کیا دریائے نیل کے پانی کے لیے جنگ کا وقت آچکا ہے؟
Posted on July 16, 2010 by جمال عرفہ in شمارہ 16 جولائی 2010 // 0 Comments

باوجود یہ کہ افریقا میں عربوں کی جانب سے مختلف میدانوں میں سرمایہ کاری کا سلسلہ جاری ہے۔ لیکن دوسری جانب عربوں نے نیل کے پانی سے صحیح فائدہ اٹھانے میں کوتاہی کا مظاہرہ کیا۔ ممکن ہے اس میں سیاسی حکمتِ عملی یا سلامتی امور کے مسائل رکاوٹ بنے ہوں۔ جو غلطی سوڈان میں ہوئی عرب ہو بہو اس کا اعادہ دریائے نیل کے پانی کے تعلق سے کر رہے ہیں۔ چنانچہ جب دریائے نیل کے منصوبوں میں عربوں نے حصہ نہیں لیا تو مغربی ممالک اور صہیونیوں کو موقع ہاتھ آ گیا چنانچہ وہ ایسے منصوبوں میں بڑھ چڑھ کر حصہ لینے لگے۔ قومی سلامتی کے لیے پانی کے استعمال کا فارمولا عربوں کی سمجھ میں نہ آسکا۔ اہلِ عرب میں یہ کہاوت عام ہے کہ ’’عربوں کے لیے نہ اونٹنی ہے اور نہ اونٹ‘‘۔ اس وقت یہ کہاوت خود عربوں پر صادق آ رہی ہے۔ یہاں اس کی وضاحت ضروری ہے کہ سوڈان عالم عرب کے تغذیہ کا کوڑے دان بننا چاہتا ہے۔ عالم عرب میں غذائی میدان میں بڑاخلا پایا جاتا ہے۔ ۶۰ ؍ارب ڈالر سالانہ غذائی اشیا کا ایکسپورٹ امپورٹ ہوتا ہے۔ غذائی مواد میں صرف ۳۹ فیصد مقامی طور پر تکمیل پاتا ہے۔ بقیہ پوری غذا باہر سے تکمیل پاتی ہے اور غذائی اجناس پانی کے بغیر حاصل نہیں کی جا سکتی۔ خارجہ پالیسی میں شروع سے پانی کو بڑی اہمیت حاصل رہی ہے۔
مصر کا زیادہ دارومدار دریائے نیل کے پانی پر رہا ہے۔ جس کے سرچشمے اس کی سرزمین سے باہر ہیں لیکن مصر کی جنوبی سرحدوں کو پہنچنے سے قبل وہ مختلف ملکوں میں بہتا ہوا آتا ہے۔ اس اعتبار سے دریائے نیل کے پانی میں مصر کا حصہ ختم کرنا غلطی ہے۔ نیز مصر کی شمال مشرقی سرحدیں اس پر یلغار کے لیے باب الداخلہ کی حیثیت رکھتی ہیں۔ اس لیے مصری سیاست کا اہم مقصد ہر ممکن طریقہ استعمال کر کے اس محاذ کی حفاظت کرنا ہے، چنانچہ پانی اور سیکوریٹی کا مسئلہ مصر کے اہم مسائل کا درجہ رکھتا ہے۔ مصر میں چاہے کوئی بھی حکومت آئے لیکن وہ ان دو مسائل کو نظرانداز نہیں کر سکتی۔ یہ دونوں مسائل مصر کے لیے انتہائی اہمیت کے حامل ہیں بلکہ انہی پر مصر کی بقا کا انحصار ہے۔ ان حقائق کی روشنی میں حوض النیل، سرچشموں سے وابستہ ممالک نے ایک ایسے معاہدہ پر دستخط کیے ہیں جس کے بارے میں سمجھا جا رہا ہے کہ یہ پانی سے متعلق ۱۹۲۹ء اور ۱۹۰۹ء میں کیے گئے معاہدوں کا متبادل ہے۔ اگرچہ مصر اور سوڈان نے مذکورہ معاہدہ پر دستخط کرنے سے انکار کر دیا ہے لیکن دیگر دستخط کنندہ ممالک قدیم معاہدوں کو توڑ کر آگے بڑھیں گے۔ قدیم معاہدوں میں مصر کے لیے دریائے نیل کے پانی کا ۵ء۵۵ میٹر مکعب مختص کیا گیا تھا اور سوڈان کے لیے ۵ء۱۸ میٹر مکعب، لیکن حالیہ معاہدہ پر دستخط کے بعد اس پانی پر امتناع عائد ہو جائے گا۔ اپریل ۲۰۱۰ء میں مصر کے شرم الشیخ میں منعقدہ بیٹھک کے ناکام ہو جانے کے بعد نیل کے پانی سے وابستہ دس ممالک باہم دست و گریباں ہو گئے تھے۔ نیل کے سرچشموں سے وابستہ ۸ ممالک نے پانی کی عادلانہ تقسیم سے متعلق ایک منفرد معاہدہ پر دستخط کرنا طے کیا تھا۔ اس عادلانہ تقسیم کی رو سے مصر اور سوڈان اپنے اپنے حصوں سے محروم قرار دیے جائیں گے۔ چنانچہ اسی وجہ سے ان دونوں ملکوں نے ایسے کسی معاہدہ پر دستخط کرنے سے صاف انکار کر دیا جس سے انہیں نیل کے پانی سے محروم ہونا پڑتا ہو۔
تاحال اس تنازعہ کے حل کی جو صورتیں سامنے لائی گئیں وہ سب تصادم کو دعوت دینے والی ہیں۔ اگرچہ متعلقہ ممالک کی جانب سے مسئلہ کے منصفانہ حل کے لیے نیک تمنائوں کا اظہار کیا گیا ہے اور مصر نے آئندہ بہت جلد ایک ایسی بیٹھک کا وعدہ کیا ہے جس میں اس تنازعہ کو حل کر لیا جائے گا۔ لیکن اس کے باوجود بظاہر مسئلہ کے حل کے آثار نظر نہیں آتے۔ گزشتہ دنوں ایک کینیائی وزیر نے اپنے بیان میں کہا کہ اگر مصر کو اسرائیل کے ساتھ گیاس فروخت کرنے کا حق حاصل ہے تو دریائے نیل سے وابستہ ممالک کو بھی یہ حق حاصل ہے کہ وہ اسرائیل کے ساتھ نیل کے پانی کا معاملہ طے کریں۔ کینیائی وزیر کا یہ بیان اشتعال انگیز ہے اور اس سے واضح ہوتا ہے کہ نیل کے پانی کے مسئلہ پر متعلقہ ممالک تصادم کی جانب بڑھ رہے ہیں جو انتہائی تشویشناک ہے۔ اس پس منظر میں گزشتہ دنوں کئی ایک مصرف عہدیداروں نے گزشتہ صدی کی ستر کی دہائی میں دی گئی انور سادات کی دھمکیوں کی طرح دھکیاں دی ہیں۔ سوڈان سے ملنے والی اطلاعات کے مطابق دریائے نیل سے وابستہ ممالک ان تاریخی معاہدوں کو منسوخ کرنے کے لیے سنجیدگی سے غور کر رہے ہیں، جن میں سوڈان اور مصر کے لیے پانی کے حصوں کی تخصیص کی گئی۔ بالخصوص ۱۹۲۹ء اور ۱۹۵۹ء کے معاہدے جن میں مصر و سوڈان کے لیے پانی کی مقدار مختص کر دی گئی تھی۔ چنانچہ معاہدوں کو کالعدم کرنے کے لیے ۸ ممالک نے بین الاقوامی عدالت سے رجوع کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ اس حقیقت کے اعتراف میں شاید ہی کوئی پس و پیش کرے کہ جہاں گزشتہ ۳۰ سالوں کے دوران افریقا میں مصر کے اثر و رسوخ میں غیر معمولی کمی آئی وہیں اس خطے میں صہیونی و مغربی اثر و رسوخ بڑھ گیا ہے۔ دریائے نیل سے وابستہ ممالک کے بندوں اور ڈیموں کی تعمیر میں غیر معمولی دلچسپی پر مصر کی خاموشی اس کے لیے نقصان دہ ثابت ہو رہی ہے۔ خود مصر نے دس سال قبل حالیہ اختلافات کے منظر عام پر آنے سے پہلے ڈیموں کی تعمیر کے بہت سے پراجیکٹ قبول کیے تھے۔ ان منصوبوں کی تعمیر کے بعد مصر کو حاصل ہونے والے پانی میں مزید کمی آئی۔ مزید دس ڈیموں کی تعمیر ہونا ہے۔
