن بہتر بنانے کے لیے تیزی سے آگے بڑھنا ہوگا۔

نیوز ویک: اسرائیلی ووٹر ریٹائرڈ جرنیلوں کو پسند کرتے ہیں۔ آپ علمی شخصیت ہیں۔ لوگ آپ کی جانب کس طرح متوجہ ہوں، یا آپ نے ان کی توجہ حاصل کرنے کے لیے کیا سوچ رکھا ہے؟

بریور مین: میں سمجھتا ہوں اس معاملے میں لوگوں کے ذہنوں میں کچھ غلط فہمیاں پائی جاتی ہیں۔ یزاک رابن کے سوا اسرائیل کے بہترین وزرائے اعظم غیر فوجی رہے ہیں۔ میں اس بات کے حق میں نہیں ہوں کہ اسرائیل پر سابق جرنیلوں کی حکومت ہو۔ ایسا نہیں ہونا چاہیے۔

نیوز ویک: آپ کی سوچ کیا ہے؟

بریور مین: اگر ہم نے مقدس سرزمین کو تقسیم نہ کیا تو بہت جلد غرب اردن میں ایک آزاد ریاست معرض وجود میں آ جائے گی۔ اگر ایسا ہوا تو ایسی خرابی پیدا ہوگی جو اسرائیل اور فلسطین دونوں کے لیے شدید نقصان دہ ثابت ہوگی۔ اسرائیل کو امن کے معاملے میں وہ تجویز قبول کرنی چاہیے جو ۱۹۶۷ء کی جنگ کو بنیاد بناکر ترتیب دی گئی ہو۔ اسرائیل قیادت کو اب معاملات نمٹانے میں تاخیر نہیں کرنی چاہیے کیونکہ اسرائیلی ریاست کے لیے وقت گزرتا جارہا ہے۔

نیوز ویک: کیا اسرائیل کے لیے یہ بات اہمیت رکھتی ہے کہ امریکی ایوان نمائندگان اور سینیٹ میں اکثریت ری پبلکنز کی ہو یا ڈیموکریٹس کی؟

بریور مین: میں سمجھتا ہوں دنیا کو ایک مضبوط امریکی صدر کی ضرورت ہے۔ اسرائیل اور فلسطینیوں کے لیے ایسا مضبوط امریکی صدر ناگزیر ہے جو امن عمل کو عمدگی سے آگے بڑھانے کی بھرپور صلاحیت اور سکت رکھتا ہو۔

نیوز ویک: اگر اسرائیل کو فلسطینی علاقوں میں یہودی بستیوں کی تعمیر روکنے سمیت کسی بھی معاملے میں دباؤ کا سامنا کرنا پڑا تو؟

بریور مین: اگر ایسے کسی بھی دباؤ کے سامنے جھکنے سے اسرائیل نے انکار کیا تو میں لیبر پارٹی کو حکومتی اتحاد سے الگ کرنے میں دیر نہیں لگاؤں گا۔

نیوز ویک: کیا آپ یہ سمجھتے ہیں کہ یہودیوں کی آباد کاری اور متعلقہ امور پر بین الاقوامی دباؤ قبول نہ کرنے کی صورت میں بنیامین نیتن یاہو کی حکومت زیادہ دن برقرار نہ رہ سکے گی؟

بریور مین: جی ہاں۔ اگر براہ راست مذاکرات کی راہ جلد ہموار نہ ہوئی اور امن عمل یہودی بستیوں کی تعمیر نہ رکنے کے باعث رکا رہا تو لیبر پارٹی حکمراں اتحاد سے الگ ہونے پر مجبور ہو جائے گی۔ میرا خیال ہے کہ اب نیتن یاہو یہودیوں کی آباد کاری روک کر امن عمل کو آگے بڑھانے پر مجبور ہو جائیں گے۔

نیوز ویک: کیا نیتن یاہو مرکز میں دائیں بازو کی طرف جھکاؤ رکھنے والی مخلوط حکومت کے ساتھ ایسا کرسکیں گے؟

بریور مین: اگر نیتن یاہو کوئی تبدیلی چاہتے ہیں اور امن عمل کی طرف بڑھنے کے خواہش مند ہیں تو انہیں ناگزیر طور پر حکمراں اتحاد میں بنیادی تبدیلی لانی پڑے گی۔ اگر وہ امن عمل کو آگے بڑھائیں گے تو چند وزرا ضرور الگ ہو جائیں گے۔

نیوز ویک: اسرائیلی قانون ساز عرب باشندوں کے لیے ملک سے وفاداری کے حلف پر غور کر رہے ہیں۔ عربوں کے ساتھ اسرائیلیوں کے تعلقات پر اس کا کیا اثر مرتب ہوگا؟

بریور مین: اس تجویز سے عرب خائف ہیں اور اس کے نتیجے میں ان کے اور یہودیوں کے تعلقات متاثر ہو رہے ہیں۔ یہ تجویز بظاہر (انتہا پسند وزیر خارجہ ایویگڈور) لائبر مین کو خوش کرنے کے لیے ہے۔ اسرائیل کو بالآخر لائبرمین اور بریورمین میں سے کسی ایک کے تجویز کردہ راستے کو چننا پڑے گا۔ لائبرمین عددی برتری کی حکومت پر یقین رکھتے ہیں اور ان کے دل میں لبرل جمہوریت کا کوئی مقام نہیں۔ دوسری طرف بریورمین لبرل جمہوریت اور مقدس سرزمین کی تقسیم کی بات کرتا ہے۔

(بشکریہ: ’’نیوز ویک‘‘ پاکستان۔ ۸نومبر ۲۰۱۰ء)

Be the first to comment

Leave a Reply

Your email address will not be published.


*