پاکستانی طالبان سے منسلک جماعت الاحرار کی جانب سے مین ہٹن میں ناکام کار بم دھماکے کی ذمہ داری قبول کی گئی تو امریکا نے جولائی میں اس کا نام دہشت گردوں کی فہرست میں ڈال دیا۔ مگر اس اقدام سے اس جماعت کو پاکستانی قبائلی علاقوں سے نکل کر اس خطے تک پہنچنے میں مدد ملی، جس پر کئی ارب ڈالر کی اقتصادی راہداری کے لیے چین کی نظریں لگی ہوئی تھیں۔ یہ اقدام ایک ایسی مربوط حکمت عملی کا حصہ تھا جو پاکستانی سکیورٹی اسٹیبلشمنٹ اور چینی حکام کے لیے دردِ سر بن گئی اور اربوں ڈالر کا نقصان سر پر منڈلانے لگا۔ اسلام آباد کے ساتھ رشتوں میں بڑھتی ہوئی سرد مہری اور چینی اثر ورسوخ محدود کرنے کی امریکی خواہش کو مد نظر رکھیں تو یہ بڑا حسین اتفاق معلوم ہوتا ہے۔ مگر کیا یہ واقعی دہشت گردی کے خلاف امریکی جنگ کا ایک بدیہی نتیجہ تھا، یا پاکستان اور چین کو لگام ڈالنے کی سوچی سمجھی خواہش رنگ لے آئی تھی؟
اب یہ کوئی راز نہیں رہا کہ اسلام آباد کو واشنگٹن نے اپنے لیے ناگزیر سمجھنا چھوڑ دیا ہے۔ تعلقات کی خرابی کا اندازہ ۲۰ ستمبر ۲۰۱۶ء کو امریکی کانگریس میں پیش ہونے والے اس بل سے لگایا جاسکتا ہے، جس میں پاکستان کو باضابطہ طور پر دہشت گرد ریاست قرار دینے کا مطالبہ کیا گیا۔ پاکستان نے بھی نوشتۂ دیوار پڑھ لیا ہے اور مبینہ طور پر وہ افغانستان کو غیر مستحکم رکھ کر چین کے ساتھ معاشی و عسکری میدان میں پینگیں بڑھانے کا سوچ رہا ہے۔ چین پاک اقتصادی راہداری (سی پیک) کی تکمیل اس باہمی تعلق کی معراج ہوگی، جس کے لیے بیجنگ نے ۲۰۱۴ء سے لگ بھگ ۵۰ ارب ڈالر کا اعلان کر رکھا ہے۔ دونوں ممالک پر کڑی نظر رکھنے والے امریکا کے لیے یقیناً یہ کوئی اچھی خبر نہیں ہے لیکن اس کے پاس براہِ راست مداخلت کا کوئی راستہ بھی نہیں تھا۔ سو اب مشرقی افغانستان میں کارروائیاں تیز کرکے واشنگٹن نے اس منصوبے میں ٹانگ اڑا دی ہے۔
جماعت الاحرار کو امریکی محکمہء خارجہ کی عالمی دہشت گردوں کی فہرست میں شامل کرنے کے بعد واشنگٹن کو اس جماعت کے خلاف کھل کر کارروائیاں کرنے کا موقع مل گیا ہے۔ پاکستانی طالبان کے خلاف ڈرون حملے تو امریکا پہلے بھی کرتا رہا ہے، جن میں سے ایک میں اس نے ۲۱ مئی کو طالبان رہنما مُلّااختر منصور کو بلوچستان میں نشانہ بنایا اور دوسرے میں طالبان کمانڈر خان سعید کو افغان صوبے خوست میں نومبر ۲۰۱۵ء میں ہلاک کیا۔ افغانستان، پاکستان اور داعش کے خلاف ماضی کی مثالیں بتاتی ہیں کہ جب امریکا کسی گروہ کو فہرست میں شامل کرلے تو پھر اسے جارحانہ انداز میں نشانہ بناتا ہے۔
دوسری جانب افغانستان اور پاکستان میں بھی سکیورٹی فورسز ہاتھ پہ ہاتھ دھرے نہیں بیٹھیں کہ امریکی ڈرون طیاروں کو سارا کام کرکے باآسانی واپس جاتا دیکھتی رہیں۔ صرف جولائی کے آخری ہفتے میں ہی امریکی و افغان فورسز کی مشترکہ کارروائی کے دوران مشرقی افغانستان میں داعش کے ۳۰۰ جنگجو مارے گئے۔ پاکستان میں سکیورٹی فورسز نے بلوچستان کے ساتھ واقع وفاق کے زیر انتظام قبائلی علاقوں میں کم سے کم تین بڑے آپریشن کیے، جن میں ۲۰۱۴ء سے اب تک سیکڑوں جنگجو ہلاک ہوچکے ہیں۔ ۱۷ اگست کو شروع ہونے والے آپریشن خیبر سوئم نے ابتدا ہی میں ۱۴ دہشت گردوں کو ٹھکانے لگادیا تھا۔
