ڈاکٹر ذاکر حسین پر نئی کتاب کا تعارف

ذاکر حسین ( ۱۹۶۹ء۔۱۸۹۷) کی سوانح عمری پر اُردو اور انگریزی میں کئی کتابیں اور مضامین شائع ہو چکے ہیں۔ ان میں محمد مجیب، ضیاء الحسن فاروقی، رشید احمد صدیقی، راج موہن گاندھی، بی شیخ علی، کے آر بی سنگھ، سیدہ سیدین حمید، سعیدہ خورشید وغیرہ۔ اس کے علاوہ اُن کی تقریروں کو بھی مرتب کر کے شائع کیا جاچکا ہے۔ اس کے باوجود اب بھی بہت سی دستاویز کی تلاش اور ان کا حصول باقی ہے۔ عزیز الدین حسین نے بڑی عرق ریز محنت سے ذاکر حسین کے مکتوبات کو نہ صرف تلاش کیا بلکہ انھیں ترتیب دے کر شائع کیا ہے۔ اس اشاعت سے ذاکر حسین کی حیات و خدمات پر مزید روشنی پڑتی ہے۔ آزاد ہندوستان کے عملی مفکرین میں ذاکر حسین اپنی انسان دوستی اور منکسر المزاجی کی وجہ سے زیادہ اہم شخصیت بن جاتے ہیں۔

جیسا کہ اس کتاب کے عنوان سے ہی ظاہر ہے کہ زیرِ تبصرہ کتاب میں ذاکر حسین کے مکتوبات کو مرتب کیا گیا ہے۔ ان میں مختلف اداروں اور شخصیتوں کو ارسال کیے گئے مراسلے شامل ہیں۔ ۱۹۱۶ء سے لے کر ذاکر حسین کی زندگی کے آخری لمحوں تک کے تمام خطوط (انگریزی و اردو) کے حوالے اور ان کے خلاصے بھی پیش کیے گئے ہیں۔ شروع میں ایسے خطوط بھی شامل ہیں جن سے ذاکر حسین کے زمانۂ طالب علمی کے بارے میں آگہی ملتی ہیں۔ یہ خطوط ایک نوع سے تعریفی خطوط یا Testimonials ہیں جن میں ایٹہ سے لے کر علی گڑھ تک کی ان کی تعلیمی زندگی پر روشنی پڑتی ہے۔ انھوں نے ۱۹۱۳ء میں علی گڑھ کے محمڈن اینگلو اورینٹل کالج میں سائنس میں داخلہ لیا تھا لیکن ۱۹۱۶ء میں آرٹس و سوشل سائنس کی طرف رجوع کر لیا۔ ان خطوط سے یہ واضح ہوتا ہے کہ ان کی شخصیت میں بتدریج ارتقا ہوا۔ اپنی تقریری اور مذاکرانہ صلاحیت کی وجہ سے وہ علی گڑھ میں نہ صرف کافی مقبول ہو گئے تھے بلکہ اس سے یہ بھی پتا چلتا ہے کہ ان کے اندر رہنمائی کی بے پناہ صلاحیتیں بھی موجود رہی ہیں۔

ذاکر حسین اپنی ظرافت اور حاضر جوابی کی وجہ سے بھی کافی مقبول تھے۔ ان خوبیوں کی وجہ سے وہ لوگوں کا دل جیت لیتے تھے۔ ایسی تمام خوبیوں کی وجہ سے نہ صرف انھوں نے جامعہ ملّیہ اسلامیہ اور علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے مشکل ترین ادوار میں وائس چانسلر کی حیثیت سے خدمات انجام دیں بلکہ بعد میں بہار کے گورنر بھی بنے اور پھر جمہوریۂ ہند کے نائب صدر اور صدر کی بھی ذمہ داریاں بہ خوبی نبھائیں۔ ان تمام عظیم عہدوں پر رہتے ہوئے انھوں نے تمام جگہوں پر بنیادی طور سے ایک معلم کی خوبیاں ہی دکھائیں۔

زیرِ تبصرہ کتاب میں کچھ ایسے خطوط بھی ملتے ہیں جس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ نظام حیدرآباد اور سینٹرل بینک آف انڈیا نے جامعہ ملّیہ کو اس کے ابتدائی مشکل دور میں مالی امداد بہم پہنچائی۔ (صفحہ۱۴ مراسلہ بتاریخ ۲۳ ستمبر ۱۹۲۹ء)