اس وقت مسئلہ کی شدت اختیار کرنے کی ایک وجہ دریائے نیل پر مزید دس ڈیموں کی تعمیر کا اقدام ہے۔ ان ۸ ممالک اور مصر اور سوڈان کے درمیان پہلے سے سیاسی، سماجی اور اقتصادی سطحوں پر تعلقات زیادہ خوشگوار نہیں ہیں۔ لیکن ایک اہم پہلو جس پر کسی نے توجہ نہیں دی وہ یہ ہے کہ اس سلسلہ میں عربوں نے خطرناک حد تک کوتاہی کا مظاہرہ کیا۔ اس معاملے سے نہ صرف یہ کہ آبی اور قومی تحفظ وابستہ ہے بلکہ پورے عالم عرب کی امن و سلامتی بھی ہے۔ عربوں نے جنوبی سوڈان کی ترقی کے مسئلہ میں حد درجہ سرد مہری کا مظاہرہ کیا اور یہیں سے جنوبی سوڈان کی علیحدگی کے مسئلہ کو تقویت ملی۔ جس طرح یہ بات دہرائی جاتی ہے اسی طرح یہ کہنا غلط نہیں کہ نیل کے سرچشموں سے عربوں کا فائدہ نہ اٹھانا مسئلہ پیدا کر رہا ہے۔ یہ معاملہ مصر کے لیے سلامتی اور بقا کے اعتبار سے بہت زیادہ اہمیت رکھتا ہے۔ لیکن گزشتہ چند برسوں کے دوران کچھ ایسی صورتحال پیدا ہوئی کہ خطہ میں مصر کا اثر و رسوخ سکڑتا گیا جس وقت کیمپ ڈیوڈ معاہدہ ہوا امریکا نے مصر کو جکڑ کر رکھ دیا۔ مصر امریکی دبائو سے خود کو بے بس محسوس کرنے لگا اس سے مصر کو نہ صرف خطہ کے اہم علاقوں سے انخلا کرنا پڑا بلکہ پورے افریقا سے بھی دور ہونا پڑا۔ مصر کو سوڈان سے بھی کنارا کش ہونا پڑا، چنانچہ دیگر افریقی ممالک سے مصر کے تعلقات کمزور پڑ گئے۔ افریقی ممالک کا عرصہ سے مطالبہ ہے کہ مصر اور سوڈان کو نیل کے پانی میں حصہ دار بنایا جائے۔
جنگ کے بجائے منصفانہ حل
لیکن اب کریں تو کیا کریں جبکہ مصر اور سوڈان پر پابندی عائد کی جا چکی ہے اور دریائے نیل سے وابستہ ملکوں کے درمیان معرکہ آرائی کا سلسلہ شروع ہو چکا ہے۔ صہیونی حکام چاہتے ہیں کہ صورتحال مزید شدت اختیار کرے اور مسلم ممالک آپس میں باہم دست و گریباں ہو جائیں۔ اسرائیل چاہتا ہے کہ مصر اور سوڈان کا آبی تحفظ متاثر ہو جائے اور لڑ جھگڑ کر دونوں اپنی طاقت ختم کر لیں۔ ایسے میں کیا کہا جائے جبکہ پانی کے لیے جنگ کی صورتحال پیٹرول کے لیے ہونے والی جنگ سے بھی خطرناک صورت اختیار کر چکی ہے۔ پچھلے زمانہ میں پیٹرول نے تباہی مچائی تھی۔ اس کے لیے جنگیں اور انقلاب رونما ہوئے تھے۔ اب ایسا محسوس ہوتا ہے کہ پانی کے لیے جنگ ہو گی اور یہ جنگ پیٹرول جنگ سے زیادہ خطرناک ہو گی۔ اس بحران کے حل کے لیے سب سے زیادہ جس چیز کی ضرورت ہے وہ یہ کہ صاف گوئی سے سارے حقائق ڈائیلاگ کی میز پر رکھے جائیں اور ان پر غور کیا جائے کہ نیل سے وابستہ ممالک کیا کر سکتے ہیں اور خود مصر اور سوڈان اس سلسلہ میں کیا حل پیش کر سکتے ہیں۔ نیل سے وابستہ ممالک کو چاہیے کہ پوری وضاحت کے ساتھ صہیونی اور امریکی مداخلت کا جائزہ لیں اور ان دونوں دشمنوں کی مداخلت کے خطہ پر کیا اثرات مرتب ہوں گے اس کا بھی جائزہ لیا جائے۔ صہیونی مداخلت کا معاملہ کوئی ڈھکا چھپا نہیں رہا۔ مختلف صہیونی کمپنیاں ایتھوپیا میں کام کر رہی ہیں۔ ۸ افریقا ملکوں کو اس پر غور کرنا چاہیے کہ مصر کے ان مسائل سے وہ خود کہ علیحدہ نہیں رکھ سکتے۔ اگر ایتھوپیا اور کینیا اور دیگر ممالک کے حکام اس مسئلہ پر سنجیدگی سے غور کریں تو وہ خود اس بات کا اعتراف کریں گے۔ مصر اور سوڈان کو نیل کے پانی سے بے دخل کرنے کے معنی انہیں خودکشی پر مجبور کرنا اور اجتماعی قتل کے مترادف ہے۔ نیل کا جو پانی ایتھوپیا کے علاقہ میں آتا ہے اس کے چار فیصد سے استفادہ نہیں کیا جا رہا ہے۔ مصر اور سوڈان کو پتا چلے گا کہ نیل سے وابستہ افریقی ممالک میں جو جوش اور غلبہ کی لہر پائی جا رہی ہے اس کے پیچھے صہیونی ہاتھ ہے۔ یہ مسئلہ اتنا پیچیدہ نہیں کہ اس کا حل ہی ممکن نہیں۔ مشترکہ حل نکالا جا سکتا ہے۔ مثلاً ایسے ڈیموں کی تعمیر جس سے بننے والی بجلی سے مصر و سوڈان بھی استفادہ کریں۔ دوسرا حل یہ ہے کہ نیل سے وابستہ ممالک اٹوٹ اتحاد کا ثبوت دیں۔ تمام ممالک پورے خطہ کے امن کو متحدہ طور پر برقرار رکھنے کی کوشش کریں۔ اس طور پر کہ ہر ملک دوسرے ملک کی ضروریات کی تکمیل کے لیے کوشاں ہو۔ پانی، بجلی، تجارتی اشیا اور غذائی اجناس وغیرہ میں آپسی تعاون کو لازم کر لیں، اگر مذکورہ میدانوں میں اجتماعی تکافل کی پالیسی اپنائی جائے تو دشمنوں کو مداخلت کا موقع نہیں ملے گا۔ اس سلسلہ میں مصر نے کئی ایک منصوبے تیار کیے تھے لیکن انہیں عملی جامہ نہیں پہنایا جا سکا۔ مثلاً یہ کہ افریقی بینک میں ایک فنڈ قائم کیا جائے جس کے ذریعہ علاقہ کے پروجیکٹ کی تکمیل اور تمام ممالک اس کے لیے مالیہ فراہم کریں، اسی طرح مصر ڈیموں کی تعمیر میں دیگر افریقی ممالک سے تعاون کرے، وغیرہ۔
تیسرا حل یہ ہے کہ تمام ممالک پانی کے مسئلہ کو سب سے زیادہ قابلِ توجہ مسئلہ سمجھیں۔ اس کے حل میں کسی قسم کی تاخیر مسائل پیدا کرے گی۔ نیز اس بحران کو بین الاقوامی شکل نہ دی جائے جس سے صہیونی اور مغربی ملکوں کو مداخلت کا موقع ملے گا۔ یہ علاقائی بحران ہے اور علاقہ کے ممالک ہی اسے خود حل کرلیں۔
(بحوالہ: ’’نقوش ڈاٹ کام‘‘۔ ترجمہ: سید ابو یاسر ندوی)
Leave a comment