اب سوال یہ ہے کہ جنگجو بھاگ کر کہاں جائیں گے؟ روایتی طور پر کابل اور اسلام آباد ایک دوسرے پر دہشت گردوں کو پناہ دینے کا الزام عائد کرتے ہیں اور کسی حد تک دونوں ہی سچے ہیں۔ دونوں ممالک کے درمیان دشوار گزار سرحدی علاقہ دہشت گردوں کو یہ سہولت فراہم کرتا ہے کہ وہ نسبتاً غیر محفوظ علاقوں میں باآسانی گھوم پھر سکیں۔ جب پاکستان فاٹا میں کارروائی کرتا ہے تو جنگجو افغانستان میں دھکیل دیے جاتے ہیں اور افغان علاقے میں کارروائی ہو تو پاکستان آجاتے ہیں۔ اب جبکہ سرحد کے دونوں اطراف ان کے لیے مشکل ہورہی ہے تو دہشت گرد بلوچستان میں پناہ ڈھونڈ رہے ہیں۔
طالبان کی دیگر آماج گاہوں میں تو اب خاطر خواہ سکیورٹی انتظامات ہیں لیکن بلوچستان میں ایسا نہیں ہے۔ فاٹا میں آپریشن کے باوجود یا شاید اسی کے باعث دارالحکومت کوئٹہ میں گِنے چُنے مقامات کو بار بار نشانہ بنایا جارہا ہے۔ گوکہ صوبے میں غالب نسلی گروہ بلوچ ہی ہیں لیکن پختونوں کی بھی قابل لحاظ تعداد شمالی بلوچستان بشمول کوئٹہ میں موجود ہے۔ صوبے کی سرحد افغانستان سے بھی ملتی ہے جہاں سے دہشت گرد آمد و رفت کرسکتے ہیں۔
جماعت الاحرار اور دیگر طالبان گروہ نہ صرف بلوچستان میں دھکیلے جارہے ہیں، بلکہ وہاں وہ آگے بڑھ کر حملے کررہے ہیں جو ان حالات میں غیر متوقع نہیں تھا۔ تحریک طالبان پاکستان ۲۰۰۷ء میں قائم ہوئی اور امریکا نے اسے یکم ستمبر ۲۰۱۰ء کو دہشت گردوں کی فہرست میں شامل کیا، اس عرصے میں پاکستان، افغانستان یا دیگر علاقوں میں ۱۶ حملوں کا اس تنظیم نے دعویٰ کیا یا اس سے منسوب کیے گئے، جن میں ۳۷۰ جانیں ضائع ہوئیں۔ امریکی فہرست میں شمولیت کے بعد تین سال میں ٹی ٹی پی نے تقریباً ۳۲ حملے کیے جن میں کم و بیش ۷۰۰ مزید ہلاکتیں ہوئیں۔ یعنی فہرست میں شمولیت کے بعد حملوں اور ہلاکتوں کی تعداد دگنی ہوگئی۔
یہ کہنا تو حد درجہ سادگی ہوگی کہ طالبان کی کارروائیوں کو بڑھاوا صرف پاکستان اور افغانستان میں امریکی حملوں ہی سے ملا، لیکن یہ بھی سچ ہے کہ زیادہ تر حملے امریکی حملوں کے جواب میں کیے گئے۔ یعنی کم سے کم اتنا تو ضرور کہا جاسکتا ہے کہ واشنگٹن کی جانب سے نشانہ بنائے جانے کے بعد طالبان اپنی پناہ گاہوں سے باہر نکلنے، اور اپنے نقصانات کا بدلہ لینے پر مجبور ہوئے۔
یہی عمل اب جماعت الاحرار کے معاملے میں دہرایا جارہا ہے۔ امریکی و اتحادی افواج نے افغانستان میں، اور پاکستانی فوج نے اپنے قبائلی علاقوں میں شکنجا کسا تو اس جماعت نے بلوچستان میں سرگرمیاں بڑھا دی ہیں۔ جولائی تک چھ حملوں کی اس تنظیم نے ذمہ داری قبول کی یا وہ اس سے منسوب کیے گئے، جن میں کم و بیش ۱۶۰ ہلاکتیں ہوئیں۔ اگست اور ستمبر میں مبینہ طور پر اسی جماعت نے زیادہ تر کوئٹہ میں ہی پانچ حملے کیے، جن میں مزید ۱۳۵ جانیں گئیں۔ یہ یقیناً ایک بدترین علامت ہے لیکن یقینی طور پر اس سے یہ بھی پتا چلتا ہے کہ جب بھی امریکا پاک افغان سرحد پر نئے عسکری گروہوں کو نشانہ بنانا شروع کرتا ہے، تو لامحالہ پاکستان میں دہشت گردی زیادہ ہوجاتی ہے۔ یہ بڑی سادہ سی بات ہے اور ظاہر ہے کہ جب جماعت الاحرار کے خلاف کارروائی کا فیصلہ کیا گیا ہوگا تو یہ منطقی نتیجہ بھی سب کے خیال میں آیا ہوگا۔ ہاں اب یہ ایک کھلا سوال ہے کہ واشنگٹن کی سکیورٹی اسٹیبلشمنٹ نے اسے نہ چاہتے ہوئے بھی قبول کیا یا یہ ان کا سوچا سمجھا منصوبہ تھا۔