کچھ ایسے خطوط بھی ملتے ہیں جن میں ذاکر حسین نے نہ صرف شرحِ خواندگی میں تیز اضافے کی ضرورت پر زور دیا ہے بلکہ بھارت کے دیہاتوں میں بھی یونیورسٹیوں کے قائم کیے جانے کی ضرورت کو واضح کیا ہے۔ یوں تو یہ کہا جاسکتا ہے کہ نوآزاد ملک ہندوستان کی مالی پریشانیوں کے پیشِ نظر ایسی تجاویز بے معنی تھیں لیکن آج ۲۱ویں صدی میں اُن خوابوں کو شرمندۂ تعبیر کرنے کی سخت ضرورت ہے کیونکہ بھارت تو بنیادی طور سے دیہاتوں کا ملک ہے۔

علی گڑھ مسلم یونیورسٹی تقسیمِ وطن کے بعد ایک بڑے بحران کا شکار ہو چکی تھی۔ لہٰذا ۱۹۴۸ء سے لے کر ۱۹۵۶ء تک انھیں خصوصی طور پر اس یونیورسٹی کی سربراہی سونپی گئی۔ انھوں نے ناشروں، طلبا کے رہنمائوں، اساتذہ وغیرہ سے کئی مراسلے کیے۔ ان مراسلوں میں مسلم یونیورسٹی اور آزاد ہندوستان کی تعلیم و سیاست کی تاریخ لکھنے میں بہت بڑی مدد ملے گی۔ انھوں نے مرکزی حکومت کے شعبۂ تعلیم اور یونیورسٹی گرانٹس کمیشن سے مسلسل مراسلے کے ذریعہ یونیورسٹی کے لیے نہ صرف فنڈ حاصل کیا بلکہ کئی نئے شعبے قائم کیے۔ اس کے علاوہ پرانے شعبوں کو وسعت و توانائی بخشی۔ انھوں نے کئی ملکی و غیرملکی مندوبین کی علی گڑھ میں مہمان نوازی کی۔ اس کا مقصد صرف مالی امداد حاصل کرنا نہیں تھا بلکہ علی گڑھ کیمپس کی تہذیبی و سیاسی زندگی کے سلسلے میں پھیلی بدگمانیوں کو دور کرنا تھا۔

ایک سوانح نگار بی۔شیخ علی نے یہ لکھا ہے کہ ذاکر حسین بہار کے مقبول ترین گورنر ثابت ہوئے کیونکہ نہ صرف انھیں گہرا تجربہ تھا، نہایت ہی ذہین، انسان دوست، ہر دل عزیز انسان تھے بلکہ زندگی کے تمام شعبوں میں اُن کی گہری دلچسپی تھی۔ صرف گندی سیاست سے خود کو دور رکھتے تھے۔ شیخ علی کی اس رائے کی تائید میں ایسے کئی خطوط ملتے ہیں جو زیرِ تبصرہ کتاب میں شامل کیے گئے ہیں۔

مہاتما گاندھی کی مشہور ’’بنیادی تعلیم‘‘ (واردھا ۱۹۳۷ء) کی اسکیم کو ایک مخصوص شکل اور مقبولیت بھی ذاکر حسین کی وجہ سے ہی ملی۔ اس میں دست کاری و صنعت کاری کی بنیادی ٹریننگ بھی شامل تھی۔ اس کی وجہ سے اس اسکیم کو کافی مشقتوں کا سامنا کرنا پڑا اور مجموعی طور پر یہ اسکیم بہت کم کامیاب رہی لیکن ذاکر حسین نے بہار کی گورنری سنبھالنے کے بعد اس اسکیم کے تحت اس صوبے میں ’’بنیادی اسکولوں‘‘ کے کئی ادارے قائم کروائے۔ ان کا یہ تجربہ بہار میں کافی کامیاب ثابت ہوا اور آج بھی ان اسکولوں کا انتظام صوبائی حکومت نے سنبھال رکھا ہے۔ دیگر سرکاری اسکولوں کی بہ نسبت ’’بنیادی اسکولوں‘‘ کو زیادہ افتخار حاصل رہا ہے۔

نہرو کے پنج سالہ منصوبوں میں بڑی صنعتوں کو زیادہ فوقیت حاصل تھی۔ اس اسکیم میں صوبۂ بہار کو نقصان ہو رہا تھا اور ہوا۔ گورنر ذاکر حسین نے اپنی دوراندیشی سے ان نقصانات کو بھانپ لیا اور ۱۹۵۷ء میں انھوں نے نہایت ہی انکساری اور مصلحت کے ساتھ اپنی نااتفاقی کا نرم اظہار کیا۔ انھوں نے یہ کہا کہ بنیادی ضرورتوں کے سامان بنانے والی صنعتوں کو ہی ترجیح دی جانی چاہیے۔

دانشوروں کا ایک طبقہ ہمیشہ سے یہ کہتا رہا ہے کہ مرکزی حکومت نے صوبۂ بہار کے خلاف امتیاز برتا ہے اور اسے ’’انٹرنل کالونی‘‘ بنا کر رکھا ہوا ہے۔ ان شکایتوں کو دور کرنے کی غرض سے ۱۹۶۰ء میں انھوں نے بھارت کے پلاننگ کمیشن سے اپیل کی کہ بہار کی ترقی میں وہ خصوصی دلچسپی لے تاکہ متوازی علاقائی ترقی کا آئینی مقصد بروئے کار ہو سکے۔ (صفحہ۵۳)

۱۹۰۵ء میں گوپال کرشن گوکھلے نے کانگریس کے سالانہ اجلاس میں ۱۴ سال تک کے بچوں کے لیے لازمی مفت تعلیم کی مانگ کی تھی۔ ذاکر حسین نے آزادی کے بعد اس اہم مقصد کی یاددہانی بار بار کرائی۔

آزادی کے بعد اُترپردیش کے مقابلے صوبۂ بہار میں اردو کی بہتر صورتِ حال کی ایک بڑی وجہ ذاکر حسین کی کوشش بھی مانی جاتی ہے۔ انھوں نے گورنر کی حیثیت سے پٹنہ میں شعر و ادب کے فروغ کے لیے کئی اقدام کیے۔ انھوں نے اسی غرض سے علی گڑھ تحریک کے زیرِ اثر قائم شدہ ۱۹ویں صدی کے اینگلو عربک اسکول کو پھر سے شروع کرنے کی کوشش کی۔ نیز انھوں نے پٹنہ میں اردو کی ایک ادبی نمائش کا اجرا بھی نومبر ۱۹۵۹ء میں کیا۔ قاضی عبدالودود کی انجمن ’’ادارۂ تحقیقاتِ اُردو‘‘ کی کافی حوصلہ افزائی کی۔ ان کاوشوں کی تصدیق سید بدرالدین احمد کی آپ بیتی ’’حقیقت تھی کہانی بھی‘‘ سے بھی ہوتی ہے۔ اس نمائش میں مظفر پور سے ۱۸۶۸ء میں نکلنے والے پندرہ روزہ ’’اخبارالاخبار‘‘ کے بارے میں پتا چلا۔ اور اس سے قاضی عبدالودود کو یہ معلومات ملیں کہ سرسید کی علی گڑھ تحریک کے زیرِ اثر مظفرپور (بہار) میں بھی تعلیمی ادارے قائم کیے گئے تھے۔ (ملاحظہ فرمائیں قاضی عبدالودود کا مضمون ’’فکر و نظر‘‘ علی گڑھ سہ ماہی، جولائی ۱۹۶۰ء)

قاضی عبدالودود کی ’’ادارۂ تحقیقاتِ اُردو‘‘ کی تحریک اور اس کے بعد عبدالمغنی اور غلام سرور جیسے رہنمائوں کی وجہ سے ۱۹۸۰ء کی دہائی میں بہار میں اُردو کو دوسری سرکاری زبان کا درجہ ملا اور اس کے نتیجے میں اہلِ زبان کو سرکاری نوکریوں کے مواقع بھی حاصل ہوئے۔

ذاکر حسین تہذیبی وراثتوں کی حفاظت کے لیے بھی ہمیشہ کوشاں رہے۔ اس کا ایک بیّن ثبوت یہ ہے کہ انھوں نے دسنہ (ضلع گیا، بہار) اور ایسے کئی گائوں کا دورہ کیا۔ دسنہ کی لائبریری میں کئی مخطوطات غیرمحفوظ حالت میں رکھے تھے۔ ذاکر حسین نے گائوں والوں سے استدعا کر کے ان تمام مخطوطات کو پٹنہ کی خدا بخش لائبریری میں بھجوا دیا۔