اس سرحدی شکنجے نے بہر حال چین اور اس کے سی پیک منصوبے کو بھی جکڑ لیا ہے۔ بلوچستان کی سلامتی کے بارے میں چین ایک عرصے سے فکرمند ہے اور حالیہ دنوں میں اس کی پریشانی دور کرنے کا بہت ہی کم سامان ہوا ہے۔ ملک میں کام کرنے والے چینیوں کی سلامتی کے لیے پاکستان نے ۱۵۰۰۰ اہلکار دینے کا وعدہ کیا ہے، جن میں آرمی کے ۹۰۰۰ اور نیم فوجی دستوں کے ۶۰۰۰ اہلکار شامل ہوں گے۔ منصوبے کے تحت افرادی قوت صرف بلوچستان ہی سے نہیں بلکہ دیگر صوبوں اور پولیس سے بھی حاصل کی جائے گی۔ اس مرحلے پر سندھ پہلے ہی یہ کہہ کر اعتراض کرچکا ہے کہ یہ اس کی حق تلفی کے مترادف ہے۔ اب اگر دیگر صوبے بھی اپنے اہلکار بھیجنے سے انکار کردیں تو حیرت کی بات نہیں ہوگی کیونکہ بلوچستان پہلے ہی سب سے زیادہ خطرناک صوبہ ہے اور جوں ہی کام اپنے عروج پہ پہنچے گا تو خدشہ ہے دہشت گردی کی کارروائیاں بہت بڑھ جائیں گی۔
پاکستانی حکومت جانتی ہے کہ اسے ایک پہاڑ سر کرنا ہے اور چین بھی بے خبر نہیں ہے۔ سست روی اور پاکستانی حکومت کی جانب سے سکیورٹی مہیا کرنے میں ناکامی کے باعث جولائی تک اربوں ڈالر کے پانچ منصوبے پہلے ہی رُک چکے ہیں۔ ۲۸ ستمبر تک پاکستانی میڈیا کہہ رہا تھا کہ چین موجودہ سکیورٹی انتظامات سے خوش نہیں ہے اور اس سے منصوبے کے دورانیے پر اثر پڑ سکتا ہے۔
چین کی پریشانی ناجائز نہیں ہے۔ ۲۰۰۱ء سے اب تک چینی مزدوروں، انجینئروں اور تاجروں پر بلوچستان سمیت پاکستان کے دیگر علاقوں میں کئی حملے ہوچکے ہیں۔ اس کے باجود چین سی پیک منصوبے پر ۱۴ ارب ڈالر اب تک خرچ بھی کرچکا ہے۔ یہ سب کچھ پاکستانی حکام کے سر پر بھوت بن کر سوار ہوگیا ہے کیونکہ وہ اب مزید تاخیر نہیں کرسکتے ورنہ دونوں ملکوں کا مزید اربوں ڈالر کا نقصان ہوجائے گا اور یہی بحث کا اصل نکتہ ہے۔
دہشت گردی میں اضافے اور بلوچستان میں امن و امان کی ناقص صورت حال کے پیش نظر چین اور پاکستان کے اربوں ڈالر داؤ پر لگے ہوئے ہیں اور سی پیک منصوبوں میں تاخیر کا خطرہ بھی منڈلا رہا ہے۔ امریکا اور اتحادیوں کی جانب سے جماعت الاحرار اور دیگر گروہوں کو حالیہ موسمِ گرما میں مشرقی افغانستان سے دھکیلنا امن و امان کی اس ابتری کا بڑا سبب ہے۔ زیادہ کھل کر بات کریں تو سی پیک منصوبے کے گڑھ بلوچستان میں حالات کی ابتری میں امریکا کا بھی حصہ ہے، اس نتیجے کی پیشگوئی بہت سے مبصرین نے پہلے ہی کردی تھی، لہٰذا اب ایک دلچسپ سوال پیدا ہوتا ہے: کیا واقعی امریکا نے جان بوجھ کر بلوچستان میں تشدد کو ہوا دی؟
(ترجمہ: حارث رقیب عظیمی)
“Is the US trying to sabotage the China-Pakistan Economic Corridor?”. (“thediplomat.com”. September 29, 2016)
Leave a Reply