ذاکر حسین کو نوجوانوں سے خطاب کرنے میں، ان سے گفتگو کرنے میں، نصیحتیں دینے میں کافی مزہ آتا تھا کیونکہ یہی تو ملک کے مستقبل ہوتے ہیں۔ گورنر کی حیثیت سے انھوں نے پٹنہ کے سائنس کالج کی ادبی انجمن ’’بزمِ سخن‘‘ کی دعوت پر طلبا سے خطاب کرتے ہوئے ان کی تعریف یہ کہتے ہوئے کی کہ: ’’سائنس کے طلبا کو بھی ادبی ذوق رکھنا چاہیے کیونکہ ان کے مطابق ادب سے ہی ذہن کو عمومی وسعت حاصل ہوتی ہے‘‘۔ (صفحہ۵۳۔۵۲)

جیسا کہ اوپر ذکر کیا گیا، ذاکر حسین بنیادی طور سے ایک معلم تھے اور اسی لیے اساتذہ کی بڑی قدر کرتے تھے۔ ان کی گورنری کے عہد میں پٹنہ کے راج بھون میں ’’اسٹڈی سرکل‘‘ چلایا جاتا تھا جس میں اساتذہ سے گفتگو، سیمینار، مذاکرے وغیرہ شامل تھے۔ ایک خطاب میں انھوں نے پٹنہ یونیورسٹی کے اساتذہ سے واضح لفظوں میں کہا کہ ٹیچرز ایسوسی ایشن صرف ایک ٹریڈ یونین نہیں ہو سکتی۔ بہار اسمبلی کے ایک ایسے بل کی تجویز جس سے اعلیٰ تعلیم کو سیاست اور افسر شاہی کا تابعدار بنانے کی کوشش ہو رہی تھی، چانسلر و گورنر کی جیت ہے ذاکر حسین نے اس بل کی شد و مد سے مخالفت کی اور اس طرح یونیورسٹیوں کی خودمختاری محفوظ رکھنے میں کامیاب رہے۔

زیرِ تبصرہ کتاب میں جہاں ہم یہ پاتے ہیں کہ ذاکر حسین کی ذاتی اور عوامی زندگی سے متعلق متعدد نادر خطوط یکجا کیے گئے ہیں، وہیں ہم اس میں کچھ کمیاں بھی پاتے ہیں۔ اوّل تو یہ کہ تعارفی مضمون (Introduction) میں مصنف عزیزالدین نے تھوڑا اختصار سے کام لیا ہے۔ اگر موجودہ تصانیف کی مدد سے ذاکر حسین کے حالاتِ زندگی پر زیادہ روشنی ڈالتے ہوئے ان تصنیفات کا تنقیدی جائزہ بھی لیا جاتا تو شاید یہ زیادہ بہتر بات ہوتی۔ جن اشخاص کا ان خطوط میں ذکر آیا ہے، اُن کے بارے میں ایک تفصیلی، جامع تعارف (Annotation) کے ذریعہ کیا جاتا تو یہ کتاب اور بھی زیادہ مددگار ثابت ہوتی۔ اس کتاب میں مضامین و اشخاص کے اشاریہ (Index) کی عدم موجودگی بھی محسوس ہوتی ہے۔

۱۹۲۳ء سے ۱۹۲۷ء کے دوران کا کوئی بھی خط اس میں شامل نہیں ہو سکا۔ اس کی وجہ شاید یہ ہو گی کہ اس دوران ذاکر حسین جرمنی میں تھے اس لیے جامعہ آرکائیوز میں اس عہد کے خطوط دستیاب نہ ہوں گے۔

ان سب کے باوجود ’’جامعہ آرکائیوز‘‘ کے ڈائریکٹر پروفیسر عزیزالدین حسین نے ایسے “Calendars” شائع کر کے محققین کا کام بہت ہی آسان اور خوشگوار کر دیا ہے (اس سے قبل انھوں نے ڈاکٹر انصاری کا “Calendars” شائع کیا ہے)۔ ایسے تاریخ نویس جو اُردو نہیں جانتے انھیں بھی اس کتاب سے بڑی مدد ملے گی۔ لہٰذا یہ اُمید کی جاسکتی ہے کہ اس “Calendars” کی مدد سے ذاکر حسین کی زیادہ جامع، معلوماتی سوانح عمری لکھی جاسکے گی۔

(بشکریہ: سہ ماہی ’’راہِ اسلام‘‘ نئی دہلی۔ شمارہ: جولائی تا ستمبر ۲۰۰۷ء)

Be the first to comment

Leave a Reply

Your email address will not be published.


*